مجید امجد کے محبت کے چند وہ گیت جو وہ لکھ سکے اور نہ لکھ سکے

ساہیوال میں ایک ادبی کانفرنس میں شرکت کے لیے گئی تو پرانے دوستوں سے ملاقات ہوئی ۔ مجید امجد کی وفات کو کئی سال گزر گئے لیکن ساہیوال کے دانشوروں کے لیے ان کی ذات اور اُن کی شاعری ایک مسلسل موجودگی ہے ۔ مجید امجد کی موجودگی کے احساس کے ساتھ جینے نے ساہیوال کے لوگوں کی شخصیت کو وہ رنگ اور رُخ دیا جو انہیں مسلسل علم دوست بنائے ہوئے ہے۔ یہ دانشور دوست علم دوستی کے ساتھ تخلیقی کاوشوں میں بھی مگن رہتے ہیں۔ کچھ لکھتے ہاتھ کچھ سوچتے ذہن ساہیوال میںہمیشہ موجود رہتے ہیں اور موجود رہیں گے ۔
مجید امجد کی روح سا ہیوال کے دانشوروں کی روح اور ذہن کی طاقت ہے ۔اُنہیں تخلیق کا حوصلہ دے رہی ہوتی ہے ۔ اُنہیں دریافت پر اُکسا رہی ہوتی ہے ۔ اُنہیں علم سے محبت سکھا رہی ہوتی ہے ۔ سوچنے کے لیے بے شمار موضوعات دے رہی ہوتی ہے ۔ بہت سارے اَن کہے جذبے محسوس کرنے کا حوصلہ دے رہی ہوتی ہے ۔مجید امجد کی شاعری اہل ساہیوال کے لیے ایک ایسی میراث ہے جس پر سب فخر کر رہے ہوتے ہیں۔ کچھ کو یہ فخر ہے کہ وہ ان دنوں ساہیوال کی فضاﺅں میں سانس لے رہے تھے جب مجید امجد انہی فضاﺅں میں جی رہے تھے ۔ تخلیق کے عروج پر تھے ۔ ساہیوال کے درخت پھول ، بیلیں اور لوگ اُن کے موضوع تھے ۔ علامتیں تھیں استعارے تھے ۔ وہ ذرہ بے نشان کو بھی علامت میں ڈھال سکتے تھے ۔وہ وسیع نیلے آسمان ، تاروں بھری رات اور ڈھلتے بڑھتے چاند کو بھی شکوہ دو عالم کے گنبدوں میں ڈھال سکتے تھے ۔
مجید امجد کی پریم کتھا ہر پڑھنے لکھنے والے کی زبان پر ہے ۔ ہر ایک اپنے انداز سے اور اپنی صلاحیت کے مطابق اس پریم کتھا کو محسوس کرنے کی اور سمجھنے کی کوشش میں ہے ۔ وہ مفتوح قوم کی جرمن لڑکی کیوں امجد صاحب کو یوں بھاگئی کہ انہوں نے محبت کے شاہکار گیت لکھے ۔ مجید امجد کے خلاق ذہن کے ایسے کون سے پہلو ہیں جنہیں ہم شاید دیکھنے سے قاصر ہیں ۔محبوب کا انتخاب کسی بھی شخصیت کے بارے میں بہت کچھ کہہ رہا ہوتا ہے۔ ہم امجد صاحب کے انتخاب کو اس لیے بھی شاید نہیں دیکھ سکے چونکہ پریم ، محبت ، عشق نہ صرف پاکستان میں ممنوع موضوعات ہیں بلکہ قابل احترام بھی نہیںلیکن یہ پریم کتھا خاموشی سے اپنے پر اسرار ڈھنگ سے اہلیان ساہیوال کو وہ ذہنی اور جذباتی رنگ دے رہی ہے جو اُنہیں uniquenersدے رہا ہے ۔ ساہیوال کی ادبی فضا میں غیر معمولی ذہن اور شخصیت پر وان چڑھتی ہے ۔
پنجاب ایسی دھرتی ہے ۔ جہاں حسن وعشق پر بے شمار گیت لکھے گئے اور لکھے جا رہے ہیں۔ عام طور پر ان قصوں کے انجام دردناک اور خوفناک ہوتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ آئندہ نسل کو تنبیہ کی جارہی ہوتی ہے کہ یہ عشق وغیرہ میںنہ پڑنا اور خاموشی سے جو تہذیبی چوکھٹے موجود ہیں انہی میں اسے دل و دماغ سمونے کی کوشش کرنے رہنا or elseوگرنہ ۔۔۔
اس پنجاب میں مجید امجد نے نہ صرف محبت کی بلکہ اپنی محبت کا اظہار بھی اپنی شاعری میں کیا۔ اُن کے محبت کے گیتوں میں بہت سے محبت کے پیغام چھپے ہوئے ہیں۔
اُن کی محبت پنجاب کی کسی بستی گاﺅں یا شہر کی رہنے والی نہ تھی۔ وہ پنجاب کے تمدن کی نمائندہ نہ تھی ۔ وہ یورپ سے آئی تھی۔ یورپ بھی اس وقت کا جب جنگ عظیم دوم کا خاتمہ ہوا تھا ۔ یورپ کی تہذیب کی چند اقدار کی اینٹ سے اینٹ بج چکی تھی۔ وہ اقدار کٹہرے میں کھڑی تاریخ کا verdictسن رہی تھیں۔ شاید موت کی سزا ۔ ان اقدار کو موت کی سزا سنا دی گئی۔ جب یورپین یونین کو وجود میں لایا گیا ۔
یورپین یونین کا ترانہ ode to joyہے جس کی نظم میں دو مصرعے یہ ہیں۔
تم کروڑہا لوگو ،میں تمہیں گلے لگا رہا ہوں
یہ میرا بوسہ ساری دنیا کے لیے ہے
گلے لگانے کی خواہش اور محبت بھرے بوسے جنگوں کی قومیت پرستی کے خلاف متحد ہوچکے ہیں۔اب سے انسان نے یہ تہہ کر لیا ہے کہ سب انسان ایک دوسرے کو گلے لگائیں گے ایک دوسرے کے دُکھ درد کم کرنے کی کوش کریں گے اور زندگیوں میں خوشی لائیں گے ۔ صرف اپنی زندگی میں نہیں ۔ اپنی قوم کی زندگی میں نہیں ،اپنے ہم مذہب لوگوں کی زندگی میں نہیں بلکہ انسان سے محبت کرنے کا مشکل فن سیکھا جائے گا۔ یہ فن بہت ہی مشکل ہے۔ تعصبات سے نکلنا بہت مشکل ہے ۔ نئے دل و دماغ کی تخلیق بہت مشکل ہے ۔یہ کام تقریباً دنیا تیا گنے کے برابر ہے ۔ تعصبات اور نفرتوں سے بھری اس دنیا کو تیاگ کر ایک نئے دل و دماغ کی تلاش اور تخلیق کوئی مجید امجد ہی کرسکتا تھا۔
مجید امجد نے ہر بڑے شاعر کی طرح بتایا ہے بلکہ سکھایا ہے کہ چند مخصوص تہذیبی وثقافتی Responsesکے علاوہ بھی دنیا میں تجربات اور تصورات موجود ہیں جن پر فخر بھی کیا جاسکتا ہے ۔ ان کے بارے میںیہ سوچ کر سوچا جاسکتا ہے کہ اگر ان تجربات اور تصورات کے مطابق ہم اپنی زندگی ڈھال لیں تو کیا زندگی زیادہ خوبصورت آسان اور متحرک ہوسکتی ہے ۔
مجید امجد کے محبت کے گیتوں میں کہیں بھی محبوبہ کو دُلہن بنانے کا شوق نہیں پایا جاتا ۔ کسی رقیب سے بچانے کی کوشش نظر نہیں آتی۔ بس محبت ہے جو شاعر کے دل و دماغ کو تخلیقی طاقت دے گئی اور پڑھنے والے کے دل کو گرما گئی۔ دنیا کے ہر رنگ وبو کو ہر formکو اپنے گھر تو نہیں لایا جاسکتا ۔ یہ بہتے دریا یہ اٹھلاتے سمندر جن میں جانے کیا کچھ چھپا ہوا ہے ۔ میرے آنگن میں نہیں بہہ سکتے ۔ سوال ہے کہ اگر کوئی میرے گھر کے آنگن میں نہیں آسکتا تو کیا وہ خوبصورت نہیں رہا ۔ کیا اس سے محبت نہیںکی جاسکتی ۔ مجید امجد نے پیغام دیا ہے کہ محبت کے امکانات ہر طرف جابجا موجود ہیں ۔ صرف ہمارے دل و ماغ کونئی تربیت کی ضرورت ہے ۔ ایک نئی ترتیب کی ضرورت ہے ۔ ہمیں وہ ذہنی بچپناچھوڑنا ہوگا جس میں محبوب کو لازماً اٹھا کر گھر لانے کی خواہش ہوتی ہے ۔ سب سے بچا کر رکھنے کی کوشش ہوتی ہے ۔ ہر وقت اس کے چھن جانے کے خوف میں مبتلا ہیں۔ نفرت۔ لالچ اور خوف کا تجربہ محبت کے نام پر کر رہے ہیں ۔ بھول جاتے ہیں کہ ہم دراصل تو محبت کرنا چاہتے تھے۔ محبت کے شاندار خوبصورت تجربے سے گزرنا۔ چاہتے تھے ۔ محبت کے نام پر نفرت لالچ خوف اور غصے جیسے عفریت ہمیں گھیر کر بیٹھ گئے اور محبت اِن عفریتوں کے خوف سے بھاگ کر جانے کہاں جاچھپی۔
مجید امجد کے محبت کے گیتوں میں صرف محبت ہی ہے ۔ حسن سے محبت ہے ۔ ذہنی تعصبات اور تضادات سے ماورا ہو کر ایک انسان سے محبت ہے ۔ مجید امجد اُس کے تاریخی پس منظر کو بھی نہیں بھولے ۔ وہ ایک مفتوح قوم سے تھی۔ شکست اور ہزیمت اس کا تجربہ تھا۔ یہ شکست اور ہزیمت کس کس روپ میں اُس کے پاس آئی ہوں گی ۔ گھر گھر سے جنازے اُٹھے۔ گھر گھر میں موت کی خبریں پہنچیں ۔ اُس کے اپنے گھر میں بھی ایک بوڑھی ماں ہی اُس کے انتظار میں ہے ۔ مجید امجد نے جب اُس کی ماں کے بارے میں چند سطریں لکھیں تو پڑھتے ہوئے محسوس ہوا کہ شاعر خود ماں بن گیا ہے ۔ وہ ماں جو شالاط کا انتظار کر رہی ہے ۔ وہ ماں جسے اُس کے سب دُکھوں کا علم اور احساس ہے ۔ اُسے اُس بیٹی کا انتظار ہے جو ہر طرف بکھرے ذہنی اور جذباتی کھنڈروں کے حصار سے بھاگ کر ایک نئی دنیا کی تلاش میں ساہیوال تک آن پہنچی۔
آئیں ذرا مل کر تصور کریں کہ اس نے شاعر کو اپنے دُکھوں کی داستان میں کیا کیا بیان کیا ہوگا۔ پارہِ نان کا ذکر ہے بھوک کے بھیڑیے سے بچنے کے لیے روئے عالم کی خاک چھان آئی ۔دس برس اُس نے یہ خاک چھانی ۔ تن تنہاوہ سب جھیل کرمجید امجد کے ساتھ اپنا دُکھ بانٹ رہی ہے ۔ اسے ساہیوال میں ایک محبت بھرا دل ، ایک روشن دماغ اور دو ہمدرد کان میسر آئے ۔ اس نے لوگوں کے تلخ رویوں کا ذکر کیا ہوگا۔ اس نے شاید اپنی ذلتوں کی داستان سنائی ہوگی۔ انسانوں کے شیطانی چہروں اور جبڑوں کا ذکر کیا ہوگا اس پارہِ ناں کی تلاش میں وہ کن خوفناک ڈراﺅنی راہوں سے گزری ہوگی شاید یہ بھی بتایا ہوگا۔ تبھی تو شاعر کا دل اس کی ماں کا دل بن گیا ۔
میری شالاط اے میری شالاط
اے میں قربان تم آگئیں بیٹی

مجید امجد لکھتے ہیں کہ
بزم دوراں سے کیا ملا اُس کو
روح میں دیس دیس کے موسم
اک نازک بیاض پر میرا نام
کون سمجھے گا اس پہیلی کو
یہ شاندار خوبصورتیاں اُس کو اس لیے ملیں کہ وہ میونخ سے آئی تھی ۔ اور مجید امجد نے ہمیں اس شہر سے یوں متعارف کرایا ہے ۔
قافلے قہقہوں کے اترے ہیں
آج اس قریہ شراب کے لوگ
جن کے رخ پر ہزیمنوں کا عرق
جن کے دل میں جراحتوں کی خراش
اک عزم نشاط جو کے ساتھ
امڈ آئے ہیں مست راہوں پر
بانہیں بانہوں میں ہونٹ ہونٹوں پر

ذرا تصور کیجئے کہ شالاط کس قوم کے کس دور سے تعلق رکھتی تھی ۔ سب کچھ سہنے کے باوجود یہ قوم عزم نشاط جو قائم رکھے ہوئے تھی ۔ بانہیں بانہوںمیں ڈال کر مست راہوں پر چلنے کی طاقت رکھتی تھی ۔ محبت کو زندہ رکھے ہوئے تھی ۔ مستی اور محبت ان دلوں میں جی رہی تھی۔
مجید امجد نے اپنی محبوبہ کو اس کے معاشی اور معاشرتی پس منظر سمیت دیکھا اور محبت کے گیت لکھے ۔
ان کی محبوبہ کی شخصیت ان ہی حالات نے گھڑنی تھی ۔ اس کی شخصیت میں عزم نشاط جو امجد کو مسحور کر گیا ۔ امجد صاحب تاریخ میں ان لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوگئے جو خوشی کی پُر امید تلاش کو اپنی طاقت بنا کر زندہ رہنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ خوشی کی تلاش نے انسان سے کیا کچھ کروایا، اس کی گواہی فن و ادب کی تاریخ دے گی۔ فلسفے کی تاریخ دے گی ۔ سیاست کی تاریخ دے گی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی تاریخ دے گی۔ جرمن قوم کی تاریخ دے گی۔ شاید شاعر یہ بھی چاہ رہا ہے کہ اس کی محبت کے بارے میں سوچتے ہوئے صرف دو افراد ہی کے بارے میں نہ سوچا جائے بلکہ اپنے تصور کی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے اُن کی محبوبہ کے ماضی حال اور مستقبل کو اس کی قوم کے ماضی حال اور مستقبل سے ملا کر دیکھا جائے۔ شاید تب ہم تھوڑا سا سمجھ سکیں۔
اک نازک بیاض پر میرا نام
کون سمجھے گا اس پہیلی کو؟

یہ مصرعہ سوالیہ نشاں پر ختم ہوا ۔ بہت سے سوال چھوڑ گیا جن کے جواب ہمیں تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ چونکہ ہر رشتے میں دو کرداروں کے علاوہ تیسرا کردار تاریخ ہوتا ہے ۔ ہماری ذاتی زندگی کی تاریخ ، جس سماج میں جنم لیا اس کی تاریخ اور وہ تاریخی لمحہ جس میں ہم موجود ہیں۔ یہ تاریخی لمحہ جو ہم سے وہ فیصلے کرواتا ہے جو ہم کر رہے ہیں ۔ وہ فیصلے جو ہم شاید تاریخ کے کسی اور لمحے میں نہ کرتے۔
مجید امجد کے دل و دماغ نے اپنا محبت کا تجربہ بیان کیا ہے تو وہ کوئی عام تجربہ نہیں ہے ۔ ان کے اس تجربے کو سمجھنے کے لیے ہمیں ان کے معاشرتی پس منظر کا بھی ادراک ہونا چاہیے ۔
برصغیر کی تہذیب میں پلا بڑھا ایک شاعر کا دل و دماغ جو روحانیت سے آگاہ ہے تیاگ سے آگاہ ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ ہم عصر سماجی تہذیب اُس کے ذوق سے مطابقت نہیں رکھتی ۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ یہ سماجی ترتیب کسی پتھر پر لکھی تحریر نہیں ۔اسی لیے اُنہوں نے اپنی محبت کے تجربے کو اس سماجی ترتیب کے احکامات سے آزاد رکھا اور ایک ننھے پودے کی طرح اس کی پرورش کی ۔ یہاں تک کہ وہ پودا رنگا رنگ خوشبو دار پھولوں سے بھر گیا ۔ اور ہمیں شاندار محبت کے گیتوں سے سرشار کر گیا۔
مجید امجد کی نظم ”میونخ ” اور “ کو ئٹہ تک “کو اگر جنگ کے پس منظر میں لکھی نظموں کے طور پر کوئی فلم ڈائریکٹر پڑھ لے تو ایک شاندار فلم بن سکتی ہے ۔ جنگ کیسے انسان کے محبت کے گیتوں کو آہوں میں بدل رہی ہے ۔ جہاں انسان ڈھونڈ رہے ہیں ایسے معاشرے کو جہاں محبت کرنا آسان ہو۔امجد صاحب ان تمام منصفین کے ساتھ ماتم کناں ہیں کہ جنہوں نے اس بات پر مرثیے لکھے کہ محبت جیسا شاندار تجربہ انسان کے لیے ناممکن بنا دیا گیا ۔ ایسا معاشرہ تیار ہوگیا ہے جہاں انسان دشمن رسم و رواج خوب موٹے تازے ہورہے ہیں۔ اور دھان پان انسان صرف اپنے دل و دماغ کی طاقت پر اپنے آپ کو زندہ رکھے ہوئے ہیں ۔ اپنی انسانیت کو بچارہا ہے ۔ وہ انسانیت جو صرف حسن کی ترتیب پر خوش ہو رہی ہے ۔ حسن کی نئی ترتیبیں بنا رہی ہے ۔ فطرت نے اگر مٹی بنائی ہے تو ہماری انسانیت اس میں سے چراغ کی ترتیب نکال رہی ہے ۔ پھر چراغ کی لو میںپینٹنگ کے شاہکار بنا رہی ہے ۔ محبوب کے چہرے پر روشنی کے سایوں کو دیکھ کر محبت کے گیت لکھ رہی ہے ۔
مگر ایسا نہ ہوا۔ انسان کے دشمن رسم و رواج اور اقدار کہ جن کی آخری اور بدترین شکل جنگ ہے وہ کسی خوفناک اژدر کی طرح بربادی کا پیغام لے آتی ہے ۔
نظم میونخ میںامجد صاحب لکھتے ہیں کہ شالاط کو روئے عالم کی خاک چھاننے کے بعد پارہ نان کے علاوہ جو حاصل ہوا وہ ہے ۔
سیپ کی چوڑیاں ملایا سے
کنچلی چین کے اک اژدر کی
ٹھیکری اک موہنجودارو کی

چین اور برصغیر پاک وہند کی تہذیبیں کہ جن کے بارے میں مورخ لکھتے ہیں کہ وہ پانچ ہزار سال سے ایک تسلسل میں چل رہی ہےں ۔ چونکہ یہ تہذیبیں اپنے اندر اتنی لچک رکھتی ہیں کہ نئے خیالات کی طاقت کو اپنا حصہ بنا لیتی ہیں۔ ان تہذیبوں میں کچھ تباہ کن عادتوں کو ترک کرنے کا حوصلہ بھی ہے ۔ کچھ نیا اپنا کر کچھ پرانا ترک کر کے یہ تہذیبیں رواں دواں ہیں۔
یہاں سے شالاط کو موہنجوداڑو کی ٹھیکری کے علاوہ کیا ملا ۔ہمیں بھولنا نہیں چاہیے کہ مجید امجد کا دل و دماغ 1947کا صدمہ سہہ کر دوبارہ جینے کی کوشش کر رہے تھے ۔ اسی کوشش کا ذکر انہوں نے یوںکیا ہے ۔
اک نازک بیاض پر میرا نام
کون سمجھے گا اُس پہلی کو

اس پہیلی کو سمجھنے کی کوشش ہم سب کو کرنی چاہیے ۔ تب ہی ہم سمجھ سکیں گے کہ مجید امجد کی روح کے اندر نشاط جُو عزم کتنا بھر پور تھا۔ امجد صاحب اس قریہ کے لوگوں کے ”عزم نشاط جو “ کو خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں او راُن کے ساتھ اپنے آپ کو بھی چونکہ
فاصلوں کی کمندسے آزاد
میرا دل ہے کہ شہر میونخ ہے
چار سو جس طرف کوئی دیکھے
برف گرتی ہے ، ساز بجتے ہیں

برف کا گرنا ، ہو کا عالم جب پرندے خاموش ہوجاتے ہیں ۔درختوں کی ٹہنیاں اپنا آخری پتہ بھی سوئے عدم بھیج چکی ہوتی ہیں۔ چار سو کالی خالی ٹہنیوں والے درخت کسیghost town کا نقشہ پیش کر رہے ہیں وہاں انسان حسن و عشق کی تخلیق کے ساتھ زندہ رہنے کی کوشش کر رہا ہے ۔
”برف گرتی ہے ۔ ساز بجتے ہیں “
گرتی برف میں اگر ساز نہ بجائے گئے تو پھر بقول ہمارے ایک دوست کے :
”ہماری موت ہوچکی ہے اور ہماری روحوں کو سزا کے طور پر ہمارے جسموں میں قید کر دیا گیا “۔
یہ محبت جو امجد صاحب کے گیتوں میں منظوم ہوئی اور ہمارے دلوں کو آج تک مسحور کر رہی ہے اپنے اندر ایک طاقتور احساس زیاں لیے ہوئے ہے۔ ہمیں دکھ ہے کہ ایسا خوبصورت رشتہ جس نے یہ گیت لکھوائے اس کو اگر تاریخ کی طاقتیں ضائع نہ کردیتیں تو کیسا ہوتا ۔کردار تو دونوں موجود تھے ۔ ایسا رشتہ وجود میں آیا کہ امجد صاحب کی باقی زندگی ذہنی اور جذباتی طور پر اسی رشتے کو ڈھونڈ نے میں لگ پڑی۔ ”کوئٹہ تک “کی نظم اپنے اندر عجیب سے دُکھ لیے ہوئے ہے ۔ رشتہ بھی موجود ہے ۔ کردار بھی موجود ہیں اور پھر بھی یہ رشتہ کسی سیال کی طرح ہاتھوں سے بہہ گیا۔ پھسل گیا ۔ایسا پھسلاکہ ”ڈھونڈ تا پھرا“ مصر عہ بن گیا ۔ یہ تلاش گم شدہ اپنے اندر زیاں کی کُوک لیے ہوئے کوئل کتھا بن گئی ہے ۔ مجید امجد ہمیں suggestکر رہے ہیں کہ انسان کی محبت کی طاقت اسے بہت ساری نفرتوں اور تعصبات سے ماورا لے جاتی ہے لیکن یہ دنیا ابھی محبت کے جذبے اور اظہار کے لیے محفوط نہیں ہے ۔
مجید امجد کے اس رشتے میں ان گنت امکانات تھے ۔
شاید ہم امجد صاحب کے گھر جاتے ۔بیل بجاتے اور ایک شاندار خاتون ہمیں خوش آمدید کہتی ہماری میزبان ہوتی ۔ ٹوٹی پھوٹی اردو میں مجید امجد کا کوئی شعر یہ کہہ کر سناتی کہ اُسے یہ شعر بہت پسند ہے ۔ شاید یہ بھی بتاتی کہ اس کا جرمن ذہن اورپرکھنے والی آنکھ اس شعر سے کیوں لطف لے رہے ہیں ۔ہمیں آپ بیتی سناتی ۔ جگ بیتی سناتی ۔امجد صاحب اس کی گفتگو اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ ہمہ تن گوش سن رہے ہوتے ۔ جانے وہ اس وقت کتنی نظمیں اور غزلیں لکھتے ۔ یہی امکان ایک تکلیف دہ احساسِ زیاں بن جاتا ہے کہ وہ نظمیں اور غزلیں نہ لکھی گئیں۔ امجد صاحب کے ذہن کا وہ حصہ تومتحرک ہو ہی نہ ہو سکا جو شاید جیون ساتھی ہوتی تو کیا کیا تخلیق کرتا۔ کتنے رنگوں کے دھاگے لگا کر پھول کاڑھتا اور ہم بہار میں کھلے ان پھولوں کو دیکھ کر خالق کو داد دیے بغیرنہ رہ سکتے۔ اُن کے ہاتھوں کو ان کی انگلیوں کو مسحور دیکھتے۔وہ concrete togethernessکے شاہکار ہوتے ۔مستقبل کے شاعر اس یکانگت کے بارے میں سوچ رہے ہوتے ۔
اس یکانگت کے امکانات کے بارے میں سوچ رہے ہوتے ۔ نوحہ گری سے آزاد ذہن عورت مرد کے بنیادی اور خوبصورت رشتے کے بارے میں تصور آرائی کرتے ۔مصوری کرتے۔
لیکن ہم سب نوحہ گربن گئے ہیں نوحہ لکھنے سے دل و دماغ رہائی پائیں تو نئے رشتوں کا تصور ممکن ہو۔ علم کی ہر شاخ سے مدد لی جائے کہ رشتوں کو خوب سے خوب تر کیسے کیا جائے ۔ رشتے خوبصورت ہوں گے تو زندگی بھی سہانی اور خوبصورت ہوگی ۔ہمیں انسانی رشتوں کے امکانات اور تنوع کو دریافت کرنے کی ضرورت ہے ۔ نئے رشتوں کو ممکن بنانے کی ضرورت ہے ۔نئے علم اور نئی سماجی اور معاشی صورت حال نے نئے رشتوں کی راہیں کھولیں۔ہمیں ان راہوں پر چلنے کی ہمت کرنی پڑے گی ۔ رشتوں کے نئے امکانات جنہیں ہمارے دل محسوس کر رہے ہیں اُن کے بارے میں سوچنا ہوگا۔طرزِ زندگی کا حصہ بنانا ہوگا۔ فی الحال ہم روایت کے نام پر اُن سے انکار کر رہے ہیں۔ ہمت سے ہمیں اس انکار کی گرفت کو ڈھیلا کرنا پڑے گا۔ رشتوں کے نئے آفاق نئی جہتیں ہمارے لیے منتظر ہیں۔
مجھے اپنے ایک دانشور دوست کے چہرے پر چھائی وہ حیرت نہیں بھولتی جب میں نے کہا کہ ناول کی صنف کی کوئی روایت نہیں ہے یا ناول ایسی صنف ہے جسے روایت نے پا بند سلا سل نہیں کیا ہوا۔ اگر ہم ناول لکھنے کے طریقے بھی پرکھنا شروع کریں تو ہمیں یہ دیکھ کر حیرت ہوگی کہ ہر بڑے ناول نے اپنی formخود تخلیق کی ۔ چونکہ ناولسٹ کے ذہن نے روایت کو اجازت بھی نہیں دی کہ اُس کی تخلیقی اڑان کو روک سکے ۔ بڑے ناولسٹ نے کچھ لکھنا جانا ، کچھ سوچنا چاہا کہنا چاہا اور ایک بڑے ناول کا جنم ہوگیا ۔ جب ہم روایت کے چنگل سے نکلیں گے تب ہی ہم نئے structureتخلیق کریں گے ۔ تب ہی ہم تخلیقی عمل کو ممکن بنائیں گے ۔ ذہن کے سوچنے کی کوئی حد نہیں ۔ احساسات کی کوئی حد نہیں ۔ جذبات کی کوئی حد نہیں۔ انسان اور اس کا دل و دماغ فطرت کی شاندار تخلیق ہے ۔ انساں بیک وقت کئی ideas کو تخلیق کرسکتا ہے ۔ پرانے تصورات سے نئی جہتیںنکال سکتا ہے ۔
ہمیں اپنے ذہن کی ہتھکڑیاں اور بیڑیاں کھولنی ہوں گی ۔ تب ہی ہم مجید امجد جیسے شاعر کو سمجھ سکیں گے ۔ تب ہی ہم یہ سمجھ سکیں گے کہ وہ لکھ کیا رہے تھے اور لکھے لفظوں میں کیا اَن کہا چھوڑ گئے ہیں۔ یہ اَن کہا ہم نے دریافت کرنا ہے ۔
امجد صاحب کے دیوان کو اٹھائیں تو نئے نئے رشتوں کی انگنت اشکال نظر آتی ہیں ۔ وہ رشتے جو انہوں نے محسوس کیے اور اس شدت سے محسوس کیے کہ وہ شاعری بن گئے ۔” نو نمبر کی بس “سے انکا رشتہ عجیب ہے ۔ بھکارن میں تو رشتوں کی ایسی صورت بنا گئے کہ ہم چاہیں تو کئی صفحے اس رشتے کی جہتیں دریافت کرتے کرتے لکھ جائیں ۔ مزید لکھنے کی گنجائش پھر بھی ہو۔
مجید امجد نے ہمیں یہ بھی سکھانے کی کوشش کی ہے کہ محبت کا تعلق قائم کریں ۔محبت کو Respondکرنے کا سلیقہ سیکھیں ۔چونکہ محبت کا تعلق خود آگہی کے عمل میں مددگار ہے ۔خود آگہی کے لیے یہ اہم ہے کہ کبھی کبھی ہم یہ بھی سوچیں کہ اس جیون میں ہم نے کتنے ایسے تعلق بھرپور طریقے سے محسوس کیے جو ہماری یاداشت کا حصہ ہیں ۔ ہمارے تخیل کا حصہ ہیں ہمارے لیے تحرک ہیں ۔ ہمارے حواس خمسہ اور دل و دماغ کی تخلیقی قوت کے مستقبل کا حصہ ہیں۔
محبت ایک ایسا موضوع ہے جس پر جتنا لکھا گیا کم ہی سمجھا گیا ۔ تشنگی باقی رہی۔ چونکہ جتنے انسان ہیں اُتنے ہی محبت کے تجربے ہیں ۔ ہر محبت کا تجربہ اپنی انفرادی گزرگاہ بنا رہا ہے ۔
امجد صاحب کا محبت کا تجربہ مجھے اس تجربے کے نزدیک محسوس ہوتا ہے جب ہم کسی شاعر یا ادیب یا کسی اور فن کار کی محبت میں مبتلا ہوتے ہیں ۔ اسے اپنی روح میں سمو لیتے ہیں ۔ وہ ہمارے گھر میں ایک جیتی جاگتی موجودگی ہے ۔ ہمارا ہم قدم ہے ۔ ہمارے ہم راہ ہے ۔
مجید امجد کی محبت بھی کچھ ایسی ہی تھی ۔ ایسی محبت جس کا مستقبل شادی نہیں ہے ۔ ایسی محبت جہاں حسن کو سراہنے اور چاہنے کی کوشش ہے۔ ایسی محبت جس نے رشتوں کی سب تعریفوں کو توڑ کر ایک نئی تعریف لکھی۔ ایک نئی تاریخ رقم کی ۔ ہمیں احساس کی ایک نئی راہ دکھائی۔ شاید انسان کے global villageکے visionکی تصدیق کی ۔ احساسات اور جذبات میں انسان کی رفاقت قائم رہنے کی بشارت دی۔ انسان کہیں کابھی ہو کسی تاریخی پس منظر سے متعلق ہو دوسرے انسان سے محبت کا رشتہ قائم کر سکنے کی صلاحیت رکھ سکتا ہے ۔ انسان کا تاریخ جغرافیہ مختلف ہو سکتا ہے لیکن محبت کرنے کی طاقت ہٹ دھرم ہے ۔ضدی ہے ، انمٹ ہے ۔ انتھک ہے ۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*