ہانی مریذ

 

اگلا منظر نامہ کچھ یوں ہے کہ تباہ حال، شکست خوردہ‘ دھوکہ یافتہ  اور حواس باختہ مریذ ایک رات وصلِ ہانی کی توقعات کاندھے پہ اٹھائے اُس کے محل میں گھس جاتا ہے۔ اور اُس کی گھوڑی کے آخور میں دبک کر بیٹھ گیا۔ اُس نے ہانی کو وہاں تک آنے بندھی گھوڑی کھول دی۔ سوئے ہوئے چاکر نے ہانی کو بھجوا دیا کہ جاکر گھوڑی باندھ آئے۔ ہانی نے جا کر دیکھا وہاں تو شہ مریذ بیٹھا ہوا ہے۔ وہ وقار کے ساتھ گھوڑی کی میخ  ٹھونک  دوبارہ واپس آ کر لیٹ گئی۔ دوسری بار پھر گھوڑی کھول دی گئی۔ ہانی نے وہی کیا۔ مگر تیسری بار جب ایسا ہوا تو پھر ہانی سے نہیں رہا گیا۔بے عزتی کی بھی ایک حد ہوتی ہے، توہین کی بھی ایک انتہا ہوتی ہے، یہ ایک انتہا سے دوسری انتہا تک فٹ بال بن جانا اُسے قطعاً گوارا نہ تھا۔

 

اس نے مریذ کو حتمی جواب دینا تھا۔ اس لیے اس نے آلتی پاتی مارے مرید کی ران پہ،گھوڑی کا ایک ڈیڑھ فٹ لمبا  میخ  کا نوکیلا سرا  رکھا اور اوپر سے پتھر سے میخ کو ٹھونکنے لگی۔ایک طرف سے میخ مرید کی ران میں پیوست ہوتی گئی اور دوسری طرف پتھر سے اُس کی پیشانی پر زخم پڑتا گیا۔۔۔۔  جواب تھا اب چاکرکی وفادار بیوی ہانی کا اپنے سابقہ محبوب مریذ کو۔

 

ایک طرف ہانی ہے جو اپنی محبت کو اپنے ازدواجی حالت پہ نہ صرف قربان کردیتی ہے بلکہ محبوب کی ران پہ ایک فٹ لمبی کیل ٹھونک دیتی ہے۔ اور دوسری طرف  ہر طرح سے ہارا ہوا فاتح مریذ وابستگی کی بلندی کی جانب جاتی سیڑھیاں چڑھتا جاتا ہے۔ بلوچ تہذیب ہولناک انداز میں بَن بھی رہی ہے اور دھڑام سے گر بھی رہی ہے۔

 

رات گزرگئی۔ ہانی نے چاکر کو سب بتادیا۔اگلی صبح اُس نے حسبِ معمول منعقدہ  دیوان و دربار میں جمع  شدہ لوگوں کے سامنے ایک پہیلی کہی۔شاعر نے اُسے یوں بیان کیا:

 

رنداں کہ دیوانے کثہ

 

سیوی مزں بُرجہ بنا

 

میر چاکرہ محلہ بنا

 

بندے کہ بستہ چاکرا

 

رندئے قویہہ ایں واژھا

 

”دوشی گروخاں کہ جثہ

 

کئے وہاوثو کئے ہاغہا“

 

ترجمہ:

 

رندوں کا اجتماع تھا

 

سبی کے بڑے قلعے کے سائے میں

 

میر چاکر کے محل کے نیچے

 

چاکر نے ایک پہیلی کہی

 

وہ جو رند کا طاقتور سردار تھا

 

”رات کو جب بجلیاں چمکی تھیں

 

(تو) کون سو رہا تھا کون جاگ رہا تھا“

 

اب یہ تو کوئی براہ ِ راست الفاظ نہ تھے۔ یہ تو کوئی کو ڈورڈ والی پہیلی تھی۔ ایسی پہیلی جو غیر معمولی تھی۔ کبھی کسی نے نہیں سنی تھی۔ پہلیاں تو بلوچوں کی وقت گزاری کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہوتی ہیں۔ خواہ گھر کے چولہے کے گرد بیٹھے بچے ہوں یا تقریب اور خوشی کے مواقع ہوں بلوچ ہر عمر میں پہیلیاں  پوچھتا بوجھتا ہے۔ وہ پہیلیوں کا سپیشلسٹ ہوتا ہے۔مگر یہ والی پہیلی تو پہلے کسی نے بھی نہ سنی تھی۔ اور پھر یہ واقعاتی سی پہیلی تھی۔ سرگزشت جیسی۔ چنانچہ۔

 

کسا نہ ذاثہ شاھذی

 

دروغیں دنیائے گواہذی

 

نَیں کہ جُڑے نہ جمبرے

 

اے زہریں زمستانی شفے

 

تامیں گروخ تامیں گرند

 

 

 

ترجمہ:۔

 

کسی نے کوئی گواہی نہ دی

 

اس جھوٹی دنیا کی گواہی

 

(کہ) نہ تو بادل تھے نہ برسات تھی

 

یہ تو تلخ زمستانی رات تھی

 

(سردیوں میں ویسے بھی بادل گرجتے چمکتے نہیں ہیں)۔

 

کہاں سے آئے گی گرج چمک

 

اب جب سب خاموش، سب لاجواب ہوئے تو ایک شخص کو تو بولنا ہی تھا۔ چنانچہ معروض نے خودHistory will absolve me والے کو بولنے کا موقع دے ہی دیا،سازش وقوت نے خود معصومیت کو زبان دے ہی دی، اور جب بات اسمبلی و دیوان تک آہی گئی تو محفل میں موجود مریذ بھلا کیوں خاموش رہے۔ اور بالخصوص جب چاکر کو معلوم ہے اور اُس نے بات پہیلی کے انداز میں محفل میں پھینک دی، تو کسی نے تو اس بات کا، اس پہیلی کا مالک بننا تھا۔ اور اس کا مالک تو مریذ تھا۔ لہٰذا مریذ،بلوچ اخلاقی کو ڈ کی ایک ایک شق میں ملبوس ہوکر بول پڑا:

 

گال کئے مریذ شہزاذغیں

 

شہزاذغ او  مستانغیں

 

(چاکر)کوش کار ین و گِلاّ نہ کار

 

مں راستیں نشانیاں دیاں

 

زہریں زمستانی شفا

 

باجے جڑاں تامیں گروخ

 

ترجمہ:۔

 

شہزادے جیسا مریذ بول اٹھتا ہے

 

شہزادہ اور مستانہ

 

”چاکر بے شک قتل کردو مگر گلہ نہیں دینا

 

میں تمہیں پکی نشانیاں بتادوں گا

 

تلخ زمستانی رات کو

 

بجلیاں کہاں

 

اور بالخصوص بغیر بادلوں کے بجلیاں کیسے چمکیں گی؟

 

اصل قصہ عمومی تھا ہی نہیں، یہ تومقامی تھا۔ مخصوص گھر، مخصوص حویلی، محضوض افراد:

 

دوشی گروخاں کہ جثہ

 

میر چاکرئے محلہ بُنا

 

بوریں  بہانہ  ہاڈرا

 

مں گورغیں کُلہ  بُنا

 

ہانی ئے سلطانیں سرا

 

دو باروا شینکاں جثہ

 

سیمی برا شامالتئی

 

ترجمہ:۔

 

رات کو جو بجلیاں چمکیں

 

وہ جگہ میر چاکر کا محل تھی

 

اُس کی گھوڑی کے ہاڈرمیں

 

خوبصورت گھر کے ساتھ

 

ہانی کے سلطانی سرہانے کی طرف

 

بادل کی بجلی دوبار تو ہلکی سی چمکی

 

تیسری بار آنکھوں کو خیرہ کرنے والی

 

بلوچ نے قہر برپا کرنا تھا‘کر دیا۔دربار میں موجود بلوچ تو کیا پوری کائنات سکتے میں آجاتی ہے۔ یہ آج کیا نائن الیون ہوگیا کہ بات سپر پاور کے اپنے ٹوِن ٹاور تک پہنچی تھی، اُس کی اپنی چار دیواری کے اندر۔ مگراب تو ہست و نیست کی سیٹی بج چکی تھی۔ چاکر اور مریذ میں سے ایک کوتو معدوم ہونا ہی تھا………… اور ظاہر ہے کہ سردار اور فقیر کے رشتوں کو برابری میں ڈھالنے کی کوشش کرنے والے کو ہی خسارے میں ہونا تھا۔ اس لیے کہ فیوڈل”سٹیٹس کو“ کچی دیواروں پہ کبھی کھڑا نہیں ہوتا۔قصور خواہ جس کا بھی ہو، سزاوار تو مریذ ہی کو ہونا ہوتا ہے۔ محفل میں موجودلوگو ں نے اپنے ویلیوسسٹم کی چوکھا ٹ کوجب زلزلہ کے شدید جھٹکوں میں پایاتوخوف، غصہ اور جھنجلاہٹ میں آنکھیں باہر ابل آئیں، منہ جھاگ ہوئے، بال کھڑے ہوئے اور آسمان کو شگاف کر ڈالنے والا احتجاج بلند ہوا۔ چاکر کے خلاف نہیں، بلکہ مریذ کے خلاف۔ ہر سماج کا چاکر تو پاک پوتر ہوتا ہے، گناہ و جرم سرز دہی نہیں ہوتا اُن سے، یسوع جیسا معصوم۔احتجاج تو بے چارے، مریذوں کے خلاف، مریذوں کے باپ مبارکؔ کے خلاف:

 

ایذا کہ رند بذ بُڑتغاں

 

اوشتاثغ و گال آتکغاں

 

گِند او موارک پُسغا

 

گوں ناروائیں قصوا

 

ترجمہ:۔

 

یہاں رندوں نے برامنایا

 

اٹھ کھڑے ہوئے، گویا ہوئے

 

دیکھو دیکھو، مبارک اپنے خلف کو

 

ناروا بات کے ساتھ

 

سب کا خیال ہے کہ آگ کا کام توجلانا ہوتا ہے۔ مگرمبارک تو فہمیدہ بوڑھا ہے۔ اُسے تو پتہ ہے کہ آگ کی عدالت ہی ناانصافی کا گڑھ ہوتی ہے۔طبقاتی سماج میں آگ، جلن، بھسمی سب طبقاتی ہوتے ہیں۔ وہ فوراً سمجھ گیا کہ تقدیر نے اس کے بیٹے کو گردن سے پکڑ کر دیوار سے دے مارا۔ تقدیر بھی تو طبقاتی ہوتی ہے۔ اُس کی چشم ِ بینا ”مجرم کون؟“نہیں دیکھتی۔

 

ارے یہ تو بقا کی یُدھ مچ گئی۔ بیٹے کی جان بچانے کی لمحاتی جنگ جیتنی تھی یا ہارنی تھی۔ آج جنگ کا مطلب اپنے لختِ جگر کی زندگی بن چکی تھی۔ یہ سچ پہ کون، باطل کون کی فلسفیانہ پیمائش کی گھڑی نہ تھی۔ اُسے مریذ کا جائز مگر نا قابلِ عمل ردِ عمل تب قابلِ قبول ہوتا اگر اُسے وہ  سارے ستون گرتے نظر آتے جن پر سردار کا اقتدار کھڑا تھا۔ مگریہ تو نا ممکن تھا اس لیے کہ سماج اُس سب کے لیے ابھی تیار ہی نہ تھا، نعم البدل موجود ہی نہ تھا۔ تب ایک ہی راہ بچتی ہے، بیٹے کی جان بچائی جائے۔چنانچہ اُس نے اپنا جوتا اتارا اور بیٹے کو دے مارا:

 

 

 

کشی موارک لترا

 

جنتی مریذا ماں سرا

 

بِل دے مریذ بذ فعل ہاں

 

بد فعل ہو  بذکارِہاں

 

گوں چاکرئے ماہیں جنا

 

چاکر بذیں مڑدے نہ ایں

 

چاکر تئی مٹ ئے نہ ایں

 

گوانکہ ہزار مڑدہ لُڑی

 

مارا گریو گورہ کنئے

 

چُکاں شذ و تُنہ  کُشئے

 

ما شیھ اثوں شاہی نہ ووں

 

ترجمہ:۔

 

مبارک جوتی اتار کر

 

مرید کے سر پہ دے مارتا ہے

 

چھوڑ دو مرید بدفعلیاں

 

بدفعلیاں بدکاریاں

 

چاکر کی چاند سی بیوی کے ساتھ

 

چاکر برا شخص نہیں ہے

 

چاکر تیرے برابر نہیں ہے

 

اُس کی بات پر ہزار جوانمرد چل پڑتے ہیں

 

ہمیں پردیس میں دفن کراؤ گے

 

بچوں کو بھوک پیاس سے مار دو گے

 

ہم شہہ (پیر فقیر) ہیں شاہ نہیں بن سکتے

 

اگر کہانی کی روانی میں جلد بازی نہیں تو ایک ایک مصرعے کو دوبارہ پڑھیے۔ ایک ایک مصرع مارکس کا ”کپٹل“ نہ لگے تو میں مجرم۔ بھاگ میں چھپے سینکڑوں لگڑ بھگڑی ہونٹوں کو جھیلا میں نے یہ کہتے ہوئے کہ ”بلوچستان میں طبقات نہیں ہیں!“۔

 

سوچیے،مریذ اب کیا کرتا؟۔محبت انہونی طور پر خوش قسمت ایسے ہی تو نہیں کہلاتی جاتی۔ ارے دوستو۔ محبت کمال کی چیز ہے۔ یہ وہ طبقاتی پس منظر میں پیدا ہوکر  غیر طبقاتی صورت اختیار کرتی ہے۔سماج طبقاتی ہو تو محبت کس طرح غیر طبقاتی ہوگی۔کبھی محبت طبقات امتیاز کو جنہم واصل کردیتی ہے۔ مگر اکثر تو اس کے برعکس ہوجاتا ہے۔ الہڑ وبے خبر مریذ کی محبت کو تو بہت پہلے طبقاتی امتیاز نے ڈس لیا تھا۔ مریذ کا تختہ تو کب کا الٹ چکا تھا، اُسے چاکر کی باڈی گارڈی سے پہلے ہی خارج کر دیا تھا۔پورا سماج تواس سر قبیلوی نظام کو عافیت سمجھ کر اُسے رضاکا رانہ تسلیم کرتا تھا۔لہٰذا اب وہ ساعت آہی گئی جب مریذ کو محبت نے یہاں کے لیے مِس فٹ کردیا۔ گھپ اندھیر میں کوئی متبا دل موجود نہ تھا۔ لہذا اس نے والد کی جوتی کو چوما اور باپ کو واپس کر دیا:

 

بشکیں ترا بشکیں  ترا

 

بشکیں مئیں  عارفیں پثئے

 

لِتر ہواں مڑداں جثیں

 

رِنداں دو دیمی نارثیں

 

سیویں داں سرینا جسکثیں

 

سوزیں سغاراں ٹِیکثیں

 

ہوناں ڈغارے ریجثیں

 

بوراں ڈغارے کیڑثیں

 

ترجمہ:۔

 

”معاف کرتا ہوں تمہیں معاف کرتا ہوں تمہیں

 

معاف کرتا ہوں تمہیں کہ تم میرے مہربان باپ ہو

 

جوتا مجھے کوئی تب مارتا

 

جب رند زخمی ہوکر کراہ رہے ہوتے

 

سبی کمر تک دَھل جاتا

 

جب گھڑ سواروں کے گھوڑے ہنہنارہے ہوتے

 

جب خون سے زمین سیراب ہورہی ہوتی

 

گھوڑوں کی سموں نے زمین پر ہل چلادی ہوتی

 

(اور میں نہ لڑتا)

 

مگر یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری تھی۔ وہ بات جس پر وہ خود آج ہی پہنچا تھا۔ اُس نے وہ بات چھ سو برسوں قبل کہہ دی تھی جسے کہتے ہوئے آج بھی کئی شیر دل ہونٹ کانپتے ہیں:

 

چاکر کہ قومی واژہ اے

 

مں دِہ بذیں مڑدے نہ یاں

 

لوہیں کمانہ  واژہاں

 

چاکر پوانکا شر تریں

 

کاٹارہ مُشتے تنگویں

 

زینِ ئے جزو مُرواردیں

 

رُو بندے لعل و گوہر یں

 

پاغے دو پیچا مستریں

 

سڑداری ئے نامے گوئریں

 

 

 

ترجمہ:۔

 

چاکر اگر قبیلے کا سردار ہے

 

تو میں بھی برا شخص نہیں ہوں

 

میں مضبوط کمان کامالک ہوں

 

چاکر اِس لیے برتر ہے

 

کہ اُس کے خنجر کا دستہ سونے کا ہے

 

کہ اس کی گھوڑی کے زین پر جوا ہرات لگے ہیں

 

کہ اس کی گھوڑی کی آنکھوں کے گرد لپٹی پوستین موتیوں کی ہے

 

کہ اُس کی پگڑی کی لمبائی میری پگڑی سے لمبائی میں

 

صرف دو پیچ ہی زیادہ ہوگی

 

کہ اسے سرداری کا منصب حاصل ہے

 

تب وہ وہی فیصلہ کرتا ہے جو معروض اُس کی پیشانی پر لکھ چکا ہے۔ جی ہاں، مریذ دیوان میں بیٹھے ہوئے سرقبیلوی نظام کے مارے ہوئے زنگ آلود اذہان سے فیصلے کا حق چھین لیتا ہے۔ اپنافیصلہ اپنے ہاتھ میں لیتا ہے۔ پہل کاری کرتا ہے۔وہ اِس فرسودگی کو برقرار رکھنے والے جرگے کو افلاطون بننے کا موقع ہی نہیں دیتا، خود ہی چیخ پڑتا ہے:

 

نِیں قولیں کہ کلاّں اُلکہ آ

 

قولیں کہ تراشاں چوٹواں

 

تُرکی بروتاں ژہ بُناں

 

میری سِلح آں ایر کناں

 

جانہ   کڑاکوخیں گُذاں

 

ایشاں پہ ششتاں مندوا

 

ہانی ئے سلطانیں پثا

 

مں گوں ہماں مڑداں رواں

 

لنگ و ملنگ دیوانغاں

 

گُرّنت و زمبانہ وراں

 

نشتیں جنی کرکاوغاں

 

بھؤف اش ڈغاری تاثغاں

 

سڑجاہ کلیریں بُنڈثاں

 

مں گوں  پخیری ولہرے

 

حجہ درا زیارت کناں“

 

ترجمہ:۔

 

اب قول ہے کہ وطن چھوڑ جاؤں گا

 

قول ہے کہ سرٹنڈ کردوں گا

 

ترکی مونچھیں بھی

 

میں اپنا بلوچی اسلحہ رکھ دوں گا

 

اپنے جسم پہ پہنے نئے لباس کو

 

مندو کے لیے بھیج دوں گا

 

حانی کے بزرگوار باپ کی طرف

 

میں اُن لوگوں کے ساتھ چلا جاؤں گا

 

جو ملنگ و دیوانے ہیں

 

غرّاغرّا کر نوالے مانگتے ہیں

 

جن کی دری کر کاوغ نامی جڑی بوٹیاں ہیں

 

زمین کا دامن جن کا گدیلا ہے

 

درختوں کے تنے جنکے سرہانے ہیں

 

میں ملنگوں کی ایک ڈار کے ساتھ

 

حج کی زیارت کروں گا

 

اور یوں مریذگھربدر ہوجاتاہے‘ قبیلہ بہ در،سبی بہ در،وطن بدر، بلوچ بدر بلوچستان بدر ہوجاتا ہے۔وہ اپنی پگڑی سے محض دو پیچ بڑی پگڑی کے ہاتھوں شکست کھا جاتا ہے۔ کم زوری پہ گُم زوری کو ترجیح دیتا ہے۔ قہر درویش برجانِ درویش ہوجاتا ہے۔ مقابلہ ممکن نہیں تو جلاوطن ہوجاتا ہے۔ وہ ملنگوں جوگیوں کا ساتھی بن جاتاہے۔کیا گھر کیا ٹھکانہ، کیا اتہ کیا پتہ۔ آج اِس درویش کے آستانے پر،توکل اُس فلاسفر کے روزے پر۔ بس سفرو حضر۔۔۔۔

 

 

 

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*