(گوبر میں پایا جانے والا کپڑا جسے بلوچی میں کڈک، ڈانڈو اور گوگڑا کہتے ہیں۔ اسے اردو میں مادہ گوبریلا کہا جاتا ہے)۔
کڈک نے ایک روز خود سے کہا کہ ساری زندگی تنہائی میں نہیں گزاری جاسکتی۔ ماں باپ میرے ہیں نہیں۔ میر کے بیل گائے کے گوبر سے پیدا ہوئی ہوں اور وہیں پل کر بڑی ہوئی ہوں۔ اب خود ہی جدوجہد کرتی ہوں اور اپنے لیے شوہر تلاش کرتی ہوں۔
وہ اگلے دن صبح سویرے اٹھی۔ بال دھوئے اور آنکھ سرمہ کیے۔ منہ کو مسواک لگایا۔ چاول کی دیگ پکائی۔ چادر سر پہ اوڑھ لی اور چاول کی دیگ اٹھائی اور روانہ ہوئی۔
بیل نے دیکھا کہ کڈک خوب سنگھار کیے ہوئے بنی سنوری نکل پڑی ہے۔ پوچھا ”گیس بھری کڈک کہاں جارہی ہو؟“۔ کڈک بولی ”اس بدتمیزی سے مخاطب کرنے پہ خدا کرے تمہارے منہ میں درد ہو۔ میرا نام ہے: اینچ خاتون، پینچ خاتون صاحب سلطان بی بی کڈکو صندل خاتون“۔
بیل بولا:
”بی بی کڈکو کہاں جاتی ہو
سنگھار کر کے کہاں جاتی ہو
آنکھ اور سرمہ کہاں جاتی ہو
مسواک کیے منہ کے ساتھ کہاں جاتی ہو
دیگ چاولوں کے ساتھ کہاں جاتی ہو
کڈک نے جواب دیا:
ڈھونڈ کر شوہر لوں گی
شوہر مالدار لوں گی
تاکہ آسودہ کھانا کھاسکوں
پلنگ پہ آرام کرسکوں“
بڑی بڑی سینگوں والے بیل نے کہا:
”مجھے شوہر بنا ؤگی؟“
کہا”اگر کبھی مجھ پہ غصہ آئے تو کس چیز سے مجھے پیٹو گے؟“
کہا ”اپنی بڑی بڑی سینگوں سے“۔
کڈک نے اپنے کانوں پہ ہاتھ لگائے ”تو بہ میری۔ تیری سنگیں تو مجھے مارڈالیں گی“۔
آگے روانہ گئی۔ ایک گدھا اپنے کان ہلا رہا تھا۔ کڈک کو دیکھ کر بولا۔
”کڈک رُو سیاہ کہاں جارہی ہو“
کڈک نے کہا”اِس بدتمیزی سے مخاطب کرنے پر خدا کرے تمہارے چہرے کوجلدی بیماری لگے۔ میرا نام ہے اینچ خاتون، پینچ خاتون، صاحب سلطان بی بی کڈکو صندل خاتون“۔
گدھا بولا:
”بی بی کڈکو کہاں جاتی ہو
سنگھار کر کے کہاں جاتی ہو
آنکھ اور سرمہ کہاں جاتی ہو
مسواک کیے منہ کے ساتھ کہاں جاتی ہو
دیگ چاولوں کے ساتھ کہاں جاتی ہو
اس نے کہا:
ڈھونڈ کر شوہر لوں گی
شوہر مالدار لوں گی
تاکہ آسودہ کھانا کھا سکوں
پلنگ پہ آرام کرسکوں“
گدھے نے کہا”مجھے شوہر بناؤ گی؟“۔
کہا”اگر کبھی مجھ پہ غصہ آئے تو کس چیز سے مجھے پیٹو گے؟“
کہا ”دو لتیوں سے“۔
کہا”میری توبہ۔ تمہاری دولتی میری آنتیں نکال دے گی“ آگے چلی گئی۔ اسے ایک مینڈھاملا، بکرا ملا، گھوڑا ملا۔ سب نے اُس سے یہی سوال کیا اور سب کو یہی جواب دیتی ہوئی، اپنے ہاتھ کانوں سے لگاتی ہوئی توبہ کرتی چلتی گئی۔ دیہات گاؤں سے دور باہر کھیتوں کی طرف چلی گئی۔ دیکھا ایک چوہا اپنی بل کے دھانے پر بیٹھا آئینہ اور ٹوائزر سے اپنی داڑھی مونچھ بہتر کر رہا تھا۔ اس نے کڈک کو دیکھا تو کھی کھی کر کے ہنسنے لگا اور پوچھا:
”کڈک ِ سیاہ رُو، کہاں جاتی ہو“
”چوہا گندی داڑھی والا۔ میرا نام ہے اینچ خاتون، پینچ خاتون، صاحب سلطان بی بی کڈکو صندل خاتون“۔
چوہا بولا:
بی بی کڈکو کہا جاتی ہو
سنگھار کر کے کہاں جاتی ہو
آنکھ اور سرمہ کہاں جاتی ہو
مسواک کیے منہ کے ساتھ کہاں جاتی ہو
دیگ چاولوں کے ساتھ کہاں جاتی ہو
کڈک نے جواب دیا:
ڈھونڈ کر شوہر لوں گی
شوہر مالدار لوں گی
تاکہ آسودہ کھاسکوں
پلنگ پہ آرام کرسکوں“
چوہا بولا: ”مجھے شوہر بناؤگی؟“
کہا”جب مجھ پہ غصہ آئے تو کس چیز سے مجھے پیٹو گے؟“
چوہے نے اپنی دُم چابک کی طرح کھڑا کر دی کہ ”اِس سے‘
‘ کڈک کو اچھا لگا۔ کہا ”مجھے قبول ہے“۔
دونوں آمنے سامنے بیٹھ گئے۔اور ان دونوں نے ایجاب وقبول کیا۔ چاول کھالیے۔
دن گزرتے گئے۔ ایک دن چوہے نے کہا”بادشاہ کے بیٹے کی شادی ہے ۔جب سے تیری میری شادی ہوئی میں کہیں نہیں گیا۔ بہت عرصہ سے چاول اور گوشت نہیں کھائے۔ آج میں وہاں جاؤں گا اور کچھ روز وہاں رہوں گا“۔چو ہا دُم لہراتے ہوئے چلا گیا۔
اُس ساری رات بارش برستی رہی۔ اگلے دن کڈک اپنے بل سے باہر نکلی۔دیکھا کہ اس کی بل کے قریب ہی بیل کے پاؤں کے نشان سے بنا کھڈا پانی سے بھرا ہوا ہے۔ دل میں کہا کتنا بڑا تالاب ہے، پانی سے بھری ہوا۔ جاؤں گی اور اپنا سر دھوؤں گی۔ کنگھی اٹھائی اور آکر پانی کے قریب بیٹھ گئی۔ جونہی ہاتھ پانی میں ڈالا تو یکدم پھسل گئی اور بیل کی سُم سے بنے تالاب میں گر گئی۔ بہت ہاتھ پاؤں مارے، بہت کوشش کی مگر باہر نہ نکل سکی۔ دیکھا کہ ایک آدمی گھوڑے پر سوار ہے اور بادشاہ کے بیٹے کی شادی پہ جارہا ہے۔ کڈک نے میٹھی آواز سے کہا:
”او سوار او سوار
دلدل جیسی گھوڑی کے سوار
کابل سے بنی زین کے سوار“
گندی داڑھی والے چوہے کو کہہ دے کہ بی بی صندل خاتون کنوئیں میں گر گئی ہے، فوراً پہنچ۔ تھوڑی دیر بعد ایک اور گھڑ سوار گزرا۔ کڈک پھر پکاری:
”او سوار او سوار
دلدل جیسی گھوڑی کے سوار
کابل سے بنی زین کے سوار“
گندی داڑھی والے چوہے کو کہہ دو کہ بی بی صندل خاتون کنوئیں میں گری ہوئی ہے۔ فوراً پہنچ جا“۔
وہ آدمی حیران ہوا۔ ادھر اُدھر دیکھا۔ اسے کوئی بھی نظر نہ آیا، اپنی راہ لی اور چلا گیا۔
بادشاہ کے ہاں محفل بپا تھی۔ میر اور امیر بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک کونے سے ایک چوہا نکل آیا اور دوڑتے ہوئے نظروں سے اوجھل ہوا۔ اُس شخص نے چوہے کو دیکھا تو اُسے بات یاد آئی۔ کہا ”میں آرہا تھا کہ میں نے ایک آواز سنی۔ کوئی کہہ رہی تھی کہ:
”او سوار او سوار
دلدل جیسی گھوڑی کے سوار
کابل سے بنی زین کے سوار
گندی داڑھی والے چوہے
آٹے کی بوری کو کترنے والے چوہے
اور غلہ چور چوہے
کو کہہ دے کہ بی بی صندل جان کنوئیں میں گری ہوئی ہے، فوراً پہنچ جا“۔
چوہے نے یہ بات سنی تو حواس باختہ ہوگیا۔ اِدھر بھاگا اُدھر بھاگا۔ دیکھا عورتیں دلہن کی طرح سنگھار کر رہی ہیں۔ اس نے ناک میں پہننے والا دلہن کا زیور ”کوکا“ چرالیا۔ اسے منہ میں ڈالا اور اپنی بل کی طرف بھاگا۔ جاکر دیکھا کڈک بڑے راستے کے کنارے بیل کی سُم سے بنے کھڈے کے پانی میں گری ہاتھ پاؤں چلا رہی ہے۔ چوہے کی ہنسی چھوٹی۔ ہنس ہنس کر پیٹ میں درد ہوا۔ کہا: ”ہاتھ دے، گیس بھری کڈک“۔
کڈک نے کہا۔ ”چل دفع ہو جا گندی داڑھی والا چوہا“
چوہے نے کہا”ہاتھ دے بی بی صندل خاتون“
کہا: ”ہاتھ پکڑ واجہ چوہا، بلی جیسی مونچھوں والا چوہا“
چوہے نے کڈک کا ہاتھ پکڑا اور اسے پانی سے باہر نکالا۔ اس نے منہ سے دلہن کا چُرایا کوکا نکالا اور کڈک کی ناک میں ڈالا۔ اور دونوں ہنستے گاتے خوشی خوشی اپنی بِل میں گُھس گئے۔