اُس کا دماغ شل تھا۔ کروٹ لینا چاہی تو جیسے درد نے ا س کے انگ انگ کو اس طرح جکڑ لیا تھاکہ جیسے بلوچستان کوڈھیروں مسائل نے جکڑا ہواہے۔اس کا نڈھال وجود اور دُکھتا دماغ سوچنے سمجھنے سے قاصر تھا۔ اک عجیب خوف سے بے چین بند آنکھیں مزید بھینچ لیں۔منظر اچانک بدل جانے کے ڈر سے وہ ان اونچی لمبی دیواروں کے بیچ جن سے اک وحشت ٹپکتی تھی، کتنی دیر سے کبوتر کی مانند آنکھیں بند کیے لیٹا رہاکہ شاید اس طرح حالات بدل جائیں!

بادل گرجے۔ بارش کی چھم چھم پھوار ہونے لگی۔ پیاسی زمین اس ماں کی طرح سیراب ہونے لگی کہ جس کا بیٹا کئی سال لاپتہ ہونے کے بعد اچانک سے آکر ماں کے سینے سے لگ جائے۔ سارے میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔مویشی خوشی سے ڈکرانے لگے، بچے اچھلنے لگے اور کسانوں کے آسمان کی طرف اٹھے ہاتھ چاپ میں لہرانے لگے……۔

”آہ ……“ شیر ُو کے چاپ کے لیے اٹھے ہاتھ درد کے ساتھ اسے حال میں لے آئے۔

سردار کی اونچی حویلی سے ملحق کئی مربعے پر محیط میدان میں کل شام گاؤں لوگ جمع ہوں گے۔سردار، گاؤں کا مائی باپ ایک بہت بڑا تماشا کرنے والا تھا…… ایسا تماشا جس مین نہ کوئی ڈگڈگی بجے گی، نہ کوئی ریچھ ناچے گا …… لیکن تماشا سجے گا، تالیاں بجیں گی۔شیرو کے ہونٹوں پر ایک زہر خند مسکراہٹ پھیل گئی۔اس نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری۔

کئی دن ہو گئے،بارش رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ پانی آہستہ آہستہ اونچا ہونے لگا۔آسمان دُور افق تک سفید ہو چکا تھا۔ بارش میں گانے والے پنچھی بھی سہم کر نا جانے کہاں درختوں کے جھنڈ میں دبک گئے تھے۔بارش قہر آلود ہوتی جا رہی تھی۔قدرت کی طرح شاید وہ بھی ہماری زمین سے ناراض تھی!۔

درب کی ایک زور دار آواز آئی تو جیسے سینے کی دیواریں تک لرز اٹھیں۔ شیر محمد جو اپنے بچوں کے ساتھ خوف زدہ برآمدے میں کھڑا تھا، اس آواز کے ساتھ ہی کوٹھڑی کے پچھواڑے دوڑ لگانا چاہی …… زخمی وجود اور ریزہ ریزہ روح نے اسے اٹھنے نہیں دیا …… آنسو اُس کی آنکھوں سے رواں ہو کر خاک میں یوں جذب ہو گئے جیسے اس کی بوڑھی ماں اور ایک بیٹی دیوار کے گرنے سے دب کر گم ہو گئے …… جیسے اس کی بہن، اس کا باپ سیلاب میں بہہ کر نہ جانے کہاں گم ہو چکے …… جیسے اس زمین کے کئی فرزند یوں غائب ہو گئے کہ جیسے انھیں کبھی ماؤں نے جنا ہی نہیں تھا ……!۔

اس نے چیخ چیخ کر اونچی آواز میں رونا شروع کر دیا۔

دروازہ کھلااور ایک خاموش پُراسرار شخص داخل ہو کر دھاڑا،’’سردار کہتا ہے اپنا گناہ مانو تو کل ذلیل ہونے سے تم بچ جائے گا۔“

”بچ کر بھی کہاں بچنا ہے!“ شیرو زیرِ لب بڑبڑایا۔

بوڑھے والدین اور ایک بچے کی موت کے بعد نہ تو اس کے پاس کفن تھا اور نہ زمین۔زر بی بی اور باقی بچوں کی بھوک میں اس کو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کیا کرے۔ وہ ان کو لیے گرتا پڑتا سیلاب میں شڑَپ شڑَپ کرتا ایک طرف کو چل دیا۔ وہ آگے ہی آگے چلتا چلا جا رہا تھا لیکن …… کہاں؟! سیلاب نے زمین کا رُواں رُواں اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ قدم قدم پرمرے ہوئے جانور پتھر سے اٹکے ہوئے نظر آ جاتے۔ کبھی کوئی لاش بے گور و کفن پڑی ہوئی ملتی۔ لوگ بہ ظاہر زندوں کو بچانے کی ناکام کوششوں میں آگے بڑھ جاتے۔

گرررررکی تیز آواز کے ساتھ لوگوں کی نظریں آسمان کی طرف اٹھ گئیں تب ایک امید لوگوں کے چہروں پر نظر آئی۔ شیرو نے ایک طرف دوڑ لگا دی۔ ہائے ے ے ے آئی …… وجود کا درد تو تھا ہی روح کے درد کے ساتھ اس نے ایک درد ناک چیخ ماری۔ خوف ناک حلیے والا وہ آدمی ایک دفعہ پھر اندر آیا اور اسے زوردار لات رسید کی، ”لگتا ہے کل کا جگہ تم آج ہی اپنا تقدیر کا فیصلہ کرنا چاہتا ہے“ اور باہر نکل کر دروازہ زور سے بند کر دیا۔

”آہ“ اس کے منہ سے نکلا۔ ”تقدیر کا فیصلہ …… ہاہاہاہا ……“اس نے ایک زوردار قہقہہ لگایا۔ آنسو تیزی سے اس کی آنکھوں سے بہہ نکلے۔

*****

”ابا بھوک لگی ہے“ بھوک سے نڈھال بختاور چوتھی بار بول کر رونے لگی اور اس کی دیکھا دیکھی باقی بچے بھی رونے لگے۔بچے پچھلے کئی دن سے بھوکے تھے۔

بڑی سڑک کے کنارے شیرمحمد اپنے بچے کھچے خاندان کے ساتھ کھلے آسمان تلے پڑا تھا۔ گاہے بہ گاہے سامان سے لدے ٹرک اس کے پاس سے دھواں اڑاتے گزر جاتے۔ تعفن سے اس کا سینہ بھر گیا تھا۔

*****

ایک نامانوس سی بدبو سے شیرو کے نتھنے پھڑ پھڑائے اوریک دم الٹی اس کے منہ سے نکل کربہتی چلی گئی۔

اُس درندے نما شخص نے اندر آکر اس پر لاتوں اور گھونسوں کی بارش کر دی۔ ”چوری سے اتنا پیٹ بھر لیا کہ ابھی ادری الٹی کرتا اے شوم“ ا س نے جاتے جاتے اس کے پیٹ پر لات دے ماری۔

”میں نے چوری کی ……ہاہاہاہا“ وہ زور زور سے قہقہے لگانے لگا۔

*****

”ابا بھوک لگا ہے، روٹی دو“  تینوں بچے رورہے تھے۔

شیرو خاموشی سے اٹھا۔ گرتا پڑتا گھسٹتا ہوا بڑی سڑک کے شمال کی طرف چل پڑا۔ اس نے چادر سے منہ اورسر لپیٹ لیا۔ حویلی کے پچھواڑے میں واقع گودام کی جانب قدم بڑھانے لگا۔ابھی کچھ دیر پہلے سامان سے بھرا آیا ہوا ٹرک خالی کیا جا رہا تھا۔ وہ سب کی آنکھ بچاتا ہوا بڑے ہال میں چپکے سے داخل ہوا۔ اس نے دیکھا کہ آٹے کی بوریاں ترتیب سے رکھی چھت سے باتیں کر رہی تھیں۔ اس نے اِدھر اُدھر دیکھا اور جلدی ایک بوری کندھے پر رکھ کر دروازے کی طرف دوڑا ہی تھاکہ سردار کے کارندوں نے قدموں کی آہٹ پا کر اسے جا لیا۔ الزام یہ لگایا کہ اس نے آٹے کی دس بوریاں چوری کی ہیں۔

تب سے بے سروساماں و بے گھر دس بوریوں کی چوری کے ناکردہ جرم کی پاداش میں شیروحویلی کے بندی خانے میں پڑا تھا۔

*****

شام کا دھندلکا چھا چکا تھا۔ باہر سے شور آ رہا تھا۔ سیلاب کی تباہی سے چُور بچے کھچے دیہاتی، بھوک سے نڈھا ل عورتیں اور مرد میدان میں دریا،جس کے کناروں سے سیلاب کا پانی رِس رہا تھا، کے گرد بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ان کے چہرے زرد اور آنکھیں ویران تھیں۔ان ہی میں سب سے آگے سردار اونچی پگ سنبھالے کہ جس کے ہر پیچ میں مظالم، قتل اور نا انصافیوں کی داستانیں پوشیدہ تھیں، گردن میں سریا جمائے بیٹھا تھااور دور تہہ خانے کی سیڑھیوں سے شیرو اپنے کئی دن کے بھوکے بچوں کے لیے آٹے کی ایک بوری کے جرم میں خوف ناک چہروں کے بیچ چلا آ رہا تھا۔ایک شور و غوغا اٹھا۔

”میں آخری بار کہہ رہاہوں شیرو اپنا گناہ تسلیم کر لو تو سزا میں کمی ہو سکتی ہے ورنہ یہ گہرا پانی خود ہی انصاف کرے گا“ سردار نے مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہا۔

لوگ دَم سادھے بیٹھے رہے ……شیر و خاموش رہا …… فضا سانس روکے تھرتھرا رہی تھی ……!!۔

شیر محمد کی خاموشی بدستور قائم رہی۔تب سردار نے ابرو سے اشارہ کیا اور شیرو کو پانی کی گہرائی میں چھوڑ دیا گیا۔

کئی لمحے گزر گئے ……!۔

ثانیے، منٹوں میں بدل گئے……۔

دلوں کی دھڑکنیں بڑھتی جا رہی تھیں ……۔

یک دم بادل خوف ناک انداز میں گرجے……!۔

وقت تھم گیا ……!۔

شیر محمد کا بے جان جسم اچھل کر سطحِ آب پر تیرنے لگا۔

”دیکھا ……؟ حرام خور نے چوری کیا تھا …… سیلاب کیوں نئیں آئے گا…… ایسا حرام خور کا سزا خدا ام کو بھی دیتا ہے۔“ سردار چنگھاڑا۔

بڑی سڑک پر آٹے کی بوریوں سے لدے ٹرک حویلی کی جانب مڑ گئے۔

بارش کی تیز دھار آسمان سے برسنے لگی اور پانی کا تیز ریلا شیرو کے ہچکولے کھاتے بے جان بدن کو دُور تک بہالے گیا ……!!۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے