سوال

 

گرد نے اسکے گالوں کو ڈھک دیا

اسکی آنکھیں روتی دکھائی دیں

تھکن اور بدقستمی نے اسے نڈھال کر دیا

میں اسکے قریب گئی

اپنا ہاتھ اسکے کندھے پر رکھا

اور اس سے پوچھا

تم کون ہو ؟

کیا میں تمھاری مدد کر سکتی ہوں؟

وہ زور سے اچھلا

اور بےزاری سے مجھے کہا

” آ ہ کوئی جگہ آ دم کے ان بچوں سے

نہیں بچی ”

میں نے ڈرتے ہوۓ اسے کہا

"انسانی جذبے نے مجھے مجبور کیا

کہ تم سے تمھاری پریشانی پوچھوں”

بڑی حیرانی سے اس نے مجھ سے پوچھا

"انسانی جذبات؟!

تم کون ہو ؟

اتنا بڑا دعوی کرنے والی؟

میں نے ابھی تک کوئی انسان نہیں دیکھا

انسانیت اور انسانی جذبات”

میں نے اس سے پوچھا

کون ہیں یہ لوگ ؟

تم پھر کسے انسان کہتے ہو”

وہ ہنسا

اس نے میرا ہاتھ سختی سے اپنے ہاتھ میں پکڑا

اور مجھ سے کہا

بچے !

کیا یہ لوگ انسان ہیں ؟

بہت بڑا فرق ہے

انسان اور آ دم کی اولاد میں

لفظ ‘انسان’ لیا گیا ہے ‘انسانیت” سے

جسکا مطلب ہے کہ یہ پیدا ہوا

گرم میٹھے لفظ ‘پیار’ سے

ایک انسان نہیں چوستا

اپنے ہی جیسے کسی دوسرے کا خون

ایک انسان کسی کو دھوکہ نہیں دیتا

اور نہ اپنے دوست کو گمراہ کرتا ہے

ایک انسان کبھی بھی اپنی خوشی

دوسروں کے دکھ میں نہیں ڈھونڈتا

کبھی کوئی انسان دوسروں کی بدقسمتی نہیں۔لاتا

اپنی خوش قسمتی کے لۓ

کوئی انسان کبھی بھی اپنا آرام نہیں چاہتا

دوسروں کی حیات تنگ کر کے

کوئی انسان کبھی کسی سے جھوٹ نہیں بولتا

اور بےکار نہیں ہوتا

ایک انسان دوسروں کے مسائل کو بھی ویسی اہمیت

دیتا ہے جیسا کہ خود اپنے کو

اور دوسروں کی بھلائی چاہتا ہے

انسان دوسرے انسان کا احترام فراخدلانہ کرتا ہے

اور اس کی عزت کرتا ہے

ایک انسان اپنی خوشی دوسروں کی

خوشی میں حاصل کرتا ہے

اور ہمیشہ دوسروں کی اچھی زندگی کے لۓ

کوشش کرتا ہے

میرے بچے !

پھر اب تم مجھے بتاؤ

کیا انسان کا وجود ہے ؟”

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*