ہم سب جانتے ہیں کہ عرصے سے چین میں سوشلزم کو پیچھے دھکیل دیا گیا۔ اس طرح دنیا بھر میں بے شمار لوگ اُس کی پالیسیوں سے متفق نہیں ہیں۔ ہمارے یہ اعتراضات سیاسی معاشی بھی رہے ہیں، اور نظریاتی بھی۔ مگرچونکہ وہاں کے داخلی معاشی سیاسی معاملات کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں اس لیے اُن شعبوں کے بارے میں زیادہ بات نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں چین کی خارجہ پالیسی سب سے زیادہ ناپسند کی جاتی رہی ہے۔
چین کے اندر کمیونسٹ پارٹی آف چائنا نے 1978 میں ” ریفارم اینڈ اوپننگ اپ“ پالیسی شروع کی تھی۔اسے سوشلسٹ مارکیٹ اکانومی کا نام بھی دیا گیا۔ اس پالیسی کے تحت بیرونی سرمایہ کاری کے لیے ملک کو کھول دیا گیا۔ پرائیویٹ سرمایہ کاروں، کمپنیوں اور کارپوریٹس کو ملک میں کاروبار کرنے کی آزادی دی گئی، بلکہ انہیں بہت سی رعایتیں او سہولتیں بھی دی گئیں۔ ان بیرونی سرمایہ کاروں کو راضی رکھنے کے لیے وہاں ریاست کی ملکیت والی صنعت کی پرائیویٹائزیشن کی جانے لگی۔
ریفارم اور اوپننگ شروع کرنے کے بعد پارٹی نے اپنی طبقاتی اپنی چوکسی بہت کم کردی۔ شروع میں نئی بورژوازی مکمل طور پر نہیں بنی تھی۔ تب کلاس سڑگل محض پسماندہ نظریات کے خلاف ہوتی تھی، یا پھر سوشلسٹ تعمیر کو سبوتاژ کرنے والے سامراج سے وابستہ عناصر کے خلاف۔ مگر رفتہ رفتہ وہاں پرائیویٹ پراپرٹی اہم پوزیشن اور رول حاصل کر تی رہی۔ حتی کہ چین میں معاشی اور ملکیت کے ڈھانچے میں نمایاں تبدیلی پیدا ہوئی۔ ملک کے اندر پارٹی اور خود سوشلزم کے کاز کو سنگین خطرات سے دوچار کرنے لگی ۔
جوں جوں بیرونی سرمایہ آنے لگا، اسی نسبت سے امپیریلسٹ کلچرل اثرورسوخ اور بورژوا لبرلائزیشن کی سرایت بڑھتی چلی گئی۔ حتی کہ اب وہاں معاشی سائنس کے ہر شعبے میں مغربی معیشت کا اثر بڑھ چکا ہے اور مارکسزم کی معاشی سائنس کی راہنما یانہ پوزیشن کمزور ہوچکی ہے۔ اب وہاں عام خیال ہے کہ چین کی ترقی مغرب کی وجہ سے ہے۔ کچھ اکانومسٹ تو کھلے عام اس بات کی وکالت کرتے ہیں کہ مغربی پولٹیکل اکانومی کو نمایاں ٹرینڈ کے بطور دیکھنا چاہیے۔ اور اس کے لیے مارکسسٹ اکنامکس کو پرے پھینک دیا جائے۔
۔۔۔۔ اور ایسا ہی ہوا۔
مارکسزم کو صرف معیشت اور تعلیم کے شعبوں ہی میں پیچھے نہیں دھکیلا گیا۔بلکہ وہاں تو ہسٹری،فلاسفی، انٹرنیشنل ریلیشنز، پولٹیکل سائنس اور آرٹس وغیرہ میں بھی مارکسزم کو کونے میں لگایا جاچکا ہے۔مارکسزم نامی آفیشل ریاستی نظریہ اب ملک کی ساری سرگرمیوں اور سیکٹرز کی راہنمائی نہیں کرتا۔ پاکستان کے بورژوا دانشوروں کی طرح چین میں بھی بہت بڑی اکثریت یہ سمجھنے لگی ہے کہ مارکسزم اب پرانا اور فرسودہ ہوچکا ہے،یہ کہ چین اب مارکسزم کی پیروی نہیں کررہا، اور یہ بھی کہ مارکسزم محض نظریاتی تبلیغ ہے اور اس میں کوئی عقلی بات اور سائنسی sysematizationموجود نہیں ہے۔
چین میں ”ریفارم اینڈ اوپننگ اپ“کے نتیجے میں پراپرٹی کی ری سٹرکچرنگ ہوئی۔ جس سے کپٹلزم کے پیداواری رشتے پیدا ہوئے۔ چنانچہ ایسا نظریہ پیدا ہونا لازمی تھا جو کہ اِن پیداواری رشتوں سے مطابقت رکھے۔ اس طرح چین کی داخلی اور خارجہ پالیسیوں میں بے شمار ایسے مظاہرو مسائل پیدا ہوئے جو ماضی میں موجود ہی نہ تھے اور جو کہ سوشلزم کے اصولوں کے بالکل برعکس ہیں۔
یہ سوچنا درست نہ ہوگا کہ وہاں بورژوا زی کی طرف سے بڑھتے ہوئے خطرات محض اتفاقیہ ہیں، یا وہ بس اچانک ابھرے ہیں۔چین میں تو قائم پیٹی بورژوا اور بورژوا طبقات کے ابھرتے ہوئے نظریات کپٹلسٹ پرائیویٹ پراپرٹی سے منسلک ہیں۔ اور یہ پراسیس ایک دو برس کا نہیں، کافی پرانا ہے۔ یہ نظریات امریکہ اور اس کے سارے سیاسی اور کلچرل بالادستی کے بڑھتے ہوئے اثرات کی سرایت کے پیداوار ہیں۔وہاں نظریاتی اور کلاس ایجوکیشن میں ڈھیل پیدا ہوئی۔ سوشلزم پر یقین بتدریج کم ہوتا گیا، اس حد تک کہ مارکسزم مارجنلائز ہوا اور ذاتی مفاد کا تعاقب ایک ٹرینڈ بن گیا۔ ان برسوں میں بورژوازی نے چین کی سوشلسٹ تعمیر والے پراسیس کو اپنے کمیونسٹ دشمن خیالات کو آگے بڑھانے کے لیے بھرپور طور پر استعمال کیا۔
چین کے اندر پرائیویٹائزیشن، اور مارکیٹائزیشن کو کوئی کچھ بھی کہے مگر حقیقت میں یہ سب کپٹلزم کی بحالی تھی۔ یہ سارا پراسیس پبلک پراپرٹی، حکومتی مداخلت، اور سوشلزم کے خلاف تھا۔ اور یہ جو سیاسی نہیں بلکہ معاشی میدان سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس لیے سیاسی طور پر بورژوا لبرلائزیشن کی مخالفت کافی نہیں ہے۔ معاشی میدان کو بورژوا لبرلائزیشن (کپٹلزم کی بحالی) سے بچانے کا مطلب ہے معاشی میدان کو زوال سے بچانا۔ اگر معاشی میدان روبہ زوال ہو (یعنی وہ پرائیویٹ ہو، اورکپٹلزم کی طرف مڑ جائے) تو سیاسی میدان میں بھی زوال آجاتا ہے۔ یہ مارکسزم کا عمومی اصول ہے۔
کپٹلسٹ پرائیویٹ پراپرٹی بالآخر کپٹلسٹ طرز کے پیداواری رشتوں کی نمائندگی کرتی ہے جس کے قوانین اور اہداف سوشلسٹ پراپرٹی سے بالکل الٹ ہیں۔ جو نہی پرائیویٹ پراپرٹی مجموعی معیشت میں اہمیت اور اثر کے لحاظ سے بڑھتی جاتی ہے، تو اس کے قوانین سماجی معاشی فارمیشن کی مختلف سطحوں پر اثر انداز ہونا شروع ہوتے ہیں۔ اور سیاسی، معاشی ونظریاتی مداخلت کے لیے اس کی اہلیت بڑھتی جاتی ہے۔ چین کو آج جو سب سے بڑے سیاسی، معاشی و سماجی مسائل درپیش ہیں وہ سب کپٹلسٹ ذرائع پیدا وار کے پیدا کردہ ہیں۔
چنانچہ، مارکسزم پہ چین کے اندر سے حملے جاری ہیں۔اُن رجحانات میں اضافہ ہورہا ہے جو سوشلزم کے رول کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ اُن سماجی گروہوں کے کلاس مفادات کا اظہار ہے جو سوشلزم کے راستے پہ ترقی نہیں چاہتے۔ ان گروہوں میں بہت سارے ”ریفارم اینڈ اوپن نیس“کا نعرہ اپنے رجعتی خیالات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اس سے پہلے بھی ہم نے دیکھا کہ کم و بیش انہی وجوہات کی بنا پر سوویت یونین ٹوٹا تھا۔ سوویت کمیونسٹ پارٹی اقتدار سے اس لیے گر گئی کہ جس وقت نظریہ کے میدان میں سٹرگل انتہائی شدیدہوگئی تھی، عین اسی وقت سوویت یونین کی تاریخ سے یکسر انکار کیا گیا۔ کمیونسٹ پارٹی کی تاریخ سے یکسر انکار کیا گیا، لینن سے انکار کیا گیا۔۔۔۔ یوں اپنی انقلابی تاریخ سے بے وابستگی قائم ہوئی اور فکرگدلاہوا۔ ہر سطح پر پارٹی کی تنظیمیں اپنے کام سے محروم ہوئیں۔ اور نتیجہ یہ ہوا کہ بالآخر سوویت کمیونسٹ پارٹی جیسی عظیم پارٹی بکھر گئی۔ سوویت یونین جیسا عظیم سوشلسٹ ملک حصے بخرے ہوگیا۔
سوشلزم دشمن قوتوں کے سامنے چوکسی کی کمی کی وجہ سے سوویت یونین شکست کھا گیا۔
یہی کچھ اب چینی لیڈر شپ اپنے ہاں محسوس کر رہی ہے۔ چنانچہ ابھی کچھ عرصے سے وہاں ایک زبردست بحث چل پڑی ہے۔ یہ بحث حالیہ سالوں میں بنیادی مارکسسٹ نظریہ کو ترک کرنے کے خلاف ہورہی ہے، اسے حاصل ثانوی حیثیت کے خلاف ہو رہی ہے۔ اور یہ بحث خود وہاں کی پارٹی لیڈر شپ نے شروع کروا دی ہے۔
بحث کا مطلب یہ بتایا جارہا ہے کہ پارٹی اس بات پہ بہت واضح ہو کہ ریفارم اور اوپننگ اپ کا مقصد سوشلسٹ سسٹم کی ترقی کو مکمل کرنا ہے، پیدواری قوتوں کی ترقی کو مضبوط کرنا ہے،معیشت کے پبلک سیکٹر کو توسیع دینا ہے، اور اس کے اثرات بڑھانا ہے۔ اس لیے کہ پبلک سیکٹر ہی وہ سیکٹر ہے جو پیداوار کے سوشلسٹ رشتوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ نئی بحث چھیڑنے والے خبردار کر رہے ہیں کہ چین میں پرائیویٹ پراپرٹی کی موجودگی کوایسا ظاہر کیا جارہا ہے جیسے کہ یہ پبلک پراپرٹی والے پیداواری رشتے ہوں۔ حالانکہ پیداواری قوتوں کی ترقی اور، ماڈر نائزیشن کے ساتھ اصلاحات کا مقصد سوشلسٹ پیدواری رشتوں کے رول کو واپس لانا تھا، پیداواری وسائل کے پبلک ملکیت کے عمل کے سکوپ اور اثر کو بڑھانا تھا۔ پارٹی لیڈر شپ کے اعلانات کے مطابق اب بتدریج اُس رجحان کا خاتمہ کرنا ہے جو ریفارم اور اوپننگ اپ کے شروع سے موجود چلا آرہا ہے۔ یعنی پرائیویٹ پراپرٹی کے تیزی سے اضافہ کو روکنا ہے،اور پبلک سیکٹر کی حصہ داری میں بتدریج کمی کو روکنا ہے۔ لہذا وہ تھیوریاں اور خیالات جو موجودہ کپٹلسٹ ذرائع پیداوار کو ”سوشلسٹ“ کے بطور پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اُن کی مدلل و مصمم تردید کی جائے۔
چنانچہ وہاں اب زور دیا جا رہاہے کہ پارٹی کیڈر نظریاتی میدان میں مارکسزم کے راہنما یا نہ رول کو مضبوط بنانے اور مارکسزم سے متعلق اپنے مطالعے اور علم کو گہرا بنا دیں۔ پارٹی کا خیال ہے کہ مارکسزم کے راہنمایانہ رول کی مضبوطی یقین دلائے گی کہ پارٹی کیڈرز کے لیے سماجی ترقی کے ٹرینڈز کا اصلی منظر نامہ موجود ہے۔ وہ کپٹلزم اور سوشلزم کے بیچ بنیادی فرقوں کو سمجھ پائیں گے اور یوں وہ سوشلسٹ نظام کے سیاسی نظام میں اپنی سیاسی، نظریاتی اور کلچرل اعتماد کو بڑھا سکیں گے۔مارکسزم ہی انہیں بتائے گا کہ چین درست سمت جارہا ہے یا نہیں۔
چین میں یہ اصرار بڑھتا جارہا ہے کہ چین کی موجودہ پالیسی کی راہنمائی مارکسزم ہی کو کرنی چاہیے۔اس لیے مارکسزم ہی کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ مارکسزم کے راہنما یانہ پوزیشن کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ گویا پارٹی کے لیے لازمی شرط ہونی چاہیے کہ وہ اپنی لیڈر شپ اور گورننس اہلیت کو مضبوط کرے۔
ایسا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مارکسزم کا یہ بنیادی اصول سمجھا جائے کہ معاشی بنیاد ہی بالائی ڈھانچے کو متعین کرتا ہے۔
خارجہ محاذ پر بھی معاملات ٹھیک نہیں چل رہے۔ چین میں یہ احساس اب شدت سے بڑھتا جارہاہے کہ مغربی ممالک آتشیں اسلحہ کے استعمال کے بغیر تیسری جنگ کی تیاری کر رہے ہیں۔ مطلب یہ کہ وہ سوشلسٹ ممالک کو جنگ کیے بغیر، پر امن طور پہ برباد کرنا چاہتے ہیں۔ چین کے ساتھ بھی ان کا یہی رویہ ہے۔وہ اسے ہر حال میں ”راہِ راست“ پر رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کی طرف سے چین کے خلاف ایک بدترین تجارتی جنگ جاری ہے۔ کورونا وائرس وبا کے لیے چین کو ذمہ دار قرار دے کر اس کے خلاف زبردست مہم چلائی گئی۔اسی طرح تائیوان اور انسانی حقوق وغیرہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے۔ مختصر یہ کہ،براہِ راست سوشلزم کا نام نہ لیتے ہوئے حرکتیں وہی جو سامراج سوشلزم کے خلاف کرتا چلا آیاہے۔
ان سارے معاملات کو دیکھ کر چین کے اندر اس بات کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ نظریاتی کام کو مضبوط بنایا جائے اور پارٹی سے وابستہ لوگ مارکسی تھیوری کی اپنی تفہیم کو بڑھائیں۔ نظریہ گویا چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اہم ترین ہتھیار ہے۔پارٹی لیڈرشپ نے اب کے زور زور سے کہنا شروع کیا ہے کہ اگر معاشی تعمیر پارٹی کا مرکزی کام ہے،تو نظریاتی کام بھی پارٹی کا مرکزی کام ہے۔
اب کوششیں ہو رہی ہیں کہ کنفیوژن والے تصورات کو صاف کیا جائے۔ گم گشتہ راہ کو دوبارہ پکڑا جائے۔ غلط سمت کو reverseکیا جائے۔ اور پارٹی اور اس کی سنٹرل کمیٹی کی اتھارٹی قائم کی جائے۔
اگر چینی پارٹی اِس سمت کامیابی سے چل پڑے تو یہ بالخصوص تیسری دنیا کے روشن فکروں کے لیے بڑی خوشخبری ہوگی۔ لاکھوں کروڑوں انسان چین کی پالیسیوں میں انقلابی اصولوں کے مطابق تبدیلی کے خواہش مند ہیں۔
ردِ انقلاب سے صحیح سلامت باہر نکل آنے کے لیے کوشاں چین کے لیے بہت ساری نیک تمنائیں!!۔