میجک مرر

رنگین چھیل چھبیلی البیلی سی پتنگ،چھینا چھپٹی میں لیرو لیر ہو چکی تھی،لونڈے لپاڈے اسے وہیں پھینک کر ایک دوسرے کے ہاتھوں پر ہاتھ مارتے قہقہے لگاتے گزرتے گئے،دور افق پر ایک اور پتنگ منڈلاتی نظر آرہی تھی، لٹی پٹی پتنگ زمین پر بکھری تھی،شاید کسی ایک نے پلٹ کر دیکھا بھی،کاغذی کناروں پر تھرتھراہٹ ھنوز باقی تھی،

کانچ کی چوڑیاں،انگلیوں کی پوروں پر مہندی لگائے، رنگ برنگ نگینوں کی انگوٹھیاں،ابرو کے اشاریسے آئینے سے پوچھا گیا: کیسا!۔۔۔نگینوں کی اتراہٹ،جگماہٹ ان کے نقلی ہونے کا پتا دیتی تھی، کسے پرواہ تھی! اصل نہ ملے تو نقل ہی سہی، اوہ مرر! اوہ مرر! بتا کون ہے سب سے سندر؟ جیسے آس و آف رسم میں اپنا آپ بری کروانے واسطے انگاروں پر سے گزرنا پڑتا ہے،ایسے ہی اپنا ہونا ثابت کرنے کے لیے انگارے چبانے بھی پڑتے ہیں، ھنستے کھلکھلاتے انگارے ہتھیلیوں پر بھی رکھنے پڑتے ہیں، صبر شکر کے درس دیتا یہ آئینہ، انصافی آئینہ، پھر بھی کہیں نہ کہیں سے رتی،تولہ، ماشہ کجی نکال ہی لیتا ہے، کجی ٹیڑھی پسلیوں کی،آئینہ مسکراتے ہوئے گنگناتا ہے: اکو پاسا رکھ نی ہیرے! کھیڑے رکھ یا رانجھا، کیسی بدبختی ہے،من کے موہنجوڈارو سے جس مورتی کو رانجھا جان کر اجالتی ہوں وہ کچھ ساعتوں ہی میں کھیڑے کی سی صورت نکال لیتی ہے،ہلکی سی ھنسی کے ساتھ آئینہ بولتا ہے:”رانجھے کہاں! اب تو نسلی کھیڑے بھی نہیں ملتے”,

بوٹیکس کروائے ابھرے پھولے ہونٹ جن پر سرخی کی تہہ بڑی نفاست اور فراخدلی سے جمائی گئی تھی،تنی ہوئی چھاتیاں انگیا نے بڑے سبھاؤ سے سنبھالی ہوئی تھیں، بدن سے اٹھتی مہک جیسے مست ہرن کے نافے سے پھوٹتی کستوری ہو،جوانی تو سب پر آتی ہے پر ایسا جوبن! استغفار! دیکھنے والوں کے حلق میں کانٹے اگا دے، اپنا چہرہ تو بھول ہی گئی،اتنے چہرے پہنے،اتنے رنگ بدلے،یاد ہی نہیں کہ اصل چہرہ کون سا! اصل رنگ کون سا! بس اک اگ سی جذبوں کی دہکتی رہتی، آئینہ کسی عمر رسیدہ کی طرح کھنکھارتا ہے: اڑنے کا شوق ہے تو پنکھ مضبوط کر ملکہ! پتنگ نہ بن”,

تو بک بک مت کر، بس میری اڈارایاں دیکھ،،جس نے بڑھ کر بولی لگائی ملکہ اسی کی،جو شیرافگن کی بھینٹ چڑھائے ملکہ اسی کی،ملکہ بننے کی چاہ نے کنٹریکٹ پر انگوٹھا لگوا دیا، اک مہر نے بے مہر کردیا، ملکہ ایسی ٹھکانے لگی کہ کہیں کی نہ رہی،اوہ مرر! اوہ مرر! ترے منہ میں خاک، اتنی تڑیریں پڑیں شالا! کہ کوئی تجھ میں اپنا چہرہ نہ تلاشے، جلے پاؤں کی بلی مانند اپنا چہرہ اندر باہر ڈھونڈنے لگی، جانے کہاں گیا!یہاں وہاں, سبھی جانب دیکھاکیا،دروازوں،دریچوں، غلام گردشوں میں، کہیں نہیں ملا،تن جیسے کوئی سونی اجڑی حویلی ہو ، جس کو سنوارنے نکھارنے بسانے والے کوچ کر گئے ہوں،برستی بوندوں کی ٹپ ٹپ سہاری نہیں جاتی،من انگن میں لفظوں کی بوچھاڑ سی رہتی ہے، جیسے سنڈیوں کو پر لگتے ہی تتلیوں کے جھلڑ اڑنے لگتے ہیں،آئینہ بولتا ہے: ساونی برسی تو تتلیوں کے رنگ چھٹ جائیں گئے” چل ہٹ! بڑا آیا سچ بولنے والا، کون ہے! جو اس بے درد سماج میں اصل چہرے کے ساتھ زندہ ہے؟۔ سبھی مکوٹھا چڑھائے پھرتے ہیں،اس مکوٹھے نے تو اصل چہرے ہی تحلیل کر دیے،گھل گئے سارے کے سارے،ہائے میرا چہرہ! کیسا

دلبر تھا،جانے کہاں رکھ کر بھول گئی! ملکہ عالم! کیا خوب نظم کہی ہے! واہ! واہ،بہت خوب! کمال کردیا، یار جانی!۔۔۔۔۔اصلاح چاہتی ہو؟ بحر میں، بر میں، بسم اللہ،ہم ہیں نا ترے یار تیرے خادم، نیاز مند،تجھے چاہنے والے،لیکن یہ دنیا ہے،اے ظالم حسینہ! یہاں ہر چیز کا عوضانہ طے ہے، بول گڑیا! کیا مول دو گی؟ خباثت ایک آنکھ میچ کر مسکرائی، آہ! کوئی وبائی مرض ہے شاید، دماغ کے کچھ حصے زیادہ الرٹ ہوگئے اور کچھ ڈی فالٹ ہوگئے، کچھ تو ہوا ہے،کوئی دم دارو!کوئی ویکسین! کوئی انجیکشن! کوئی ہاؤ ہو، کچھ تو ہو شور ش شغب! عضو سہلاتے،رال ٹپکاتے، بھوگ گزیدہ! یہ آئینہ کمینہ بھی کیا کیا منظر دکھاتا ہے، آئینے میں تڑیڑ سی پڑتی ہے:”یہاں سبھی مومن مبتلا ہیں،کس کس سے نبٹو گی؟ سپر ڈال دے ملکہ! وارڈوب میں،ہینگرز پر

ون سونے چہرے لٹک رہے ہیں،کوئی نیا چہرہ چن لے”

لیکن یہ آنکھیں! جیسے ندی میں نیا ہلکورے لیتی ہے،ایسے ان آنکھوں میں خواب ڈولتے ہیں،ملکہ میری جان! ” ذرا دھیان سے،یہ خواب تجھے چین سے جینے دیں گے نہ ڈھنگ سے مرنے دیں گے” کاگا! چن چن کھائیو نین! ہزار حصوں میں بٹ کر رہ گئی،ہر حصہ مکمل بھی،سچا بھی،ہر رنگ اولڑا بھی،متضاد بھی،۔۔آہ یہ لعنتی آئینہ! ہر دم جاگتا ہے، تو مرتا کیوں نہیں! آئینہ بولتا ہے: ” سوھنی عورت دو بار مرتی ہے”آنکھیں غازے غمزیکی تہہ میں جھانکتی خستگی سے نظریں چرا لیتی ہیں،۔۔” بڈھی ہوگئی

ہو”، ,”کہاں گئی وہ گرم جوانی سپنی کی سی چال!” کیوں صاحب! بڈھا ہونا ازروئے شریعت منع ہیکہ از روئے طریقت؟ ” منع تو نہیں۔۔ لیکن عورت کی شیلف لائف تو ختم ہوجاتی ہے نا،پھر ٹین کے خالی ڈبے کی طرح لڑھکتی پھرتی ہے،”

یہ جو کھوپڑی میں مغز فٹ ہے،اس کا بھی کوئی بھاؤ ہے کہ نہیں؟ رونکھتی آواز آئینے سے ٹکرائی،یہ سادگی،یہ پرکاری، یہ دلکشی،یہ تہداری،چنچلتا،سندرتا۔۔۔۔ہے کوئی دوسرا میرے جیسا؟ اوہ مرر! اوہ مرر!

بولتا کیوں نہیں؟ آبلے پڑ گئے زباں پر کیا! بھاڑ میں جائے یہ شٹ شیلف لائف، وارڈوب کے پٹ کھٹا کھٹ کھلتے ہیں،اک اور چہرہ! سگریٹ کے سوٹے،چ کی دھار رکھتیں مردانہ وار گالیاں، یہ چ کی گالیاں دینے والے, بین چ! اپنے بابت خیال کرتے ہیں کہ انھیں جنا نہیں گیا، آم جامن کے درخت سے ٹپکے ہیں،، روح افزا کے پیگ نے زبان کے تالے اتار دیے تھے، “بھئی! کنفرم بدکار عورت یہ، بولڈ یعنی بے حیا، بات بے بات ہر گالیاں بکتی ہے بد کردار! یار بناتی ہے، انسان کا رشتہ؟ نہ! نہ! مرد اور عورت کا ایک ہی رشتہ، بستر کا رشتہ ۔۔” آئینے نے ترچھے تیر کومل بدن میں پیوست کر دیے۔ بس کر، بہت ہوگیا،اوہ بے درد انصافی مرر! تو کیا جانے! خود پر اپنا اختیار حاصل کرنے کے لیے کیا کچھ نہیں کرنا پڑتا، کیا کچھ نہیں سہنا پڑتا،منتیں،دلیلیں، درخواستیں،واسطے،

چلتر چالے،اور پھر عیبی بھی، پاپی بھی،داغی بھی، کدھر ہیں دودھ کے دھلے, آئیں نا میرے سامنے! آدی واسی عورت کی طرح سر اٹھائے، ہاتھ میں کچھ مزاحمت کے پتھر چھپائے کھڑی رہی،چہرے اتار اتار کر پھنکتی گئی،چہرے! کچھ حسرتوں کے، چہرے ٹوٹی طنابوں کے،چہرے نیک پروینوں کے،چہرے حور پریوں کے،چہرے الھڑ مٹیاروں کے،چہرے انارکلیوں کے، چہرے۔۔۔۔۔آنسو کے قطرے میں دجلہ ڈوبتا ہے،ڈوبتا ہی چلا جاتا ہے،ہے کوئی؟ کوئی ذی روح نہیں، آواز ہی پلٹ پلٹ کر واپس آتی ہے، ڈسٹر آئینے کی رگڑائی کرتا ہی چلا جاتا ہے، آئینہ بلبلاتا ہے: میری جان!” ذرا دھیرج، ذرا ہولے ہولے، ملکہ چیختی ہے:آؤٹ۔۔ ڈیمڈ سپاٹ آؤٹ۔۔،

ہر وقت آئینہ کے سامنے رہتی ہے نادان! مرد کے دل کا راستہ تو معدے سے ہو کر گزرتا ہے، گوری کاہے کرت سنگھار! تیزاب پھنک دینا چاہیے ایسی عورت پر، نہ رہے بانس نہ بجے بانسریا!،،کوئی ایک ہو تو! یہاں تو جلے چہروں کا تعفن چار سو ہے، ریپ ہوتی ہیں سالیاں، شہرت کمانے واسطے، تو کس مان بھروسے پر سر اٹھائے کھڑی ہے تیری ایک ” نہ” پر عبادت چھوڑ کر فرشتے ساری رات تجھ پر تبرے بھیجتے ہیں، ملکہ کے ہاتھ میں چھپا پتھر تیر کی طرح جھپٹا سجدوں سے لتھڑی پیشانیاں لہولہان کرتا چلا گیا،آئینے میں چند سایوں نے رقص کرنا شروع کردیا تھا, سمی میری وار میں واری میں وارئیے نی سمئیے، چاندنی نے مہکتی سرگوشی کی:”روشن ماتھے والی! چاند بن کر آکاش پر جگمگائے گی”

آئینہ ھنسا: لوگ چاند پر بھی اپنی گندگی سے بھری پوٹلیاں خالی کرنے جاتے ہیں،چاند اب چاند نہیں رہا،کوڑاگھر ہوگیا ہے،آخ تھو!”

ملکہ چہرے اتار اتار پھینکتی چلی گئی اوئے! دیوانی ہوئی ہے کیا! وہ الف ننگ دھڑنگ بنا کسی چہرے کے آئینہ کے سامنے تھی،، چہرہ میرا اپنا چہرہ؟؟؟یہیں کہیں ہو گا! شاید سائیڈ ٹیبل کی دراز میں یا تکیے کے نیچے،شاید آنکھ کی پتلی میں، جہاں بھی ہے،ہے تو سہی، ” ایک روز مل ہی جائے گا، تمام چہرے اتار پھینکے ،کنٹوپ نوچ ڈالے! تو انعام ہے اکرام ہے، آرام ہے آدم کا، آدم کا دل بہلاوہ ہے تو!، تجھیآدم کی جلتی بلتی سانسوں کی تب وتاب سہنے واسطے تخلیق کیا گیا، اس کی کھیتی ہے تو،وہ جدھر سے آویں جس دھج سے آویں،ششش! بس تو چپکی پڑی رہ،۔۔۔۔ سانس؟ سانس تو شجر حجر بھی لیتے ہیں، برتنے کی چیز ہے تو! برتاوے کی نہیں، کیا کرے گی اس کا؟ کیا کرے گی اس چڈی کا؟ صدیوں کا زنگ اٹھائے تالا لگی لوہے کی چڈی! ؟” ائینہ کا تمسخر آمیز قہقہہ ادھورا رہ گیا، ہاتھ میں چھپا پتھر حلق میں ترازو ہوگیا،آئینہ چھناکے سے چکنا چور ہوتا ہے،آوازوں کی پرچھائیاں رہ جاتی ہیں۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*