ساری باتیں ایک سی ہیں

اک دن "آخر” آ جاتا ہے
آنکھیں ان دیکھی کو دیکھنے لگتی ہیں
پھولتا اور پچکتا سینہ
سانس کا پتھر کُوٹ کُوٹ کے
تھک جاتا ہے
نقش پگھل جاتے ہیں
چہرے دُھل جاتے ہیں
نیند کی دیوی برف کے رتھ پر آتی ہے
اور سَن سے جیسے
شاخ سے پتا ٹوٹتا ہے
کوئی جہاں سے روٹھتا ہے

اک دن "آخر” آ جاتا ہے
کَھن کَھن کرتی آوازوں سے
روز اک سکہ گرتا ہے
بستر خوابوں سے خالی رہ جاتے ہیں
اور نظریں دور خلا میں گھورتی رہتی ہیں
دل کی پیچیدہ گلیوں سے مرے مرے قدموں سے جیسے
ایک ملال گزرتا ہے
دیواروں سے ٹیک لگا کے
روتا اور بلکتا منظر سو جاتا ہے
دیکھتے دیکھتے
بھری پُری دنیا کی بھیڑ میں
پھر اک چہرہ کھو جاتا ہے

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*