ماجد کے ملک کے حالات ابتر تھے، ملک میں انسانیت کی تذلیل ایک گہری کھائی میں بدلتی جا رہی تھی، کروڑوں لوگ غربت کی اس دلدل میں اتر چکے تھے جو سرمایہ دارانہ نظام نے انتہائی باریک بینی سے ملک کے طول و عرض میں پھیلا دی تھی۔
تندور میں بھوک اگ رہی تھی۔
سفاک مجرم سر عام گھوم رہے تھے، انصاف محکوم تھا اور منصف بلٹ پروف گاڑی میں مطمئن رہتا۔
ہتھیاروں کے کارخانے ہمیشہ چلتے رہتے، ملک کا ایندھن ہتھیار بنانے میں کام آتا۔
عوام کئ کئ میل پیدل چلتے اور اپنی محنت کی کمائی ان لوگوں کو خیرات کرتے جو بچوں کو پنج وقتہ عبادت کی ادائیگی کے بعد ہتھیار چلانا سکھاتے تھے۔
صورتحال سے گھبرا کر ماجد اور اسکے ساتھیوں نے انقلاب لانے کی جد و جہد شروع کر دی، آنا فانا عوام ماجد کے ساتھ مل گئے۔ اور گلی کوچوں میں انقلابی نعرے و صدائیں گونجنے لگیں۔
حکومت مشنری حرکت میں آ گئ۔
بڑی تعداد میں انقلابیوں کو گرفتار کیا گیا۔
ماجد نے دوسرے شہر فرار ہونے کی کوشش کی لیکن راستے میں دھر لیا گیا۔
آنکھوں پر پٹی باندھ کر چند دن ایک کمرے میں بھوکا پیاسا اور قید تنہائی میں رکھا گیا۔
ایک دن کمرے کا دروازہ کھلا، ماجدہ کی آنکھوں سے پٹی اتار دی گئ، پانی پلایا گیا، کھانا کھلایا گیا۔
کھانے کے بعد ماجد کے سامنے ملک کا ایک بڑا آدمی آکر کھڑا ہو گیا اور مسکرا کر بولا، ماجد صاحب ریاست سے ٹکرانا آسان نہیں ہے۔ دیکھا ہم نے کیسے آپ سب کو اپنا مہمان بنا لیا، لیکن آخر کب تک آپکو اپنا مہمان بنائے رکھیں گے؟
ماجد چپ رہا۔
آدمی دوبارہ بولنا شروع ہو گیا، دیکھئے آپ بھی یہاں بھوکے تھے وہاں گھر میں آپکی بوڑھی ماں اور بیوی بچے بھی بھوکے ہیں، آپ نے تو کھانا کھا لیا لیکن وہ کب تک بھوکے رہیں گے آخر، میرے ساتھی ان کو کھانا نہیں کھانا دیں گے جب تک۔۔۔۔
لیکن آدمی کی بات ادھوری رہ گئ کیونکہ ماجد اچھل کر کھڑا ہو گیا، اور چیخنے لگا،خبردار میرے بچوں کو کچھ کہا۔
دو سپاہیوں نے ماجد کو جکڑ لیا۔
آدمی مسکرایا، کچھ نہیں کہیں گے ماجد صاحب وہ ہمارے بھی بچے ہیں، ہم تو چاہتے ہیں آپ اپنے بچوں کے ساتھ خوش و خرم رہیں اسی لئے میں یہ معاہدہ لے کر آیا ہوں، آدمی نے جیب سے ایک کاغذ نکال کر ماجد کی آنکھوں کے سامنے لہرایا۔
ماجد حلق کے بل چیخا، یہ کیا بکواس ہے؟؟
آدمی نے پرسکون انداز میں کہا، ہم نے فیصلہ کیا ہے
اس پر اپنے دستخط کرو اور ہم سے دو لاکھ روپے ماہانہ پاو، عوام کو ہمارے حق میں ہموار کرتے رہو، بس اتنا سا کام ہے، آپ پہلے ہی ہمارے پاس آ جاتے تو ہم آپکو یہ مشورہ دیتے، انقلاب فضول شے ہے ماجد صاحب ، زندگی خوبصورت ہے ابھی آپ جوان ہیں زندگی کا لطف اٹھائیں اور گھر بیٹھے ماہانہ پائیں۔ ہمارے دوست بن جائیں، دشمنی میں کیا رکھا ہے۔
یہ ملک ہم سب کا ہے اور ہم سب کو مل جل کر رہنا ہے۔
ماجد چند لمحے سوچتا رہا۔
آدمی کہنے لگا، کیا سوچ رہے ہیں ماجد صاحب جلدی کیجئے، آپکی ماں اور بچے تین دن سے بھوکے ہیں، جیسے ہی آپ دستخط کریں گے میرے ساتھی ان کو کھانا کھلا دیں گے۔
ماجد نے بے جان ہاتھوں سے دستخط کر دیئے، کاش میرے بچے نہ ہوتے اس نے دل میں سوچا اور بے دم ہو کر گر پڑا، آدمی نے کاغذ اٹھایا اور کمرے سے نکل گیا۔
دوسرے دن ماجد بھی اپنے گھر پہنچ گیا، اسکی جیب میں پہلا ماہانہ موجود تھا۔
انقلاب کا بھاری بھرکم پرندہ معاہدے کے ہلکے پھلکے کاغذ کے بوجھ تلے دب کر مر چکا تھا۔