ڈاکٹر کرامت علی سنگت اکیڈمی کے سینیر اور مخلص ساتھی تھے۔کچھ عرصہ قبل ملتان میں ان کا انتقال ہوا تھا۔ان کے بھائی پروفیسر برکت بھی سنگت اکیڈمی کے معتبر ساتھی ہیں۔کینیڈا میں مقیم ڈاکٹر کرامت علی کی بیٹی کا تعلق بھی سنگت سے ہے۔دکھ کی سانجھ کے لیے ڈاکٹر شاہ محمد مری نے ملتان کے لیے رخت سفر باندھا۔ڈاکٹر سارہ  ملتان میں ڈاکٹر مری کی آمد کی بجا منتظر تھیں لیکن ان کی آمد کی خبر   جلتی بجھتی امیدوں کیکچھ خوابوں کی بارآوری  کی توقع بھی ساتھ لائی۔ سرائیکی وسیب پانی کے سیلاب سے کہیں زیادہ بیبسی کے سیلاب سے دوچار ہے پھر بھی سنگت بیقراری سے ڈاکٹر مری کے منتظر رہے کہ مل بیٹھیں گے،کچھ سنیں گے کچھ سنائیں گے، کوئی تو ہے جو ان کے دل کی دھڑکنوں کو لفظوں کے پیراہن پہناتا ہے ورنہ تمغا امتیازی اور غیر امتیازی،صدراتی بھاشن، ڈاکٹریٹی کاپی پیسٹ مقالوں کے بوجھ نے، ادیبوں،شاعروں اور دانشوروں کو  گنگ کر دیا ہے۔وہ بھی کیا کریں بے چارے! ننگی نہائے کیا اور نچوڑے کیا۔ اس لاحاصلی کی کارو کاری میں عابد حسین عابد کمال کر گے۔

عابد حسین عابد ترقی پسند تحریک کے حوالیسے ایک اھم نام ہے۔ ۱۹۹۸ میں اْنہوں نے انجمنِ ترقی پسند مْصنِفین کو نئے سرے سے فعال کیا۔ چنانچہ تنظیم ایک طویل وقفے کے بعد ایک بار پھر بحال ھو گئی اور اس وقت تنظیم کی پورے پاکستان میں بہت  شاخیں کام کر رھی ھیں۔

عابد حسین عابد نے زمانہ طالب علمی سے ھی بائیں بازو کے اشتراکی نظریات سے متاثر ھو کر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کردیا تھا۔ شاعری ان کا بنیادی حوالہ ھے۔  شاعری کے ساتھ ساتھ تنقیدی مضامین بھی لکھتے ھیں۔ مزاحمت ان کا بنیادی استعار? ھے۔ انسان دوستی، محبت اور عالمگیر امن کے داعی اس شاعر کا خواب بہترین انسانی معاشرے کو تشکیل دینا ھے۔

انھوں نے ایک اچھے سیاسی ورکر کی طرح بڑے منظم طریق  سے ایک دو دنوں میں سترہ اگست کی شام کو پاک ٹی ہاؤس میں انجمن ترقی پسند مصنفین لاہور کے ایک خصوصی اجلاس کا اہتمام کر لیا۔پروگریسو رائٹرز کا کوئی بھی اجلاس عام نہیں ہوتا۔یہ خاص لوگ ہیں، بے مول اثاثہ ہیں، بے مہر اور بدبخت زمانہ جو ٹھہر ساگیا ہے اس میں چند  زندہ آوازیں ہی تو باقی ہیں۔

 

ابھی صحرا سے آواز آرہی ہے

نہ سمجھنا کہ مر گئے  ہیں مور سارے

لیکن یہ اجلاس خاص الخاص اس طرح ہوگیا کہ اس اجلاس معروف مارکسی دانشور ادیب اور نقاد ڈاکٹر شاہ محمد مری کے ساتھ مکالمے کا اہتمام کیا گیا تھا۔شاہ محمد مری  پاک ٹی ہاؤس میں داخل ہوئے۔کامریڈ نور العین سعدیہ نے کھلتی ہوئی مسکراہٹ اور لال گلابوں کے ساتھ شاہ محمد مری کا پرتپاک استقبال کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے منتظر کرسی نشیں اٹھ کر ڈاکٹر مری کے اردگرد جمع ہوگئے۔کچھ معانقے، مصافحے، مسکراہٹیں حال احوال ہوتا گیا۔

ڈاکٹر مری نے بلوچی ادبی تحریکوں کی تاریخ اور مہر گڑھ کی قدیم ترین انسانی تہذیب پر موجودہ ادبی سیاسی تہذیبی  رجحانات پر اظہار خیال کیا۔ اس کے بعد مکالمے کی صورت بن گء۔حاضر شرکاء   میں ڈاکٹر ضیاء   الحسن، ڈاکٹرعالم خان، پروفیسر امجد علی شاکر، ڈاکٹر شاہد اشرف، ثقلین جعفری، پروفیسر محمد عباس مرزا، مزمل سیال، احسان جنجوعہ، دعا مصطفیٰ، عبدالوحید،کامریڈ مرزازین العابدین،میاں شہزاد، کامریڈ شہزاد۔  خالد محمود شیخ، ادریس تبسم، راشد جاوید، ڈاکٹر شاہد مسعو ہاشمی، کامریڈ عابدہ چوہدری، کامریڈ عرفان علی، کامریڈ وارث گگوی، شیراز حسین، عرفان علی گلگتی، نائلہ عابد، مصباح نوید، پروفیسر نبیلہ کیانی، نورالعین سعدیہ، حفصہ، اس کے علاوہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی کے طالبعلموں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔  ایک نمایاں   نام  مقصود خالق کا بھی ہے۔  مقصود خالق شاعر ہیں,  پروگریسو رائٹرز کو نئے سرے سے فعال کرنے میں ان کا بھی اہم کردار ہے۔ چھ سال  تنظیم کے مرکزی جوائنٹ سیکریٹری کے طور پر کام کیا۔ آجکل بطور سیکریٹری لاہور خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

مقصود خالق صاحب عملا اجلاس کندھوں پر اٹھائے ہوئے تھے، جدھر نگاہ اٹھتی بھاگتے دوڑتے وہ ہی نظر اتے، آن کیمرہ یا آف کیمرہ،کیمرے کے سامنے بھی کیمرے کی پشت پناہی میں   بھی کبھی مائیک تھامے، کبھی شرکا کے لیے چائے پانی کا انتظام کرتے ہوئے،سوال مرتب کرتے ، سوال اٹھانے کے لیے انگیخت بھی کرتے اور زیادہ طویل سوال کرنے والوں دوبارہ ان کی کرسیوں پر براجمان بھی  کرتے۔

عابد حسین عابد بادبان کا کردار ادا کرتے رہے جس وجہ سے شرکاء   محفل متوازن اور ٹو دی پوائنٹ رہے۔البتہ ایک آدھ نے اپنے طویل سوال میں اپنا من پسند جواب بھی بیان کر دیا۔  ڈاکٹر مری نے مسکراتے ہوئے جواب میں   لطیفہ سنایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پاک ٹی ہاؤس کی چھت اس قدر نیچی ہے کہ حاظرین کا قہقہہ واقعی چھت پھاڑتا محسوس ہوا۔ کچھ نوجوان چہرے بھی موجود تھے۔جو ڈاکٹر مری کے ساتھ تصویریں کھنچوانے رہے اور سوال جواب بھی کرتے رہے۔انھیں دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی ورنہ بالخصوص پنجاب میں مطالعہ پاکستان کا چوگا کھا کر جوان ہوئی نسل اس سبز طوطے کی مانند ہے جس کی چونچ بھی لال  نہیں رہی۔ ان پڑھ پھر بھی لوک دانش کا دامن تھامے ہوئے ہیں۔ڈگری ہولڈر  ایجوکیٹ نہیں ٹرینڈ کر دیے گئے ہیں۔وہ معلومات رٹ تو لیتے ہیں لیکن یہ معلومات ذہنی پروسیجرسے گزر کر علم میں نہیں ڈھلتیں۔  اس اجلاس کا حاصل بلاشبہ شاہ محمد مری کی خوب صورت گفتگو  تھی جو سنجیدہ موضوعات پر بھی بات کرتے ہوئے بوجھل پن تقریر میں نہیں لاتے،سود وہ متجسس آنکھوں والے نوجوان تھے جنہوں نے برگر کوک اڑانے کے بجائے پاک ٹی ہاؤس کو ترجیح دی۔یہ ہی  شعور کی طرف بڑھتا پہلا قدم ہے۔

ابھی رواں ہے کارواں

دلوں میں نصب ہیں نشاں

زمین پہ زندگی دکاں کے نام تو نہیں ہوئی

ہماری داستاں ابھی تمام تو نہیں ہوئی

 

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے