سوچیے

ہمارے فلسفیوں کے فلسفہ مزاحمت کو کنفیوزن کے طوفان میں چھپا دیا گیا ہے-

"”اور ہم نے لطیف و عنایت و توکلی کو یک طرفہ طور پر رحمدل کیسے بنا ڈالا؟_
زندگی کا پاسباں "سب” کی خیر کیسے مانگے گا؟_ زندگی کا پاسبان زندگی کے دشمن کے قتل کے بعد ہی زندگی کا پاسباں بنتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور گندم کے ایک دانہ کی تقریب تدفین سے لے کر پورے خرمن کی باسعادت وصال تک ہر کاشت کار مزاحمت کے پورے سلسلے سے ہو گزرتا ہے۔ موسموں کی حوصلہ شکن شدت کے خلاف،اپنے دائمی رفیق یعنی تساہل کے خلاف ،
من وسلوی کے دوام کے فلاسفر یعنی فیوڈل کے خلاف ،بے کار جڑی بوٹیوں اور فصل دشمن کیڑوں کے خلاف ہم سب کا پالنہار لڑتا ہے۔مزاحمت کرتا ہے۔یہ انسان (اور ہر انسان ) موت کے خلاف لڑتے ہوئے سو سوبار موت کو قتل کرتا چلا جاتا ہے۔ہماری روٹی کا ایک ایک نوالہ سپرے سے ہزاروں لاکھوں کیڑوں کے قتل کے بعد میسر ہوتا ہے۔پھر ہم سے یہ توقع کہ ہم کپاس کے خالق بھی بنیں اور امریکی سنڈی کی طوالت عمری کی دعا گو بھی ،ایک مذاق بن جاتا ہے۔
کون شطرنج کا کھلاڑی ہوگا جو کاہنات کےبادشاہ انسان کو ،شہ مات سے بچانے کی خاطر پیادوں ،گھوڑوں اور فیلوں کی بلی نہیں چڑھاتا۔اگر وہ تیار فصل سے بٹیروں چڑیوں کو بھوکا بھگائے گا نہیں تو کیا انسان ہوگا؟ تپتی دھوپ میں شبنم کی موت ہوتی ہے مگر گندم کے خوشوں میں رزق بھی تیار ہوتا ہے۔ کسی کسان کو بیٹھے شبنم کی موت پر روتے دیکھا ہے؟ تھپڑ کے لیے دوسرا گال پیش کرنے والے نے کتنے قتل کیے ،حساب ہے؟ فریسیوں کی روزی روک کر ان کا قتل ،ماونٹ کے سرمن سے پورے نظام کا قتل ۔۔۔۔یسوع جو نئے نظام کا خالق تھا،سابقہ نظام کا قاتل بھی تو تھا!!!”۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*