نظم نگار خواتین اور تصور وقت

 

کئی سوالات کے جوابات کو تلاش کرنا ضروری ہے۔ مثلاً زندگی اور وقت کے شعور کو کسی شاعرہ نے کس طرح لکھا ہے؟ وقت، جو ہر لکھنے والے کا موضوع رہا ہے، ذات اور کائنات وقت کے گرداب میں معلق، کیسی کیسی گتھیوں سے الجھتی رہیں، جن کو سلجھانے میں فلسفیوں اور شعرأ نے صفحات کے صفحات سیاہ کیے۔ ان کے تخیلات کی اْڑان ماضی میں صرف مردوں کا بیانیہ رہی۔عورت کی فکر نے اظہار کی راہ تلاش کی تو اس کی پرواز کی بلندی کو قرۃ العین حیدر کے ناولوں میں دیکھا گیا۔ مگر کیا شاعرات نے بھی وقت کی رَو کو تھامنے اور اپنے وجود کو اس سیل ِ بلا خیز میں ڈوبتے ابھرتے محسوس کیا؟

 

ن م راشد کی ”حَسن کوزہ گر“ کا شمار اردو کی اہم ترین نظم میں ہوتا ہے، جس میں وقت کے ساتھ جڑی ایک کہانی ہے، جس کا موضوع حسب ِ روایت عورت ہی ہے۔ حَسن کوزہ گر، جو ایک حَسینہ ”جہاں زاد“ سے ایک رات کو ملا اور ایسا فریفتہ ہوا کہ نو برس تک اْسی کی دْھن میں اپنے گھر بار اور کوزہ گری کے فن سے لاتعلق ہو کر دیوانہ وار پھرتا رہا۔ اِس نظم میں حَسن کوزہ گر، جہاں زاد اور کوزوں کے ساتھ ایک اور کردار بھی ہے جس کو راشد نے چند لائنوں میں بہت پْراثر انداز میں سوختہ بخت لکھا ہے:

 

 

 

جہاں زاد اِس دَور میں روز، ہر روز

 

وہ سوختہ بخت آکر

 

مجھے دیکھتی چاک پرپا بہ گل سربہ زانو

 

تو شانوں سے مجھ کو ہلاتی

 

(وہی چاک جو سالہا سال جینے کا تنہا سہارارہا تھا!)

 

وہ شانوں سے مجھ کو ہلاتی

 

”حسن کوزہ گر ہوش میں آ

 

حسن اپنے ویران گھر پر نظر کر

 

یہ بچوں کے تنور کیوں کر بھریں گے

 

حسن! اے محبت کے مارے

 

محبت امیروں کی بازی،

 

حسن اپنے دیوارو در پر نظر کر“

 

(ن۔م۔ راشد)

 

 

 

عشرت آفرین

 

ن م راشد کی اس نظم نے عشرت آفرین سے ایک بے حد خوب صورت اور اثر انگیز نظم ”جہاں زاد“ لکھوائی جو ایک شاعرہ ہی لکھ سکتی تھی۔ اس نظم میں ”جہاں زاد“ بنیادی کردار ہے اور راشد کی وہ فکر، جو وقت کی گزرگاہ پر جبر و اختیار کے ساتھ نو برس کے عرصہئ زندگی کی رائیگانی کی ہے، اس کو بھی دْہرایا گیا ہے، مگر ان استعاروں میں جو عورت ہی نے کہے۔ نو برس خوابوں کے بستر پہ پھول کاڑھتی رہی، جہاں زاد اور اس کی محبتوں میں حائل رہی۔ وہ سوختہ بخت زندگی کے تمام تلخ حقائق کے ساتھ۔ اس نظم سے ایک اقتباس دیکھئے:

 

مرے اور ترے درمیاں وصل کی ہر گھڑی میں

 

نہ جانے کہا ں سے وہی سوختہ بخت زندگی میری

 

کہ جو، جاں فشانی کے شعلوں سے دہکے ہوئے

 

زندگی کے ابدتاب تنور پر

 

انگلیاں تیرے بچوں کی تھامے کھڑی

 

بھوک سے بر سر جنگ تھی

 

جس کے نزدیک یہ

 

تیرے کوزے، ترافن، تری آگ سب

 

میری آنکھیں میرے پھول اور خواب سب

 

زندگی کے ابدتاب تنور کی راکھ تھے

 

 

 

عشرت آفرین کی نظم پر ان کی ترقی پسند فکر غالب ہے، غم ِ دوراں غمِ جاناں پر حاوی ہے۔ نظم کا اختتام نسائی اظہار کی بہترین مثال ہے۔

 

اے حَسن چاک پر سے ذرا اپنی نظریں ہٹا

 

تو مرے نو برس تک بنائے گئے پھول تو دیکھ لے

 

پھول تازہ، شگفتہ اور آزردہ ہیں

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

حَسن یہ محبت

 

کہ جس کو تری سوختہ بخت گردانتی ہے

 

امیروں کی بازی

 

تو میرے تئیں یہ امیروں کی بازی کہاں ہے

 

صرف بازی گری تھی

 

محبت ہمیشہ سے مفلس کا سرمایہئ جاں رہی ہے

 

یہی تو وہ پونجی ہے

 

جس تک امیروں کے ہاتھ اب تک پہنچے نہیں ہیں

 

تجھے یہ گماں تھا

 

کہ عورت

 

محبت کی بازی میں بے جان پتّے کی صورت

 

کسی دست ِ چابک کی مرہون ِ منت

 

وہ اس کھیل میں ایک مہرے کی صورت

 

کہ جب جس نے چاہا

 

اسے ایک گھر سے اٹھا کر

 

کسی دوسرے گھر کا مالک بنایا

 

کہ عورت فقط ایک پتھر کی مورت

 

یہ تصویر ِ حیرت! یونہی چپ کھڑی ہے

 

یونہی چپ رہے گی؟

 

مگر یوں نہیں ہے

 

 

 

حَسن تو نے دیکھا کہ میں

 

قید ِ اوہام و بندِ روایات میں

 

بوڑھے عطار یوسف کی دکان پر

 

اپنی آنکھیں تجھے نذر کرتی رہی

 

بوڑھا عطار وہ کیمیا گر کہ جس نے

 

زمانوں کے جنگل سے

 

پہروں کے پھول اور بوٹے چْنے

 

وہ مجھے اور تجھے جانتا تھا مگر

 

میں نے بازار میں

 

تجھ سے آنکھوں کا اور دل کا سودا کیا

 

اے حسن! میرے ایک اک دریچے پہ

 

کہنہ روایات و ظالم عقائد کا جنگل اْگا تھا

 

 

 

حسن!

 

کاش تو میری آنکھوں سے میرے دریچے کو تکتا

 

تو یہ جان سکتا

 

جہاں تو کھڑا تھا وہاں ایک اک دَرز سے

 

میری آنکھیں، مرا جسم

 

چھن چھن کے، کٹ کٹ کے گرتا رہا تھا

 

عشرت آفرین کی لفظیات اور بحر وہی ہے جو ن م راشد کی ”حَسن کوزہ گر“ میں ہے مگر استعارے مختلف ہیں۔ نو سال تک خوابوں کے بستر پر پھول کاڑھنے کے وقت کو خواجہ سراسے تشبیہ دے کر انہوں نے اپنی لفظیات اور استعارے میں تنوع پید اکیا ہے۔

 

 

 

رخسانہ صبا

 

ان دونوں نظموں کے ساتھ مجھے رخسانہ صبا کی نظم ”جہاں گرد“ نے بھی اپنی طرف متوجہ کیا۔یہ طویل نظم بلا شبہ بہت بڑے کینوس پر پھیلی ایسی تخلیق ہے جس کی اپنی بالکل الگ اہمیت ہے۔ بحر اور موضوع میں بھی ان دونوں نظموں سے مختلف ہے۔ پھر بھی حسن کوزہ گر کی طرف ذہن اس لیے جاتا ہے کہ اس میں وہ عورت مخاطب ہے جو وقت کے سفر میں کچھ دْور تک جہاں گرد کے ساتھ رہی۔ایک موڑ پر جب جہاں گرد نے اس کو تنہا چھوڑ دیا اور پلٹ کر بھی نہ دیکھا کہ اس پر کیا گزری۔ اس طویل نظم کے ایک اقتباس میں بہت سے حقائق بیان کردیے گئے۔

 

ابتدائی

 

وہ پہلی رفاقت

 

کہ جس میں تمھاری ہی تنہائی پہلا حوالہ بنی تھی

 

کشاں در کشاں زندگی کے نئے راستوں پر

 

یونہی ہم چلے جا رہے تھے

 

حیات آفرینی کے دل دار موسم نمو پا رہے تھے

 

کہ تم نے اچانک کسی ساعت ِ ہجر میں

 

جانے کیوں اک فصیل ِ جدائی اٹھا دی

 

رقابت کے آغاز کو

 

مجھ سے منسوب کر کے

 

ابد تک بھلا کیوں

 

مرے راستے میں نئے فاصلے رکھ دیے

 

اور فرقت کی چادر بچھا دی

 

جہاں گرد کتنے سوالوں کے عفریت

 

شکلیں بدل کر

 

مجھے اپنی جانب بلانے لگے ہیں

 

رواق ِ کہن کے فسانے

 

مجھے یاد آنے لگے ہیں

 

مگر یہ نظم اتنی سادہ بھی نہیں، اس میں ایک طرف عورت کا پورا کردارخواہ وہ تخلیقی ہو یا گھریلو،پیش کیا گیا ہے تو دوسری طرف مرد کے منفی اور مثبت رویے بھی موجود ہیں۔نظم کی خوبی یہ ہے اس میں کہ داخلیت اور خارجیت کی دونوں رَو موجود ہیں۔ اس نظم میں عالمی ادبی حوالوں، سیاسی سماجی صورت ِحال، تباہ ہوتی تہذیبوں کے نوحے سے قاری کو سفر کی وہ کیفیت محسوس ہوتی ہے جو کبھی ماضی میں لے جاتی ہے اور کبھی حال میں لے آتی ہے۔ اس طویل نظم کے اختتامیے میں اس کیفیت کو پوری طرح محسوس کیا جاسکتاہے۔

 

 

 

ذرا یاد کرنا

 

مجھے اِس سے پہلے بھی تاریک جنگل میں رہنا پڑا تھا

 

اگرچہ میں سیتا تھی

 

اور کتنے بن باس کاٹے تھے میں نے

 

مگر اب یقیں ہے یہ مجھ کو

 

کہ جنگل میں گزری ہوئی رات کی آگہی

 

صبح کا وہ ستارہ بنے گی

 

جو میرے لیے غم کی تہذیب کا استعارہ بنے گی

 

تمھیں یاد ہو گا کہ تم نے کہا تھا

 

اگر شام گہری ہو

 

تاریک جنگل میں کوئی سفر تم کو درپیش ہو

 

تب بھی واپس پلٹنے کی کوشش نہ کرنا

 

سفر محور ِ زندگی ہے

 

کبھی اپنے محور سے ہٹنے کی کوشش نہ کرنا

 

سو بے شک سفر زندگی کا تو محور بھی ہے اور مرکز بھی لیکن

 

سفر اپنی سمتوں کا محتاج بھی ہے

 

تمھیں میری باتیں کہاں یاد ہوں گی

 

مگر میں نے پہلے بھی تم سے کہا تھا

 

کہ تم اپنی سمت ِ سفر بھول بیٹھے ہو

 

اور گم شدہ منزلیں تم کو تاریک راہوں کی جانب لیے جا رہی ہیں

 

اگر کپل وستو کے ایوان سے تم بھی باہر نکل کر

 

کسی پیڑ کی چھاؤں میں آ کے رکتے

 

تو نروان کا کوئی صد رنگ لمحہ

 

تمھیں بھی بتاتا

 

مسافر کو باطن کی وہ روشنی چاہیے جس کے بل پر

 

اْسے اپنی منزل کا ادراک بھی ہو

 

سو تم سے بس اک بات کہنی ہے مجھ کو

 

کہ الجھے ہوئے راستوں کے فسوں سے نکلنا پڑے گا

 

اگر گھر بچانا ہے تم کو

 

تو رستہ بدلنا پڑے گا

 

(کتاب “اردو شاعرات اور نسائی شعور” سے)

 

 

 

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*