اقوام متحدہ کے فیصلے کے تحت پاکستان میں بھی ایک دن عورتوں کے نام سے منایا گیا۔ مگر بلوچستان کو تو چھوڑیے پورے پاکستان کے دیہاتوں اورگاؤں کی عورتوں کو پتہ بھی نہ چلا کہ کیا ہوا کیا نہ ہوا۔ پاکستان میں دیہی آبادی اگر سو میں سے 80نہیں تو 75تو ضرور ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پندرہ کروڑ میں سوا آٹھ کروڑ کو پتہ ہی نہیں چلا کہ یہاں بھی اقوام متحدہ کے فیصلہ کے تحت ہمارے نام پہ ایک دن منایا گیا۔
شہروں میں تعلیم یافتہ عورتوں کے بڑے بڑے بہبودی ادارے قائم ہیں۔ اور اِن بیبیوں کے دل میں اپنی ہم جنسوں کے لیے بہت سے ارمان ہیں۔ آج کل ٹی وی ریڈیو اخبارات اور بڑے بڑے اجتماعات میں عورتوں کی بہبود اور ترقی پہ تقریریں ہوتی ہیں۔ اپنی ہم جنسوں کی بے چارگی پہ تقریریں کرنے والی بیبیوں کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہوجاتی ہیں۔ مگر جب وہ اپنے آراستہ ڈرائنگ رومز میں جا کر بیٹھتی ہیں تو عورت کی بے چارگی اُنہیں جھوٹ لگتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے دیہات گاؤں نہیں دیکھے۔ اگر کسی مشہور عورت کو اپنی تصویر اخبار اور ٹی وی پہ نشر کرانی ہو تو وہ اپنی قیمتی گاڑی میں سوار ہوتی ہے۔ اور شہر کے مضافاتی گھروں کو جاتی ہے۔ بچے بچیاں اُس کے گرد جمع ہوجاتی ہیں۔ انہیں ایک ایک دانہ ٹافی ٹکی اور چیونگ گم کا اپنے کشیدہ کیے ہوئے بیگ (جو کہ گاؤں میں کشیدہ کیا گیا۔ بی بی نے ہزار روپے پر خریدا) نکال اُن میں بانٹ دیتی ہے،اور فی بچہ دس بیس روپے تقسیم کرتی ہے، فوٹو کھچواتی ہے اور اور واپس ہوجاتی ہے۔
شہروں کی امیر اور دولت مند بیگمات دوردراز کے دیہات گاؤں کو جہاز کی کھڑکیوں یا اپنی ایر کنڈیشنڈ گاڑیوں کے شیشوں میں سے دیکھتی ہیں۔ وہ یہ انداز نہیں لگا سکتیں کہ وہ جس پر لکڑیاں لدی ہوتی ہیں۔ اُن لکڑیوں کے نیچے گدھا ہے یا کہ عورت ہے؟۔ اسے ہم صنف ناز ک بھی کہتے ہیں۔ اگر ان لکڑیوں کو آپ کسی پہلوان کے سر پر بھی لاد دیں تو دو قدم چلنے کے بعد اس کے پیر لرزنے لگیں گے۔ مگر یہ تو اس پہلوان عورت کے ہر روز کے کام ہیں۔ اگر لکڑیاں نہیں لائے گی تو اُس کے بچے بھوک سے مریں گے اس لیے کہ روٹی تو انہی لکڑیوں سے پکتی ہے۔ اگر وہ مشک نہیں اٹھائے گی اور دن میں دوبار پہاڑ کی اترائی چڑھائی نہ چڑھے گی تو اس کے بچے پیاس سے مرجائیں گے۔ عورت کی برحق نمائند ہ تو یہی محنت کش اور پہلوان عورتیں ہیں۔
ہماری مویشی بانی کی خانہ بدوشی کو ہر کوئی جانتا ہے۔آپ موٹر اور گاڑیوں پر سوار ہیں اور آپ ہر وقت دیکھتے ہیں کہ قافلہ رواں ہے، عورت کمر کے گرد رسی باندھی ہوئی مویشیوں کو ہانک رہی ہوتی ہے۔ اگر بکریوں کا رم ہے تو وہ، اس کے پیچھے پیچھے چلتی جاتی ہے ۔وگر نہ اونٹ پر سوار ہے۔
پڑاؤ کے وقت خیمے کو ایستادہ کرنے والی عورت،پھر مشک اٹھائے گی پانی بھرنے جائے گی۔ یا جلانے کی لکڑی اور جھاڑیاں جمع کرنے جاتی ہے۔ مرد تو بیٹھ کر بانسری ہونٹوں سے لگا لیتا ہے، موسیقی چھیڑ تا ہے اور اپنی بہادری اور دلاوری کی تعریف چاکر و گوۂرام کے زمانے سے شروع کرتا ہے اور خود کی ستائش کرتا ہے۔
عورت ماں ہے بہن ہے بیوی ہے۔ وہ درد اور ستم کے ساتھ بچہ پیدا کرتی ہے بڑا کرتی ہے مگر خود مویشی اور گائے بیل کی طرح فروخت ہوتی ہے۔ وٹہ سٹہ ہوتی ہے۔ بھائی کے لیے تو ہر وقت وٹہ سٹہ ہوتی ہے مگر باپ بھی اپنی دوسری تیسری شادی کے لیے بیٹی کا وٹہ سٹہ کرتا ہے اور اپنے لیے بیوی لاتا ہے اس لیے کہ اس کے ہاں پہلے کوئی بیٹا نہیں ہوتا یا ویسے ہی ایک اور بیوی لانے کو دل کرتا ہے۔ اگر قتل سر پہ پڑ گیا تو خون بہا میں بیٹی یا بہن دیتے ہیں۔ باقیوں کا کیا کہنا ایک نواب نے جب اپنے چچا کو قتل کیا تو پھر اپنی دو بیٹیاں اُس کے بھائی کے بیٹوں کو خون بہا میں دے دیں۔ اُن میں سے ایک لڑکی نے زہر کھا کر خود کو مار دیا۔ اور دوسری پتہ نہیں کس طرح اپنے دن گزار رہی ہے۔
پھر بھی ہمارے معزز بھائی اور عزتمند باپ شان سے کہتے ہیں کہ بلوچ،عورت کی بہت عزت کرتے ہیں۔ مگر میں کہتی ہوں کہ خدا کی یہ مخلوق جنہیں عورت کہا جاتا ہے۔ سارے پاکستان میں بہت بے چارگی میں ہے۔ مگر ہمارے سماج میں عورت یا بیٹی خواہ امیر کی ہو یا غریب کی، سردار کی ہو یا خان کی، بہت عذاب اور بدحالی میں ہے۔ ہماری عورتوں کی آواز اقوام متحدہ تک کون لے جائے کہ ہمارے ساتھ یہ ناروائی کیوں، آخر ہمارا گناہ کیا ہے۔
(جنوری 1990)