”ایک۔۔۔ د و۔۔۔ تین۔۔۔چار پانچ چھ سات۔۔۔“ حمید نے جھنجھلا کر آنکھیں بند کر لیں۔ تیز رفتار گاڑیوں کو آنکھوں اور اُنگلیوں کی گرفت میں لے کر گِننا اُس کے بس کی بات نہ تھی۔ اس کے کانوں میں موٹروں اور ٹرکوں کے انجن کھڑ کھراہٹ مچانے لگے تو کانوں میں اُنگلیاں ٹھونس کر وہ گودام کی چہار دیواری سے پیٹھ لگا کر کھڑا ہوگیا۔
حمید بندرگاہ کو شہر سے ملانے والی سڑک سے تھوڑی دُور ایک جھونپڑے میں رہتا تھا۔ اس کا باپ صبح کام پر چلا جاتا اور شام کو دیر سے لوٹتا۔ کھانا کھا کر وہ پھر باہر چلا جاتا۔ حمید نے کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ باپ کب واپس آتا ہے۔ اس سے چھوٹے تین بہن بھائی تھے اور آٹھ برس کا حمید ماں باپ کی نظروں میں بہت بڑا ہوگیا تھا۔
”حمید۔۔ اُٹھ بیٹا۔۔ نل سے پانی بھرلا“۔ ماں صبح ہی صبح اُسے جگا دیتی۔ حمید چار پائی کے کونے سے ایک آنکھ بھینچ کر ماں کو چولہے کے پاس چائے پکاتے اور آٹا گوندھتے دیکھتا اور دوبارہ سونے کی کوشش کرنے لگتا۔
”اٹھتا ہے کہ آؤں؟“۔۔ اس مرتبہ ماں کے لہجے میں تلخی ہوتی۔ حمید آنکھیں ملتا آہستہ آہستہ اٹھنے کی کوشش کرتا۔ اُسے معلوم تھا کہ تیسری مرتبہ ماں کی آواز کے ساتھ ایک بیلن والا ہاتھ بھی اس کے اُوپر لہرانے لگے گا اور وہ مار پیٹ سے بہت گھبراتا تھا۔ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو مارنا بھی اُسے پسند نہیں تھا۔ جب وہ زیادہ تنگ کرتے اور ماں مصروف ہوتی تو وہ چپکے سے جھونپڑے کے باہر نکل جاتا اور پھر گھنٹوں گھوما پھرا کرتا۔
وہ چھ برس کا ہوا تو باپ نے اُسے قریب کے ایک میونسپلٹی سکول میں داخل کردیا ۔شروع شروع میں سکول جانے پر خاصی پابندی رہی۔ ماں بڑے پیار سے ناشتہ کرواتی اور جی لگا کر پڑھنے کو کہتی۔ وہ سکول سے واپس آتا تو اُس کے سامنے روٹی اور سالن کی پلیٹ رکھتے ہوئے بڑے اشتیاق سے پوچھتی۔
”آج کیا پڑھا۔“
”ہمارے نبی سب سے آخری پیغمبر تھے“۔۔۔ وہ بڑا سانوالہ منہ میں رکھتے ہوئے جواب دیتا۔
”اچھا۔۔۔ یہ تو میں نے تجھے پہلے ہی بتایا تھا۔“ ماں اپنی معلومات پر فخر محسوس کرتے ہوئے کہتی۔۔۔“ اور کیا پڑھایا؟“
”قائداعظم نے پاکستان بنایا، ہم سب مسلمان ہیں۔ ہمارا وطن پاکستان ہے“۔۔۔ وہ تیز تیز بولنے لگتا۔
”یہ سب تو وہ دن رات ریڈیو پر کہتے رہتے ہیں“۔ ماں بے دلی سے کہتی۔
”اور گنتی سکھائی۔۔ اور یہ بتایا کہ۔۔ کہ دُنیا اللہ میاں نے بنائی ہے۔ اُس کی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا“۔
اس مرتبہ وہ ماں کو مرعوب کرنے کے لیے کہتا۔
”اچھا۔۔“ وہ خاموشی سے برتن اُٹھانے لگتی۔
روز ہی ایک جیسی باتیں ہوتیں۔
”تُو روز ہی ایک جیسا سبق پڑھتا ہے؟“ماں نے ایک دن اُکتا کر پوچھا۔
”نہیں آج تو ایک نظم بھی سیکھی ہے“۔ وہ اپنی ماں کو پڑھائی سے مطمئن ہوتا نہ دیکھ کر کچھ مجرم سا محسوس کرتا۔
”کون سی نظم؟“ ماں نے پوچھا۔
”تعریف اس خُدا کی جس نے جہاں بنایا
کیسی زمیں بنائی کیا آسمان بنایا“
حمید نے گانے کے انداز میں شعر پڑھا۔
”ہُوں!“ وہ چھوٹی بہن کو دُودھ پلاتے ہوئے بولی“۔ جب پوری یاد کر لینا تو سب کو سُنانا“
آہستہ آہستہ اسکول جانے والے بچے کے گرد جو ایک رومانی تصور تھا ختم ہونے لگا۔ اس کی خاطر یں بھی کم ہوگئیں۔۔۔بقول ماں باپ وہ پڑھنا سیکھتا تھا نہ تمیز اور قاعدہ۔ حمید خود بھی چٹائیوں پر بیٹھے بیٹھے ایک جیسی خوشخطی کرتے کرتے اُکتا گیا تھا۔ دن میں ایک آدھ مرتبہ استانی سزا دیتیں۔کبھی پٹائی ہوتی اوروہ بستہ سمیٹ کر دوپہر کو گھر آجاتا اور پھر گھر کے کام کرتا یا باہر کھیلنے چلا جاتا۔ پھر ماں بیمار ہوگئی اور نہ جانے کب حمید کا سکول جانا بند ہوگیا۔ اُسے گھر کا بہت سا کام کرنا پڑتا۔ چھوٹے بھائیوں کو بہلانا، دوکان سے راشن لانا اور پانی بھرنا۔۔ اور دوسرے چھوٹے موٹے کام جو ماں کی صحت یابی کے بعد بھی اُس کے ذمے لگ گئے۔ کسی کو پتہ ہی نہ چلا کہ کب اُس کا سکول جانا خود بخود ختم ہوگیا۔
”کل سے سکول نہیں جائے گا تو ٹانگیں توڑ دوں گا“۔ کبھی کبھار باپ کو غصہ آتا تو وہ ڈانٹ ڈپٹ کرتا۔ حمید ایک دو دن کے لیے سکول آتا اور پھر غائب ہوجاتا۔ کوئی پوچھنے والا ہی کب تھا؟۔۔۔اور اب تو مہینوں سے اس نے سکول کا رُخ بھی نہیں کیا تھا۔ کام کاج سے بچنے کے لیے وہ گھر سے نکل کر بڑی سڑک پر آجاتا۔
صبح بھاگم بھاگ ناشتہ کرتا اور گودام کی چہار دیواری سے لگ کر کھڑا ہوجاتا۔ پھر سڑک پر چلنے والی ٹرکوں، بسوں، گاڑیوں اور ٹیکسیوں کو گنا کرتا مگر وہ سب اتنی تیزی سے گُزر جاتیں کہ حمید کی نگاہیں بہ مشکل ان کا پیچھا کرپاتیں۔
”نہیں گنتا۔۔۔ جاؤ“۔ وہ اپنے پھولے ہوے گالوں کو اور پُھلا کر غصّے سے دیوار کی جانب منہ کر کے کہتا اور جُھک کر روئی کے گالے اُٹھانے لگتا۔
”یہ سب روئی اکٹھا کر کے بیچوں تو ضرور کچھ پیسے مل جائیں گے وہ فلسفیوں کی طرح سوچتا۔
”یا پھر ماں کو دے دُوں۔ وہ سردیوں کے نئے لحاف بنالے گی“۔
وہ چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کی کٹوری میں روئی اکٹھاکر کے گھر جانے کا ارادہ کرتا مگر پھر اُکتا کر ہاتھ جھاڑ دیتا۔“
”کیا فائدہ! اتنے چکر لگانے پڑیں گے۔ گھر سے سڑک تک ماں تو پیچھے ہی پڑجائے گی“۔
”ٹرک والوں کو پرواہ ہی نہیں، اتنی رُوئی اُڑا دیتے ہیں“۔ اس نے گالوں پر ہاتھ رکھ کر سوچا۔ پھر ایک دن روئی کی گانٹھوں سے لدا ایک ٹرک گودام سے سڑک پر آنے لگا تو اس نے لپک کر ڈرائیور کے کان میں چلا کر یہی بات کہی، پٹھان ڈرائیور قہقہہ مار کر ہنس دیا اور جھٹکے سے گاڑی تیز کر کے سڑک پر سے گزر گیا۔
”مجھے کیا جب انہیں پرواہ نہیں“۔۔۔ وہ دُور سمندر کے پانی میں سورج کی شعاعیں چمکتی دیکھ کر سوچتا۔
”اگر میرے پاس ایک پہیہ ہوتا۔۔“ اُسے گاڑیوں کے پہیے بہت اچھے لگتے تھے۔ پہلے وہ گاڑیاں گنتا تھا اب پہیوں پر نظریں جما کر ان کی رفتار کا اندازہ کرنے لگا۔ جوپہیے اُسے بہت تیزی سے گھومتے معلوم ہوتے انہیں دیکھ کر وہ بے قابو ہوجاتا اور اپنے چھوٹے چھوٹے پیروں پر یوں کُودنے لگتا جیسے ریسوں کے دوران لوگ اپنے پسندیدہ گھوڑوں کو دوڑتا دیکھ کر دیوانوں کی طرح اچھلنے لگتے ہیں۔
”ایک پہیئے کی گاڑی بھی تو بن سکتی ہے“۔ اُس نے سڑک کے بوڑھے جمعدار سے سوال کیا جس سے وہ خاصا مانوس ہوگیا تھا۔
”پہیے کے اوپر تختہ جڑ دو اور تھامنے کے لیے ہتہ لگا لو۔ اچھا بھلا ٹھیلہ بن جائے گا“۔۔ جمعدار نے جھاڑو کے ہاتھ اِدھر اُدھر مارتے ہوئے کہا۔
”اچھا پھر میں اس میں اپنے بہن بھائیوں کو بٹھا کر سیر بھی کراسکتا ہوں“۔
وہ خوشی سے پوچھتا۔
”اب بہن بھائیوں کی بات چھوڑ۔ ایسے ٹھیلے سے تو اچھی بھلی کمائی ہو جاتی ہے۔ مزدوری مل سکتی ہے۔۔۔“بوڑھا اُسے کاروباری زندگی کے داؤ پیچ بتانے لگتا۔
”اچھا“۔۔۔حمید کچھ اُداس ہو کر کہتا۔۔۔۔ اُس نے تو سمندر میں ایک آدمی کو ٹائر کے سہارے تیرتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔ تب سے یہ منصوبہ بھی اُس کے ذہن میں تھا کہ کسی طرح ایک بڑا سا ٹائر مل جائے تو اُس میں بیٹھ کر مچھلیاں پکڑوں اور سمندر کی سیر کروں۔
ایک ٹرک میں بہت سی گیہوں کی بوریاں لدی تھیں۔یکا یک ایک بوری کا مُنہ کُھل گیا اور سُنہرے سُنہرے دانے سڑک پر چھینٹیوں کی طرح اُر اُر کر پھیلنے لگے۔ کچھ دانے حمید کے پیروں میں آپھنسے وہ نہیں مسلنے لگا۔ پھر ایک دم سے چونک گیا۔
”اتنا گیہوں گر گیا اب کیا ہوگا؟“ اُس کے ننھے سے دماغ نے پریشان ہو کر سوچا، گھر میں جب بھی کوئی چھوٹا سا نقصان ہوتا اُس کی ماں ہمیشہ سر پر ہاتھ مار کر فکر مند لہجے میں کہتی۔
”اتنا نقصان ہوگیا اب کیا ہوگا؟“
”بیٹا میرا ہاتھ بٹا دے“۔۔۔ بوڑھا جمعدار لمبی سی جھاڑو ہاتھ میں تھامے گیہوں سمیٹ کر اپنی ٹوکری میں بھرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ حمید بھاگ بھاگ کر اس کا ساتھ دینے لگا۔ مگر جیسے ہی وہ تھوڑی سی گیہوں ایک جگہ اکٹھا کرتے کوئی ٹرک یا موٹر تیزی سے اس ڈھیری کو بکھیرتی ہوئی گزر جاتی۔ آدھ گھنٹے کی مُسلسل کوشش کے بعد کہیں سیر بھر گیہوں اکھٹا ہوسکا۔
”چاچا کتنی دیر سمیٹے گا یہ دانے۔۔۔۔“ اُس نے سڑک پر بکھرے ہوئے دانے دیکھ کر کہا۔
”پندرہ سیر تو ہوگا یہ گیہوں۔۔۔“ بوڑھا گزرتے ہوئے وقت سے بے نیاز آہستہ آہستہ سب کچھ بٹورنے کی کوشش کررہا تھا۔۔۔“ چلو چار دن کا آٹا بھی نکل آئے تو کیا بُرا ہے؟“
حمید ہاتھ جھاڑ کر کھڑا ہوگیا اور سڑک سے گزرتی ہوئی ایک وکٹوریہ کے پچھلے تختے پر جُھولنے لگا۔ کچھ دیر تک وہ مُفت کی سواری کے مزے لیتا رہا مگر کو چوان کو پتہ چل گیا اُس نے اپنا چابک ہوا میں لہرایا۔ حمید کود کر اُتر گیا اور سڑک پر کنارے کنارے چلنے لگا۔
بہت سی نئی نئی عمارتیں بن رہی تھیں۔ وہ گردن اُٹھا کر ان کی اُونچائی کا اندازہ کرتا تو آنکھوں میں سورج کی چکا چوند بھر جاتی۔ وہ آنکھیں بھینچ کر مُنہ ہاتھوں میں چُھپا لیتا۔ ایک عمارت بہت خوبصورت اور اُونچی تھی۔ اُس کے چاروں طرف چمکیلی، سُبک، بڑی بڑی موٹریں کھڑی رہتیں۔ اِ ن نئی نویلی گاڑیوں کے ہجوم میں چند پرانی اور مٹیالی گاڑیاں بھی منہ چھپائے کھڑی تھیں۔ حمید کو ان پُرانی گاڑیوں کے مالکوں پر رحم آنے لگتا۔
”بے چاروں کے پاس نئی گاڑیاں نہیں ہیں“۔ وہ کسی نئی موٹر کی چکنی سطح سے پیٹھ رگڑتے ہوئے سوچتا۔
”اگر پُرانی گاڑی ہی کا پہیہ مل جائے تو کتنا مزا آئے“۔
”ان دفتروں میں جانے کے لیے کتنی بڑی بڑی گاڑیوں میں آنا پڑتا ہے“۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ان عمارتوں میں کیا کام ہوتا ہے۔ جو لوگ ان حسین موٹروں میں بیٹھ کر آتے ہیں۔ وہ کام کیا کرتے ہوں گے؟ پھر اس نے ذرا دُور بس اسٹاپ پر کھڑی ایک بس میں سے اتر کر بہت سے لوگوں کو آفسوں کے اندر جاتے دیکھا تو فیصلہ کیا کہ ایسی جگہوں پر پہنچنے کے لیے سب ہی کار موٹروں میں آنا ضروری نہیں ہوتا۔
وہ ایک گول پتھر کو پاؤں کے انگوٹھے سے اُچھا لتا آگے بڑھنے لگا۔ پٹرول پمپ کے قریب پہنچ کر وہ رُک گیا۔ ایک طرف بڑے بڑے ٹائروں کا ڈھیر لگا تھا۔ وہ انہیں للچائی نظروں سے دیکھتا رہا۔ پھر قریب جا کر انہیں آہستہ سے چُھوا اور گھبرا کر ہٹ گیا۔ سب لوگ اپنے اپنے کام میں مصروف تھے۔ کسی نے اس کی طرف نہیں دیکھا۔۔۔اُس کے جی میں آئی ایک ٹائر اُٹھا کر چل دے مگر ہاتھ لگانے پر پتہ چلا کہ ٹائر جب بھاری ہے۔ دھکا دے کر ہی آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ اُس کے قریب سے ایک سائیکل سوار گھنٹی بجاتا کوئی فلمی دُھن گُنگُتا تا ہوا نکل گیا۔
”سائیکل کا پہیہ تو ہلکاہوتا ہے“۔ اُس نے حسرت سے سائیکل سوار کی لہراتی قمیص کو دیکھ کر سوچا اور آگے بڑھا گیا۔
اگلے دن و کٹوریہ گزری تو وہ پھر اُس کے پیچھے بیٹھ کر سواری کرتا رہا۔ کبھی دوسری سمت سے آنے والی بگّی میں دَوڑ کر بیٹھ جاتا، مگر گھوڑے کی ٹخ ٹخ سے وہ جلد ہی بیزار ہوگیا۔ ایک دن وہ یوں ہی بس کے اندر بیٹھ کر ایک کونے میں دَبک گیا اور اگلے اسٹاپ پر اُتر کر گھر تک پیدل آیا۔ کسی نے اس سے کچھ نہیں کہا۔ بس کنڈ کڑا گلی سیٹ کے مسافروں کے ساتھ اُلجھا ہوا تھا۔ پھر وہ اکثر ڈرائیور اور کنڈ کٹر کی نظریں بچا کر بس میں بیٹھنے لگا۔ بس کی سواری میں اس کو بڑا مزا آتا۔ ایک عدد پہیہ حاصل کرنے کی خواہش کو بھی ذرا سی تسکین ملنے لگی۔ اب وہ بس میں بیٹھ کر شہر تک جانے لگا۔ اور وہاں سے واپس گھر بھی بس میں ہی بیٹھ کر آیا کرتا۔ کبھی کبھار کنڈکٹر کی گرفت میں آتا تو وہ حمید کی بھولی بھالی صورت دیکھ کر اُسے چھوڑ دیتا۔ پھر حمید شہر کی سڑکوں پر اُتر کر گھومنے لگا۔ یوں ہی دوکانوں میں جھانکا کرتا۔ کبھی گھنٹوں ایک کونے میں کھڑا ہجوم اور ہنگاموں کو تکا کرتا۔ اُس کے ننھے سے آٹھ برس کے ذہن میں کوئی بھی چیز ٹھیک طرح سے نہ سماتی۔ یوں لگتا جیسے دماغ میں بھی ایک ہجوم اکٹھا ہوگیا ہے۔ بہت سی موٹروں، ٹرکوں بسوں اور پہیوں کا ہجوم!
ایک دن اس نے دیکھا ایک گھوڑے گاڑی میں بہت سے بچے بیٹھے سکول جارہے ہیں۔ اچانک گھوڑے کا پاؤں پھسل گیا۔ سامنے سے ایک تیز رفتار بس آرہی تھی۔ حمید نے خوف سے آنکھیں بند کر لیں۔ کچھ دیر بعد اس نے ایک آنکھ پر سے ہاتھ ہٹا کر جھانکا تو اس کی جان میں جان آئی۔ بس موڑ کاٹ کر نکل گئی تھی۔ گھوڑا اُٹھ کر کھڑا ہو رہاتھا اور کو چوان بچوں کو مضبوطی سے بیٹھنے کی ہدایت کر رہا تھا۔۔۔حمید کو ایک چھوٹی سی بچی پر بہت رحم آیا جو اگلی سیٹ پر سب سے اونچی جگہ بیٹھی تھی۔ اس نے سوچا ذرا بھی دھکا لگے گا تو یہ بچی ضرور گر جائے گی۔۔۔اپنے خوف پر قابو پانے کے لیے وہ کچھ دور تک گاڑی کے ساتھ دوڑتا رہا مگر آگے فٹ پاتھ ٹوٹا ہوا تھا۔ بہت سے مزدور گرد و غبار کے دھوئیں میں پتھر پھینک رہے تھے۔ حمید رُک گیا اور چیختے چلاتے ہارن کی آواز سنتا رہا۔ ”بچ کے بچ کے۔۔۔“ تھوڑی دیر بعد کو چوان کی آواز شور میں دب گئی۔
ایک صبح وہ شہر میں آیا تو اُسے ماحول کچھ مختلف لگا۔ دو کانیں بند ہو رہی تھیں لوگ اِدھر اُدھر تیزی سے بھاگ رہے تھے۔ سواریاں بھی بہت کم تھیں اور چاروں طرف پولیس کے ٹرک گشت کر رہے تھے۔ حمید ایک ٹرک کو غور سے دیکھنے لگا۔ اس میں کچھ سپاہی بیٹھے تھے۔ ٹرک کے پہیے بہت مضبوط اور موٹے تھے۔ ان پہیوں کے نیچے کوئی آجائے تو اُس کی نظروں میں وکٹوریہ والے بچے گھوم گئے، وہ خوف سے لرزا اُٹھا۔ اس بھاگ دوڑ میں وہ ایک بہت بڑے انسانی ریلے میں بہنے لگا۔ قریب ہی کچھ پھٹا۔ زور کا دھماکہ ہوا۔ پھر ساری فضا دُھواں دُھواں ہوگئی۔ بہت سے لوگ ایک احاطے میں گھس گئے۔ جس میں کچھ دکانیں ایک ورکشاپ اور چند شیڈ بنے تھے۔ لوگ دکانیں لوٹ رہے تھے یایوں ہی شور مچا رہے تھے۔ اُن کے آگے پیچھے پولیس کی وردیاں چاروں طرف نظر آرہی تھیں۔ اچانک حمید کی نظریں شیڈ کے کونے میں رکھے ہوئے بڑے سے گول گول ایک سیاہ پہیے پر جم گئیں۔ وہ سب کچھ بھول کر تیزی سے اُدھر بھاگا اور ٹائر کی اُبھری ہوئی کُھردری لکیروں میں اپنی چھوٹی چھوٹی انگلیاں گاڑ دیں۔۔۔ٹائر بہت بھاری تھا۔ کسی جیپ یا وین کا لگتا تھا۔ حمید نے اُسے آہستہ آہستہ دھکا دینا شروع کیا۔ اور بڑی مشکل سے بچتا بچاتا احاطے کے پھاٹک تک جا پہنچا مگر سامنے ہی پولیس کا ایک ٹرک کھڑا تھا۔ وہ دیوار کے سہارے آگے بڑھنے لگا۔
”کہاں جاتا ہے؟“۔۔۔ایک کرخت آواز نے اُس کا پیچھا کیا۔ وہ کانپ کر پھاٹک کے کھمبے سے چِپک گیا۔ اُسی لمحہ پہیہ سڑک کی جانب لڑھکنے لگا۔ حمید کی جان نِکل گئی۔ وہ پاگلوں کی طرح اُس کے پیچھے لپکا مگر اُس کے پَیر من من بھر کے ہوگئے۔ ایک سپاہی نے ٹائر کو اُٹھا کر ٹرک کے اندر پھینکا اور پھر بھاگتے ہوئے حمید کو دونوں ہاتھوں میں دبوچ کر آدمیوں سے ٹھنسا ٹھنس بھری وَین میں دھکیل دیا۔