فساد فی الارض

 

میرے پاس کُچھ مزدور دن پڑے ہیں

صُبح تکرارِ اجرت سے شروع ہوئی

دوپہر ڈھلتے ہوئے ان کا پسینہ جمنے لگا

زمین کی بالٹی میں کُچھ خواب انڈیلے

سورج کی اُداس چادر اوڑھے

شام کے کالے جنگل میں

خوف اور ذلت کے سیاہ ڈامبر سے

افلاس و گمنامی کی

سڑک بچھاتے ہوئے داخل ہوئے

جب رات نے اپنا پھن پھیلایا

تو گیدڑوں نے سناٹے کا قتل کرنا شروع کردیا

اُن کی نیند اکثر موت کا زیرِ جامہ پہنے

سسکتی ہوئی سحر کے آس پاس

محُو ِرقص رہتی ہے

تُم جانتے ہو

انھیں کوئی نہیں خریدے گا

پہاڑ ، ندیاں ، درخت ، کُتے اور پرندے

جب نیم شب کو ماتم کرنے لگیں

تو سینہ چاک سوداگراں

مُنہ پہ مادے کا لہو لگائے سوتے ہیں

ہاں تُم چاہو تو جامِ زیاں لے کر

جہانِ خراب کی دھوکے باز آنکھوں میں

سیاہ کار شراب کے چند قطرے برسانا

یہ مُژدہ کار آنکھیں بند ہوجائیں گی

اور آسماںِ کی بے رحم کمیٹی کو

سب اوکے کی رپورٹ روانہ ہوجائے گی۔۔

 

 

 

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*