بکری اور بھیڑیا

 

زگرینؔ کے ریوڑمیں ایک بکری تھی۔ ایک روز بکری نے اپنے دل میں کہا ”ہر سال جب زمستان آتا ہے تو واجہ زگرینؔ ہمیں ہانک کر کچھی اور سندھ کی طرف لے جاتا ہے۔ اس سال میں نہیں جاؤں گی۔۔۔ یہیں ہر بوؔٹی کی خوشبو بھری وادیوں میں رہوں گی۔ درہنہ، پودینہ اور سمسور نامی جڑی بوٹیاں چَر لوں گی۔ سبز اور گھنے صنوبروں کے سائے میں سوؤں گی، چشموں اور ندیوں کا ٹھنڈا او رمیٹھا پانی پیوں گی۔ اگر بارش اور برف پڑی تو آکر مالک کے ریوڑ والی جھونپڑی میں پناہ لوں گی اور سو جاؤں گی۔

 

خزاں کے وقت بکری نے اپنے دل کی بات مان لی اور ریوڑ سے بھاگ کر چھپ گئی۔ لوگ نقل مکانی کر گئے۔ رم پہاڑوں سے ڈھلوانوں میں اتر گئے۔ تب بکری پہاڑ سے نیچے وادی میں خراماں خراماں ڈولتی چَرتی کرتی آگئی۔

 

موسم کے بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔ سرد ہواؤں کے پاس زمستان کی آمد کی خبریں تھیں، اور زمستان آگیا۔ گھاس، جھاڑیاں بوٹے سرخ اور سیاہ رنگ کے ہوتے ہوتے خشک ہوگئیں۔ بارشوں کا موسم آیا۔ اب بکری رات کو سونے کے لیے اپنے مالک کے ریوڑ کی جھگی آجاتی اور دن کو وادی چلی جاتی۔ اگر بارش برستی تو سارا دن جھگی میں رہتی۔

 

اب ہر روز بارش تھی اور برف تھی۔ بکری بھوک سے نڈھال ہوگئی۔ برف اور بارش نے موقع نہ دیا کہ وادی میں اترے اور جھاڑی اور پودوں کو منہ لگائے اور کھالے۔

 

ایک روز سویرے جھگی سے سرنکالا اور دیکھا۔ اوہو، ساری زمین آسمان سفید سفید برف کی چادر اوڑھے ہوئے ہیں۔ پہاڑ پتھر، درخت، لکڑی کچھ بھی ظاہر نہیں، سب کچھ برف کے نیچے۔ بکری نے ایسی برف نہیں دیکھی تھی اس لیے کہ وہ ہر سال زمستان میں گرم موسم والے علاقہ کچھیؔ جاتی تھی۔

 

بالآ خر سورج نکلا، موسم تبدیل ہوگیا۔ برف پانی ہوتی گئی۔ برف کے نیچے سے سرسبز گھاس سر نکالنے لگی۔ وادی میں پھر بہار آگئی۔ سیاہ زمستان گزر گیا۔ پھولوں کی خوشبو نے وادی کو سر پہ اٹھا رکھا تھا۔

 

بکری نے بچے دیے۔ تین جڑواں لیلے ایک کا نام رکھا سیرک، دوسرے کا پیاز اور تیسرے کا گسینچ۔ تینوں کو لے گئی اوراخروٹ کے سیاہ گھنے درختوں میں ایک بوڑھے اخروٹ کے تنے میں ایک بڑی سوراخ میں چھپا دیا۔ انہیں بتایا کہ ”جب تک میں نہ آؤں اور تمہیں نہ پکاروں،تم باہر مت نکلو۔ وادی میں ایک بھیڑیا ہے، تمہیں پکڑ کر کھا جائے گی“۔

 

پھر وہ خود چَرنے کے لیے باہر گئی۔ لیلوں نے اس کی بات مان لی اور باہر نہ نکلے۔ جس وقت بکری آتی تو پکارتی:

 

پیارے سیرک، اچھی پیاز اور ننھے گسینچ

 

آجاؤ تمہاری ماں آگئی

 

اُس کے دونوں پستان بھرے ہوئے ہیں

 

آؤ پی لو اور سیر ہوجاؤ

 

اُس کے بعد جاؤ اور کھیلو

 

وہ تینوں اچھلتے آئے۔ ماں کے پستانوں سے دودھ پیا اور پیٹ بھر لیا۔ وہ چھلانگیں لگانے لگے، کلیلیں بھرنے لگے۔

 

ماں جب باہر جاتی تو وہ پھر بڑی سوراخ میں چھپ جاتے۔

 

پتہ نہیں کس وقت اور کیسے بھیڑیا کی نظر اُن پہ پڑی۔ اُس کے تو منہ میں پانی آیا۔ دل میں کہنے لگی کہ میں کب اُن کو کھا سکوں گی۔ چند روز تک وہ جاسوسی کرتا رہا کہ کس طرح لیلے سوراخ سے باہر نکلیں گے۔ ایک روز بھیڑیا نے بکری کا پیچھا کیا۔ آکر درختوں کے پیچھے چھپ گیا۔ بکری نے محبت بھری آواز میں کہا:

 

پیارے سیرک، اچھی پیاز اور ننھے گسینچ

 

آجاؤ تمہاری ماں آگئی

 

اُس کے دونوں پستان بھرے ہوئے ہیں

 

آؤ پی لو اور سیر ہوجاؤ

 

اُس کے بعد جاؤ اور کھیلو

 

تینوں بھاگتے آئے، دودھ پیا اور سیر ہوگئے۔بھیڑیا نے یہ سب کچھ سن لیا۔ وہ ہنسی اور خود سے کہا ”اچھا، تو یہ بات ہے“۔ وہ وہاں سے چلی گئی۔ دوسرے دن وہ بکری کی واپسی کے وقت سے ایک گھنٹہ پہلے آئی۔ اور اپنی موٹی اور بھدی آواز میں کہنے لگی۔

 

پیارے سیرک، اچھی پیاز اور ننھے گسینچ

 

آجاؤ تمہاری ماں آگئی

 

اُس کے دونوں پستان بھرے ہوئے ہیں

 

آؤ پی لو اور سیر ہوجاؤ

 

اُس کے بعد جاؤ اور کھیلو

 

 

 

گسینچ چھوٹا تھا، بھاگ نکلنے لگا۔ پیاز عقلمند تھا، اُسے پکڑ کر روکا کہ یہ تو ماں کی آواز نہیں ہے۔ یہ تو بھیڑیا ہے۔ ہماری ماں کی تومیٹھی آواز ہے۔ بھیڑیا نے لیلوں کی بات سنی۔ اسے لیلوں کی عقلمندی پہ سخت غصہ آیا۔ پشیمان ہو کر چلی گئی۔ تین چار دن تک بکری کی آواز کی نقل کرتی رہی تاکہ اس کی آواز بکری کی طرح ہوجائے۔ وہ اس میں کامیاب ہوگئی۔ اور بکری کے آنے سے کچھ لمحے پہلے آئی اور پکارنے لگی:

 

پیارے سیرک، اچھی پیاز اور ننھے گسینچ

 

آجاؤ تمہاری ماں آگئی

 

اُس کے دونوں پستان بھرے ہوئے ہیں

 

آؤ پی لو اور سیر ہوجاؤ

 

اُس کے بعد جاؤ اور کھیلو

 

 

 

تینوں لیلے اچھلتے کودتے سوراخ سے نکلے۔ اور بھیڑیا تینوں کو زندہ نگل گئی اور جاکر اپنی غار میں آرام سے سو گئی۔

 

زیادہ دیر نہ گزری کہ بکری آئی اور اپنی میٹھی آواز سے لیلوں کو پکارا۔ جتنا بھی پکارا، جتنا بھی پکارا۔۔۔۔ مگر لیلوں کا نہ کوئی نام تھا نہ نشان۔ اس نے قریب جا کر سوراخ میں جھانکا۔ وہاں بھی کچھ نہیں۔۔۔ وہ جان گئی کہ بدظالم بھیڑیا نے میرا منہ کالا کردیا، میرے لیلے کھالیے۔ یا پھر ہو سکتا ہے کوئی آدمی آیا،لے گیا۔

 

اب بکری پاگلوں کی طرح سارے گاؤں میں بھاگتی پھری۔ روتی فریاد کرتی چلّاتی رہی۔ اور یوں شام ہوگئی۔ دل میں کہا رونے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ انسان اور حیوان سب رات کو اپنے ٹھکانوں میں ہوتے ہیں۔رات کو گاؤں کے سارے لوگ اپنے گھروں کو لوٹ آتے ہیں۔ میں جاؤں گی اور اپنے بچوں کا کھوج لگاؤں گی۔ اُس نے اپنے ہاتھوں اور پیروں میں گھٹیاں باندھ لیں اور گاؤں کی طرف چلی گئی۔ گاؤں کے پہلے مکان کے چھت پہ گئی۔ اپنے ہاتھ پیر زور زور سے مارے۔ گھر کے مالک نے پوچھا:

 

تم کون ہو ہماری چھت پہ؟

 

بکری نے جواب دیا:

 

میں ہوں میں ہوں بکری

 

ہاتھوں میں ژلنگ ژلنگ

 

پیروں میں گدرھک گدرھک

 

کس نے کھائے میرے بچے؟

 

کون آئے مجھ سے لڑنے؟

 

 

 

گھر کے افراد نے کہا:

 

ہم نے نہیں کھائے تیرے بچے

 

ہم نہ آئیں تم سے لڑنے

 

وہ دوسرے گھر کے چھت پہ گئی اور اپنے ہاتھ پاؤں مارے

 

وہ پکارے، تم کون ہو ہمارے گھر کی چھت کو ہم پہ گرادو گے؟۔

 

 

 

بکری نے کہا:

 

میں ہوں میں ہوں بکری

 

ہاتھوں میں ژلنگ ژلنگ

 

پیروں میں گدرھک گدرھک

 

کس نے کھائے میرے بچے؟

 

کون آئے مجھ سے لڑنے؟

 

 

 

انہوں نے بھی جواب دیا:

 

ہم نے نہیں کھائے تیرے بچے

 

ہم نہ آئیں تم سے لڑنے۔

 

بکری اسی طرح چڑھتی اترتی، ژلنگ ژلنگ اور گدرھک گدرھک کرتی گاؤں کے سارے لوگوں سے پوچھتی رہی۔مگر کوئی بھی نہ مانا کہ وہ اس کے بچے لے گیا۔ تب وہ گئی بھیڑیا کے غار کے دھانے اور زور زور سے اپنے ہاتھ پیر مارنے لگی۔ بھیڑیا نے اپنی غراتی اور ڈراؤنی آواز میں کہا:کون ہے میری غار کے دھانے؟۔ مجھے نیند سے جگادیا نا ہنجار“۔

 

بکری بولی

 

میں ہوں میں،ہوں بکری

 

ہاتھوں میں ژلنگ ژلنگ

 

پیروں میں گدرھک گدرھک

 

کس نے کھائے میرے بچے؟

 

کون آئے مجھ سے لڑنے؟

 

بھیڑیا غرّا کر بولی

 

میں نے کھائے تیرے بچے

 

میں آؤں گا تم سے لڑنے

 

بکری نے کہا ٹھیک ہے۔ کل شام گاؤں کے سامنے والے بڑے میدان میں میرے اور تمہارے بیچ لڑائی ہوگی۔ بھیڑیا نے قہقہہ لگایا، کہا ”ٹھیک ہے۔ ٹھیک ہے۔ کل تمہارا پیٹ بھی پھاڑوں گا“۔

 

 

 

اگلی صبح بکری لوہار کے پاس گئی، کہا:

 

”استاد۔ میری سینگوں کو نیزے کی طرح تیز کردو۔ اگر میں کل بھیڑیا سے جنگ جیت گئی تو تمہیں دودھ کی ایک دیگ دوں گی“۔ لوہار نے بکری کی سینگیں اتنی تیز کردیں کہ اگر مکھی بھی اُن پر بیٹھ جاتی تو کٹ جاتی۔

 

بکری گئی۔ کچھ دیر بعد بھیڑیا آیا، کہا”ارے او لوڑی، گندہ گوڑی (گندگی کاڈھیر)۔ میرے دانتوں کو اس قدر تیز کر کہ وہ بکری کی گردن پہ ایک طرف سے گھسیں تو دوسری طرف سے نکلیں۔ میں جیت کر تمہیں غلاظت بھری ایک تھال دوں گا“۔

 

لوہار نے دل میں کہا: ”بکری مجھے استاد کہے اور تم مجھے کہو لوڑی، گندہ گوڑی۔ وہ مجھے دودھ کی دیگ دے اور تم غلاظت بھری تھال۔ میں تیرے دانت ایسا کردوں گا کہ دنیا دیکھے گی“۔

 

مگر اُس نے بھیڑیا کو کہا”واجہ تیرے دانت ایسے تیز کروں گا کہ تمہیں خود معلوم ہوجائے گا“۔ اس نے سوہان اٹھالیا اور بھیڑیا کے دانتوں کی تیزی ختم کردی۔ بھیڑیا چلا گیا۔لوڑی (لوہار) نے ڈھول اٹھایا اور ڈم ڈم کرتا ہوا اعلان کرنے لگا:”اے مسلمانوں سنو، آج عصر کے وقت گاؤں کے سامنے بڑے میدان میں بکری اور بھیڑیا کا مقابلہ ہوگا۔گاؤں کے سارے لوگ بڑے اور چھوٹے، بوڑھے اور جوان، مرد اور عورتیں نظارہ دیکھنے ضرور آجاؤ۔

 

بھیڑیا نے سادا دن کچھ نہیں کھایا تا کہ اُس کے دانت کُندنہ ہوجائیں۔ دیگر کے وقت گاؤں کے سارے لوگ میدان میں جمع ہوگئے۔ دیکھا تو وادی کی طرف بکری آ رہی ہے۔ تھوڑی دیر میں بھیڑیا غرّاتے ہوئے اور پتھروں کو لڑھکاتے ہوئے پہاڑ سے نمودار ہوا۔ ایک میدان کے اِس سرے پہ کھڑا ہوگیا دوسرا دوسرے کنارے پر۔ سب لوگ پکار اٹھے:”پہلے بکری کی باری ہے“۔

 

بھڑیا بولا:”نہیں نہیں،پہلے میری باری ہے“۔ اور دوڑتے ہوئے گیا اور بکری کی گردن پکڑ لی اور ا‘سے جھٹکے دینے لگا۔ اس نے بہت کوشش کی مگر بکری کے بالوں میں سے ایک بال بھی نہیں نکلا۔الٹابھڑیا کے دو دانت نکل گئے۔ پھر سارے لوگوں نے شور مچایا: ”اب بکری کی باری ہے، اب بکری کی باری ہے“۔

 

بکری میدان کے آخری سرے تک گئی اور وہاں سے دوڑتی ہوئی آئی اور اپنی دونوں سینگیں بھیڑیا کے پیٹ میں پیوست کردیں۔ بھیڑیا کا پیٹ پھٹ گیا اور تینوں لیلے زندہ سلامت بھیڑیا کے پیٹ میں سے نکل آئے اور ممیاتے ہوئے بکری کے پیچھے ہولیے۔

 

بھیڑیا مرگیا۔ سارے لوگ ش ہوئے اور بھیڑیا کی دہشت اور ڈر سے نجات پائی۔ اور انہوں نے اپنی بھیڑیں اور لیلے وادی میں چرنے کے لیے چھوڑ دیے۔

 

بکری نے ایک دیگ دودھ سے بھر لیا اور لوہار کو دے دیا۔

0Shares
[sharethis-inline-buttons]

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*