ہمارا بلوچستان دو بلوچستانوں سے مل کر بنا ہے۔ملینوں سال قبل (جب ہم انسان ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے) آج کے مغربی بلوچستان کی چاہت میں زمین کا ایک بہت بڑا ٹکڑا‘ قطبِ جنوبی والی منجمداور برفانی زمین سے علیحدہ ہوگیا۔یہ بہت بڑا ٹکڑا تھا۔ اس لیے رینگ رینگ کر چلنا اس کا مقدر تھا مگر وصلِ یار کی تمنا میں برف سے ڈھکی یہ زمین کچھوے کی رفتار سے یوریشیا کے سمندر کے جنوبی ساحل پہ موجود گرم اور دھوپ بھرے مغربی بلوچستان سے ملنے چل پڑا۔ چلنا کیا تھا، نہ اِس کے پاؤں تھے اور نہ نیچے پاؤں رکھنے کے لیے کوئی ٹھوس سطح۔ اس کے نیچے تونیم مائع مواد تھااس لیے تیرتا ہوا آیا۔ مگر یہ تیراک بھی،ایک انجن والا چھوٹا سا جہاز نہ تھا بلکہ زمین کا ایک بہت بڑا اور بھاری ٹکڑا تھا، ”براعظم“ جتنا ۔چنانچہ یہ کچھو ے سے بھی کئی گنا کم سپیڈ سے جھومتا بڑھتا رہا۔ یوں اُسے اپنے محبوب تک پہنچنے میں ملینوں برس لگ گئے۔
بالآخر یہ اپنی منزل کو پہنچ ہی گیا۔اس نے آکر زمین کے ایک اور بڑے ٹکڑے کو ہزاروں میل پرے دھکیل دیا اور خود مشرقی بلوچستان بن کر مغربی بلوچستان کے پہلو میں پیوست ہوگیا۔دوسرے لفظوں میں پورا برصغیر مشرقی بلوچستان تک ہند آسٹریلیائی پلیٹ پر مشتمل ہے ۔ارے ہم انسان ابھی تک پیدا نہ ہوئے تھے ورنہ ہم ضرور کوئی شاعری بُنتے، کوئی عقیدے بنالیتے یا کم از کم کوئی ضرب المثال ہی وضع کرتے۔
لیکن یہ کام ہمارے دو مصنف دوستوں نے کر دکھایا۔ ڈاکٹر محمود صدیقی اور محترمہ عظمیٰ محمود نے اِس سائنسی مظہر کوایک بہت ہی خوبصورت ادبی رنگ عطاکردیا:
”زمانے بیتے کہ قطب جنوبی کی منجمد سرزمین(جہاں سورج شاذونادر ہی طلوع ہوتا تھا) کے دیوتا کی ملاقات سمندر پار کی ہمہ وقت چمکتے سورج کی سرزمین کی دیوی سے ہوئی۔ دیوتا‘دیوی کے آسمانی حسن سے اس قدر مسحور ہوا کہ اسے دیوی سے محبت ہوگئی۔ دیوی نے بھی گو کہ منجمد زمینوں کے دیوتا کو پسند کیا مگر وہ شادی کرکے اپنے ہمہ وقت چمکتے سورج والی سرزمین کو چھوڑنا نہ چاہتی تھی۔لہٰذا اس نے شرط رکھی کہ وہ دیوتا سے صرف اُس وقت شادی کرے گی جب وہ اپنی محبت ثابت کرے اور اپنی پوری سلطنت کو دیوی کے گرم اور روشن ملک کے قدموں میں ڈال دے۔ دیوتا نے اس کی شرط مان لی اورواپس اپنی سلطنت پہنچ کر، اپنے تخت کو اغوا کرلیا۔ اس نے اپنے وسیع ترین سلطنت سے ایک ٹکڑا پھاڑ لیا اور زمین کے اس ٹکڑے پہ سوار سمندر پار اپنا سفر جاری رکھا۔ زمین کا ٹکڑا اپنی بھاری وزن کے سبب کچھوے کی رفتار سے تیرتا رہا۔ جس سے دیوتا کو سمندر کے دوسرے کنارے پہنچنے میں ملینوں سال لگ گئے۔ 144 ملین سال قبل یعنی جیوراسک عہد میں اِس (سُپر کانٹی ننٹ) کے مختلف حصے باہم دور ہونے شروع ہوئے۔ ہمارا یہ علاقہ شمال کو سرکتا چلا آیا اور 58 سے 30 ملین سال قبل یوریشین براعظم سے جا ملا۔
”انڈین کانٹی ننٹل پلیٹ جو کہ آج والی پلیٹ سے بہت بڑی تھی، اس نے 88 ملین سال پہلے بحیرہ ہند میں سے حرکت کرنی شرو ع کی۔ اتنی کاہلی اور نرم رفتاری کے ساتھ کہ یہ 65 ملین برس قبل یعنی230 لاکھ سال بعد جاکر یہاں کی ایشین پلیٹ سے ٹکرائی اور ہیبت ناک تصادم سے اُس کے نیچے دھکیلی گئی۔
”یوریشیا کے ساحل تک پہنچنے پر اس نے دیکھا کہ اس کی محبوبہ کے پڑوس میں واقع سرزمین پر تو دیوی کے ایک اور عاشق کا قبضہ ہے۔ دیوتا حسد سے اس قدر مغلوب ہوا کہ اس نے رقیب کے علاقے کو دور دھکیلا اور اپنی زمین کے لئے جگہ بنائی تاکہ اپنی محبوبہ کی سرزمین کے پہلو میں ہمیشہ کے لئے لنگر انداز رہے۔ اس وقت سے وہ دونوں خوش و خرم رہ رہے ہیں“۔
”آج‘ دیوی کی آبائی سرزمین کو ”مغربی بلوچستان“ کہتے ہیں اور دل پھینک دیوتا کے علاقے کو”مشرقی بلوچستان“ کہا جاتا ہے۔ محبت کے حکم سے زمین کے دونوں ٹکڑے ایک واحد جغرافیائی یونٹ میں ضم ہوگئے ہیں جسے آج کا ”بلوچستان“ کہا جاتا ہے“۔گریٹر بلوچستان!۔
مگر یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ ملینوں برسوں تک سفر میں رہنے والا دیوتا(اور اُس کی زمین کا ٹکڑا یعنی پلیٹ) اب قرار میں آکر سکوت پذیر ہوا۔ نہیں نہیں۔ وہ اب بھی شکر صبر کرکے آرام سے محبوبہ کی آغوش میں نہیں بیٹھا ہواہے۔ یہ بے آرام کچھوا ابھی بھی شمال کی طرف سرک رہا ہے اور اپنے شمالی کنارے سے یوریشیا کو کچکوکے لگاتا جاتا ہے۔
ایک ہم ہی کیا‘ساری دنیا کی زمین تیراکی میں اپنے پرانے رفیقوں سے بچھڑتی اور نئے دوست بناتی رہی ہے۔بچھڑتے وقت کچھ آنسو گرتے ہونگے یا نہیں، مگر یہ تو حتمی بات ہے کہ پچھلے سے بچھڑتے وقت بھی اور نئے سے بغلگیر ہوتے وقت بھی کچھ تھرتھلّی تومچتی ہے۔ اس تھرتھلّی کو ہم بلوچی میں ”زمیں چنڈ“ اور اردو والے ”زلزلہ“ کہتے ہیں۔ اور اسی بغلگیری(ٹکڑاؤ) سے دونوں کے بیچ مٹی اور چٹان بھینچ جاتے ہیں اور ٹنوں کے حساب سے اکھڑ کر اوپر کو دیو ہیکل ڈھیریاں بناتی ہیں۔ انہیں ہم کوہ یا پہاڑ کہتے ہیں جو دو پلیٹوں کے بغلگیر ہونے کے ساتھ ساتھ ابھرتا ہوا سلسلہئ کوہ بناتا ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ مشرقی بلوچستان نامی نو آمدہ پلیٹ مغربی بلوچستان نامی دیسی پلیٹ کے دندانوں میں فٹ ہونے کی لگاتار کوشش میں لگارہتا ہے جس سے اُن کے اوپر کی منزل پہ موجود نباتات و حیوانات لڑھک لڑھک جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ نامعلوم زمانوں سے جاری ہے اور نامعلوم زمانوں تک جاری رہے گا۔
زمین کا وہ ٹکڑا جس پر مشرقی بلوچستان واقع ہے ایک زمانے میں اُس پلیٹ پر واقع تھا جس پر ہمارے ساتھ انڈیا، آسٹریلیا، انٹارکٹیکا، افریقہ اور جنوبی امریکہ بطور پڑوسی موجود تھے۔
بلوچی تھیریم کے زمانے میں (35 ملین سال قبل) دباؤ نے ٹکڑے اور تہیں پیدا کیں جو کہ ہمالیہ کی ابتدائیں تھیں۔ ایک زرخیز میدان پیدا ہوئی جو کہ جلد ہی گھنے جنگل سے ڈھپ گئی۔ بلوچی تھیریم اسی گھنے جنگل پہ پلتا تھا۔
بلوچی تھیریم کے زمانے سے انڈین کانٹی ننٹ کا ایک ہزار کلومیٹر ایشیاء کے نیچے غائب ہوگیا۔ اُس وقت بگٹی پہاڑ موجودہ جگہ سے 15 ڈگری جنوب کی طرف تھے، موجودہ زمانے کے ملائیشیا کے عرض بلند پر۔ آج، کانٹی ننٹل پلیٹیں ابھی تک ایک سنٹی میٹر فی سال کی رفتار سے حرکت میں ہیں، جن کے کناروں کے باہم ٹکرانے سے اُس علاقے میں زلزلے آتے ہیں۔
انسانی تاریخ تو فطرت کی تاریخ کا تسلسل ہے۔ہم اصل میں اپنی سرزمین کا تاریخ ہیں۔ نامیاتی ارتقا اور کلچر میں ترقی کے بیچ، ایک مناسبت موجود ہے۔
ملینوں سال تک زمین پر کوئی مردموجود رہا اور نہ کوئی عورت رہتی تھی۔ہم سے قبل یہاں صرف جانور تھے۔ اور جانوروں سے قبل ایک زمانہ ایسا تھا جب زمین پہ کسی قسم کی زندگی موجود نہ تھی۔ اس لئے کہ بہت عرصہ تک زمین اس قدر گرم ہوا کرتی تھی جس پہ کوئی جاندار رہ ہی نہیں سکتا تھا۔ انسان تو سب سے آخر میں تشکیل پایا۔
سائنس نے اب ایسے ترقی یافتہ طریقے دریافت کر لئے ہیں جن سے آثار قدیمہ اور چٹانوں سے ملنے والے فاسلز) Fossills (،(ہڈیاں جو پتھر بن چکی ہیں)کی عمر کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
قدیم انسانی تاریخ کے کوئی تحریری شواہد موجود نہیں ہیں۔ نہ ہی اُس زمانے کے لوگوں کے نام موجود ہیں، نہ اُن کے انفرادی کارنامے دستیاب ہیں۔ نہ یہ معلوم کہ وہ کونسی زبان بولتے تھے۔ مذاہب تو خیر بہت بعد میں آئے۔ قدیم انسانی تاریخ اپنے جغرافیائی اور طبعی حالات والے علاقے میں صرف اور صرف پیداوار کرنے والی سماجی قوتوں کی فاسل(Fossil) شدہ نشانیوں میں ڈھونڈی جا سکتی ہیں۔قدیم کی کھوج میں آرکیالوجی سب سے مدد گار سائنس ہے۔آرکیالوجی معاشی نظام میں تبدیلیوں، اورذرائع پیداوار میں بہتری آ جانے کا مشاہدہ کرتی ہے اور انہیں تاریخ وار مرتب کرنے کا کام کرتی ہے۔
بارکھان اور ڈیرہ بگٹی میں پانچ کروڑوں سال پرانے دفن شدہ ڈائنو سار، وہیل مچھلی اور بلوچی تھیریم کی ہڈیاں نکلی ہیں۔ اب جب ہم اپنے اجداد کی قبرستان پہ بنے جدید بلوچستان کا مطالعہ کرنے نکلیں گے تو یہ باب تو لازماً لکھنا اور پڑھنا پڑے گا۔ اس لئے‘سہل پرستی چھوڑ کر کونین جیسا تلخ اور الجبرا جیسا مشکل یہ حصہ لکھنا اور پڑھنا ہوگا۔ آسا ن لفظوں میں بیان کرنا تو کسی بھی دانشور کے لئے خدائی نعمت ہو گی۔مگر مردہ جانوروں کی ہڈیاں پڑھنا کہاں آسان کام ہوتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ سارے چرند پرند، درنداور انسان سب کے سب کسی نامعلوم مقام سے، یکبارگی، یک دم، اور اکٹھے آئے۔بلکہ ثابت یہ ہوا ہے کہ ابتدا میں بہت ہی سادہ جاندار وجود میں آئے تھے۔زیادہ پیچیدہ جانور ہمیں بعد کے زمانوں میں دستیاب ہوتے گئے۔ انسان جیسے بے مثل نظیر پیچیدہ جاندارکی آمد کے آثار تو سب سے آخر میں ہمیں ملتے ہیں۔
زندگی زیادہ تر پانی سے بنی ہے۔زندگی سمندروں اور کم گہرے تالابوں میں وجود میں آئی۔ گل زمین پر 4000ملین (چار سو کروڑ)سال قبل زندگی،ایلجی اور بیکٹریا کی صورت پیدا ہوئی تھی۔ جبکہ آبی حیات بالخصوص جیلی فش570 ملین (57کروڑ)سال پہلے نمودار ہوئی۔زمینی جھاڑیاں اور کیڑوں کی نشانیاں 410 ملین (41کروڑ)سال پرانی ہیں۔360 ملین (36کروڑ) سال قبل مسیح میں پروں والے جانور اور 320 ملین(32کروڑ) سال قبل مسیح رینگنے والے جانور نمودار ہوئے۔ڈائنو سار کا ظہور 248 ملین اور پرندوں کا213 ملین سال ق م میں ہوا۔ 98 ملین سال ق م ڈائنو ساروں کا آخری عہد ہے، پھر یہ معدوم ہو گئے۔65 ملین سال ق م میں بڑے میمل جانور سامنے آئے۔پچاس ملین (5کروڑ)سال قبل انسان نما جاندار نمودار ہوا۔35 ملین سال قبل بلوچی تھیریم بلوچستان میں پھیل گئے، چوبیس ملین سال قبل موسم کی تبدیلی سے بلوچی تھیریم ختم ہو گئے، جب خوراک، جنگلات خشک ہو گئے۔
بے دُم کا بندر(ایپ) 25ملین سال قبل مسیح میں منظر عام پہ آیا۔ گھوڑے، ہاتھی، بڑی سینگوں والے جانور اور انسانی نسل 1.8 ملین (18لاکھ)سال قبل مسیح سے وجود میں آئی ہے۔مہر گڑھ اور آس پاس5000 سال قبل مسیح ہاتھیوں کی باقیات ملی ہیں۔ جس کا ایک مطلب یہ ہے کہ آج کا خشک و بنجر بلوچستان ایک زمانے میں گھنا اور سرسبز جنگل ہوا کرتا تھا ۔
کولن تج ایک دلچسپ بات کرتا ہے:”اِس وقت اِس زمین پہ ہم 30 ملین (تین کروڑ) دیگر جاندار مخلوقات کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ یہ ایک گمان ہے، اس لئے کہ اب تک صرف ایک ملین جتنی مخلوقات کو نام دیئے گئے ہیں۔ مگر ابتدائی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ منطقہ حارہ (Tropical) جنگلات کے سائبان اور جڑوں میں رہائش پذیر ایک معلوم مخلوق پہ تیس ایسی مخلوقات ہیں جن کے متعلق ابھی معلوم نہیں ہے۔ اگر ساری 30 ملین مخلوقات بیان کی جاتیں، اور اگر آپ اُن کے نام لینا شروع کریں۔۔۔۔ ہر ایک کے لئے ایک سیکنڈ۔۔۔۔ تو آپ کو اُن سب کا نام لیتے لیتے ایک سال گزر جائے گا، وہ بھی اگر آپ اس پورے سال کھانا کھانے یا سونے کے لئے اِن کے نام لینے میں وقفہ نہ کریں تو!!۔