دنیا گول نہیں ہے

 

فراق ہالیپوٹو کی نثری نظموں کا مجموعہ میرے لیے ایک خوش گوار حیرت کا سبب بن گیا۔ حیرت کے ساتھ مجھے مسرت بھی حاصل ہوئی کیوں کہ جس نثری نظم کی لڑائی میں نے اور میرے ساتھی شعرا نے ستّر کی دہائی کے آغاز میں بڑے زور وشور سے لڑی تھی اب عرصے سے میں نے اُس پر خاموشی اختیار کرلی تھی۔ اس خاموشی کی وجہ مخالفین نہیں بلکہ وہ نثری نظمیں لکھنے والے ہیں جو اس صنف کے تقاضوں کو جانے بغیر لکھ رہے ہیں۔

میرے خیال میں اچھی نثری نظم لکھنا پابند اور آزاد نظمیں لکھنے سے زیادہ مشکل ہے۔ ایک کامیاب نثری نظم کی تخلیق میں شاعر کو جس شدت سے گزرنا پڑتا ہے ، اُسے جھیلنا اور اس کا اظہار کرنا ایسا ہی عمل ہے جیسے زخم بھی کھانا اور مرہم بھی نہ لگانا۔ یہ شدت ہی وہ کیفیت پیدا کرتی ہے جو نثری نظم کا آہنگ بن جاتا ہے۔ فراق ہالیپوٹو کی نظموں میں اس شدت کو پوری طرح محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ان کی پہلی ہی نظم ’’ہم حادثے میں زندہ رہیں گے‘‘ اُس کیفیت کو جگاتی ہے۔ جو آرٹ اور خصوصاً شاعری کا تقاضا ہے۔

ہم حادثے میں زندہ رہیں گے

میں ایک حادثے کے آگے بھاگتا رہا

وہ جب مجھ میں آگ لگا کر چلا گیا

تو میری بینائی واپس آگئی

پھر میں نے خاموشی سے اپنی زندگی کو

اس قید سے رہا کرایا

جس میں میرے ساتھ

ایک ایسی لڑکی بھی جی رہی تھی

جو دوسرا جنم نہیں لینا چاہتی تھی

کیوں کہ اس کے قبیلے کی کوئی بھی عورت

اپنی تکمیل نہیں دیکھ سکی ہے

اور برف ہونے سے ڈرتی ہے

اب ہم دونوں اپنے جسم کے

ویران حصوں میں

ایک دوسرے کو کاشت کررہے ہیں

اور حادثہ اس کے جسم میں

آخری بار مررہا ہے

نثری نظم کیوں لکھی جائے؟ یہ سوال میں نے ۱۹۷۵ء میں نمایاں نثری نظم لکھنے والوں سے کیے تھے جن میں قمرجمیل، رئیس فروغ، عذرا عباس، منیرنیازی، ثروت حسین جیسے نام شامل تھے۔ واضح رہے کہ یہ وہ شعرا ہیں جو غزلیں اور پابند نظمیں بھی لکھ رہے تھے مگر بہت خوب صورت نثری نظمیں بھی تخلیق کررہے تھے۔ ان سے گفتگو کے نتیجے میں جو نثری نظمیں لکھنے کا جواز سامنے آیا، وہ یہ تھا کہ آج کی پیچیدہ زندگی اور حقائق کی تلخی نرم ونازک بحر اور قوافی میں اظہار نہیں پاسکتی۔ صورت حال کی سنگینی جس شدتِ اظہار کی متقاضی ہے وہ بنے بنائے سانچوں سے باہر نکل جاتی ہے۔ یہ سانچے جن روایات نے تشکیل دیئے تھے وقت کی رو، انھیں کہیں پیچھے چھوڑ آئی ہے۔ شاعری کی تُند وتیز رو، ادب وآرٹ کے کچھ ایسی جہتوں کی طرف بھی رواں ہے، جن کے مناظرنئے میں اور ان کے اظہار کے لیے بڑا کینوس چاہیے۔ ایہام، جو شاعری کا تقاضا ہے اس کے ساتھ رنگوں کی نئی ترتیب اور علامتوں کی آمیزش ضروری ہے۔ اس صورتِ حال کو فراق ہالیپوٹو کی ایک نظم میں دیکھیے:

ایک شاعر کا غیرمحفوظ پیار

کچھ دنوں کے بعد ہم

ایک ملاح کی آپ بیتی پڑھیں گے

جس کی ساری زندگی پانی میں گزری ہے

یا وہ فلم بھی دیکھیں گے

جس میں خزانے کی تلاش میں نکلا شخص

صحرا میں پیاس سے مرجاتا ہے

یا وہ شہر بھی دیکھنے چلیں گے

جس کے کھنڈرات میں ایک رقاصہ

اور پروہت کا عشق

کسی شاعر کی تلاش میں ہے

اور مل کر ایک ایسی نظم لکھیں گے

جس کی چھاؤں کلاسک مزاج شعرا

رات کو استعمال کریں گے

پراس سے پہلے آؤ تو

ایک ایسی محفوظ پناہ گاہ ڈھونڈیں

جہاں کاروکاری اپنی زندگی کو

کسی تمغے سے نہ نواز سکے

اس کتاب کے آغاز میں ایک تفصیلی مضمون عبدالرشید کا ہے۔ عبدالرشید نثری نظم کے ان ابتدائی شعرا میں سے ہیں جن کا نثری نظموں کا مجموعہ ستّر کی دہائی میں شائع ہوا تھا اور انھوں نے اس صنف میں لکھنا جاری رکھا۔ اُن کا یہ مضمون وہ مباحث اور دلیل اپنے اندرسمیٹے ہوئے ہے جو نثری نظم پر جاری رہیں۔ جنھیں قمرجمیل کی کتاب جدید ادب کی سرحدوں میں بھی پڑھا جاسکتا ہے۔

’’پروز پوئم میں جو فن کار یا انسان اُبھر کر سامنے آتا ہے، وہ جدید عہد کا ایک بے چین انسان ہے یا اس بے چین انسان کی کوئی ایک مخصوص شکل۔ یہی جدید انسان غزل میں جُزوی طور سے نظمِ جدید میں اس سے زیادہ اور پروز پوئم میں بھرپور طور سے سامنے آتا ہے۔ دراصل پروز پوئم ہی آج شاعری کا وہ میڈیم ہے جس میں جدید انسان اپنی فکر، احساس اور جبلّت کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے۔ جدید عہد کا انسان جو پروز پوئم میں اُبھر کر سامنے آیا ہے، اس میں روحِ انکار جلوہ گر ہے یعنی یہ انسان جاگیردارانہ عہد اور سرمایہ دارانہ عہد دونوں کی معاشیات، سیاسیات اور سماجیات کا باغی ہے اور دونوں ادوار کی جمالیات کی نفی کرتا ہے۔‘‘ (قمر جمیل، ’’پروز پوئم کا معیار‘‘ مشمولہ ’’جدید ادب کی سرحدیں‘‘، مکتبۂ دریافت، ۲۰۰۰ء، جلد اوّل، ص۲۳۶)

ان تمام علمی مباحث اور تاریخی دلائل کے علاوہ بھی اچھی شاعری وہی ہے جو آپ کے دل کے تاروں کو چھیڑ دے۔ فراق ہالپوٹو کی نظمیں ان تاروں میں ارتعاش پیدا کرنے کے ساتھ ایک ایسی دھن بھی چھیڑتی ہیں جو خون کی روانی اور دل کی دھڑکنو ں سے ہم آہنگ ہو۔ ایسی ہی ایک نظم پر میں اپنے مضمون کا اختتام کروں گی۔

میں شاعری میں درخت بھی نہیں بوسکا

تم مجھے تعمیر کرنے کے لیے

موہن جودڑو کی مٹی اُٹھالائی ہو!

میرے کہنہ زخم اپنی جوانی یاد کرکے

چرچ کے کبوتروں کی طرح

مجھ میں ہُو ہُو کررہے ہیں

فنا کا فلسفہ مجھے دیر سے سمجھ میں آیا

نہیں تو میں تجھے پہلے ہی حاصل کرچکا ہوتا

ہونٹوں میں دبے ہوئے سارے الفاظ

ملبہ ہٹانے کے منتظر ہیں

تمھاری باتوں کے سفر نے مجھے تھکادیا ہے

اور میں اپنی شاعری میں

درخت بھی نہیں بوسکا ہوں

تم موہن جودڑو کی رقاصہ کی طرح

مجھ میں بار بار کیوں ناچ رہی ہو

کہیں مجھ سے ٹوٹ نہ جاؤ

کمہار تو سارے ناراض ہیں مجھ سے

میری آنکھوں کی بھٹی تمھیں جلا دے گی

تم خود کو تلاش کرکے پھر مجھ سے ملنا

میں لاڑ* کا نم زدہ شاعر ہوں

مجھے تعمیر کرنے کے لیے

تیری مسکراتی آنکھیں ہی کافی ہیں

موہن جودڑو کی مٹی تو

میرے اجل کا سبب بن جائے گی

لیکن اب تو میں اس کشتی کا مسافر ہوں

جس کا بادباں کسی بھی طوفان کا

تناؤ نہیں سہ سکتا

میں سمندر کی گہرائی ناپ کے

واپس آنے کا وعدہ تو نہیں کرتا

پر اگر لوٹ آیا تو

وہ لامحدودیت بھی اپنے ساتھ لے آؤں گا

جس کی تلاش میں صوفی فلاسفروں نے

اپنی زندگیاں گنوادیں

بس تب تک تم چاند کو مصروف رکھنا

میں ہر حیرت کا پتا ڈھونڈنکالوں گا

پر یہ سب کچھ کرنے سے پہلے

میں اس فنا کی کمی محسوس کررہا ہوں

جو میرے عشق کی حاصلات اور انا ہے

اس لیے میری فنا کو بقا دینے کے لیے

تم یہ گواہی دو کہ

زخم کم تھے یا زیادہ

پر میرا دل ان سے کبھی بھرا نہیں

* جنوبی سندھ کا ساحلی علاقہ جسے لاڑ کہتے ہیں۔

 

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*