اک ذرا دیر

 

اک ذرا دیر میری دوست

بس اک ذرا دیر

تیرے نکھرے خیالوں سے

اجالوں کی شفق پھوٹے گی

تیرے لفظوں کی دھنک رنگ سے

اس ابر کے موسم کو قرار آئے گا

اک ذرا دیر میری دوست

فقط چند ہی لمحوں کا صبر

تو نے مرتی ہوئی خواہش کا

دھیاں رکھا ہے

میرے اندر کی جنوں خیز

تڑپ کو بھی جواں رکھا ہے

تیرے نرم سے پاوں

میں جو درد کے چھالے ہیں

تیرے پھول سے ہاتھوں میں

جو زخم کشالے ہیں

اک روز یقیں رکھو

یہ سب بول پڑیں گے

اور بول بھی ایسے

کہ آکاش میں

ہلچل سی مچا دیں

اک بات سنو اے دوست

تو گردش دوراں میں

خوشبو کی زباں ہے

تو آہ ہے نالہ ہے بلبل ہے فغاں ہے

سب جھوٹ کی ململ سے تراشے چہرے

سب شہر بدر درد سے عاری ٹھہرے

تیرا حسن زمیں زاد کو جینے کا سلیقہ بخشے

تیری آواز خلاوں میں بھی سُر چھیڑ کے رکھ دے

اس وقت کی خون پھوٹتی صبحوں میں

تیرے احساس سے کچھ فرق پڑا ہے

بس ایک ذرا دیر ہے چلتے رہنا

آنکھ میں آنسو لیے جلتے رہنا

یہ رنج یہ دھوکے یہ ظلم کی آندھی

کچھ بھی ہو اے دوست میری بات سنو

اس جبر کے موسم کا جگر چیر کے آنا

اک ذرا دیر میری دوست

فقط ذرا دیر۔۔۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*