ایک دسترخوان تین قسم کے کھانے

 

وہ بے چارہ صبح سویرے اٹھتا او راٹھ کر کھاد لے جانے کا کام شروع کرتا۔ وہ یہ کھاد اپنے کندھے پر لاد کر اپنی زمین پر لے جاتا۔ آٹھ افراد پر مشتمل اس خاندان کا گزر بسر بہت مشکل سے ہورہا تھا کیونکہ زمین بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس سے فقط تین مہینوں تک گھر چلایا جاسکتا تھا۔ یہ فصل بھی انتہائی سخت مشقت کے بعد دے پاتا، باقی نومہینے محنت مزدوری کرنا پڑتی تھی۔وہ بھی یوں کہ سال کے باقی نو مہینے وہ لکڑیاں لاکر بیچتا اور جو آمدن ہوتی اس سے بمشکل زندگی کی تاریک شب سحر کرتا۔ بہت مشکل زندگی تھی اُس کی۔

 

اس کے تین بیٹے تھے۔ لیکن سب ہی آٹھ سال سے کم اس لیے وہ اُس کا ہاتھ ابھی نہیں بٹا سکتے تھے۔اگر چہ بیٹیاں بھی تھیں، لیکن روایات اور اقدار ایسی تھیں کہ اس کی بیٹیاں چاہنے کے باوجود اس کی کوئی مدد کے قابل نہیں رہی تھیں۔ اس لیے پورے گھر کی کفالت سمیت تمام ذمہ داریاں اُسی کے سپرد تھیں۔ چھوٹا سا زمین کا ٹکڑا تھا جو کہ ہموار زمین کی نسبت قدرے اونچائی پر واقع تھا جہاں پانی بہم پہنچانا مشکل تھا۔ اس نے جو تخمینہ لگایا تھا اس کے مطابق اگر وہ اس زمین پر بادام کے درخت لگاتے تو سالانہ اچھی خاصی آمدن متوقع تھی۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ان درختوں کو پانچ سال تک متواتر پانی دینا ضروری تھا جو اس کے لیے مشکل تھا۔ وہ پانچ سالہ انتظار کی سکت اپنے آپ میں نہ دیکھ پاتا، وہ چونکہ مستقبل کے بارے میں سنجیدہ تھا۔ اس لیے اکثر و بیشتر سفید ریش بزرگوں سے مشورہ کرنے لگتا۔ سب نے اس کی ہمت بندھائی کہ پانچ سال ہی کا تو عرصہ ہے پھر تمہارے وارے نیارے ہوجائیں گے۔ بیوی اور بیٹیوں نے بھی بادام لگانے کی تائید کی اور اس عزم کا اظہار کیا کہ فقط پانچ سال ہی کا تو عرصہ ہے۔اس دوران وہ اگر مٹکوں اور برتنوں میں بھی چاہیں تو پانی اوپر پہنچا کر درختوں کو دے سکتے ہیں۔ سو اس نے بھی تہیہ کر لیا کہ بادام کے درخت لگالیے جائیں۔

 

آمد بہار کے ساتھ وہ محنت مزدور ی کے بعد واپس اپنے گاؤں پہنچا، بادام کے نہال ادھار کہیں سے لیے اور وعدہ کیا کہ وہ ان یک سالہ نہالوں کے بدلے اُن کے لیے گرمیوں میں لکڑیاں لائے گا۔ اور یوں یہ رقم چکا دے گا۔

 

سچ ہے کہ انسانی عزم و ہمت کا بدل نہیں، انسانی عزم و ہمت قوی ہو تو بڑے بڑے کا رنامے سرانجام دیئے جاسکتے ہیں۔ کچھ ہی عرصہ میں زمین کا وہ ٹکڑا جو پانی سے دوراونچائی پر واقع تھا ایک سبزہ زار باغ کا منظر پیش کرنے لگا۔ بادام کے نہال بھی درخت بننے کو تھے۔ سب ہی حیران تھے۔ وہ اب انہی سوچوں میں گم رہتا کہ کب درختوں پر بادام لگیں گے: وہ اپنے تابناک مستقبل کا سوچ کر دل ہی دل میں خوش ہوتا۔ اس نے تمام گھر والوں کے لیے ہر سال نئے کپڑے خریدنے کا وعدہ کیا تھا۔ سو پورا خاندان خوشی سے پاگل ہوا جارہا تھا۔

 

کچھ نہ کچھ سرمایہ رکھنے والے ہر شخص کی خواہش تھی کہ کسی نہ کسی طرح یہ باغ اُس سے خریدا جائے۔ بالخصوص خان صاحب تو اسی تاک میں تھا کہ کسی طرح سے باغ اپنی ملکیت میں لے لے۔ گاؤں کا مولوی صاحب بھی اب خاصا امیر ہوچکا ہے اور جائیداد کا مالک ہے۔ وہ بھی چالیس پچاس درختوں پر مشتمل اس باغ پر اپنی نظریں جمائے بیٹھا ہے۔ اس لیے مولوی صاحب اور خان صاحب کے مابین ایک رقابت بھی اندر ہی اندر پنپ رہی ہے۔

 

دونوں نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے اس بے چارے سے دوستی کی پینگیں بڑھانی شروع کیں۔ لیکن وہ کسی بھی صور ت نہیں چاہتا تھا کہ وہ اپنے اہل و عیال کا واحد ذریعہ آمدن (جس نے ابھی ٹھیک طرح سے آمدن دینی بھی شروع نہیں کی تھی) بیچ دے۔

 

وہ ان سے ہمیشہ کہتا چلا آیا تھا کہ آپ سب دیکھ رہے ہیں کہ نہ صرف میں بلکہ گھر کے ہر فرد کا اس میں پورا حصہ ہے۔ اور ہر ایک کتنی زحمتیں اٹھا رہا ہے ہم سب ہی اپنے کندھوں پر کبھی کھاد اٹھائے درختوں کو دیتے ہیں۔ کبھی پانی اسی طریقے سے پہنچا رہے ہوتے ہیں۔ ابھی تک تو ہم باغ کا اولین ثمر بھی نہیں دیکھ پائے ہیں، وہ تو آنے دیں۔ سال بھر میں نئے کپڑے تو خریدنے دیں۔

 

خریدار رکنے والے کہاں تھے۔ وہ متواتر اپنی بات دہراتے، آخر کار جب انہوں نے محسوس کیا کہ یہ گھی سیدھی انگلیوں سے نہیں نکلنے والا، تو وہ منصوبہ تشکیل دینے لگے۔

 

پہلے ایک شخص کو دستاویزات دے کر اس کے خلاف اٹھایا۔ کہ وہ اس کا قرض نہیں دے رہا جو اُس نے مدتوں پہلے اُسے دیا تھا۔انہوں نے حکومتی کارندے اُسے پکڑنے کے لیے بھیجے۔گھر آئے حکومتی کارندوں کی خدمت کرنا ضروری سمجھا جاتا تھا۔ سو ان حکومتی کارندوں کی خدمت کے لیے بے چارے خاندان کو کہیں سے اچھا گندم کا آٹا سود پر لینا پڑا۔

 

شام کے لیے دودھ اور دیسی گھی سے تیار شدہ کھانے کا بندوبست کیا گیا۔

 

رات کھانے کے دسترخوان پر اس نے مہمان کی جانب گندمی روٹی،خان صاحب کے سامنے مکئی کی روٹی،اور اپنے سامنے جوار کی روٹی رکھی۔ بدقسمتی سے مہمان کے ہاتھ جوار کی روٹی لگی جسے نگلتے ہی اس نے خشمگیں نگاہوں سے اسے گھورتے ہوئے آنکھوں ہی آنکھوں میں بتایا کہ میری تضحیک کی سزا تجھے مل ہی جائے گی۔ اور یہ بھی ظاہر کر دیا کہ ایک دسترخوان پر تین قسم کی روٹی رکھی گئی ہے۔

 

تو قعات کے عین مطابق بہت جلد مایوس ہوتے ہوئے اس کی ہمت جواب دینے لگی اور حالات اس کے خلاف ہی جارہے تھے۔ سو طے پایا کہ وہ دوسرا آدمی بھی جسے ان درختوں میں دلچسپی تھی، اسے اپنے ساتھ ملالیا گیا۔ یوں اس نے سود پر لیے قرض کے بدلے اس کے تمام درخت بمعہ زمین اپنی ملکیت میں لے لیے جس کو بعد میں دو حصے کر کے تقسیم کردیا گیا۔ اور وہ غریب بے چارہ اپنی دوچار رضائیاں اور چند ایک برتن لیے مزدوری کے لیے دوسری منزل کی جانب چل پڑا۔

 

اور جب کئی برسوں بعد واپس لوٹا، تو ایک بیٹی اور بیٹے کے علاوہ خاندان کے تمام افراد لقمہ اجل بن چکے تھے۔ گاؤں میں گہما گہمی نہیں تھی، کیونکہ سب ہی کو اس کی طرح بے گھر کردیا گیا تھا۔

 

اس کا بیٹا کچھ فہمیدہ اور پڑھا لکھا نوجوان تھا۔ اس لیے وہ اس فکر کا داعی تھا کہ وہ تمام لوگ جنہیں اس کے باپ کی طرح بے گھر کر کے بھگادیا جاچکا ہے۔ ان سب کو واپس بلا کر یکجا کیا جائے۔ انہیں ان کی زمینیں دلائی جاسکتی ہیں۔ لیکن اس کی اس سوچ پر متذکرہ بالا اشخاص ہنس رہے ہیں۔

 

 

0Shares
[sharethis-inline-buttons]

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*