حرامزادہ

 

مشانے خواب میں دیکھا کہ اس کا داد اباغ میں سے ایک چھڑ ی کاٹ کر اسے گھماتا ہوا غصے سے لال پیلا اُس کی طرف بڑھتا چلا آرہا ہے ۔

” ادھر آﺅ ، اد ھر آﺅ، میخائلو فومچ“۔

دادا نے انتہائی سخت گیر اور روکھے انداز سے کہا ” تم نے تو اپنی طرف سے چھپنے کی بہت کوشش کی “۔

”لیکن کس لیے دادا جان؟“

”تم نے مرغی کے انڈے چوری کیے ۔ اور وہ جھولا جھلانے والے کو دیے۔ تاکہ تم جھولا جھول سکو“۔

” لیکن دادا “۔ مشانے مایوسی سے احتجاج کیا“۔ میں تو پوری گرمیوں میں جھولے کے قریب تک نہیں گیا“۔

دادا نے غصے سے داڑھی پر ہاتھ پھیرا اور پاﺅں زمین پر پٹخ کر کہنے لگا۔

”ادھر آﺅنا مراد اور اپنی پتلون اتارو“۔

نیند میں مشا کی چیخ نکل گئی۔ اور وہ جاگ گیا ۔ اس کا دل ایسے دھڑک رہا تھا جیسے واقعی کسی نے اسے ڈنڈے سے پیٹا ہو۔ اس نے ایک آنکھ کھولی، صرف اتنی کہ اپنے آپ کو دیکھ سکے۔ روشنی صبح صادق کی اطلاع دے رہی تھی۔ باہر سے کچھ لوگوں کی باتوں کی آوازیں آرہی تھیں۔

مشانے کچھ سننے کی غرض سے اپنا سراوپر کو اٹھایا ۔تو باہر سے اسے اپنی ماں کی آواز سنائی دی۔ جو کہ تیز، جذباتی او رہنسی جیسی ملی جلی کیفیات سے بالکل رندھ گئی تھی۔ اور دادا جان برابر کھانسے جارہا تھا۔ اس کے علاوہ ایک اور شخص بھی باتوں میں مصروف سنائی دیا۔ جس کی آواز بڑی گرجدار تھی۔

مشانے نیند سے بوجھل اپنی آنکھیں ملیں۔ باہر کا داروازہ یک دم کھلا۔ پھر بند ہوگیا ۔ دادا اپنی عینک اوپر نیچے کرتا تیزی سے کمرے میں چل رہا تھا۔ ایک لمحے کے لیے مشانے سوچا کہ پادری چرچ کے قوالوں کے ساتھ آیا ہوگا۔ کیونکہ جب بھی وہ ایسٹر کے موقع پر آتے ہیں تو دادا اسی طرح ہلچل میں آجاتا ہے ۔ لیکن جو شخص داداکے پیچھے پیچھے کمرے میں داخل ہوا۔ وہ پادری نہ تھا ، بلکہ ایک اجنبی تھا۔ جو کہ شکل سے ایک عظیم الجثہ سپاہی لگتا تھا۔ اس نے کالے رنگ کا لمبا کوٹ اور ربن والی ٹوپی پہن رکھی تھی۔ ماں اس کے گلے میں با نہیں ڈالے خوشی سے پاگل ہوئی جارہی تھی۔ آدمی نے ماں کو کندھے سے جھٹک کر پوچھا“۔ ”میری اولاد کہاں ہے ؟“ مشاخوف زدہ ہوگیا۔ اور خود کو کمبل کے نیچے چھپالیا۔

”جنی یوشکا“۔ ماں نے آواز دی ۔” جاگو بیٹا ، یہ تمہارا ابو ہے ، جو جنگ سے آج ہی واپس آیا ہے “۔

اور اِس سے پہلے کہ مشا کچھ سمجھ پاتا، سپاہی نے اسے بستر سے باہر نکالا اور تقریباً چھت تک اچھالا اور دوبارہ پکڑ کر گلے سے لگالیا۔ اس کے بعد مشاکو اپنے ابو کی سرخ مونچھیں اپنے ہونٹوں ، گالوں اور آنکھوں کو چبھتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ اُس کی مونچھیں گیلی تھیں۔ اور ان کا ذائقہ بھی نمکین تھا۔ مشاخود کو چھڑانے کے لیے بہت تڑپا مگر بے سود۔

”کتنا عمدہ بالشویک ملا ہے مجھ کو “۔ ابو غرایا۔

”لڑکا جلد اپنے ابو سے بھی آگے نکل جائے گا۔ہاہاہا!“۔

وہ مشا کے ساتھ کھیلتا ہی رہا ۔ ایک ساعت کے لیے وہ اسے ہتھیلی پر رکھ کر چھوٹے بچوں کی طرح گھماتا اور دوسرے لمحے اسے اوپر اچھال کر پھر پکڑ لیتا ۔

مشاسے جتنا ہوسکا ، برداشت کیا، لیکن آخر کار تنگ آکراس نے اپنا چہرہ سخت گیر بنالیا۔ دادا کی طرح اپنی بھنویں سیکٹر لیں ، اور دونوں ہاتھوں سے اپنے باپ کی مونچھیں مضبوطی سے پکڑ لیں۔

”مجھے نیچے اتاریں ، ابو“۔

”او نہیں ۔میں نہیں اتاروں گا“۔

” مجھے نیچے اتاردیں ، میں اب بچہ نہیں کہ جس سے کھیلا جائے “۔

ابو نیچے بیٹھ گیا ۔ اور مشاکو گود میں بٹھالیا۔

” اچھا تو بوڑھے لڑکے تمہاری عمر کیا ہے ؟“۔ ابو نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

”آٹھویں سال کا ہوں“۔ مشانے بیزاری سے جواب دیا۔

”خوب ، اچھا بیٹے پچھلے سے پچھلے سال تمہیں یاد ہے کہ جب میں نے تمہارے لیے ایک کشتی بنائی تھی اور کس طرح اُسے تالاب میں چلایا تھا؟“۔

”مجھے یاد آیا“ ۔ مشا چلایا۔ اور اس کی بانہیں خودبخود اپنے باپ کی گردن کے گرد حائل ہوگئیں۔

اور یہیں سے ان کا مذاق شروع ہوگیا۔ مشاکو اپنے کندھوں پر سوار کیے وہ بالکل اصلی گھوڑے کی طرح ہنہناتا اور دولتیاں مارتا ہوا کمرے میں چاروں طرف اچھلنے لگا۔ یہ سب کچھ اتنا دلچسپ تھا کہ مشا کے لیے سانس لینا مشکل ہورہاتھا۔ صرف ماں اس کا آستین پکڑے ہوئے کھڑی تھی۔

”مشا “۔ وہ چلائی۔” جاﺅ صحن میں کھیلو ، ابھی اور اسی وقت بھاگو، ننھے شیطان“۔

پھر وہ والد پہ بھی غرائی۔

”فوما۔ لڑکے کو نیچے اتارو۔ اسے نیچے اتارو۔ میں اپنے محبوب سے جی بھر کر باتیں کرنا چاہتی ہوں۔ دو طویل سالوں تک ہم ایک دوسرے سے جدا رہے ۔ اب تم بچے سے کھیل کر اپنا وقت گزار رہے ہو!“۔

”بھاگو اور کچھ دیر کے لیے بچوں کے ساتھ جاکر کھیلو“ ۔اس نے کہا۔ ” اس کے بعد تمہیں بتاﺅں گا کہ تمہارے لیے کیا لایا ہوں“۔

جب مشا باہر سے دروازہ بند کرچکا تو اسے پہلا خیال یہی آیا کہ یہیں دروازے پر رک جائے ۔ اور چپکے سے سنتا رہے کہ بڑے لوگ آپس میں کیا باتیں کرتے ہیں؟ ۔لیکن پھر اسے خیال آیا کہ گاﺅں کے کسی بچے کو پتہ نہیں کہ اس کا ابو واپس آیا ہے ۔ تب وہ سیدھا صحن سے ہوتا ہوا آلو کے پودوں کو پھلانگتا سید ھاتالاب تک پہنچ گیا۔

وہ کچھ دیر تک بدبو دار گندے پانی میں کھیلتا رہا ۔ وہ تھوڑی ہی دیر میںکیچڑ میں لت پت ہوگیا۔ بعد ازاں ،جب وہ تالاب میں آخری غوطہ لگا چکا تب اُس نے پتلون پہننے کی غرض سے پہلے اپنا ایک پاﺅں اور پھر دوسرا پتلون میں ڈالا۔ ابھی وہ گھر جانے کا سوچ ہی رہا تھا کہ اسے وٹایا نظر آگیا۔وٹایا پادری کا بیٹا تھا ۔

”مشاجاﺅ مت ، آﺅ ، پانی میں ایک دو غوطے اور لگالیں، اس کے بعد کھیلنے کے لیے میرے گھر چلیں گے ۔ امی نے تمہیں گھر آنے کی اجازت دے دی ہے “۔

اپنے بائیں ہاتھ سے مشا نے پتلون کو پکڑ رکھا۔ اور دائیں ہاتھ سے اس کے فیتے کندھوں پر چڑھانے لگا۔

”میں تمہارے ساتھ نہیں کھیلنا چاہتا “۔ اس نے کہا ” تمہارے کانوں سے بد بو آتی ہے “۔

” یہ تو ٹی بی ہے“ ۔ وٹایا نے اپنی وہ خوبصورت قمیص جس پر کافی کشیدہ کاری کی گئی تھی، اتارتے ہوئے اور حسد سے اپنی آنکھیں میچتے ہوئے کہا۔

”اور تم کزاخ نہیں ہو‘ تم اپنی ماں کی وہ ناجائز اولاد ہو جسے لوگ حرامی کہتے ہیں“۔

”تمہیں بہت کچھ معلوم ہے !“۔

”میں نے اپنی ماں سے باورچی کو اکثریہ کہتے ہوئے سنا ہے “۔

مشا کا ننگا انگوٹھا ریت میں دھنس گیا۔

” تمہاری ماں جھوٹی ہے “۔ اس نے اپنے اونچے قد کی بلندی سے وٹایا کو دیکھتے ہوئے اعلان کیا ” اور بہر حال میرا ابو جنگ میں لڑچکا ہے “ اور تمہارا باپ دوسروں کا خون چوستا ہے ، دوسرے لوگوں کی روٹیاں توڑتاہے“۔

”اور تم ایک حرامی ہو“۔ پادری کے بیٹے نے اپنے آنسو روکتے ہوئے غصے سے کہا۔

مشانے شرمندگی اور غصے سے اپنی گردن نیچے جھکالی اور ایک بڑا پتھر اٹھالیا ۔ لیکن پادری کے بیٹے نے آنسو قابو میں رکھتے ہوئے اس کے سامنے مسکرا نا شروع کردیا۔

” اب پاگل مت بنو مشا“۔ اس نے کہنا شروع کیا”لڑائی میں کچھ نہیں رکھا۔ اگر تم چاہو تو میں تمہیں اپنا خنجر دے سکتا ہوں جو کہ میں نے ایک لوہے کے ٹکڑے سے بنایا ہے “۔

مشا کی آنکھیں ایک دم چمک اٹھیں ۔ اس نے پتھر نیچے پھینک دیا۔ لیکن اسی لمحے اُسے اپنا ابو یاد آگیا اور اس نے حقارت سے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔” میرے ابو ایک خنجر جنگ سے لائے ہیں وہ تمہارے والے سے لاکھ درجہ بہتر ہے “۔

”تم جھوٹ بول رہے ہو“ ۔وٹایا نے قائل نہ ہوتے ہوئے کہا

”جھوٹ بولو تم خود ! ۔میں جب کہہ رہا ہوں کہ وہ لائے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ لائے ہیں۔ وہ تو ایک اچھی بندوق بھی لائے ہیں“۔

”اونہہ ! تم بہت امیر ہوگئے ہو!“ ۔وٹایا نے حسد سے ایک طرف کو جھکتے ہوئے اپنے نتھنے پھلاتے ہوئے کہا۔

” اور ان کے پاس ربن والی ٹوپی بھی ہے ۔ اور ربن پر سونے کے الفاظ لکھے ہیں جس طرح تمہاری کتابوں پر لکھے ہیں“۔

اس جواب نے وٹایا کو کچھ دیر سوچنے پر مجبور کردیا کہ اُسے کیا جواب دے ۔ اُس کی پیشانی پر شکنیں پڑگئیں۔ اور اُس نے بے خیالی میں پیٹ کو کھجلانا شروع کیا۔

”میرے ابو کچھ دنوں میں بشپ بننے والے ہیں“۔ اس نے بالآخر کہا۔” اور تمہارے ابو زیادہ سے زیادہ چرواہابن سکیں گے !“

لیکن مشاوہاں کھڑے کھڑے ،اور دلائل دے دے کر تھک چکا تھا ۔ وہ مڑا اور گھر کی طرف چل دیا۔

”مشا ! مشا“ ۔پادری کے بیٹے نے اسے آواز دی ۔”آﺅ میں تمہیں ایک بات بتاﺅں“۔

”وہیں سے بتادو“۔

” نہیں نہیں قریب آﺅ“

مشانزدیک آیا، تعجب سے اس کی آنکھیں سکڑی ہوئی تھی۔

”ہاں بولو، کیا بات ہے ؟“۔

اپنی ٹیڑھی ٹانگوں سے ریت پر ناچتے ہوئے پادری کے بیٹے نے نخرے سے مسکراتے ہوئے کہا“ تمہارا ابو ایک کمی (کمیونسٹ) ہے ۔ اور جس وقت تم مرو گے اور تمہاری روح آسمان تک جائے گی تو خدا تم سے کہے گا، تمہارا باپ ایک ”کمیونسٹ “ تھا۔ اس لیے تمہیں سیدھا دوزخ کی طرف جانا ہے ، اور وہاں دوزخ میں شیطان تمہیں اپنی دیگ میں بھون دے گا“۔

”اچھا ، وہ تمہیں بھی بھون دے گا“۔

”میرا ابو ایک پادری ہے ۔ آہ تم ایک جاہل اور بے وقوف ہو ، تم سے بات کرنا فضول ہے “۔

اس بات سے مشاخوفزدہ ہو گیا۔ وہ خاموشی سے مڑا اور گھر کی جانب دوڑ ا۔ باڑھ کے قریب پہنچ کر اس نے پیچھے مڑ کے دیکھا۔ اور پادری کے بیٹے کی طرف مکا لہراتے ہوئے کہا۔

”میں جا کر اپنے دادا سے پوچھوں گا۔ اگر تم نے جھوٹ بولا تھا۔ تو آج کے بعد ہمارے صحن میں آنے کی جرات نہ کرنا“۔

وہ جنگلے کو پار کرتا ہوا گھر کی طرف دوڑا۔ وہ اُس وقت اُس بڑے دیگچے کے بارے میں سوچ رہا تھا اور تصور میں خود کو اُس میں بھنتا ہوا دیکھ رہا تھا۔ اور اس کے چاروں طرف گرمی کی شدت اور کھولتے ہوئے نمکین پانی کے جھاگ اور بلبلے تھے۔ اس کے رونگھٹے کھڑے ہوگئے ۔ اسے جلدی دادا سے مل کر سب کچھ پوچھ لینا چاہیے ۔

اسی لمحے اس کی نظرسوئر پر پڑگئی جس نے اپنا سردروازے میں پھنسارکھا تھا۔ اور جسم کا باقی حصہ باہر تھا۔ وہ اپنی پوری قوت کے ساتھ اندر کو گھسنے کی کوشش کررہا تھا ۔ اپنی چھوٹی سی دم کو زور زور سے ہلا رہا تھا ۔ اور مایوسی سے چیخ رہا تھا ۔ مشانے اس کی مدد کے لیے بھاگنا شروع کردیا۔ لیکن جب اس نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی تو زور پڑنے کی وجہ سے سوئرنے خرخراہٹ سے سانس لینا شروع کر دیا۔ مشاجھٹ سے سﺅر کی پشت پر سوار ہوگیا۔ تب سﺅر نے آخری زور لگا کر دروازہ توڑ دیا۔ اور صحن میں جتنی تیزی سے ہوسکا بھاگنا شروع کردیا۔ مشا نے اپنے پاﺅں اس کی پشت پر مضبوط کر لیے ۔ سوئر اسے اتنی تیزی سے لے اڑا کہ اس کے بال ہوا میں اڑنے لگے۔ گھر کے قریب اس نے نیچے چھلانگ لگائی اور جب اس نے ارد گرد دیکھا تو وہاں دادا کو اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے پایا۔

”ادھر آﺅ جوان“۔

اُسے معلوم نہ تھا کہ دادا کیا چاہتا ہے ؟۔ اس کی نظروں کے سامنے تو بس دوزخ میں شیطان کا دیگ گھوم رہا تھا۔ وہ سیدھا دادا کے پاس پہنچا۔

”دادا ، دادا، قیامت میں شیطان ہوتے ہیں؟“۔

”میں تمہیں دکھاتاہوں کہ شیطان کہاں ہوتے ہیں۔ ذرا صبر کرو۔تمہیں ٹھیک ٹھاک چابک کی ضرورت ہے بدمعاش ۔ تم نے سوئرکو گھوڑا سمجھ رکھا ہے ؟“۔

دادا نے مشاکو آستین سے مضبوط پکڑ لیا اس طرح کہ وہ بھاگ نہ سکتا تھا۔ اور گھر میںماں کو آواز دینے لگا۔”یہاں آﺅ۔ آکر اپنے لاڈلے کو دیکھو“۔

ماں باہر آئی۔

”اب کیا کیااس نے ؟“۔

” یہ کیا کر رہا تھا ؟ ۔یہ تو اب تک سوئر پر سواری کر کے گردوغبار اڑارہا تھا“۔

”اچھا؟ ۔وہ سوئرجو بچہ دینے والی ہے ؟“۔

ماں نے دہشت سے اپنا ہاتھ اٹھایا۔

اس سے پہلے کہ مشا اپنی صفائی میں کچھ کہتا ، دادا نے اپنا بیلٹ اتار کر ایک ہاتھ سے اپنا پتلون پکڑے رکھا۔ اور دوسرے ہاتھ سے مشا کو اپنے گھٹنوں میں دبالیا۔ اس نے مشا کو خوب پیٹا۔ وہ مشا کو پیٹتے ہوئے دہراتا رہا ۔” دوبارہ کبھی سوئر پر سوار ی نہیں کرو گے ، سوئر پر سواری نہیں کروگے“‘۔

میشا نے چیخنا شروع کردیا۔ لیکن دادا نے اُسے یہ کہہ کر خاموش کرادیا۔

”ننھے چھو کرے! اپنے باپ کے لیے تمہاری محبت یہی ہے کیا ؟۔وہ ابھی تھکا ہارا گھر آیا ہے ۔ اور سونے کی کوشش کررہا ہے ۔ اور تم اتنی زور سے چیخ رہے ہو!“۔

اس لیے مشا کو خاموش ہونا پڑا۔ اس نے دادا کو لات مارنا چاہی لیکن وہ اتنی دور تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔ تب ماں نے اسے اٹھالیا اور گھسیٹتی ہوئی اندر لے گئی۔

”خاموشی سے بیٹھو ، شیطان کی اولاد ! ۔اگر میرا ہاتھ اٹھ گیا تو دادا کی طرح نرمی نہیں کروں گی“۔

دادا بینچ پر بیٹھا ہوا بغیر پلکیں جھپکائے مشا کو دیکھے جارہا تھا جو کہ دیوار کی طرف منہ کیے کھڑا تھا۔

مشا نے اپنا آخری آنسو ہاتھ کے پشت سے پونچھا۔

”تم ٹھہر جاﺅ، دادا “۔ اس نے کہا۔

”ہائیں؟ ۔تم اپنے دادا کو دھمکی دے رہے ہو؟“۔

دادا نے ایک بار پھر اپنا بیلٹ اتارنا چاہا۔ مشا دروازے تک پہنچ چکا تھا۔

مشا دروازے کے پیچھے دبک گیا۔

”تم مجھے دھمکاتے ہو؟“ ۔دادا نے دہرایا۔

مشا دروازے سے باہر نکل گیا۔ لیکن اس نے پھر اندر جھانکا۔ اور دادا کو دیکھتے ہوئے چلایا۔ “تم صبر کرو، دادا۔ جب تمہارے سارے دانت گر جائیں تو مجھ سے اپنا کھانا چبانے کو مت کہنا، کیونکہ میں نہیں کروں گا، تمہارے لیے“۔

دادا باہر نکل آیا مگر اسے مشاکا سر اور اس کی پتلون باغ میں نظر آئی ۔ بڈھا آدمی پاگلوں کی طرح اپنی لاٹھی لہرا رہا تھا ۔ لیکن داڑھی کی آڑ میں اس کے ہونٹ مسکرارہے تھے۔

 

***

 

باپ اُسے منکا کہتا تھا ۔ ماں اسے من یوشکاکہتی تھی۔ خیر خیریت کے وقت دادا اسے ناکارہ کہتا، لیکن جب اس کے تیور بگڑے ہوتے تو اس کا کہنا ہوتا ”ادھر آﺅ۔ میخا ئلوفومچ ۔ تمہارے کان کھینچے جائیں“۔

باقی سب لوگ۔۔۔ ہمسائے ،بچے ، کھسر پھسر کرنے والے ، سارا گاﺅں ۔۔ اسے حرامی نہ کہتے تو مشکا کہتے تھے ۔

یہ حقیقت ہے کہ ماں نے اُسے شادی سے پہلے جنم دیا تھا۔ یہ بھی سچ ہے کہ اس نے ایک ماہ بعد چرواہے فوما ، سے شادی کر لی۔ لیکن مشاکو حرامی کا نام عمر بھر سہنا پڑا۔

مشا ایک چھوٹا سا بچہ تھا۔ موسم بہار کے شروع میں اُس کے بالوں کا رنگ سورج مکھی جیسا ہوتا تھا۔ جن کا رنگ جون کی دھوپ میں اڑجاتا ۔ اور وہ کھر درا دھاری دار گچھالگنے لگتے تھے۔ اس کے گال چڑیا کے انڈے کی طرح تھے ، اور اس کی ناک سورج کی تمازت اور تالاب میں غوطہ خوری کی وجہ سے ہر وقت بہتی رہتی۔ اس کے اندر صرف ایک اچھی بات تھی۔ وہ یہ کہ اُس کی نیلی اور شرارتی آنکھیں اپنے تنگ گڑھوں سے باہر کو اس طرح جھانکتیں جسے دریا کی نیم پگھلی ہوئی برف ہو۔

انہی آنکھوں کی وجہ سے اس کاباپ اس سے محبت کرتا تھا۔ نیز اس کی پھرتیلی اور بے چین طبیعت کی وجہ سے بھی۔ محاذ جنگ سے اُس کا باپ اس کے لیے شہد والا کیک لایا تھا جو کہ زیادہ عرصہ گزرنے کی وجہ سے پتھر کی طرح سخت ہوچکا تھا۔ وہ اس کے لیے پھٹے پرانے جوتوں کا ایک جوڑا بھی لایا۔ ماں نے جوتوں کو ایک تولیے سے لپیٹا اور اوپر رکھ دیا۔ جہاں تک کیک کا تعلق ہے ، اسی شام کو مشا نے اسے ہتھوڑے سے توڑ کر چٹ کر لیا۔

اگلی صبح سورج نکلتے ہی مشا جاگ اٹھا۔ اس نے برتن میں پڑے ہوئے نیم گرم پانی سے اپنا بدصورت چہرہ بھگویا۔ اور باہر نہیں گیا۔

صحن میں ماں گائے کے ساتھ مصروف تھی۔ دادا گھر کے گردبنے مٹی کے پشتے پر بیٹھا ہوا مشا کو تک رہا تھا۔

”چھوٹے ناکارہ صاحب !۔باڑھ کے نیچے ذرا گھس جاﺅ۔ میں نے ایک مرغی کو وہاں کٹ کٹ کرتے سنا ہے۔ اس نے ضرور انڈا دیا ہوگا“۔

اور مشا تو اپنے دادا کو خوش رکھنے کے لیے جیسے ہر وقت تیار رہتا تھا۔ وہ پیٹ کے بل باڑھ کے نیچے گھسااور دوسری طرف سے نکل کر باہر کو بھاگا۔ بار بار مڑ کر دیکھتا ہوا کہ کہیں دادا دیکھ تو نہیں رہا۔ جب وہ باڑھ سے بہت دور جا چکا اس وقت تک اس کے پاﺅں کانٹوں سے لہو لہان ہوچکے تھے ۔ دادا انتظار کرتا رہا، اور جب اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو خود اٹھا۔ اور پیٹ کے بل باڑھ کے نیچے گھس گیا۔ مرغی کی بیٹ سے اس کے کپڑے گندے ہوگئے ۔ اور اندھیرے میں اپنی کمزور نظروں کی وجہ سے اس کا سر بار بار باڑھ کی لکڑیوں سے ٹکراتا رہا۔ بالآخر وہ دوسری طرف نکل گیا۔

”مشا تم کتنے احمق ہو۔ جو ابھی تک اتنا چھوٹا سا انڈہ نہیں ڈھونڈ سکے ۔ تمہارا کیا خیال ہے۔ بھلا کوئی مرغی باہر کھلی فضا میں جاکر انڈا دے گی۔ انڈے کو بالکل اسی پتھر کے قریب ہونا چاہیے ! بہر حال تم ہو کہاں؟“۔

دادا کو کوئی جواب نہ ملا۔ تو وہ چوپایوں کی طرح باڑ میں سے نکل آیا اور اپنی پتلون جھاڑتا ہوا تالاب کی طرف غور سے دیکھنے لگا۔ یقینا مشا وہیں تھا۔ وہ کندھے اچکا کر واپس چل دیا۔

تالاب پر گاﺅں کے بچے مشا کو گھیرے ہوئے تھے ۔

”تمہارے ابو کہاں تھے ؟“۔ کسی نے پوچھا۔ ”کیا وہ محاذِ جنگ پر تھے؟“۔

”ہاں“۔

” کیا کرتے رہے“۔

”لڑتے رہے ۔ اور کیا کرتے رہے؟“۔

”ارے چھوڑو۔ وہ صرف اپنی جوﺅں سے لڑتا رہا ہوگا۔ اور باقی وقت وہ باورچی خانے کے دروازے پر بیٹھے ہڈیاں چوستا رہا“۔

بچے ہنسی سے لوٹ پوٹ ہونے لگے اور مشا کی طرف اشارہ کرنے لگے ۔ تلخ آزردگی کے آنسوﺅں سے مشا کی آنکھیں بھر آئیں۔انہوں نے اس پر بھی بس نہ کیا بلکہ پادری کا بیٹا وٹایا تو ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑا ہوا تھا۔

”تمہارا باپ تو کمیونسٹ ہے ، ہیںنا؟“۔

”مجھے معلوم نہیں“۔

”مجھے معلوم ہے ۔ وہ کمیونسٹ ہے۔ اس نے اپنی روح شیطان کے ہاتھ فروخت کردی ہے ۔ میرے ابو نے آج صبح ہی مجھے بتایا ہے ۔ ہاں، اور یہ بھی سنو بہت جلد تمام کمیونسٹوں کو لٹکایا جارہا ہے “۔

تمام بچے خاموش تھے۔ مشا پر خوف ودہشت طاری ہوگیا۔ اس کے ابو کو لٹکایا جائے گا؟۔ کس جرم میں ؟ ۔ اس نے دانت پیستے ہوئے جواب دیا:

”میرے ابو کے پاس ایک بہت بڑی بندوق ہے ۔ اور وہ تمام بورجوزیوں کو قتل کرڈالیں گے“

”ارے نہیں وہ ایسا نہیں کرسکتا“۔ وٹایا نے فاتحانہ انداز میں اعلان کیا۔

”میرے ابو اس کی کامیابی کے لیے کبھی دعا نہیں کریں گے ۔ اور جب تک وہ دعانہیں کریں گے اُس وقت تک تمہارا باپ کچھ بھی نہیں کرسکتا“۔

دکاندار کے بیٹے ”پروشکا“ نے میشا کے سینے پر گھونسہ مارا۔

”اپنے باپ کی اتنی بھی تعریف مت کر“۔ اس نے نتھنے پُھلاتے ہوئے چلا کر کہا ۔ ”جب انقلاب آیا تو اس نے میرے ابو کا تمام سامان چھین لیا۔ اور میرے ابو کہتے ہیں ذرا دن پھرنے کا انتظار کرو۔ میں سب سے پہلے یہ کام کروں گا کہ اس چرواہے فوما کو قتل کردوں گا“۔

اور پروشکا کی بہن ”نتاشا“ نے غصے سے پاﺅں زمین پر پٹختے ہوئے کہا۔

”اسے پیٹنا شروع کرو! ۔لڑکو، تم کس بات کا انتظار کر رہے ہو؟“

”مارو کمیونسٹ کے بچے کو “ کوئی اور چیخا۔

”حرامی!“

” پروشکا، ذرااچھی طرح سے اس کی خبر لے لو“۔

پروشکا نے ایک ڈنڈا اٹھایا اور مشا کو کاندھے پر دے مارا ۔ پادری کے بیٹے وٹایا نے مشا کی ٹانگ پہ اڑنگی ماری اور مشامنہ کے بل ریت پر دھڑم سے گرپڑا۔

گالیاں دیتے ہوئے لڑکے اس پر چڑھ دوڑے ۔ نتاشا نے اپنے تیز ناخنوں سے اس کا گربیان پھاڑ ڈالا۔

کسی نے زورسے اس کے پیٹ پر لات ماردی۔

مشا نے پروشکا کو خود پرسے دھکیلا ، اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونے کی کوشش میںجب وہ کامیاب ہوا۔ تو ایک زخمی گھوڑے کی طرح لڑکھڑاتا ہوا گھر کی طرف جانے لگا۔ زور دار سیٹیوں نے اس کا پیچھا کیا۔ کسی نے اس پر ایک پتھر بھی پھینکا۔ لیکن کسی نے اس کا تعاقب نہیں کیا۔

پائنتی باغ کے گھنے درخت کے نیچے جاکر مشا نے دم لیا۔ وہ ٹھنڈی اور نرم گھاس پر لیٹ گیا۔ اور گردن پر لگے ہوئے زخم کا خون صاف کرنے لگا۔ اس کے بعد وہ زور زور سے رونے لگا۔ گھنی چھاﺅں سے دھوپ چھن چھن کر اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگی۔ اس دھوپ نے اس کے آنسو خشک کردیئے اور ا س کی اپنی شفیق ماں کی طرح اس کے گھنگھریالے سرخ بالوں کو محبت سے چومنے لگی۔

مشا کافی دیر تک ٹھنڈی چھاﺅں میں بیٹھا رہا۔ جب تک کہ اس کے آنسو بہنے بند نہیں ہوگئے ۔تب وہ اٹھ کھڑا ہوا اور گھر کی جانب چل دیا۔

اس کا باپ وہیں تھا۔ وہاں سائے میں۔ وہ ویگن کے پہیوں کی جانچ پڑتال کررہا تھا۔ اس کی ٹوپی سرسے پیچھے کی طرف پھسلی ہوئی تھی۔ اور اس کے ربن بھی اکھڑ چکے تھے ۔ وہ نیلے اور سفید رنگ کی دھادی دار قمیص پہنے ہوئے تھا۔ مشا سہمے سہمے ویگن تک پہنچا اور وہاں جاکے خاموشی سے کھڑا ہوگیا۔ کچھ دیر بعد جب اس کے ہوش و ہواس بحال ہوئے تو اس نے والد کے ہاتھ کو چھو کر آہستہ سے پوچھا۔

” ابو ، محاذ پر آپ کیا کرتے رہے ؟“۔

”کیوں بیٹے۔ میں لڑتا رہا“ ۔ ابو نے مڑتے ہوئے اپنی سرخ مونچھ کے نیچے سے مسکرا کر جواب دیا۔

”لڑکے۔۔ لڑکے جو کہتے ہیں کہ آپ صرف جوﺅں سے لڑتے رہے “۔

مشا ایک بار پھر روہانسی ہوگیا۔ لیکن ابو نے قہقہہ لگاتے ہوئے اسے اپنے بازوں پر اٹھالیا۔

”وہ جھوٹ بولتے ہیں بیٹے۔ میں ایک بحری جہاز پر تھا۔ ایک بڑے جہاز پر جو سات سمندروں میں تیرتا رہا۔ اور اس طرح میں جنگوں میں لڑتا رہا“۔

”آپ کس کے خلاف لڑے؟“۔

”میں آقاﺅں کے خلاف لڑا ہوں، بیٹے ۔ دیکھو تم ابھی تک بہت چھوٹے ہو اس لیے مجھے محاذ پہ جاکر تمہارے لیے لڑناپڑا۔ ارے ہاں ، وہ ایک گیت بھی تو ہے اس بارے میں“۔

اس کا باپ پھر مسکرا دیا اور اپنے پاﺅں زمین پہ مار مار کر گویا ساز بجاتے ہوئے آہستگی سے گانے لگا۔

اوہ، میرے ننھے منکا ، مشا، میرے اپنے

تم جنگوں پہ مت جاﺅ، اپنے ابو کو جانے دو

ابو بوڑھے ہیں ، وہ اپنی عمر بتا چکے

اور تم ابھی تک اتنے چھوٹے ہو کہ شادی تک نہیں کرسکتے

مشا اپنی تکالیف فراموش کر چکا تھا۔ اس نے ایک زور دار قہقہہ لگایا۔ اپنے ابو کی طرح قہقہہ لگایا جن کی مونچھیں اس طرح ہلتی تھی جیسے درختوں کی ٹہنیاں ہوا سے ہلتی ہوں۔ اور جن کا منہ ایک کالے سوراخ کی طرح کھلتا اور بند ہوتا تھا۔

”منکا ، ابھی دوڑ جاﺅ“۔ ابو بولا۔”میں نے اس ویگن کو ٹھیک کرنا ہے ۔ شام کو جب تم سونے لگوگے تو میں تہیں محاذ جنگ کا قصہ سناﺅں گا“۔

***

آج کا دن ایسے طویل ہورہا تھا جیسے نہ ختم ہونے والے صحرا میں ایک تنہا سڑک ہو۔ بہت عرصہ بعد بالآخر سورج نیچے ڈھل گیا۔ریوڑ گاﺅں کے اندر داخل ہوگیا۔ گردو غبار کے بادل بیٹھ گئے ۔ اور تاریک ہوتے ہوئے آسمان پر پہلا ستارہ شر میلے انداز میں جھانکنے لگا۔

مشا انتظار کی شدت سے تھک چکا تھا ۔ ماں نے دودھ دوہتے اور اسے حفاظت سے رکھتے ہوئے بڑی دیر لگادی۔ اس کے بعد وہ تہہ خانے کے سٹور میں گئی اور وہاں بھی تقریباً ایک گھنٹہ لگادیا۔ مشا اس سے لٹک گیا۔ اور بے صبری سے پوچھنے لگا۔

” امی رات کے کھانے کا وقت نہیں ہوا کیا؟“۔

”بھوک لگ گئی ؟۔ تمہیں کچھ انتظار کرنا ہوگا“۔

لیکن مشا نے اُسے چین سے رہنے نہیں دیا۔ وہ ہر جگہ اس کا پیچھا کرتا رہا۔ اس کی قمیص کو جونک کی طرح پکڑے ہوئے۔۔ نیچے تہہ خانے تک ، اور پھر اوپر باورچی خانے تک۔

”امی۔ کھانا ! اوں امی ! امی ۔۔ کھانا!“۔

” ہٹ جاﺅ گندے ۔ اگر تمہیں اتنی ہی بھوک لگی ہے تو روٹی کا ایک ٹکڑا کھالو“۔

وہ خاموش نہ رہا حتیٰ کہ بالاخر ماں نے تنگ آکر اسے ایک تھپڑ رسید کی۔ لیکن پھر بھی وہ اسے چپ نہ کراسکی۔

جب کھانا آیا۔ تو وہ تیزی سے اسے جوں توں کر کے نکل گیا۔ وہ بھاگتے ہوئے دوسرے کمرے میں گیا ۔ اور سیدھا چارپائی پر لیٹ کر ابو کا انتظار کرنے لگا۔ تاکہ ُاسے جنگ کا قصہ سنایا جائے ۔

دادا چپکے اور عاجزی سے ”مقدس شبیہہ “ کے سامنے جھکا ہوا عبادت میں مشغول تھا۔ مشا نے نظارہ کرنے کے لیے بستر سے اپنا سراٹھایا۔ دادا زمین پر اس قدر جھکا ہوا تھا کہ اس کی پیشانی فرش پر لگ رہی تھی۔ اسی وقت میشانے دیوار پر زور سے کہنی ماردی۔

کچھ دیر تک دادا عبادت کرتا ہوا پھر اپنا سر فرش تک لے گیا۔ پھر”دہم “ کی آواز۔۔۔مشا اپنی کہنی زور سے دیوار پر مار کر”دہم “ کی آواز پیدا کرتا ۔ دادا اُس سے ناراض ہوگیا:

”شیطان کے بچے۔ میں تمہیں اچھی طرح سبق سکھا دوں گا۔ اللہ مجھے معاف رکھ !۔ تم ایک بار پھر دیوار بجاﺅ۔ میں تمہارا سر بجادوں گا“۔

اگر ابو کمرے میں داخل نہ ہوتے، تو یقینا معاملہ بگڑ چکا ہوتا۔

” منکا! تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ “ ۔ابو نے پوچھا۔

” میں ہمیشہ امی کے ساتھ سوتا ہوں“۔

ابو پلنگ کے کنارے بیٹھ گئے ۔ وہ کچھ دیر تک کچھ نہ بولے ۔ محض اپنی مونچھوں کو مروڑتے رہے ۔ آخر کار انہوں نے تجویز پیش کی۔

” میرا خیال تھا، کہ تم دادا کے ساتھ باورچی خانے میں سوتے رہے ہوگے“۔

”میں دادا کے ساتھ سونا نہیں چاہتا؟“۔

”کیوں؟“

”اس لیے کہ ان کی مونچھیں ۔ ۔۔ تمباکو کی بدبو سے بھری ہوتی ہیں“۔

ابو نے ٹھنڈی سانس لی اور ایک بار پھر اپنی مونچھیں مروڑ نے لگے۔

”ہر جگہ یہی حال ہے بیٹے، بہتر ہوگا کہ تم دادا ہی کے ساتھ سوجاﺅ“۔

مشا نے کمبل اپنے سر تک اوڑھ لیا، پھر باہر جھانک کر غصہ سے بڑ بڑانے لگا۔ آ پ کل میری جگہ پر سوگئے تھے ۔ اور آج پھر وہی کرنا چاہتے ہیں۔ جائیے اور خود ہی دادا کے ساتھ سوجائیے“۔

اچانک وہ اٹھ بیٹھا ، ابو کا سر اپنی طرف کھینچ کر ان کے کان میں کہنے لگا۔ ”آپ کے لیے بہتر یہی ہوگا کہ جاکر دادا کے ساتھ سوجائیں۔ کیونکہ ماں کسی صورت بھی آپ کے ساتھ سونا پسند نہیں کرے گی۔ آپ سے بھی تمباکو کی بدبو آتی ہے “۔

”ٹھیک ہے ۔ تو میں جاکر دادا کے ساتھ سوجاﺅں گا۔ لیکن اتنا ہے کہ پھر میں تمہیں جنگوں کے بارے میں نہیں بتاﺅں گا“۔

ابو اٹھ کھڑے ہوئے اور باورچی خانے کی جانب چل پڑے۔

”ابو!“

”ہاں“ ؟

”یہاں سو جائیں اگر آپ کی یہی خواہش ہے “۔ مشانے ہتھیار ڈالتے اور بستر سے نکلتے ہوئے کہا” اب تو آپ مجھے جنگوں کے بارے میں بتائیں گے ناں ؟“۔

”ہاں اب میں بتاﺅں گا“۔

دادا پہلے بستر میں گھس گئے۔ اور مشا کے لیے باہر کی طرف جگہ چھوڑدی۔ ابو تھوڑی دیر بعد باورچی خانے میں آئے۔ ایک بنچ بستر کے قریب کھسکالی۔ اور اس پر بیٹھ گئے۔ انہوں نے اپنے بدبو دار سگریٹوں میں سے ایک سلگایا۔

”ہاں تو۔ یہ اس طرح تھا کہ ۔۔۔ تمہیں یاد ہوگا۔ کہ ہماری کھیت کے قریب والی زمین دوکاندار کی تھی“۔

ہاں، مشاکو یاد تھا۔ ۔۔ اُسے یاد تھا کہ وہاں گندم کی لمبی قطاروں کے درمیان یہاں وہاں بھاگنا اسے کتنا اچھا لگتا تھا۔ گندم کی فصل اس کے اپنے قد سے لمبی تھی۔ اور وہ مکمل طور پر اس میںگم ہوجاتا تھا۔ گندم کے لہلہاتے ہوئے خوشے اس کے گالوںپر آکر لگتے ، اور وہاں گرد اور ڈیزی کے پھولوں کی خوشبو ہوتی تھی۔

”مشا“ ۔ماں اس کو پیچھے سے آوازیں دیا کرتی تھی ۔”فصل میں اتنی دور تک مت جاﺅ۔ تم اپنا راستہ بھول جاﺅ گے“۔

”ہوں“ ۔ابو نے کچھ دیر ٹھہر کر مشا کے بالوں کو آہستہ سے سہلاتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی ”اور تمہیں وہ وقت بھی یاد ہوگا جب ہم ، میں اور تم ، ریت کی ٹیلوں کے اُس پار اپنے کھیتوں پر گئے تھے؟“ ۔

مشا کو وہ بھی یاد تھا۔ سڑک کے ساتھ ساتھ واقع تنگ اور چھوٹا سا پلاٹ جو کہ ریت کے ٹیلوں کے اُس پا ر تھا۔ اور اُس نے ابو کے ساتھ وہاں پورا دن گزارا تھا۔ اور وہاں انہوں نے دیکھا تھا کہ کسی کے مویشیوں نے ساری فصل تباہ کردی تھی۔ بغیر خوشوں کے کھڑی ہوا میں لہلہاتی ہوتی تیلیاں ، اور ٹوٹے ہوئے اور مٹی میں ادھر ادھر بکھرے ہوئے خوشے۔ ابو کا چہرہ اُس دن خوفناک حد تک فق ہوگیا تھا۔ اور ان کی مٹی میں اٹی ہوئی گالوں پر کچھ آنسو لڑھک گئے تھے ۔ ابو کی گالوں پر ، قوی ہیکل ابو کے گالوںپر آنسو؟ ۔اور جن کو دیکھ کر مشا بھی روپڑا تھا۔

گھر آتے ہوئے ابو نے اس علاقے کے چوکیدار سے پوچھا تھا۔

”میرے کھیت کس نے تباہ کیے؟“۔

اور چوکیدارنے تھوکتے ہوئے جواب دیا تھا” دوکاندار نے کچھ مویشی لے کر مارکیٹ جاتے ہوئے جان بوجھ کر تمہارے کھیت میں سے گزارے تھے“۔

ابو نے اپنا بنچ اور قریب کھسکالیا۔

” دوکاندار اور دوسرے بڑے پیٹ والوں نے ساری زمینوں پر قبضہ کر رکھا تھا۔ اور غریب لوگوں کی کاشتکاری کے لیے کوئی زمین نہیں بچی تھی۔ اور یہ حال صرف ہمارے گاﺅں کا نہیں تھا۔ بلکہ ہر جگہ یہی صورتحال تھی۔ آہ۔ وہ اُن دنوں ہم پر کس قدر سختی کرتے تھے ۔ ہمارے پاس اتنا بھی نہ تھا، کہ دو وقت کی روٹی کھا سکیں۔ اسی وجہ سے مجھے گاﺅں کی گائیاں چرانے کا کام مل گیا۔ اور اس کے بعد مجھے فوج میں لیا گیا۔ فوج میں بھی بدعنوانی کا دور دورہ تھا۔ آفیسر ہمیں معمولی باتوں پر پیٹا کرتے تھے ۔ اور اُس کے بعد ”بالشویک“ آئے ۔ اور ان کا ”لینن“ نامی ایک لیڈر تھا۔ وہ دیکھنے میں بڑا آدمی بالکل نہیں لگتا تھا۔ لیکن وہ انتہائی عالم انسان تھا ۔ وہ بھی کسانوں میںسے تھا، میری تمہاری طرح۔ بالشویک لوگ ایسی باتیں کیا کرتے تھے کہ بس ہم منہ کھولے کھڑے سنتے رہ جاتے تھے۔ ”مزدورو اور کسانو! ۔تم کس بات کی فکر کر رہے ہو؟“ وہ کہتے تھے ۔”اٹھو اور تمام جاگیرداروں اور افسروں کا خاتمہ کردو۔ اور انہیں نکال باہر کردو ،ہر چیز ”تمہاری “ملکیت ہے “۔

”وہ ہم سے اسی انداز میں باتیں کرتے تھے ۔ اور ہم کچھ بھی نہ کہہ سکتے تھے ، کیونکہ جب ہم ان کی باتوں پر غور کرتے تو ہمیں اندازہ ہوجاتا کہ وہ حق پر ہیں اور سچ کہتے ہیں۔ اس لیے ہم نے آقاﺅں سے جاگیریں چھین لیں۔ صرف آقاﺅں کو یہ بات پسند نہ تھی۔ وہ اپنی جاگیروں سے محروم ہو کر خوش رہ بھی نہیں سکتے تھے ۔ اور وہ تو بالکل پاگل ہوگئے۔ اور ہمارے خلاف جنگ شروع کردی۔ مزدوروں اور کسانوں کے خلاف ۔ تو بیٹے یہی بات تھی۔

”اور بالشویکوں کا وہی رہنما”لینن“ جس نے لوگوں کو اس طرح جگایا، جیسے ہل زمین کو تہہ وبالا کر کے رکھ دیتا ہے۔ اس نے مزدوروں اور سپاہیوں کو جگایا۔ اب بھلا وہ کس طرح اپنے آقاﺅں کے خلاف نہ لڑتے۔ اور بھلا کیسے ان کی بیخ کنی نہ کرتے۔ سپاہیوں اور محنت کشوں کو ریڈ گارڈ کہا جانے لگا۔اور میں خود بھی ریڈ گارڈ میں تھا۔ ہم ایک بہت بڑی عمارت میں رہتے تھے ۔ جسے سمولنی کہتے ہیں۔ بیٹا جب تم ان لمبے لمبے ہالوں اور بے شمار کمروں کو دیکھوگے تو حیران رہ جاﺅ گے۔

”ایک روز میں سامنے کے دروازے پر سنتری کی ڈیوٹی دے رہا تھا۔ اُس دن غضب کی سردی تھی۔ اور میرے پاس خود کو گرم رکھنے کے لیے فوجی کوٹ کے علاوہ کچھ نہ تھا ۔ ہوا تیز چل رہی تھی جیسے پورے بدن کو کچھ ہی دیر میں چھلنی کرکے رکھ دے گی۔ اُس وقت اندر سے دو آدمی نکلے۔ جب وہ میرے قریب سے گزرے تو میں نے پہچان لیا کہ اُن میں سے ایک لینن تھا۔ اور وہ سیدھا میرے پاس آیا اور دوستانہ انداز میں پوچھنے لگا۔

” کامریڈ ! تمہیں سردی نہیں لگ رہی؟“۔

”اور میں نے اُن سے کہا، ” نہیں کامریڈ لینن، ہمیں سردی نہیں مارسکتی ۔ اور نہ ہی کوئی اور دشمن۔ جب ایک دفعہ اقتدار ہمارے ہاتھ میں آگیا تو ہم اُسے دوبارہ ان بور ژوازیوں کو نہیں دیں گے“ ۔وہ ہنس پڑا، گر مجوشی سے مجھ سے مصافحہ کیا اور گیٹ کی طرف روانہ ہوگیا “۔

اس کا باپ خاموش ہوگیا۔ اس نے اپنی تمباکو والی تھیلی نکالی اور کاغذ کا پرزہ بھی۔ اور اپنے لیے نیا سگریٹ بنانے لگا۔ جب اُس نے سگریٹ سلگانے کے لیے تیلی جلائی ،تو میشا نے دیکھا کہ ایک بڑا سا آنسو اس کی سرخ مونچھوں میں ایسے پھنسا ہوا تھا جیسے پھول کی پتیوں پر صبح کے وقت شبنم کا قطرہ ہو۔

” وہ اس قسم کا شخص ہے ۔اُسے ہر آدمی کا خیال رہتا ہے ۔ وہ اپنے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے ہر ایک سپاہی کا درد محسوس کرتا ہے ۔ میں اس روز کے بعد اکثر اسے دیکھتا تھا۔ جب بھی وہ میرے پاس سے گزرتا۔ مجھے دور سے پہچان لیتا اور مسکرا کر کہتا۔

” توبور ژوازی ہمیں نہیں مارسکتے ۔ ہیں نا؟“۔

”بالکل نہیں ، کامریڈ لینن“ میں کہتا ۔

”اور بیٹے ، بالکل اسی طرح ہوا جیسے وہ کہا کرتا تھا۔ ہم نے جاگیروں اور فیکٹریوںپر قبضہ کر لیا اور خون چوسنے والوں اور بڑی تو والوں کو نکال باہر کیا۔ تم جب بڑے ہو جاﺅ گے تو کبھی نہیں بھولنا کہ تمہارا ابو ایک سپاہی تھا۔ اور وہ طویل چار سالوں تک کمیون کے لیے لڑتا رہا۔ میں کسی روز مرجاﺅں گا۔ اور لینن بھی کسی دن انتقال کر جائے گا۔ لیکن جن چیزوں کی خاطرہم لڑے وہ ہمیشہ کے لیے زندہ رہیں گی۔ کیا تم بھی اپنے ابو کی طرح بڑے ہو کر سوویتوں کے لیے جنگ کرو گے؟“۔

”میں لڑوں گا “۔ مشا چیخا اور ابو کی گردن میں بانہیں ڈالنے کے لیے بستر پر اچھل پڑا۔ وہ یہ بھول گیا تھا کہ دادا اس کے قریب لیٹا ہوا ہے ۔ اور اسی بے ساختگی میں وہ اس کے پیٹ پر اپنا پاﺅں مار چکا تھا۔

دادا کی چیخ نکل گئی۔ اور اس نے مشا کوپکڑنا چاہا مگر ابو مشا کو اپنی بانہوں میں اٹھا کر اسے دوسرے کمرے میں لے گیا۔

کچھ دیر بعد مشا ابو کی گود ہی میں سوگیا۔ لیکن اس نے پہلے اس غیر معمولی شخص لینن کے بارے میں بہت غور سے سوچا ، بالشویکوں کے بارے میں ، جنگوں کے بارے میں ،اور بڑے بڑے بحری جہازوں کے بارے میں بہت غور سے سوچا۔ نیم خوابی کے عالم میں وہ نیچی آوازیں سنتا رہا ، اور اُسے پسینے کی خوشبو آئی۔ اور پھر اُس کی آنکھیں بند ہوگئیں، وہ انہیں کھول نہیں سکا۔ ایسے لگتا تھا، جیسے کسی نے ہاتھ سے اس کی آنکھوں کو دبا رکھا ہو۔

وہ ابھی مشکل سے سویا تھا کہ اس کے سامنے ایک شہر نمودار ہوا۔ اس کی گلیاں کشادہ تھیں۔ اور جہاں تک نظرجاتی تھی مرغیاںنظر آرہی تھیں۔ گاﺅں میں بھی تو زیادہ مرغیاں ہوتی ہیں لیکن شہر میں تو بہت ساری مرغیاں تھیں۔ اور مکان توبالکل اس طرح بنے ہوئے تھے جس طرح کہ ابو نے بتایا تھا۔ بڑے کشادہ مکان، ان کی چھتیں نئی تعمیر شدہ لگتی تھیں۔ ان چھتوں کے اوپر بھی مکان، اور سب سے آخری مکان کی چھت تو آسمان سے لگی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔

اور جس وقت مشا گلی میں گردن ادھر ادھر گھما کر حیرت سے سب کچھ دیکھ رہا تھا ۔ ایک عظیم طویل القامت شخص سرخ قمیص پہنے اس کے سامنے آکھڑا ہوا۔

”مشا! تم کیوں بے کار ادھر گھومتے پھرتے ہو؟“ ۔اس آدمی نے دوستانہ انداز میں پوچھا۔

” دا دا نے مجھے باہر جاکر کھیلنے کی اجازت دی ہے“ ۔ مشا نے جواب دیا۔

”اچھا۔ تم جانتے ہو میں کون ہوں؟“۔

”نہیں ، مجھے نہیں معلوم“۔

” میں کامریڈ لینن ہوں“

مشا بہت خوفزدہ ہوا۔ اس کی ٹانگیں کانپنے لگیں۔ اس نے وہاں سے بھاگنا چاہا مگر اس سرخ قمیص والے آدمی نے اس کی آستین پکڑ لی اور کہا۔

”مشا تمہیں بالکل احساس نہیں۔ بالکل بے شعور ہو تم۔ تم بہت اچھی طرح جانتے ہو کہ میں غریبوں کی خاطر جنگ لڑرہا ہوں۔ پھر تم میری فوج میں کیوں شامل نہیں ہوتے؟“۔

” میرے دادا مجھے اجازت نہیں دیں گے“ ۔مشا نے وضاحت کی۔

”جیسے تمہاری مرضی“۔ کامریڈ لینن نے کہا” تمہارے بغیر کام کچھ ٹھیک نہیں چل رہا۔ تمہیں میری فوج میں شامل ہوجانا چاہیے۔بس“۔

مشا نے کامریڈ لینن کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑا اور کہا” ٹھیک ہے۔ تو میں دادا جان سے پوچھے بغیر آپ کی فوج میں شامل ہوجاﺅں گا اور غریبوں کے لیے جنگ لڑوں گا۔ آپ صرف اتنا کردیں کہ جب دادا مجھے پیٹنے کی کوشش کریں، تو آپ اُس وقت مجھے بچالیں“۔

”میںتمہیں بچاﺅں گا“ کامریڈ لینن نے کہا اور نیچے گلی کی طرف مڑ گیا۔ اور مشا اس قدر خوش ہوا کہ اس کی سانس پھول گئی۔ اس نے چلانا چاہا لیکن اس کی زبان خشک ہو کرتالو سے چپک گئی۔

مشا نے اچانک کروٹ بدلی تو اس کی کہنی زور سے دادا کولگی اور وہ جاگ گیا۔ دادا کے ہونٹ ہل رہے تھے۔ اور وہ نیم خوابی میں کچھ بڑ بڑا رہا تھا۔

مشا کو باہر نیلگوں آسمان نظر آیا جس پر مشرق کی طرف سے سرخ رنگ کے بادل تیر رہے تھے۔

***

اب تقریباً ہر شام ابو مشا کو کہانیاں سناتا، جنگ کی کہانیاں ،لینن کی ، اور ان تمام جنگوں کے بارے میں بتاتا ، جہاں جہاں وہ رہا تھا۔

ہفتے کی شام کو گاﺅں کی سوویت کا چوکیدار ایک اجنبی کو گھر لایا۔ وہ ایک پستہ قد آدمی تھا جس نے لمبا فوجی کوٹ پہن رکھا تھا ۔ اس کے ہاتھ میں چمڑے کا ایک بریف کیس تھا۔

” یہ کامریڈ ، ایک سوویت آفیسر ہیں“۔ چوکیدار نے دادا کو بتایا۔”یہ شہر سے آئے ہیں اور رات آپ کے پاس گزاریں گے۔ دادا ، انہیں رات کا کھانا کھلائیے گا“۔

”وہ ہم کر لیں گے“ ، دادا نے کہا”ہاں ، تو مسٹر کامریڈ آپ کے سرکاری تصدیق والے کاغذات کہاں ہیں؟“۔

دادا کی علم وفضیلت پر حیران مشا انگلی منہ میں ڈالے خاموش کھڑا رہا۔

” دادا ، میرے پاس تصدیق کے تمام کاغذات موجود ہیں“ ۔چمڑے کے بریف کیس والے آدمی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ اور اندر جانے کے لیے مڑا۔

دادا اس کے پیچھے پیچھے چل دیا۔ اور مشا دادا کے پیچھے ہولیا۔

” آپ ہمارے گاﺅں کیا کرنے آئے ہیں؟ “ ۔دا دا نے پوچھا۔

”میں نئے انتخابات کا انچارج ہوں، آپ کے گاﺅں میں سوویت کے ممبروں اور چیئرمین کے لیے نئے انتخاب ہوں گے“۔

کچھ دیر بعد ابو واپس آگئے ، انہوں نے اجنبی سے مصافحہ کیا اور امی کو کھانا تیار کرنے کے لیے کہا۔ کھانا کھالینے کے بعد ابو اور اجنبی باورچی خانے کے بنچ پر بیٹھ گئے۔ اجنبی نے اپنا بریف کیس کھولا اور کاغذات کا ایک پلندہ نکال کر ابو کو دکھانے لگا، مشا ارد گرد منڈلاتا رہا ، تاکہ وہ سب کچھ دیکھ سکے۔ ابو نے ایک کاغذ نکالا اور مشا کو دکھانے لگا۔

” یہ دیکھو ، مینکا ،یہ لینن ہے“۔

مشا نے جھپٹ کر تصویرلے لی۔۔۔ اور جب وہ اسے دیکھ رہا تھا، حیرت سے اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا !۔ تصویر والا آدمی لمبا نہیں تھا۔ اور نہ ہی اس نے سرخ قمیص پہن رکھی تھی۔ محض ایک عام ساجیکٹ پہنا ہوا تھا۔ اور اس کا ایک ہاتھ پتلون کی جیب میں تھا۔ اور ایک ہاتھ آگے کی طرف اٹھا ہوا تھا۔ جیسے راستہ بتا رہا ہو۔مشا بڑے شوق سے تصویر دیکھ رہا تھا، اور ایک ایک چیز ذہن نشین کر رہا تھا، خم دار بہنویں ، مسکراہٹ جو آنکھوں اور ہونٹوں سے چھلک رہی تھی، اور ہر وہ تفصیل جو تصویر میں موجود تھی۔

اجنبی نے تصویر لے لی، اسے بریف کیس میں بند کردیا اور سونے کے لیے دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ اس نے لباس تبدیل کیا اور کوٹ کو لحاف بنا کر بستر پر لیٹ گیا۔ لیکن آنکھ بند ہوتے ہی اسے دروازہ کھلنے کی آواز سنائی دی۔

”کون ہے ؟“ ۔اس نے سر اٹھاتے ہوئے پوچھا۔ اور پھر اس نے دیکھا کہ مشا چار پائی کے قریب کھڑا تھا۔ ”کیا بات ہے بیٹا؟“ اس نے پوچھا۔

ایک لمحے کو مشا کچھ نہ بولا۔ بالآخر بہت ہمت کر کے کھسر پسر کرنے لگا ۔”دیکھیے مسٹر۔۔۔اپنا لینن مجھے دیجیے“۔

اجنبی کچھ نہ بولا صرف مشا کو تکتا رہ گیا۔

مشا بہت خوفزدہ ہوگیا۔ کیا پتہ یہ شخص کہیں تنگ نظر نہ ہو۔ کہیں یہ انکارہی نہ کر بیٹھے ؟ ۔ اپنے آپ پر قابو پاکر اور الفاظ کے انتخاب کے بارے میں خوب سوچ کر بالآخر وہ بولا۔

”اسے مجھے دے دیں رکھنے کے لیے ، اس کے بدلے میں آپ کو اپنا ٹین کا صندوق دوں گا۔ اچھاوالا صندوق اور میرے پاس موجود تمام کی تمام بیڈیاں بھی آپ کو دے دوں گا۔ اور “بازو لہراتے ہوئے ”ہاں ہاں، اور وہ بوٹ بھی جو ابو میرے لیے لائے تھے “۔

”لیکن تمہیںلینن کیوں چاہیے؟“ ۔اجنبی نے مسکراتے ہوئے سوال کیا۔

مشا نے سوچا کہ شاید وہ راضی نہیں ہے ۔ اس نے اپنے آنسو چھپانے کے لیے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ اور بھاری آواز میں بولا۔ ”میں اسے چاہتا ہوں ، بس“۔

اجنبی ہنس پڑا، اس نے سرہانے کے نیچے سے بریف کیس نکالا اور تصویر مشا کو دے دی۔ میشا نے اسے قمیص کے نیچے چھپا لیا اور اسے سینے کے ساتھ زور سے دباتے ہوئے باورچی خانے کی طرف بھاگ گیا۔ اتنے میں دادا جاگ گیا،و ہ گرجا۔

”تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ اس آدھی رات کو یہاں وہاں بھاگتے پھر رہے ہو؟ ۔میں نے تمہیں کتنی بار سمجھایا ہے کہ سونے کے وقت دودھ مت پیا کرو۔ اگر تم ایسے کرتے رہے تو کسی دن گندے پانی کی بالٹی میں گرجاﺅ گے۔ اُس وقت پھر میں نہیں آﺅں گا، تمہیں نکالنے کے لیے“۔

مشا بغیر کچھ کہے بستر میں گھس گیا۔ وہ خاموشی سے لیٹا رہا۔ اس خوف سے کہ کہیں اس کے پہلو بدلنے سے تصویر میں شکنیں نہ پڑیں۔ جسے وہ ابھی تک اپنے دونوں ہاتھوں میں مضبوطی سے سینے سے لگائے ہوئے تھا۔ وہ اسی طرح بغیر پہلو بدلے سو گیا۔

صبح ابھی بڑی سویر تھی کہ مشا جاگ گیا۔ ماں نے ابھی ابھی دودھ دوھ کر گائے کو گاﺅں کے مویشیوں کے ساتھ چرنے کے لیے کھول دیا تھا۔ مشا کو دیکھتے ہی وہ زور سے چیخنے لگی۔

”تمہیں کس کیڑے نے کاٹا ہے کہ اتنے سویرے جاگ گئے ہو؟“۔

تصویر کو اپنی قمیص کے نیچے چھپائے ماں سے نظریں بچاتے ہوئے وہ تیزی سے بھاگا اور باڑھ کے نیچے پہنچ گیا۔ وہاں پر مرغیوں کے پروں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ اور ہر جگہ ان کی بیٹ پڑی ہوئی تھی۔ میشا نے باڑھ کے نیچے تھوڑی سی جگہ صاف کی۔ اس نے درخت کے ایک بڑے سے پتے سے تصویر کو ڈھانپ دیا اور صاف کردہ جگہ پر رکھ دیا۔ اور اس پر ایک پتھر رکھ دیا تاکہ اسے ہوا نہ اڑا لے جائے۔

سارا دن بارش ہوتی رہی ۔ آسمان کو کالے بادلوں نے ڈھانپ رکھا تھا۔ چھوٹے چھوٹے گڑھے بارش کے پانی سے بھر گئے تھے اور گلیوں میں پانی دریا کی طرح بہنے لگا۔

مشا کو سارا دن اندر ہی رہنا پڑا۔ لیکن جب شام ہوئی اور ابو اور دادا گاﺅں کی سوویت کی میٹنگ میں شرکت کرنے نکلے تو مشا دادا کی ٹوپی پہنے چھپتے چھپاتے ان کے پیچھے ہولیا۔ سوویت کا ہیڈ کوارٹر چرچ کے قریب تھا۔ مشا بغیر کسی رکاوٹ کے اس احاطے میں پہنچ گیا۔ عمارت لوگوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ اور اس کی چھت کے نیچے تمبا کو کے دھوئیں کے مرغولے بادلوں کی طرح تیر رہے تھے۔ کھڑکی کے قریب میز کے نزدیک اجنبی بیٹھا ہوا لوگوں کو کسی چیز کے بارے میں بتا رہا تھا۔

مشا چوری چھپے اندر داخل ہوا اور پچھلی بنچ پر بیٹھ گیا۔

”ساتھیو ، جو لوگ “ فوماکار شونوف“ کو سوویت کا چیرمین منتخب کرنے کے حق میں ہیں وہ براہِ کرم اپنے ہاتھ اٹھائیں“۔

مشا کے سامنے بیٹھے ہوئے ، دوکاندار کے داماد ” پروخرلائی سنکوف“ نے چلا کر کہا ”شہریو! مجھے اعتراض ہے۔ وہ دیانتدار شخص نہیں ہے ۔ ہم اُس کو اس وقت سے جانتے ہیں جب وہ گاﺅں کا چرواہا تھا“۔

” پھر موچی فیدت بھی نشست سے اچھل کر کھڑا ہوا اور بازو ہلاتے ہوئے جذباتی انداز میں چیخنے لگا۔

” ساتھیو !بڑی بڑی توندوں والے نہیں چاہتے کہ ایک چرواہا چیئرمین بنے۔ لیکن چرواہا فوماپرولتاریہ میں سے ہے ۔ وہ سوویت اقتدار کی مضبوطی کی طرفداری میں ہمیشہ پیش پیش رہا“۔

دولتمند قراخ جو دروازے کے قریب اکھٹے بیٹھے تھے ، سیٹیاں بجانے اور آواز ے کسنے لگے۔ انہوں نے شور مچانا شروع کردیا۔

”چرواہا نہیں چاہیے“۔

” اب وہ فوج سے واپس آیا ہے ۔ وہ دوبارہ بھی تو چرواہابن سکتا ہے “۔

”جہنم میں جائے ، فوماکور شونوف“۔

مشا کی نظر ابو پر پڑی جو قریب ہی کھڑے تھے ۔ ابو کا چہرہ سفید تھا۔ اور اس کے لیے فکر مند ہو کر مشا کا چہرہ بھی سفید پڑگیا۔

”خاموش ! ساتھیو!“ ۔اجنبی میزپر مکا مارتے ہوئے چیخا۔ ”بصورت دیگر ہم فسادیوں کو باہر پھینک دیں گے“۔

”ہمیں چیئرمین بننے کے لیے ایک اچھا قزاح دے دو“۔

”فوما مردہ باد“

”ہمیں نہیں چاہیے فوما۔۔۔“

سارے امیر کزاخ چیخ رہے تھے ۔ اور سب سے بلند آواز دوکاندار کے داماد”پراخر“ کی تھی ۔ ایک بھاری بھرکم سرخ داڑھی والا کزاخ جس نے کان میں بالی پہن رکھی تھی ، بنچ پر چڑھ گیا۔ اس کی واسکٹ پیوند اور میل کے داغوں سے بھری ہوئی تھی۔

”بھائیو“ وہ کہنے لگا۔” دیکھو یہ لوگ کیا کرنا چاہ رہے ہیں۔ بڑی تو ند والے لوگ اپنے کسی آدمی کو چیئرمین بنانا چاہتے ہیں ۔ اس کے بعد وہ اُسی طرح کی من مانیاں کرتے پھریں گے جس طرح ماضی میں کرتے تھے۔۔۔“

بھاری بھرکم کزاخ چیختا ہی رہا لیکن شوروغل میں مشا کو صرف چند الفاظ سنائی دیے۔

”زمین۔۔۔ دوبارہ تقسیم۔۔۔ غریبوں کے لیے ریتلی زمین اور اپنے لیے زرخیز زمین“ ۔

”پر اخر ہمارا چیئرمین “ دروازے کے قریب والا گروہ نعرے لگا رہا تھا۔ ”پراخر !خر !خر!“۔

اجنبی چیختا ہی رہا اور مشا کو ایسے لگا جیسے وہ ہجوم کو کوس رہا ہو ، بالآخر طویل تگ و دو کے بعد کہیں شور تھما۔ تب جب اجنبی نے زور سے سوال کیا ”فوما کور شونوف کے حق میں کون کون ہے ؟“۔

کئی سارے ہاتھ اٹھے ۔ مشا نے بھی ہاتھ اٹھایا۔ ایک آد می باری باری ووٹ گن رہا تھا ۔

”باسٹھ ۔۔ تریسٹھ ۔۔ چونسٹھ “ اور مشا کے ہاتھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے “ پینسٹھ “۔

اجنبی نے کاغذ پر کچھ لکھا اور پھرچلایا“پراخر لائیسن کوف کے حق میں کون کون ہیں؟“ ۔امیر قزاخوں کے 27ہاتھ اوپر اٹھے اور ایک ہاتھ مل مالک ”ہی گر“ کا۔ مشا نے بھی اپنا ہاتھ اٹھایا ۔ مگر اس بارووٹ گنتی کرنے والا شخص جب آخری قطار تک پہنچا اور نیچے دیکھا۔

”چھوٹے شیطان بھاگ جاﺅ “ ۔اس نے مشا کا کان مروڑتے ہوئے کہا۔ ”اس سے پہلے کہ تمہیں ایک تھپڑ رسید کروں یہاں سے بھاگ جاﺅ ۔تمہیں اس عمر میں ووٹ دینے کا بڑا شوق ہے“۔

سب لوگوں کا قہقہہ چھوٹ پڑا۔ گنتی کرنے والا شخص مشا کو گھسیٹتا ہوا دروازے تک لے گیا اور اسے باہر نکال دیا۔ گیلی سیڑھیاں تیزی سے اترتے ہوئے مشا کو ابو کے وہ الفاظ یاد آئے۔ جو انہوں نے بحث کرتے ہوئے دادا سے کہے تھے ۔

”آپ کو یہ حق کس نے دیا“ ۔وہ چلائے ۔

”میں بتاتا ہوں کہ کس نے دیا“۔

نا انصافی ہمیشہ سے ایک تلخ چیز رہی ہے۔

جب مشا گھر پہنچا تو وہ بہت ناراض تھا ۔ اور اس نے ماں سے شکایت کی ۔ لیکن اس کی بات کاٹ لی گئی۔ اور ماں نے کہا۔

”تو تم جہاں پسند نہیں کیے جاتے وہاں نہ جایا کرو۔ ہر جگہ اپنی ٹانگ اڑاتے رہتے ہو۔ تم میرے لیے ایک مسئلہ بن گئے ہو“۔

اگلی صبح جب خاندان کے لوگ ابھی ناشتہ کر رہے تھے ، دور سے موسیقی کی آواز سنائی دی۔ ابو نے اپنا چمچ نیچے رکھا اور مونچھوں کو صاف کرتے ہوئے بولے ۔

”یہ تو ملٹری بینڈ ہے “۔

مشا ہوا ہوگیا۔ اور اس کے نکلتے ہی دروازہ دھڑام سے بند ہوا۔ اور برآمدے میں اس کے دوڑنے کی چاپ سنائی دی۔

ابو اور دادا بھی باہر نکلے اور ماں کھڑکی سے سر باہر نکال کر جھانکنے لگی۔

سرخ فوج کی صفوں کی صفیں گاﺅں کی گلی سے ایک سبز لہر کی طرح مارچ کرتی ہوئی گزر رہی تھیں۔ آگے آگے بینڈ تھا اور پورا گاﺅںان کے قدموں کی آوازوں اور ڈھول کی تھاپ سے گونج رہا تھا۔ مشا جذبات سے بے قابو ہورہا تھا۔ وہ اپنی ایڑیوں پر مڑا اور دوڑ دوڑ کر مارچ کرنیوالے فوجیوں کے ساتھ قدم ملانے لگا۔ ایک اجنبی مگر میٹھی سی لہر اس کے سینے سے ہوتی ہوئی گردن تک پہنچ گئی ۔ وہ سرخ فوج کے خوش باش جوانوں کو ، اُن کے گرد سے اٹے ہوئے چہرں کو اور بینڈ پھونکتے سازندوں کو تکتا رہا جن کے گال پھولے ہوئے تھے۔ اور اس نے فیصلہ کر لیا، پکا فیصلہ کہ وہ ان کے ساتھ جائے گا اور محاذ پہ لڑے گا۔

جو خواب اُس نے دیکھا تھا وہ ایک بار پھر اس کے ذہن پہ سوار ہوا۔ اُس نے اپنے خوف پر قابو پایا اور اس نے سرخ فوج کے ایک سپاہی کے کار توسوں والی تھیلی سے لٹک کر اس سے پوچھا ۔

” آپ لوگ کہاں جارہے ہیں؟ ۔محاذ جنگ پر لڑنے کے لیے ۔نا؟“۔

”اور کہاں ؟۔ یقینا! جنگ کرنے“۔

”آپ لوگ کس کی خاطر لڑیں گے؟“

” ننھے ، ہم سویتوں کی خاطر لڑیں گے ۔ ادھر آﺅ، قطار میں شامل ہوجاﺅ“۔

اس نے مشا کو صف میں کھینچ لیا۔ ایک آدمی نے لڑکے کے بکھرے ہوئے بالوں میں انگلی سے کنگھی کی۔ ایک دوسرے نے اپنی جیب سے مٹھی بھر چینی نکالی اور لڑکے کے منہ میں ٹھونس دی۔

جب وہ چو ک پر پہنچے تو انہیں چلّاکر حکم دیا گیا ” ہالٹ!“۔

سرخ فوج کے سپاہی ٹھہر گئے اور سکول کے سایہ دار احاطے میں لیٹ کر سستانے لگے۔ایک لمبا، کلین شیو آدمی، جس کی بیلٹ سے ایک تلوار لٹک رہی تھی ۔ مشا پر ہنسا۔

” تم کہاں کے ہو؟“ ۔اس نے پوچھا۔

مشا نے کندھے اچکائے اور پتلون کو اوپر کھینچا۔

”میں تمہارے ساتھ محاذ پر جنگ کرنے جارہا ہوں“ اس نے اعلان کیا۔

”کامریڈ بنالین کمانڈر! “سرخ فوج کے ایک سپاہی نے کہا” اسے ساتھ رکھیں اور اپنا ایڈجوٹنٹ بنالیں“۔

سب لوگ ہنس پڑے۔ مشا روہانسی ہوگیا۔ لیکن جس آدمی کو انہوں نے ” بٹالین کمانڈر“ کے عجیب سے نام سے پکارا تھا۔ اس نے ناک پر کھجلی کرتے ہوئے سختی سے کہا۔

”احمقو! کس بات پر ہنس رہے ہو؟ ۔یقینا ہم اُسے ساتھ لے جائیں گے۔ صرف ایک شرط پر“ ۔یہ کہتے ہوئے وہ مشا کی طرف مڑا۔ ” تمہاری پتلون پر ایک فیتہ لگا ہوا ہے ۔ ہم تمہیں اس حالت میں ساتھ نہیں لے جاسکتے۔ یہ ہماری بے عزتی ہے۔ دیکھو۔۔۔۔ میں نے دو فیتے لگا رکھے ہیں۔ اسی طرح دو سرے لوگوں نے بھی ۔ تم جتنی تیزی سے اپنے گھر جاسکتے ہو، جاﺅ اور امی سے کہو کہ وہ پتلون کے ساتھ ایک اور فیتہ تمہیں سی کردیں۔۔ ہم یہیں تمہارا انتظار کریں گے “۔ اور سائے میںآرام کرنیوالے آدمیوں کی طرف منہ کر کے آنکھ مارتے ہوئے وہ چلایا ”ٹیری شنکوف ! جاﺅ اور ہماری سرخ فوج کے اس نئے سپاہی کے لیے ایک بندوق اور ایک فوجی کوٹ نکال لاﺅ“ ۔آدمیوں میں سے ایک نے ہاتھ کو سر تک لا کر سلیوٹ کیا۔ ”ابھی لایا “ اس نے کہا۔

اور وہ دوڑتا ہوا روانہ ہوگیا۔

” دوڑ، جلدی کر ، ابھی ابھی روانہ ہوجا“۔ بٹالین کمانڈر نے مشا سے کہا۔ ”اپنی امی سے کہو کہ جتنی جلد ممکن ہو تمہارے لیے ایک اور فیتہ سی دیں“۔

مشا نے اس کی آنکھ سے آنکھ ملائی۔” مجھے یقین ہے کہ آپ اپنے وعدے سے ہٹیں گے نہیں “ ۔

” بالکل، فکر مت کرو“۔

چوک سے گھر تک کا فاصلہ کافی زیادہ تھا۔ گھر کے دروازے تک پہنچتے پہنچتے مشا کا سانس پھول چکا تھا۔ اس نے ا پنی پتلون اتاری اور ننگی ٹانگوں کے ساتھ دوڑتا ہوا اندر داخل ہوگیا۔

”امی ! میری پتلون ! ایک فیتہ!“۔

لیکن گھر خاموش اور خالی تھا۔ انگھیٹی کے گردکالی مکھیوں کا غول بھنبھنارہا تھا۔ مشا نے ہر جگہ تلاش کیا۔ صحن میں ، باورچی خانے میں ، باغیچے میں۔۔ لیکن کہیں بھی کوئی نہ تھا۔ نہ ابو تھے، نہ امی اور نہ ہی دادا۔ وہ پھر مکان کے اندر دوڑا۔ اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی تو اسے ایک خالی بوری نظر آئی۔ اس نے چاقو کی مدد سے بوری کی ایک لمبی سوتلی کاٹی۔ اس کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ بیٹھ کر اسے سی لے ، اور نہ ہی اُس نے سینا پرونا سیکھا تھا۔ اُس نے پشت کی جانب پتلون سے سوتلی باندھ کر اسے کندھے سے آگے کی طرف پھینک دیا اور آگے کی طرف باندھ لیا۔ یہ کر کے وہ وہاں سے نکلا۔ اور باڑ کے نیچے گھس گیا۔

پھولے ہوئے سانس کے ساتھ ہانپتے ہوئے اس نے پتھر اٹھا کر باہر پھینک دیا۔ اور تصویر کو دیکھنے لگا۔ لینن کا بڑھا ہوا ہاتھ سیدھا مشا کی طرف اشارہ کررہا تھا۔

”اب ہوئی نہ بات“ ۔مشا بولا” اب تو میں آپ کی فوج میں شامل ہوگیا ہوں“۔

اس نے احتیاط کے ساتھ تصویر کو پتے سے لپیٹا، قمیص کے نیچے ٹھونسا اور نیچے گلی کی طرف بھاگا ۔ اس حال میں کہ ایک ہاتھ سے تصویر کو مضبوطی سے تھاما اور دوسرے ہاتھ سے پتلون کو اوپر کیا ۔پڑوس کے مکان کے پاس سے گزرتے ہوئے اس نے آواز دی۔

”اینی سی موونا!“۔

”کیا بات ہے ؟“ ۔اینی سی موونا نے پوچھا۔

” میرے گھر والوں کو بتا دینا کہ وہ رات کے کھانے پر میرا انتظار نہ کریں “۔

”چھوٹے شیطان ! تم کہاں جارہے ہو؟۔

” محاذِجنگ پر “ ۔اور مشا نے الوداع کہنے کے لیے ہاتھ ہوا میں لہرادیا۔

لیکن جب مشا چوک پر پہنچا۔ تو وہ حیران و ششدر رہ گیا ۔ وہاں ایک جاندار تک موجود نہ تھا۔ سایہ دار میدان میں سگریٹوں کے ٹکڑے ، خالی ڈبے اور کسی کے زخموں والی پٹیاں پڑی تھیں۔ گاﺅں کے آخری سرے پر دور سے ہینڈ کی آواز آرہی تھی، اور مٹی سے اٹی سڑک پر سے سپاہیوں کے مارچ کرنے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔

ایک مایوس چیخ کے ساتھ مشا ان کے پیچھے سرپٹ بھاگا، اتنا تیز جتناکہ اس کی کمزور نانگوں میں طاقت تھی۔ وہ ان تک بہت جلد پہنچ سکتا تھا۔ لیکن سڑک کے عین وسط میں ایک رنگ دار بڑا والا کتا آلتی پالتی مارے غرار ہاتھا۔ اس کے بڑے بڑے دانت اور تیز تیز نیش دور سے نظر آرہے تھے۔ جب تک کتا د فعان ہوا، اس وقت تک بینڈ اور پیروں کی آوازیں آنا بند ہوچکی تھیں۔

***

 

ایک یا دو دن بعد چالیس آدمیوں پر مشتمل ایک دستہ گاﺅںپہنچا۔ یہ سپاہی بغیر وردی کے تھے۔ انہوں نے گریس آلود کام کرنے والے کپڑے اور پرانے بوٹ پہن رکھے تھے۔ جب ابو گاﺅں کی سوویت سے رات کا کھانا کھانے کے لیے گھرآئے ۔ تو انہوں نے دادا کو بتایا۔

”ہمارے پاس جتنی بھی گندم ہے اسے باہر صحن میں رکھوادیں، زائد گندم جمع کرنے کے لیے خوراک کا ایک دستہ یہاں آیا ہوا ہے “۔

سپاہی ایک گھر سے دوسرے گھر اپنی بندوقوں کے بٹ کی مدد سے زیر زمین چھپائی ہوئی گندم تلاش کرتے پھر رہے تھے ۔ وہ زمین کھود کرد فنائی گئی گندم نکالتے ، اُسے مشترکہ گودام تک بھجوادینے کے لیے چھکڑوں پر لاددیتے۔

چیئرمین کی باری بھی آئی۔ سپاہیوں میں سے ایک نے پائپ کا کش لیتے ہوئے دادا سے پوچھا ۔ ”اچھا تو دادا آپ ہمیں سچ سچ بتائیں کہ آپ نے کتنی گندم دفن کر رکھی ہے ؟“۔

لیکن دادا نے صرف اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرا۔

”میرا بیٹا کمیونسٹ ہے “ ۔اس نے فخر یہ انداز میں جواب دیا۔ وہ صحن کی طرف گئے ۔ پائپ والے سپاہی نے گندم کی لگی ہوئی ڈھیر یوں پر نظر ڈالی اور مسکرایا۔

ایک ڈھیری جتنی گندم مشترکہ گودام کے لیے لوڈ کرادیں “ وہ بولا ۔ ” اور بقیہ اپنے پاس رکھیں، خوراک اور بیج کے لیے“۔

دا دا نے اپنی گھوڑی چھکڑے میں جوت لی، اس نے ایک سردآہ بھری ، اپنے آپ کو برابھلا کہا۔ لیکن اس نے گندم چھکڑے پہ لوڈ کی ۔ تقریباً آٹھ بوریاں ہوئیں ، اور بے بسی کی حالت میں چھکڑا لیے گودام کی طرف چل پڑا۔ ماں تھوڑی دیر کے لیے رو پڑی ۔ اُسے گندم کے جانے کا افسوس تھا۔ مشا دادا کو بوریاں بھرنے میں مدد دینے کے بعد پادری کے بیٹے ”وٹایا“ کے ساتھ کھیلنے اُس کے گھر کی طرف چلاگیا۔

دونوں لڑکے کاغذ کے بنائے گھوڑے لے کرباورچی خانے کے فرش پر بیٹھ گئے ۔ لیکن اسی وقت سپاہی وہاں پہنچ گئے۔ وہی سپاہی جو مشا کے گھر گئے تھے۔ پادری اپنی قبا کو لہراتا کچھ گھبرایا ہوا تیز تیز قدموں سے اُن سے ملنے چلا گیا اور انہیں دیوان خانے میں مدعو کیا۔ لیکن پائپ والے سپاہی نے خشک لہجے میں کہا۔

”ہم آپ کا یہ صحن دیکھنا چاہتے ہیں۔ آپ اپنی گندم کہاں رکھتے ہیں؟“۔

پادری کی بیوی جلد بازی کے عالم میں باورچی خانے میں داخل ہوئی۔ اس کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ ”حضرات ! میں یقین سے کہتی ہوں“ اس نے ایک عیارانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔”ہمارے پاس گندم بالکل نہیں۔ میرے خاوند نے ابھی تک گندم اکٹھی کی ہی نہیں“۔

”کیا آپ کے پاس کہیں کوئی تہہ خانہ ہے ؟“ ۔ایک سپاہی نے پوچھا۔

”نہیں ! نہیں! نہیں ! ۔کوئی تہہ خانہ نہیں ہے ۔ہم ہمیشہ گندم صحن میں رکھتے ہیں“۔

مشاکو اچھی طرح یاد تھا کہ وہ اور وٹایا ایک بہت وسیع تہہ خانے میں ہمیشہ کھیلتے تھے جس کا راستہ باورچی خانے سے جاتا تھا۔

” اور اس تہہ خانے کا کیا بنا جو باورچی خانے کے نیچے ہوتا تھا؟ جس میں، میں اور وٹایا کھیلتے تھے ؟“۔ میشا نے پادری کی بیوی کی طرف مڑتے ہوئے کہا“ آپ یقینا بھول گئی ہوں گی“۔

پادری کی بیوی ہنس پڑی، مگر اس کا چہرہ پیلا پڑگیا۔

”بچے! تم تصوراتی باتیں کر رہے ہو“ اس نے کہا ”وٹایا، تم دونوں باغ میں جا کر کیوں نہیں کھیلتے ہو؟“۔

پائپ والا سپاہی مشا کی طرف مسکرایا۔

”چھوٹے ، تم اس تہہ خانے میں کس طرح داخل ہوتے ہو؟ “ ۔اس نے پوچھا۔

”آپ اس احمق بچے کی باتوں میں نہ آئیں “۔پادری کی بیوی نے یہ کہتے ہوئے ہاتھ اس قدر زور سے بھینچے کہ اس کی انگلیوں کے جوڑوں کی آوازیں آئیں۔ ”ہمارے پاس کوئی تہہ خانہ نہیں ہے، حضرت ، آپ یقین کریں“۔

بچوں کے پاس سے گزرتے ہوئے پادری کی بیوی نے مشا کو زور سے چونڈی کاٹی مگر پیار بھری مسکراہٹ میں کہا۔

”بچو باغ کی طرف چلے جاﺅ‘ تم لوگوں نے راستہ بند کر رکھا ہے“۔

سپاہیوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور فرش پر اپنی بندوقوں کے بٹ مار مار کر احتیاط سے باورچی خانے کا معائنہ کرنے لگے۔ انہوں نے دیوار کے قریب پڑی ہوئی ایک میز کو ایک طرف سرکایا اور اس خالی بوری کو بھی ہٹایا جو اس کے نیچے بچھی ہوئی تھی۔ پائپ والے سپاہی نے فرش کے ایک تختے کو اوپر کھینچا اور نیچے تہہ خانے میں جھانکنے لگا۔

”تمہیں شرم آنی چاہیے “۔ اُس نے اپنا سر ہلاتے ہوئے کہا۔”جبکہ تمہارا تہہ خانہ چھت تک گندم سے بھرا ہوا ہے ۔ اور تم کہتیہو کہ ہمارے پاس گندم نہیں ہے “۔

پادری کی بیوی نے مشا کو ایسی نظروں سے گھورا کہ وہ سہم گیا اورچاہا کہ جتنی جلد ممکن ہوسکے گھر کی طرف بھاگ جائے۔ وہ دروازے کی طرف روانہ ہوگیا۔ لیکن پادری کی بیوی نے اسے پکڑ لیا اور اس کے بالوں کو زور سے کھینچنا شروع کیا ۔وہ چلا رہی تھی۔

اُس نے جھٹکے سے خود کو چھڑایا اور گھر کی طرف دوڑ پڑا، آنکھوں میں آنسو لیے اس نے سارا واقعہ ماں کو سنایا۔ وہ دہشت سے سفید پڑ گئی۔

”میں تمہارے ساتھ کیا کروں“ وہ چلائی۔” اِس سے پہلے کہ تمہیں ایک تھپڑ رسید کروں، دفع ہو جاﺅ میری نظروں سے“۔

اُس کے بعد مشا کے احساسات جب بھی مجروح ہوجاتے وہ سیدھا باڑھ کے نیچے چلا جاتا پتھر کو ہٹاتا، پتے کو کھول کر تصویر پر ٹپ ٹپ آنسو گراتا۔ اپنے سارے دُکھ لینن سے بیان کرتا۔

ایک ہفتہ گزر گیا۔ مشا بالکل اکیلا تھا۔ اُس کے ساتھ کوئی کھیلنے کے لیے تیار نہ تھا۔ تمام لڑکے اس سے نفرت کرتے تھے۔ ابھی وہ اسے محض ”حرامی“ کہنے پر اکتفانہ کرتے بلکہ اپنے بڑوں کے کہنے کے مطابق اس کے کئی کئی نام رکھے ہوئے تھے۔

”کمیونسٹ کی اولاد“ ۔وہ چیختے ۔” گندا“ ،”کمّی“۔

ایک دوپہر کو تالاب سے گھر آتے ہوئے مشا نے اپنے باپ کو خشک لہجے میں اور زور زور سے بولتے ہوئے سنا۔ ماں اس طرح بین کر رہی تھی جس طرح لوگ کسی کے مرجانے پر کیا کرتے ہیں۔ مشا اندر داخل ہوا۔ اس کا باپ بیٹھا اپنے بوٹ پہن رہا تھا۔ اس کا فوجی کوٹ پہلے ہی تہہ شدہ اس کے پاس پڑا ہوا تھا۔

” ابو آپ کہاں جارہے ہیں؟“۔

اس کا باپ ہنس پڑا۔

”بیٹے اپنی ماں کو چپ کرا دو۔ وہ اپنی آہ و بکا سے میر ادل توڑ رہی ہے ۔ مجھے دوبارہ محاذ پر جانا ہے۔ لیکن یہ مجھے جانے نہیں دے رہی“۔

”ابو مجھے بھی ساتھ لے جائیے“ ۔مشا نے التجا کی۔

ابو نے اپنا بیلٹ باندھ لیا اور اپنی ربن والی ٹوپی پہن لی۔

”دیکھو بے وقوف مت بنو۔ ہم دونوں کس طرح اکھٹے جاسکتے ہیں؟۔ میں جب تک واپس نہ آجاﺅں تمہیں یہیں رہنا چاہیے۔ نہیں تو فصل کی کٹائی کے بعد گندم کون لائے گا ؟۔ ماں نے گھر کی دیکھ بھال کرنی ہوگی اور داد ا بوڑھے ہوتے جارہے ہیں۔۔“

مشا نے باپ کو خدا حافظ کہتے وقت اپنے آنسو پی لیے ، بلکہ وہ تو دل پر جبر کر کے مسکرا بھی دیا۔ ماں ابو کی گردن میں بانہیں ڈال کر لٹکتی رہی۔ بالکل اسی دن کی طرح جب وہ گھر آئے تھے۔ ابو کو ان سے خود کو چھڑانے میں دقت محسوس ہورہی تھی۔ دادا نے ایک ٹھنڈی آہ بھری ، اور ابو کو الوداعی بوسہ دیتے ہوئے ان کے کان میں آہستہ سے بولے۔

”دیکھو فوما ۔ اگر تم گھر رہو تو کیا ہوگا ؟۔ کیا وہ تمہارے بغیر گزارہ نہیں کرسکتے ؟ ۔اگر تم مارے گئے تو ہمارا کیا ہوگا؟“۔

”اب جانے بھی دیں بابا۔ یہ اچھی باتیں نہیں ہیں۔ اگر سب لوگ اپنی بیویوں کے دوپٹوں کے نیچے چھپ جائیں تو پھر سوویتوں کی خاطر جنگ کون کرے گا؟“۔

”آہ ۔چلو ۔چلے جاﺅ بیٹے۔ اگر تم حق کے لیے لڑتے ہو، تو میں تمہیں روکوں گانہیں “۔

مڑتے ہوئے دادا نے جلدی سے اپنا آنسو پونچھ لیا۔

باپ کو الوداع کہنے وہ گاﺅں کی سوویت تک گئے، کچھ لوگ بندوقیں سنبھالے وہیں ا ُن کا انتظار کر رہے تھے۔ اس کے باپ نے بھی ایک بندوق لی اور پھر مشا کو دوبارہ چومتے ہوئے خدا حافظ کہا، اور دوسرے لوگوں کے ساتھ گاﺅں سے باہر جانیوالی سڑک پر مارچ کرتا ہوا چلا گیا۔

مشا دادا کے ساتھ گھر آگیا۔ ماں بھی پاﺅں گھسیٹے ہوئے پیچھے چلی آرہی تھی۔ گاﺅں میں ادھر اُدھر کتے بھونک رہے تھے۔ یہاں وہاں کسی کی کھڑکی سے روشنی دکھائی دے رہی تھی۔ رات کے اندھیرے نے گاﺅں کو اس طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا جس طرح ایک بوڑھی عورت خود کو کالے کمبل سے لپیٹ لیتی ہے ۔ ہلکی سی بوندا باندی ہورہی تھی۔ اور دور کہیں بجلی چمک رہی تھی۔ جس کے بعد مدہم سی آواز میں بادل گرج رہے تھے۔

وہ خاموشی سے گھر آگئے لیکن جس وقت وہ دروازے کے اندر داخل ہوئے تو مشا نے پوچھا۔ ”دادا جان ! میرا ابو کس کے خلاف لڑنے چلا گیا ہے؟“۔

”مجھے پریشان مت کرو“۔

” دادا“ ۔

”کیا بات ہے ؟“۔

” میرا ابو کس کے خلاف لڑنے گیا ہے ؟“۔

دادا نے کواڑ بند کرتے ہوئے جواب دیا” بات یہ ہے کہ کچھ شرپسند لوگ گاﺅں کے بالکل قریب جمع ہوگئے ہیں ، لوگ انہیں ڈاکوﺅں کی ٹولی کہتے ہیں ، میرے خیال میں وہ چھٹے ہوئے غنڈے ہیں۔ تمہارا ابو انہی کی سرکوبی کے لیے گیا ہے “۔

”ان کی تعداد کتنی ہے ؟ دادا؟“۔

”کوئی دو سو کی تعداد میں ہیں۔۔۔ ”لو گ یہی کہتے ہیں۔ بس اب جاﺅ، سوجاﺅ“۔

رات کو شورو غل سے جب مشا کی آنکھ کھل گئی، تو اس نے دادا کو جگانا چاہا، لیکن وہ بستر میں موجود نہ تھے۔” دادا آپ کہاں ہیں؟“ مشا نے سر گوشی کی۔

” شش، خاموش لیٹے رہو“ ۔دادا نے دھیمے لہجے میں کہا۔

”مشا اٹھا اور باورچی خانے کے تاریکی میں راستہ ڈھونڈتے ہوئے کھڑکی کی طرف جانے لگا۔ دادا وہیں بنچ پر بیٹھے کھلی ہوئی کھڑکی سے سر نکال کر آوازیں سن رہے تھے۔ مشا کو بھی آوازیں سنائی دیں۔ خاموش رات میں اُسے گاﺅں کے اُس پار گولیاں چلنے کی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔ ایک ۔ ایک اور پھر لگاتار۔۔۔

تڑاخ۔۔ تڑاخ ۔۔ تڑاخ

جیسے کوئی لوہے پر زور زور سے ہتھوڑے مار رہا ہو۔

مشا خوفزدہ ہوگیا۔ وہ دادا کے قریب سرک گیا۔

” میرے ابو گولیاں چلا رہے ہیں؟“ ۔اس نے پوچھا

دادا نے کوئی جواب نہیں دیا اور ماں دوبارہ بین کرنے لگی۔

گولیاں رات بھر چلتی رہیں،سورج نکلتے ہی بالکل خاموشی چھا گئی۔ مشا بنچ پر پڑا، گہری نیند سو رہا تھا۔ جلدی ہی گھڑ سواروں کا ایک دستہ گلی سے گاﺅں کی سوویت کی طرف ہلکی چال چلتے ہوئے نظر آیا ۔ دادا نے مشا کو جگایا اور تیزی سے صحن کی طرف روانہ ہوگیا۔

گاﺅں کی سوویت کی چھت سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ قریب کی عمارتوں سے بھی شعلے نظر آرہے تھے اور گھڑ سوار گلی میں اِدھر سے اُدھر پھر رہے تھے ۔ اُن میں سے ایک نے دادا کو آوازدی۔

”او بڈھے تمہارے پاس کوئی گھوڑا ہے ؟“۔

”ہاں“۔

” پھر جلدی کرو اور جاکر اپنے کمیونسٹوں کو تلاش کرو۔ وہ جنگل میں بکھرے پڑے ہیں۔ اُن کے لوگوں سے کہہ دو کہ وہ انہیں دفنا دیں“۔

دادا نے تیزی سے ساوراسکا کو چھکڑے سے جوت دیا، اپنے کا نپتے ہاتھوں سے لگام تھامی اور تیزی سے گھوڑا دوڑاتا ہوا گیا۔

گاﺅں میں چیخیں اور فریادیں بلند ہوگئیں۔ ڈاکو ذخیروں سے گھاس نکال رہے تھے، بھیڑیں ذبح کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک انی سی موونا کے احاطے میں گھوڑے سے اترا اور دوڑتا ہوا اُس کے گھر میں گھسا ۔مشا نے انی سی موونا کی چیخ سنی۔ ڈاکو تلوار لہراتا ہوا دروازے سے باہر نکلا ۔ وہ زمین پر بیٹھا، اپنے بوٹ اتارے ، اپنے پیروں کے گردمیلی پٹی پھینک دی اور اس کی جگہ پر انی سی موونا کی چمکدار چادر کو دو حصوں میں پھاڑ کر پیروں کے گرد لپیٹا۔

مشا ماں کے بستر پہ چڑھااور تکیے کے نیچے اپنا سر چھپایا۔ وہ اس وقت تک وہاں رہا جب بڑے گیٹ کے کھلنے کی آواز آئی۔ وہ دوڑتا ہوا باہر چلا گیا۔ اس نے دادا کو دیکھا جس کی داڑھی آنسوﺅں سے ترتھی اور وہ گھوڑے کو احاطے میں لارہا تھا۔

چھکڑے پر ایک آدمی ننگے پاﺅں لیٹا تھا، اس کے بازو پھیلے ہوئے تھے ۔ اس شخص کا سر چھکڑے کی پشت سے زور زور سے لگ رہا تھا اور تختوں پر گاڑھے خون کی نہریں تھیں۔

مشا آہستگی سے چھکڑے تک گیا اور اس آدمی کے چہرے پہ نظریں جمائیں۔ آدمی کا چہرہ تلوار کی زخموں سے اٹا ہوا تھا۔ دانت ننگے نظر آرہے تھے ۔ ایک گال پوری کی پوری چھیل دی گئی تھی اور محض کھال کے ساتھ لٹک رہی تھی اس کی خون بھری گیند نما آنکھوں پہ ایک بڑی سبز مکھی بیٹھی تھی۔

مشا خوف سے تھر تھر کانپ رہا تھا مگر فوراًً حقیقت تک نہ پہنچ سکا۔ اُس نے مڑنے کی کوشش کی ، اور پھر اس کی نظریں ملاح کی نیلی اور سفید دھاری دار قمیص پر پڑیں جو کہ ساری خون سے لت پت تھی۔ وہ ہیجان میں آگیا جیسے کسی نے اسے دھکادیا ہو۔وہ دوبارہ دیکھنے مڑا، اس کی وسیع کھلی ہوئی آنکھیں سیاہ اور غیر متحرک چہرے پر مرکوز ہوگئیں۔

”ابو“ وہ چیخا اور چھکڑے پر چڑھا۔

”ابو، اٹھیے ابو“۔

وہ چھکڑے سے گر پڑا اور اس نے بھاگنے کی کوشش کی مگر اس کی ٹانگیں سن ہوگئیں۔ وہ چوپایوں کی طرح رینگتا ہوا برآمدے تک گیا۔ اور وہاں وہ گر گیا، اس نے اپنا چہرہ ریت میں چھپالیا۔

***

 

دادا کی آنکھیں اپنے گہرے خولوں میں ڈوب گئیں۔ اس کا سرہل رہا تھا اور اس کے ہونٹ بغیر آواز نکالے ہل رہے تھے ۔

وہ بہت دیر تک بغیر کچھ بولے مشا کے بالوں کو سہلاتا رہا۔ اور پھر ، ماں کی طرف دیکھ کر ، اس نے سر گوشی میں کہا ”آﺅ پوتے ، آﺅ یہاں سے نکلیں“۔

اُس نے مشا کا ہاتھ پکڑ ا اور اسے اعاطے سے باہر لے گیا۔ جب وہ دوسرے کمرے کے کھلے دروازے سے گزر رہے تھے، مشا نے دیکھا کہ میز پہ ابو خاموش اور بے حس وحرکت لیٹا ہوا تھا۔ خون دھو دیا گیا تھا مگر مشا وہ چمکدار خون آلود آنکھ اور اس پر بیٹھی ہوئی سبز مکھی نہیں بھول سکا۔

کنوئیں پر دادا بالٹی سے رسی کھولتے ہوئے بڑ بڑاتا رہا۔ پھر اس نے ساور اسکا کو احاطے سے باہر نکالا، اپنی آستین سے گھوڑی کے منہ سے جھاگ صاف کیا۔ پھر لگام کو صاف کرنے لگا۔ وہ رک گیا اور سننے لگا۔ گاﺅں چیخوں اور قہقہوں سے گونج رہا تھا۔ دو ڈاکو گھوڑے دوڑاتے قریب سے گزرے ، شام کی ملگجی روشنی میں ان کے جلتے سگریٹ چمک رہے تھے۔

”ہم نے انہیں ان کا زائد سکھادیا “۔ ان میں سے ایک بولا ”اب وہ لوگوں کا اناج چھیننے کی بجائے اگلے جہان میں اس کی سزا اچھی طرح بھگتیں گے“۔

جب سموں کی آوازیں مدہم پڑتے ختم ہوگئیں تو دادا نیچے جھکا اور مشا کے کان میں سرگوشی کرنے لگا۔ ”میں بہت بوڑھا ہوں۔ میں گھڑ سواری نہیں کرسکتا ۔ میں تمہیں سوار کروں گا بیٹے ، اور تم سیدھا پرونین کے فارم تک جاﺅ۔ میں تہیں راستہ بتاتاہوں ۔ سپاہی وہاں ہیں۔ وہی سپاہی جو بینڈ کے ساتھ ہمارے گاﺅں سے گزرے تھے ۔ انہیں بتاﺅ کہ جلدی آجائیں ، ڈاکو یہیں ہیں۔ یاد سے ہر بات کہنا“۔

مشا نے سرہلایا ۔ اور دادا نے اسے اٹھا کر گھوڑی پر بٹھادیا۔ اور اس کی ٹانگیں بالٹی والی رسی سے زین کے ساتھ باندھ لیں تاکہ وہ گرنہ جائے ۔ وہ گھوڑی کی باگ پکڑے تالاب سے گزرا ، ڈاکوﺅں کی پکٹوں کو عبور کیا اور کھلے میدان تک لایا۔

”دیکھو“ ۔دادا بولا” پہاڑی کے درمیان درہ دیکھ رہے ہو؟ ۔سیدھا اس میں سے گزرنا ۔ اِدھر اُدھر جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ تم سیدھا فارم پہنچو گے۔ ٹھیک ہے؟ ۔ جاﺅ خدا حافظ میرے بچے“۔

دادا نے مشا کو چوما اور ساور اسکا کی پشت کو تھپتھپایا۔

یہ صاف شفاف چاندنی رات تھی۔ ساور اسکا دلکی چال میں چلتا رہا ، وہ کبھی کبھی خر کی آواز نکالتا ۔ زین میں اوپر نیچے اچھلتی ہوئی سواری کا وزن اتنا کم تھا کہ گھوڑے کی رفتار اکثر کم پڑجاتی۔ تب مشا لگام کو ذرا سا جھٹک دیتا ،یا گھوڑے کی گردن کو تھپکی دیتا۔

باہر کھیتوں میں ، پکنے والی فصل سرسبز تھی ، کوئل مسرت سے بول رہے تھے، درے میں سے پانی کا چشمہ بہہ رہا تھا۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔

مشا یک وتنہاتھا ، وہ خوفزدہ تھا۔ اس نے اپنے بازو ساور اسکا کی گردن کے گرد پھینکے ۔ لرزتے ہوئے انسانی ہاتھ گھوڑے کے گرم گوشت سے چمٹے ہوئے تھے ۔

راستہ بلندی پہ لپٹتا رہا ، پھر ذراسی اترائی آئی اور پھر چڑھائی ۔مشا پیچھے دیکھنے سے خوفزدہ تھا ، حتی کہ سوچنے سے بھی ڈرا ہوا تھا۔ وہ اپنے آپ سے کھسر پھسر کرتا رہا۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور اس کے کان اتھاہ خاموشی نے بند کردیے تھے ۔

اچانک ساوراسکا نے اپنا سر اوپر اٹھا، ایک خراہٹ کی اور اپنی فتار بڑھادی۔ مشا نے آنکھیں کھولیں ۔ نیچے، پہاڑی کے دامن میں مدہم روشنیاں ٹمٹمارہی تھیں۔ ہوا کے دوش پہ کتوںکے بھونکنے کی آوازیں آرہی تھیں۔

ایک لمحہ کے لیے مشا کا یخ بستہ دل خوشی سے گرما گیا۔

”تیز دوڑو“ ۔وہ چیخا اور گھوڑے کے پہلوﺅں پہ اپنی ایڑیاں ماریں۔

کتوں کے بھونکنے کی آوازیں اب قریب ہوگئیں اور اُسے رات میں ایک ہوا سے چلنے والی چکی کے خدوخال مدہم نظر آئے۔

”کون ہے ؟“ ۔چکی میں سے آواز آئی۔

مشا نے ساور اسکا کو خاموشی سے ایڑ لگائی۔ مرغ آذان دے رہے تھے ۔

”ہالٹ ۔ کون ہے ؟ ۔ رک جاﺅ ورنہ گولی چلاﺅں گا“

اس سے مشا ڈر گیا اور اس نے لگام کھینچی۔ مگر ساور اسکا کو قریب دوسرے گھوڑوں کی موجودگی کا احساس ہوا، وہ زور زور سے ہنہنایااور سرپٹ آگے دوڑنے لگا۔

”ہالٹ“

ہوا سے چلنے والی چکی کی طرف سے بندوقیں چلنی شروع ہوگئیں۔ مشا کی چیخیں سموں کی ٹاپوں میں ڈوب گئیں۔ ساوراسکا کی کراہ نکلی، وہ ڈگمگایا اور بڑی زور سے دائیں پہلو گر گیا۔

مشا کی ٹانگ میں شدید درد اٹھی ، اس قدر خوفناک درد کہ ، اس قدر ناقابل برداشت کہ وہ چیخ بھی نہیں سکتا تھا۔ اور ساور اسکا کا بوجھ درد کرنے والی ٹانگ پر بڑھتا جارہا تھا ، بڑھتا ہوا چلا جارہا تھا۔

سموں کی آوازیں قریب آتی گئیں ، اور قریب آتی گئیں۔ دو گھڑ سوار نمودار ہوئے ۔ تلواروں کی چمک میں وہ نیچے اترے اور مشا پر جھکے۔

”اللہ ہمیں معاف کرے۔ ہم نے ایسا کیوں کیا ، یہ توبالکل بچہ ہے “۔

” مر گیا؟“۔

مشا کی قمیص کے نیچے ایک ہاتھ گھسا اور اس کے چہرے کو ایک گرم اور تمباکو بھری سانس نے گھیر لیا۔

”زندہ ہے “ ۔پہلی آواز نے اطمینان کرتے ہوئے کہا ، ”لگتا ہے گھوڑے نے اس کی ٹانگ دُکھادی “۔ نیم بے ہوشی میں مشا سر گوشی میں کامیاب ہوا۔ ” گاﺅں میں ڈاکو آگئے ہیں۔ انہوں نے میرے ابو کو قتل کردیا۔ اور سوویت کو جلا ڈالا۔ اور دادا نے کہا آپ لوگ جتنی جلد ہوسکے آجائیں؟“۔

پھر ہر چیز مدہم سے مدہم تر ہوتی گئی اور مشا کی آنکھوں کے سامنے رنگوں کے دائرے گھومنے لگے۔

ابو قریب سے جارہے تھے ، قہقہے لگاتے ہوئے ، اپنی سرخ مونچھوں کو مروڑتے ہوئے۔ اور ایک بڑی سبز مکھی ان کی آنکھ پر بیٹھی تھی۔ اور دادا تھے ، اپنا سر ہلاتے ہوئے۔ اور ماں تھی ۔ اور پھر ایک چھوٹا شخص تھا جس کی پیشانی کشادہ تھی ، اس کا بازو سیدھا مشا کی طرف اشارہ کررہا تھا۔

”کامریڈ لینن!۔ ۔۔ ” مشا یخ بستہ آواز میں چیخا اور بڑی کوشش کے بعد اپنا سر اٹھایا ۔ مسکرایا اور اس کا بازو تھام لیا۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*