سحری کے بعد تھوڑی دیر کو آنکھ لگی تھی کہ بطخوں کے شور نے چونکا دیا۔
میں نے ہڑ بڑا کر ہاتھ میں ڈبل روٹی کے ٹکڑے لیے اور سیڑھیوں سے نیچے جھانکا — ” ارے یہ تو ایک ہی بچہ رہ گیا — ابھی کل تک تو تین باقی تھے۔
اور وہ بھی اکیلا ادھر ادھر گردن اٹھا کر اپنی کمزور سی آواز میں ماں کو پکار رہا تھا — دوسرے گھر سے بطخ کے زور زور سے چیخنے کی آوازوں نے سارے منظر کو تہ و بالا کر رکھا تھا۔
میں نے بڑی کوشش کی کہ بچہ کسی طرح میرے ہاتھ آجائے اور دونوں ماں بچے کو ملانے میں کامیاب ہو جاؤں اور اس سے زیادہ اس شور پر قابو پا سکوں جوانہوں نے برپا کر رکھا تھا۔دوسری بطخیں بھی چوزے کی تلاش میں ادھر ادھر اڑتی پھررہی تھیں، بچہ مجھ سے گھبرا کر اور بھی اندرکو ایک گلی میں چلا گیا تھا۔
میں نے مایوس ہو کر اپنی کوشش سے ہاتھ اٹھا لیا اور فطرت کو اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ اب بطخ مجھے صاف نظر آ رہی تھی۔ پریشان اور بے تاب ادھر ادھرجھانکتی پھر رہی تھی۔ مجھے سب معلوم تھا کہ اس کا بچہ کہاں ہے لیکن اس کی زبان کہاں آتی تھی جو ممتا کی ماری کو اس کا اتا پتا بتاتی —- بطخ کی پریشانی نے مجھے اپنی فکر بھلا دی تھی۔ میں بھی تو بیٹی کی وجہ پریشان تھی، ٹھیک سے سو بھی نہ پائی —- تھک کر سیڑھیوں پہ بیٹھی سب تماشہ دیکھ رہی تھی اور دل میں دعاکر رہی تھی بس اب اس کا اکلوتا بچہ اس سے نہ چھنے، اتنے میں ٹیلیفون کی گھنٹی نے گھر کے اندر آنے پر مجبور کر دیا — بیٹی کا فون تھا کہہ رہی تھی” امی مجھے معلوم تھا آپ پریشان ہو رہی ہوں گی لیکن ابھی آفس کا کام باقی ہے– شام کی فلائٹ سے واپسی ہو گی” اورمیں اپنی آنکھوں میں آئے آنسو پوچھتے ہوئے سوچ رہی تھی شکر ہے میں بطخ نہیں ورنہ اپنے بچے کا پتہ کیسے پاتی۔
افطار میں دو تین ہی منٹ باقی ہوں گے —- میں سب لوازمات میزپر لگا کر دعا میں مشغول تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی، بیٹی ویلنگٹن سے واپس آ چکی تھی سلام کرتے ہوئے بولی” امی — سڑک پر بطخ پڑی ہے — کوئی گاڑی والا کچل گیا "، ویسے تو یہ یہاں روز کا معمول تھا۔ آئے دن سامنے برساتی نالے میں رہنے والی بطخیں سڑک پار کرتے ہوئے کسی تیز رفتار گاڑی کا شکار بنتی رہتی تھیں، لیکن اس وقت میرا دل دھک سے ہو گیا ” کہیں وہ بچے والی بطخ نہ ہو، الٹے قدموں سڑک کی طرف بھاگی، پیچھے سے بیٹی آواز دیتی رہ گئی” کہاں جا رہی ہیں روزہ کھلنے والا ہے ” ہاں — ہاں ابھی آتی ہوں،بس ایک منٹ دو "۔میں اس کی بات بے توجہی سے سنتی ہوئی آگے بڑھ گئی ابھی سڑک کے کنارے پر ہی تھی کہ سامنے سے آتی ہوئی بس اور تیز رفتار گاڑیوں کو دیکھ کر رک گئی، جابجا بکھرے ہوئے پروں کو تیز ہوا اڑائے لئے جا رہی تھی سڑک کے بیچوں بیچ ملغوبہ سی بنی پڑی بطخ کو دیکھ کر میں نے تاسف سے سوچا ” اب یہ تو گئی — اگر میں اسے اٹھانے جاتی ہوں تو خود میرا بھی ایسا ہی حشر ہو سکتا ہے ” خود غرضی نے مجھے گھیر لیا اور بس کے گزرنے کا انتظار کرنے لگی –
مگر یہ کیا — بس ایک طرف جا کر رک گئی تھی —–
میں نے سوچا ” یہاں توبس اسٹاپ نہیں پھر یہ یہاں کیوں رک گئی۔ شائد کچھ خرابی ہو گئی ہو گی یا پھر بس والے نے بطخ کو پڑے ہوئے دیکھ لیا تھا جو ابھی گزرتی گاڑیوں کے روندے جانے سے ایک کچلے ہوئے گولے میں تبدیل نہیں ہوئی تھی، خیر مجھے کیا۔ ” میں نے اپنے ذہن کو جھٹکا، اب میں سڑک کے بیچوں بیچ پہنچ چکی تھی لیکن — مجھ سے پہلے ہی بس ڈرائیور —- بطخ تک پہنچ چکا تھا، اس نے دونوں ہاتوں میں اس گوشت کے لوتھڑے کو اٹھایا اور فٹ پاتھ کے ساتھ بنی ہوئی کیاریوں میں ڈال دیا، میں نے سنا، وہ بڑبڑا رہا تھا "کریزی باسٹرڈز، صرف اپنی جان کو جان سمجھتے ہیں جانور کی جان کی کوئی اہمیت نہیں ” یہ کہتے ہوئے اس نے ایک نظر میری طرف دیکھا، جیسے کہہ رہا ہو ” تم یہاں سڑک پر کیا کر رہی ہو”، میں نے انجان بنتے ہوئے یوں ظاہر کیا، جیسے سڑک پار کر رہی ہوں — بس جا چکی توقریب جا کر بطخ کے بچے کچے ملبے پر کیاری سے مٹی اٹھا کر ڈالی، ایک چھوٹی سی ڈھیری کو دیکھا اور گھر کی طرف پلٹ گئی، عجیب سی کشمکش میں مبتلا گھر کے اندر آتے ہوئے کیاریوں میں سے چوں چوں کی آواز نے اپنی طرف متوجہ کر لیا — سامنے بطخ بچے کوپروں میں لئے بیٹھی تھی—
دروازے پر بیٹی پانی کا گلاس لئے کھڑی تھی ” اتنی دیر کر دی، کہاں چلی گئی تھیں، یہ لیں پانی پی لیں، افطار کا وقت ہو چکا ہے "۔ ابھی ٹہرو میں نے جواب دیا اور دکھ اوراطمینان کے ملے جلے احساس کے ساتھ کیاری کے ساتھ لگے پائپ سے ہاتھ دھونے لگی –