سیاست دو بڑی سماجی قوتوں یعنی دولت مند اور غریب کے بیچ فیصلہ کن نتیجے تک پہنچنے تک کے لیے مہلک لڑائی کا نام ہے۔عوام اور سرمایہ دار کے بیچ اس برحق لڑائی میں ایک طرف معیشت پر قابض لوگ ہیں جو ریاست پہ اپنے قبضے کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔اور دوسری طرف محنت کش طبقے کی قیادت میں عوام الناس ہیں جو یہ قبضہ چھڑوانا چاہتے ہیں۔
یعنی سیاست انہی دو طبقوں کے درمیان جدوجہدکا نام ہے۔ یہ جدوجہد بہ یک وقت گلی پہ فتح حاصل کرنے کے لیے بھی جاری ہے اور وزیراعظم ہاؤس پہ بھی۔ ہمہ وقت، ہمہ سمت اور ہمہ رنگ جدوجہد۔ دوسرے لفظوں میں سیاست عوام کی زندگی کا ضامن عمل۔سیاست عوام کا کام ہے۔۔۔۔
تو پھر ہمیں ہر سطح پر،یعنی ٹی وی اور سوشل میڈیا پر ”عوام بہ مقابلہ دولتمند“والی سیاست نظر کیوں نہیں آتی؟۔ ہمیں تو صرف دولتمند آپس میں دست و گریباں نظر آتے ہیں۔ دولتمند زرداری بمقابل دولتمند عمران خان۔ دولتمند نواز شریف بمقابل دولتمند پیپلز پارٹی۔ حالانکہ ان کی یہ لڑائی غیر بنیادی، غیر منطقی اور نمائشی ہے۔ اصل جاری لڑائی یعنی غریب عوام بمقابل دولتمند نہیں دکھائی جارہی۔ اس لیے کہ ٹی وی بھی تو دولتمندوں کے ہیں۔ یہاں بیوروکریسی میں تمام حکام صرف دولتمند طبقے سے ہیں، یا اُس طبقے کے پکے وفادارہیں۔مزدور طبقے کو بالائی طبقے کے خلاف لڑنے سے روکنے کے لیے پولیس نے اس کے ہاتھ پیر باندھ رکھے ہوتے ہیں اور منہ بند کر رکھے ہیں۔ عوام کے حقوق کی مدافعت کرنے کی ہر کوشش دبا دی جاتی ہے۔ سرمایہ دار کے خلاف جب بھی کوئی ہڑتال ہوتی ہے تو فوج اور پولیس مزدوروں پر جھپٹ پڑتی ہیں۔ سارا نظام بڑے سرمایہ داروں کے تابع رہتا ہے۔ سرمایہ دار جو چاہیں حاصل کرسکتے ہیں۔ مزدور طبقہ چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پستا رہتا ہے، سرمایہ دار اور فیوڈل دونوں اُسے لوٹتے ہیں۔
بورژوا جمہوریت میں مسائل کو جڑسے نہیں اکھاڑ اجاتا۔ بس پیوند کاری سے وقتی طور پر نمٹ کر ادھر ادھر کی ہانک شروع ہوجاتی ہے۔ بڑے، داخلی، سیاسی، معاشی اور بنیادی مسائل کو فلاں پڑوسی ملک کی شرارت کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کی بورژوا جمہوریت میں کسی نہ کسی بہانے سے مصنوعی قیادت کھڑی کی جاتی ہے۔ مصنوعی قیادت مسئلہ ہوتی ہے، حل نہیں۔ یہ لانے والوں ہی پہ بوجھ ہوتی ہے۔
مگر بنیادی مسائل پرانے اور فوری حل طلب ہوچکے ہیں۔عوام الناس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔اب عملی اقدامات ہی ان کے CBM(اعتماد بحال کرنے کے اقدامات)کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں، عملی اقدامات ہی حل ہیں۔ مثلاً ملک کو ایک جمہوری اور واقعتا وفاقی ملک بنانے کے لیے اب محض عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ آئین تو پہلے ہی بن چکا ہے۔ اُس آئین کو لاگو کرنے والے سارے ادارے بھی پہلے ہی سے موجود ہیں۔ لوگوں کو بڑی شکایت یہ نہیں کہ آئین موجود نہیں یا لاگو کرنے والا ڈھانچہ موجود نہیں ہے۔ لوگوں کو اصل شکایت یہ ہے کہ لکھے ہوئے پر عمل نہیں ہورہا۔ متفقہ باتوں پہ عملدرآمد کرنے میں دھوکہ کیا جاتاہے۔ لیت و لعل کیا جاتا ہے۔ پس و پیش کیا جاتا ہے۔ اگر مگر اور چالبازی کی جاتی ہے۔
الیکشنوں میں گھپلا کرنے کی روایت ختم کرنا ایک عملی اقدام ہے۔ یہاں فوری اور آزادانہ الیکشن ہی CBMبھی ہیں اور عملی اقدام بھی۔
آئین میں موجود ہے کہ صوبوں کے قومی وسائل اُس کے اپنے کنٹرول میں ہوں گے۔ یعنی بلوچستان کی ساری معدنیات، سمندر و ساحل اور دیگر وسائل بلوچ کی ملکیت ہوں گے۔ اُن کے بارے میں پالیسی، کنٹرول، ہیڈ کوارٹر ز اور انتظامی ڈھانچہ سارے کا سارا بلوچ کا ہوگا۔یہ سب کچھ پہلے ہی متفقہ باتیں ہیں۔ اُن پہ عمل درآمد نہیں ہوا۔مصنوعی تاخیری حربوں کا خاتمہ نہیں ہورہا۔
اسی طرح سیاسی قیدیوں کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اختلافِ رائے رکھنے و الے لوگ بغیر کسی عدالتی آئینی طریقے کے گرفتار کیے جاتے ہیں۔اغوا کر کے لوگوں کو عقوبت خانوں میں ڈال کر بدترین ایذ ارسانی کی جاتی ہے۔ نفسیاتی اور جسمانی طور پر انہیں ٹارچر کیا جاتا ہے اور بغیر عدالت لائے انہیں قتل کر دیا جاتا ہے۔ مرنے کے بعد لاش کی بے حرمتی جیسا ناقابلِ تصور عمل کیا جاتا ہے۔
محکوم قوموں اور محروم طبقوں کے لیے پریس آزاد نہیں ہے۔ آئے روز کتاب دکانوں پہ چھاپے مارے جاتے ہیں۔
اکیسویں صدی کی بورژوا جمہوریت میں بھی یہ سب کچھ نہیں ہوتا۔عوام اور اُس کی رائے کے بنا گزارہ نہیں۔۔۔۔اور بورژوا جمہوریت یہاں کے دولتمند طبقہ کے لیے موت ہے۔
ہمارے جیسے ملکوں میں پارلیمانی جمہوریت بھی دراصل مارشل لا ہی ہے۔ رجعت، دہشت جاری و ساری ہیں۔ فیوڈل نظام اپنی تمام تر مکروہیت کے ساتھ پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ اس نظام نے کمال مہارت کے ساتھ اپنے جبر کے پرانے حربے بھی برقرار رکھے ہیں اور جدید ترین ایجادات بھی اپنے نظام کی برقراری کے لیے اپنا خدمتگزار بنا لیا ہے۔ فیوڈل طبقات ایسے مرغن ورنگین مناظر پیدا کرتے رہتے ہیں جس سے عوام کی توجہ اِس کی لوٹ سے ہٹائی جاتی رہے۔ حتمی مقصد یہ ہوتا ہے کہ عوام بورژوازی کا تختہ الٹنے والی انقلابی جدوجہد کی طرف نہ جاسکیں۔
معاشی سماجی اور سیاسی بحران اپنی شدید ترین صورت میں موجود ہے۔ عوام مہنگائی اور بے روزگاری سے اس قدر بے حال ہیں کہ کسی بھی وقت بغاوت پر جا سکتے ہیں۔ عوام کے اِس سارے غصے اور بے بسی کو کم کرنے کے لیے ایک بار پھر وہی پرانا فارمولا استعمال کیا جارہا ہے: ”وزیراعظم بدلو“ فارمولا۔”رجیم چینج فارمولا“۔
تیئیس مارچ کی رنگا رنگی میں، اور ”وزیراعظم بدلو“ کے ہنگامے کے بیچ ایک بہت بڑا فیصلہ ہوا۔ اِس ملک میں بہت بڑے فیصلے ایسے ہی مصنوعی گہماگہمی اور شور شرابے بپا کر کے کیے جاتے ہیں۔ اس بار فیصلہ بلوچستان کے سینے پر ایک بہت مہلک مُکّہ مار کر کیا گیا۔ ریکوڈک کا معدنی خزانہ غیر ملکیوں کو دے دیا گیا۔ کوئی بلوچ مرضی نہ لی گئی، کوئی ریفرنڈم نہیں کیا گیا، بس غریب کا مال تھا، ہڑپ ہوگیا۔
اس بار پھر اِس ”وزیراعظم بدلو فارمولا“کا ٹی وی، سوشل میڈیا، گلی اور محلے میں اس قدر غلغلہ اٹھا دیا گیا ہے کہ وقتی طور پر مہنگائی بے روزگاری اور انارکزم اس شور میں دب گئے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ اگر ”وزیراعظم بدلو“ فارمولا عمل میں آبھی جائے تب بھی نظام تو یہی رہے گا۔مہنگائی کم نہ ہوگی، بے روزگاری ختم نہ ہوگی، لاقانونیت گھٹ نہیں جائے گی اور کرپشن ختم نہیں ہوگا۔ عام آدمی کی خیر نئی رجیم میں بھی نہیں ہوگی۔
عوام الناس کے لیے خیر کا دن تو وہ ہوگا جب اُن کے دل کا لکھوایا سسٹم قائم ہوگا۔ خیر اس میں ہے کہ موجودہ سارے سیٹ اپ کے سارے ڈھانچے کو گرا دیا جائے اور اسے نئے خطوط پر استوار کیا جائے۔ روٹی نامی خیر، تعلیم صحت نامی خیر، عزتِ نفس نامی خیر۔۔ سب کے لیے خیر۔