کئی سال پہلے خالد سعید کے اپارٹمنٹ جو کہ لاہور میں تھا چوری ہوئی۔چور انکا ٹیپ ریکارڈر اُٹھا کر لے گیا۔ خالد صاحب جیسا موسیقی کا رسیا اور ٹیپ ریکارڈر کی چوری۔ لیکن جانے کیسے چور کی کلائی کی گھڑی اپارٹمنٹ میں گر گئی۔ خالد صاحب نے آکر ٹیپ ریکارڈر کو غائب پایا اور گھڑی کو موجود پایا۔ آنکھوں میں مخصوص سی چمک آئی اور کہا۔
معلوم ہوتا ہے کہ تحائف کا تبادلہ ہوا۔
پھر ان کے ملتان والے گھر میں چوری ہوئی۔چور پکڑے گئے۔خالد صاحب کو شناخت کے لیے بلوایا گیا۔ ایک چور کے اردوتلفظ سے بہت متاثر ہوئے۔ اس کے لیے اردو ڈیپارٹمنٹ میں پرزور سفارش کی کہ اسے ملازمت دی جائے تاکہ طالب علموں کا اردو تلفظ بہتر ہوجائے۔
عجیب روح تھے خالد صاحب۔ اُن کے orbit میں جو بھی آیا اُنہوں نے اس سے ایک خوبصورت رشتہ بنالیا۔ خوبصورت تخلیقی رشتے بنانے میں خود بھی ماہر تھے اور ہم سب کی بھی تربیت کرتے رہے۔ ہم جو کہ منفی رشتے بنانے میں ذرا دیر نہیں کرتے۔ زہر یلے لفظوں سے لے کر سر تن سے جدا کرنے میں کوئی عار نہیں محسوس کرتے۔ یہیں کہیں ہم سب کے درمیان خالد صاحب رواں دواں تھے کہ جس سے ملے اُسے محسوس ہوا کہ دوست سے ملاقات ہوئی۔کسی ہمدرد سے ملاقات ہوئی۔
ایک موسیقار دوست نے نور جہاں کا ایک گیت جس کی شاعری بھی گھٹیا تھی کا ذکر کر تے ہوئے کہا کہ لتا کو اگر کروڑ روپیہ بھی دیا جاتا تو وہ یہ گیت کبھی نہ گاتی اور نور جہاں بھی اگر سرحد کے اُس پار ہوتی تو شاید یہ گیت گانے سے وہ بھی انکار کردیتی۔
آج کے پاکستان میں ہم جہل، جنون، ضعیف الاعتقادی اور نفرتوں کی غلام گردشوں میں رائیگانی کے سفرپر ہیں۔ اگر کوئی قومی جذبہ بہ وزن قومی پرندے یا قومی کھیل نام کا کوئی titleہو تو ہمارا قومی جذبہ نفرت ہے۔ ہمارے پاس نفرتوں کے لیے قائل کرنے والے جواز ہیں۔ یہ جواز ہمیں پوری طاقت سے قائل کرلیتے ہیں اور پھر نفرت کی کوئی سرحد نہیں۔
نفرتوں کے،جنونوں کے،اور جہالت کے اس تاریک سفر میں خالد صاحب ایک ٹمٹماتے دیے کی طرح روشن رہے۔ تاریکی کا طوفان جتنا خوفناک ہوتا گیا خالد صاحب کی ذات کا دیا روشن سے روشن تر ہوتا چلا گیا۔ اور ہم سب کی زندگیوں کو منور کرتا چلا گیا۔
زندگی میں توازن کیسے رکھا جاتا ہے خالد صاحب ہم سب کو سکھا گئے۔ وہ جی بھر کر گھومے پھرے۔ جی بھر کر فطرت سے لطف اندوز ہوئے۔ جی بھر کر انسان کی فطرت کو سمجھنے کی کوشش کی۔انسان سے محبت کی۔ محبت وصول کی۔جی بھر کر لکھ گئے، پڑھا گئے، خوبصورت گیت گا گئے۔ جو بھی کیا اپنی Choice سے کیا۔ اپنی شاندار اقدار کے مطابق کیا۔
1977میں مارشل لا لگا تو ہم کچھ دوستوں نے اکٹھے وہ تقریر سنی جس نے ہماری زندگیوں کے رخ بدل دیے۔ خالد صاحب کا commentمجھے آج بھی یاد ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ہم اپنی زندگی کا سنہری دور دیکھ چکے۔ اور پھر ہم نے یہ دیکھا کہ نور جہاں کو وہ گیت گانے پڑے جو شاید وہ کبھی نہ گاتی۔ ایسے ماحول میں بھی خالد صاحب نے اپنے آپ کو زندہ رکھا۔ اپنی حسین ظرافت کو قائم رکھا۔ خالد صاحب کی حسِ ظرافت ایک متبادل نقطہ نظر پیش کرتی تھی۔ خالد صاحب کا مذاق، اُن کی طنز ایک اور دنیا کی خوشخبری تھی۔ ایسی دنیا جہاں امید زندہ ہے اور growthممکن ہے۔
اُن کے مزاج میں بھی نئے انسان کی بشارت ہوتی۔ ہم سب ہنستے ہوئے یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے تھے۔اپنی زندگیوں کو review کرنے لگتے۔فالتو اور useless baggageسے اپنے دل و دماغ آزاد کرنے کی کوشش کرتے۔ دل میں حسن و عشق کے دیے جلائے رکھتے۔خالد صاحب اس کائنات کے ایک معمولی ذرے سے لے کر جانے کہاں کہاں حسن کی تلاش میں نکل جاتے اور حسن کی اس تلاش میں محبت جیسا پُر نور جذبہ ہمیشہ انکا ہمقدم رہا۔
ایک دفعہ لاہور آئے تو بڑکے درخت کی saplingکی تلاش میں تھے۔ یہ ننھا پودا وہ بہاالدین ذکر یا یونیورسٹی میں لگا نا چاہتے تھے۔ اس پودے کی تلاش میں ہم لاہور کے پارکوں کی نرسریوں میں پھرے۔ مالیوں سے ملے اور بعد از تلاش بسیار لارنس گارڈن کے ایک مالی نے ہماری مدد کی۔ خالد صاحب بہت خوش تھے اور اسی سرشاری میں وہ ننھا بڑلے کر ملتان روانہ ہوگئے۔
میں ہر فون پر اس پودے کی خیریت دریافت کرتی۔نہ کرتی تو خالد صاحب مجھے خود آگاہ کردیتے۔
خالد صاحب نے محبت کے گیان کے، آگاہی کے یہ ننھے ننھے پودے جانے کہاں کہاں لگادیے۔ آنے والے کتنے لوگ ہوں گے جو اُن کے لگائے بڑکے درختوں کے گھنے سایوں میں راحت پائیں گے۔ شاید خود بھی ننھے ننھے بڑکے پودے لگائیں۔
ہر صغیر پاک وہند نے1945سے پہلے جو کردار تخلیق کیے تھے اُن میں نمایاں کردار تھے جو زندگی کو جینے کے علاوہ ایک مشن بھی رکھتے تھے یا بہت سارے مشنزرکھتے تھے۔ تعلیم، آگاہی، عورتوں کے حالات میں سدھار کی کوشش۔ غربا کو غربت اور جہالت کے چنگل سے چھڑانے کا مشن اور کچھ پسماندہ اور غلط ذہنی رویوں اور جسمانی عادتوں کو ترک کرنے کا مشن۔
شہر شہر گاؤں گاؤں یہ مشنری سپرٹ موجود تھی۔ کچھ کر گزرے کا شوق، خلق خدا کی زبوں حالی ختم کرنے کی کوشش، غربت کے سرچشمے ڈھونڈنے کا شوق اور اُنہیں ختم کرنے کی کوشش ہر جگہ موجود تھی۔ لوگ اپنی ذاتی زندگی کے علاوہ انسان کی بہتری کی کوشش میں بھی ہاتھ بٹانے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے تھے۔ یہ مقاصد سے لبالب بھری شاندار روحیں پاکستان بننے کے بعد بھی کچھ عرصہ نظر آتی رہیں۔
خالد صاحب ایسی ہی ایک شاندار روح تھے۔ انسان کو سنوارنے کے علاوہ وہ ایک اور مشکل فن کے بھی ماہر تھے۔ انسان کو خود ساختہ دُکھ اور غم کے جنگل سے کیسے رہائی دلائی جائے۔ نفرت کی روایتی بنیادوں کو کیسے ختم کیا جائے۔ نفرت کرنے کی عادت سے چھٹکارا کیسے دلایا جائے۔محبت کا رویہ کیسے restoreکیا جائے۔
میری ایک دوست کا تعلق صوبہ سرحد سے تھا۔ اس نے اپنے غم اور دکھ سے نجات حاصل کرنے کے لیے خالد صاحب کی مدد چاہی۔اس کی مرحومہ بہن کا بیٹا عورتوں کی طرح خوش رنگ کپڑے پہنتا تھا۔ میک اپ کرتا تھا اور دوستوں کی محفل میں رقص کرتا تھا۔ وہ بہت دکھی تھی۔ خالد صاحب نے اس سے پوچھا کہ وہ لڑکا یہ سب کچھ کر کے خوش ہے۔ میری دوست کا کہنا تھا کہ وہ بہت خوش ہے۔ یہ سن کر خالد صاحب نے میری دوست کو مشورہ دیا کہ نفسیاتی علاج کی ضرورت اُسے ہے،اُس رقاص نوجوان کو نہیں۔
دماغ کو روایتی نقطہ نظر کے عذاب سے آزاد کرنا، زندگی کو نئے دُھنگ کا امکان دینا یہ ہم سب نے خالد صاحب ہی سے سیکھا ہے۔ خوش رہنا اور خوش رکھنا اُنہیں خوب آتا تھا۔ کرشن مہاراج کی ایک خوبی یہ بھی تھی اور ہے کہ وہ آسانی سے خوش ہو جاتے تھے۔ خالد صاحب نے یہ divine attributeغالباً اُنہیں سے سیکھا اور برتا تھا۔
کبھی کبھی جب وہ لاہور آتے تو ہم سوچتے کہ مدت ہوئی کسی بہت شاندار اور خوبصورت انسان کی دریافت کیے ہوئے۔ہم نے بہت شاندار انسان ڈھونڈ نکالے اور پھر باجماعت اُن کے عشق میں مبتلا ہوگئے۔ افلاطونی عشق کی جڑیں کتنی مضبوط اور کتنی گہری ہوسکتیں ہیں یہ بھی ہماری بہت سی دریافتوں میں سے ایک دریافت تھی۔ بلکہ ہمارے خیال میں عشق کی جتنی اقسام اب تک انسانوں نے دریافت کی ہیں اُن میں سب سے خوبصورت، پائیدار،مسلسل اور دمدار افلاطونی عشق ہے۔ اس عشق میں ہم لوگوں کو صرف یہ ہی بتاتے تھے کہ وہ کتنے حسین ہیں اور ایک خوبصورت رشتے کا آغاز ہوجاتا۔ خالد صاحب کا ر شتہ اسی ایک جملے کی بنیاد پر کھڑا ہوتا۔ وہ جانے کیسے دوسروں میں خوبصورتی دریافت کرنے کا مشکل کام کرلیتے تھے اور بے ساختگی سے کرلیتے۔ خالد صاحب حسن کی خوشخبری سب کو سناتے تھے۔ حسن کی دریافت کی لگن میں خالد صاحب ان تھک تھے۔
خالد صاحب کی روح ایک نہ تھکنے والی روح تھی اور زندگی کی یہ مہلت اُن کے لیے کھوج کی مہلت تھی۔ خالد صاحب کو میں نے کبھی بھی حرف آخر بولتے نہیں سنا۔ نہ ہی familiarityمیں ٹھہرے دیکھا۔ وہ کھوج میں رہے۔اس کھوج کے بارے میں لکھ گئے۔ وہ حرفِ آخر نہ بول سکتے تھے نہ لکھ سکتے تھے۔ وہ دل و دماغ اور گیان کے امکانات کی کھوج میں رہے اور اگر جیتے رہتے تو بہت سی اور دریافتوں کے بارے میں لکھتے۔ شاعری اور ولایت کا آدرش ایک ہی ہوتا ہے۔ ایک نئی دنیا کی دریافت کے امکانات کی تلاش۔ فرق صرف یہ ہے کہ ولیوں نے جو دریافت کیا اُسے Article of faithبنایا اور تلاش کو روک دیا۔ شاعری تلاش کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔ شاید اسی لیے پیغمبر آنے کا سلسلہ ختم ہوگیا لیکن شاعر مسلسل آرہے ہیں۔اپنی شاندار شاعری کی کاوشوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ خالد صاحب بنیادی طور پر شاعر تھے۔ ٹیگور کی طرح ایک عالم شاعر تھے۔ اسی لیے خالد صاحب کو زبان نے نہیں استعمال کیا بلکہ خالد صاحب نے زبان کو استعمال کیا۔ زبان کے کیا شاندار امکانات دریافت کیے۔ اپنے کئی نئے تجربوں کو نئے نام دینے کی کوشش کی۔ یا اور زبانوں سے لفظ ادھار لیے۔ خالد صاحب کی تحریروں میں زبانوں اور تہذیبوں کاilluminationدکھائی دیتا ہے۔ اسی لیے اُن کی تحریریں جاندار اور شاندار ہیں۔
ایک دفعہ خالد سعید لاہور آئے تو ہاتھ میں ایک فلم کے کیسٹ لیے ہوئے تھے۔ اُن دنوں میرے ابی جو کہ خالد صاحب کے قدر دانوں میں سے تھے۔ فلیٹ میں موجود تھے۔ خالد صاحب نے ٹشو پیپرز کے ڈبے نزدیک رکھ لیے چونکہ اُنہوں نے سن رکھا تھا کہ یہ فلم بہت رُلاتی ہے۔ فلم شروع ہوئی۔ central consciousness۔ایک حسین اور ذہین خاتون تھی۔ اور اس کا محبوب اسے چھوڑ کر پادری بن جاتا ہے۔ خدا کی محبت میں قدم دھرا اور انسان کی محبت پادری کا خیال تھا کہ اس نے ترک کردی ہے۔ اس فلم کو مشہور ڈائیلاگ جو اس خاتون سے کہلوایا گیا وہ یوں تھا۔
My battle with god is not over.
فلم نے کئی دردناک موڑ لیے ہماری آنکھوں سے کوئی آنسو نہ ٹپکا۔
میرے ابی کو اُن دنوں شی آٹیکا ہوگیا تھا۔ اگلے دن ہم نے اُنہیں ہسپتال لے جانا تھا۔ ڈاکٹر کے انتظار میں بیٹھے تھے اور ہم تینوں مسلسل گپ شپ کر رہے تھے۔ ہسپتال کا ماحول ٹرانسفارم ہو کر پارک بن چکا تھا۔ جہاں شعرو شاعری ہو رہی تھی۔ لطائف سنائے جارہے تھے۔ محبوب انسانوں کا ذکر ہورہا تھا۔ اور یہ tranceاُس وقت ختم ہوا جب ڈاکٹر صاحب آئے۔ ابی صحت یاب ہوگئے اور باقی زندگی اُنہوں نے ہنسی خوشی گزار دی۔
خالد صاحب نے شاید اپنی بیماری بھی یونہی گزاری ہوگی۔ خالد صاحب بڑی سے بڑی آفت کو اس طرح ہی ہٹاتے تھے۔ دھان پان سے خالد صاحب میں ہمت جرات اور برداشت کا نہ ختم ہونے والا خزانہ تھا۔ حالانکہ اُنہیں مرد بننے کا کوئی شوق نہ تھا۔ سہیلیوں جیسے دوست تھے۔
برصغیر کا concept of manhoodبھی شاید یہی ہے۔ ہنستا کھیلتا مرد۔ رقص کرتا مرد۔ بنسری بجاتا مرد۔ محبت کے گیت گاتا مرد، زیور پہن خود کو سنوارتا مرد، خوبصور رنگ برنگی پوشاک پہن کر سجاتا مرد، گیان کی تلاش میں تاج و تخت تیا گتا مرد، امن اور شانتی میں رہنے کی کوشش کرتا مرد۔
ایک فلم کو دیکھتے ہوئے خالد صاحب نے مجھے کہا کہ ہیروئین کے زیوارات کے سارے خوشنما ڈیزائن میں ذہن نشین کر لوں چونکہ ایسے ہی زیورات میں نے اُن کو بنوا کر دینے ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ میں اُن کی یہ فرمائش پوری نہ کرسکی۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر اُن میں سے کچھ زیور میں اُنہیں بنوا کر دیتی تو وہ یقینا خوشی سے پہنتے۔ سنورنا سجنا اُنہیں اچھا لگتا تھا۔ سجانا اور سنوارنا تو گویا زندگی کا مقصد تھا۔
عام طور پر زندگی conformistپورے اعتماد سے گزارتا ہے۔ بنی بنائی گزر گاہوں پر آنکھیں بند کر کے پُر اعتماد طریقے سے گزرا جاسکتا ہے۔
لیکن خالد صاحب وہ Non conformistیا out siderتھے جنہوں نے اپنی فہم و فراست کی مدد سے اپنی زندگی کو روانی کے لیے نئی پگڈ نڈیاں بنا کردیں۔ جن اقدار کو ٹھیک سمجھا اپنے جیون کا حصہ بنالیا۔ پورے اعتماد سے نڈر ہو کر سوچا اور بے جھجک جیے۔
برصغیر کی تہذیب میں out siderکو ہمیشہ احترام کی نظر سے دیکھا گیا۔ پر اچین ہند میں تو باقاعدہ cultural enclaverتھے۔ جہاں out sider پناہ لیتے تھے۔پھلتے پھولتے گیان حاصل کرتے تھے۔یہ وہ لوگ تھے جو main streamخیالات اور عمل سے متفق نہیں ہوتے تھے۔ اپنی روح اپنے دل اور دماغ کو محفوظ رکھنا چاہتے تھے۔ ان کو growth دینا چاہتے تھے۔ معاشرے نے ان کے تیاگ کے فیصلے کو احترام کی نظر سے دیکھا۔ بلکہ تعاون بھی کیا۔ اسی لیے گوتم بدھ جیسا شاہکار تخلیق ہوا۔ خالد سعید جیسے کردار ممکن ہوئے۔ دیوانے۔ سنیاسی،ہمیشہ خوشگوار اور تعمیری تبدیلی کا باعث بنے اور معاشرے کے لیے محترم ٹھہرے۔
hamletکی موت پر اس کے دوست horatioکے الوداعی جملے ہم سب کی طرف سے خالد سعید کے لیے:
Now cracks a noble heart.
Good night, sweet prince;
And flights of angels Sing thee to thy……rest