مصنف: ڈاکٹر مبارک علی

"عورتوں کی دنیا” بہت ہی خوب صورت انداز میں میں ڈاکٹر مبارک علی کی لکھی ہوئی کتاب ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد مجھے بہت سی نئی باتیں پتا چلیں۔ اسے پڑھ کر معلوم ہوا کہ ہم نے کبھی بھی عورتوں کے بارے میں شاید کوئی ریسرچ ہی نہیں کی۔ ہم نے کبھی یہ سوچا ہی نہیں تھا کہ عورت ایک مرد کی طرح ہی طاقت ور ہے۔

ہمیں بچپن سے بس یہی سکھایا گیا کہ تم عورت ذات ہو، مرد سے مقابلہ نہیں کر سکتی۔ مطلب ہمیں عورت کا نام دے کر اتنا ڈرایا گیا کہ اپنے آپ سے بھی ڈرنے لگے۔ ہم پر اتنا قابو کیا گیا کہ ہم خود سے نظریں ملانے سے ڈرتے تھے اور اسی خوف سے ہم ہر چیز سے دور ہوتے گئے، جس پر ہمارا حق تھا۔ لڑکی کے پیدا ہونے سے لے کر اس کی جوانی، اس کے بڑھاپے تک عورت کو اپنی مرضی سے جینے کے حق سے دور رکھا گیا۔ زیادہ ہنسنا نہیں، لوگ کیا کہیں گے۔ دوپٹہ سر سے نہ اتارو، لوگ کیا کہیں گے۔ میک اپ نہیں کرو، سجو سنورو نہیں، باہر مت جاؤ، کسی مرد سے بات نہ کرو، اپنی اپنی مرضی سے کھاؤ نہیں، اپنی اپنی مرضی سے سوؤ نہیں۔ ہر چیز، ہر بات پر پابندی لگائی گئی۔ ہمیں اتنا ڈرایا گیا، ایسا لگتا تھا  کہ اگر ہم کسی سے بات کریں گے تو کہیں کچھ غلط نہ ہو جائے۔

اس کتاب کو پڑھنے کے بعد عورتوں کے بارے میں جو چیزیں معلوم ہوئیں، ان سے میں تو ناواقف تھی۔ اس کتاب میں ہر مذہب کی عورتوں کے بارے میں  تفصیل سے لکھا گیا ہے۔ عورتوں کا رہن سہن، ان کا کھانا پینا، ان کے کپڑے پہننے کا انداز، ان کے زیورات، ان کے گھر کے اور گھر سے باہر ہونے والے کام سب کے بارے میں تفصیل سے لکھا گیا ہے۔ جس عورت کو سماج نے یا پھر مردوں نے کمزور ہونے کا رتبہ دیا ہوا ہے، اس کتاب کو پڑھنے کے بعد عورتوں کی ہسٹری کے بارے میں پتہ چلے گا کہ عورت ہزاروں سال پہلے کیسے جنگوں میں حصہ لیتی تھی، کیسے عورتیں مردوں کے بغیر اپنا گھر اور کاروبار سنبھالتی تھیں۔ عورت وہ سب  کر سکتی تھی جو ایک مرد کر سکتا ہے۔

پھر کیوں ایسا ہوا کہ عورت کو صرف گھر میں بٹھانے، گھر کا کام کرنے یا پھر صرف بچہ پیدا کرنے کی مشین بنا کر رکھا گیا؟ ہر چیز میں عورت کو قصوروار کیوں ٹھہرایا گیا۔ جب کسی لڑکی کی شادی نہیں ہو رہی تو اس میں اس کا قصور، بچہ نہیں ہو رہا تو اس کا قصور اور شوہر یا گھر کے حالات ٹھیک نہیں تو اس میں بھی عورت کا قصور۔ جس چیز میں نقصان ہو، اس نے میں عورت  کو ہی قصوروار ٹھہرایا گیا۔ یہاں تک کہ جب آدم نے جنت کے پیڑ سے پھل توڑ کر  کھایا تو اس کا قصوروار بھی  عورت کو ہی ٹھہرایا گیا۔ عورت   کو فساد کی جڑ کہا گیا۔ کبھی یہ کیوں نہیں سوچا گیا کہ عورت ہی سے تو یہ دنیا آگے بڑھی ہے۔ عورت کے بنا پیار نہیں ہو سکتا، عورت کے بنا بچے پیدا نہیں ہو سکتے۔ عورت کے بنا گھر نہیں چل سکتا۔

ہزاروں سال پہلے بھی عورت اپنے حق کے لیے لڑتی رہی تھی، آج بھی عورتیں اپنے حق کے لیے لڑ رہی ہیں۔ کچھ حد تک عورتوں نے اپنی آزادی و اختیار  لیا ہے مگر اب بھی عورت کو مکمل آزاد ہونے کے لیے شاید اور کئی سال لگ جائیں، لیکن عورت نے یہ ثابت کر کے دکھایا ہے کہ وہ کم زور نہیں ہے۔ وہ حق کے لیے لڑنا جانتی ہے اور وہ تب تک اپنے حق کے لیے لڑے گی جب تک صحیح معنوں میں اسے اس کا حق نہ مل جائے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے