فاشزم کی گہرائی اور گیرائی کے ناپنے کا آلہ آٹھ مارچ ہوتا ہے۔ ایک وحشت مچ جاتی ہے اُس روز۔ وزیروں گزیروں کے اقتدار کو اِس دن سے سخت خطرہ محسوس ہوتا ہے۔پنڈت پادری کے ایمان کو۔ملّا کی طرف سے تو ہر سال 8مارچ کو حرام دن قرار دیا جاتا ہے۔حد تو یہ ہے کہ حزبِ اختلاف اور حزبِ اقتدار آپس میں جانی دشمن ہیں،مگر وہ آٹھ مارچ کے خلاف یک دم ایک ہوجاتے ہیں۔ سرکار سرکاری آرڈی ننس سے اُس دن میں بھنگ ڈالتا ہے، اور دوسرا کارکنوں کے ڈنڈوں سے اِس دن کو منانے سے روکنے کی دھمکیاں دینے لگتا ہے۔
عورتوں کی تحریک منظم نہیں ہے۔ بالخصوص مزدور عورتوں کی تحریک منظم نہیں ہے۔ اور اُس سے بھی خراب بات یہ ہے کہ محنت کشوں کی عمومی تحریک منظم نہیں ہے۔ حتی کہ محنت کشوں کی پارٹی منظم نہیں ہے۔۔۔۔ یہاں بھی نہیں، وہاں بھی نہیں، اور شاید کہیں بھی نہیں۔
ایک منظم مزدور طبقے کی پارٹی کی ہمہ گیر جدوجہد کے بغیر عورتوں کی حالت میں صفتی بہتری ناممکن ہے۔
محنت کشوں کی پارٹی منظم نہ ہونے کے سبب آج دنیا بھر میں تاریک دور نافذ ہے۔ سیاہ زمانے کتنے تاریک ہوسکتے ہیں، اس کا پچھلے زمانوں میں تو شاہی قلعہ، مچ جیل اور قلی کیمپ کوئٹہ کے قیدیوں کو پتہ ہوتا تھا۔ مگر آج تو ہم سب جانتے ہیں۔ سماجی اندھیر کی آج کی گہرائی ناپنے کے لیے تو تیسری دنیا کے کسی بھی ملک کو دیکھنا کافی ہے۔ اور ناپنے کا گز تو اُس ملک میں عورت کی حیثیت کا جانچنا ہے۔
آج کا سیاہ دور میکار تھی کے دور سے بھی سیاہ تر ہے۔ اس کے مقابلے میں پنوشے، ضیاء الحق، حتی کہ ”وِچ ہنٹ“ کے زمانے بھی روشن دوپہر لگتے ہیں۔
حیرت اس بات پہ ہے کہ پوسٹ ٹکنالوجیکل ریولیوشن والے کپٹلزم کے اندر حاکم طبقات میں ارتقا اُلٹاہو چلا ہے۔ ایسی بد بختی کہ ترقی یافتہ ترین سائنس کی دنیا میں بھی سائنس کے شایانِ شان حکمران موجود نہیں ہیں۔لگتا ہے کہ ٹکنالوجیکل ترقی نے ہمیں پیچھے کی جانب سفر کے لیے ہی موثر اوزار دیے ہیں۔ بے انتہا جمہوریت کی متقاضی دنیا فاشسٹوں کے حوالے ہے۔ بالائی طبقہ بحیثیت طبقہ پری میچور برتھ کی پیداوار ہے۔ اُس کا کردار، گفتار، شوق، کنڈکٹ، پسند، نا پسند سب کا سب ”سب ہیومن“ ہے۔ ہم پہ شب پرست اور تاریکی پسند چمگادڑوں کی بادشاہی ہے۔ مثال صرف ایک حکمران کی کافی ہے جس کا زریں قول ہے کہ ”عورتوں کے لباس کی وجہ سے سماج میں مردوں کے جنسی پاگل پن میں اضافہ ہو رہا ہے“۔
اور تقریباً ہر ملک کے حکمران کی سوچ یہی ہے۔ اس لیے کہ یہاں وہاں ہر جگہ دائیں بازو کے سیاستدان حکمران ہیں۔ انہوں نے اپنے اپنے ملک میں جمہوری آزادیوں، اظہار رائے کے حق،اور عوام سے باعزت روزگار کو چھین لینے میں پوری مستعدی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اِن ممالک میں آئین ہے بھی، اور نہیں بھی ہے۔اِس لیے کہ وہاں کمزور پہ ہی آئین کا اطلاق ہوتا ہے، فیوڈل اور ریاستی ادارے آئین کو مانتے ہی نہیں۔ اسی طرح بالخصوص تیسری دنیا کے ممالک میں پارلیمنٹ ہے بھی،نہیں بھی ہے۔ نہیں اس لیے کہ پارلیمنٹ اب آئی ایم ایف کے احکامات کے مطابق ہی آئین سازی کرتی ہے۔نتیجہ یہ کہ چیزوں کو ماڈرن دنیا کے ساتھ چلانا تو چھوڑیے ہم تو انگریز کی چیزوں کو بھی بچا نہ پائے۔ فرسودہ روایتوں رواجوں کی موت تو واقع ہوچکی ہے۔ مگر اُن کی جگہ ریاست کی بدترین شکل یعنی فاشزم اور انارکی نے لے لی۔رشوت وسفارش وانتشار کا راج قائم ہوچکا ہے۔ اس انتشار کا سب سے بڑا نشانہ محکوم طبقات، محکوم قومیں،اور عورتیں ہیں۔
آئی ایم ایف ایک ایسا ڈائن ہے جو صرف پیسے کے معاملات سے غرض رکھتا ہے۔وہ محض ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کے لوٹ گھسوٹ کی راہ ہموار کرتا ہے۔ اُسے ملک کو رپبلک بنانے، آئین کی بالادستی، فری اور فیئر الیکشنز، عورتوں بچوں کے حقوق، وفاقیت، اور پلورلزم سے کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ اسے ایسی پارلیمنٹیں چاہییں جہاں عوام نہیں دولت کی باتیں ہوں، دولت مندی اور دولت مندوں کی باتیں ہوں۔ نتیجہ یہ کہ تیسری دنیا میں پارلیمنٹ کے ممبرز اور اُن کے سلیکٹرز دونوں پسماندہ ترین فیوڈل مائنڈسیٹ سے وابستہ لوگ ہوتے ہیں۔ انہیں یونائٹڈ نیشنز، یونیسیف، ڈبلیو ایچ او کا پتہ ہی نہیں ہے۔ انہیں کوئی غرض نہیں کہ عوام و حشت کے شکم میں ہیں۔ زچہ بچہ سنٹر نہیں ہیں، گھروں میں پینے کے پانی کا نلکہ نہیں ہے۔ تعلیم کا سکول نہیں ہے۔ عورت کو وراثت میں حصہ نہیں ہے۔ بے پناہ اربنائزیشن کی ساری فزیکل اور سوشل ہڑا دھڑی کا شکار عورتیں اور بچے ہیں۔
حکمران، رائٹسٹوں کے بھی رائٹسٹ ہیں۔ اختلافِ رائے سے انہیں مہلک الرجی ہے۔ یہ لوگ بزعمِ خود علم و ادب و سیاست و حرب و معیشت کے ماہر ہیں۔ وزرا کامن سینس سے مبرا ہیں، دنیا بھر سے رجعتی ترین اور تعفن زدہ ترین ذہنوں کے لوگوں کو مشاورت کے عہدوں پر فائز کیا گیا۔یہ لوگ باتیں نہیں لاتیں چلاتے ہیں، دلیل نہیں گالی دیتے ہیں۔ اور گالی تو عورت ہی کی طرف جاتی ہے۔ وزیر و مشیر پیسہ اور طاقت کی پیری مریدی کرتے ہیں۔ بدترین ِ فاشزم کے دوام کامو جب ہیں۔
اس سب کا اثر پڑتا ہے۔ عوام الناس کا ذوق ناقص پڑ جاتا ہے۔ فاشزم عام لوگوں میں سرایت کرجاتا ہے۔ نسل پرستی بڑھ جاتی ہے۔ عام آدمی فرقہ پرست بن جاتا ہے۔ نرگسیت ہر دماغ میں براجمان ہوجاتی ہے۔ اور ایک عدم برداشت کی فضا سماج میں جڑیں پکڑتی ہے جہاں اختلاف اور انکار کی ایک ایک رگ کاٹ دی جاتی ہے۔ لوگ طاقت ور کے سامنے مسکین بن جاتے ہیں۔۔۔اور سماج کمزوروں بالخصوص عورتوں کے لیے جہنم بنتا جاتاہے۔
اُس سب سیاہ بختی کو روکنا ہے۔ عورت اور بالخصوص محنت کش عورت کو جانور بنائے جانے والے ہتھکنڈوں کو روکنا ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ تبدیلی کے لیے مناسب ماحول میسر آنے تک سیاہی اور سیاہ بختی کی شدت اسی طرح موجود رہے گی۔ مگر اِس اندھیر کو، اِس بحرِ ظلمات کو یہ کہنے کا موقع نہیں دینا چاہیے کہ اُس سے نفرت کی تیوریاں چڑھانے والی کو ئی پیشانی ہی نہ رہی۔
پروفیسر قاضی عابد
ذکریا یونیورسٹی ملتان کے اردو اور سرائیکی ڈیپارٹمنٹس کے مقبول اور باصلاحیت پروفیسر قاضی عبدالرحمن عابد دل کا دورہ پڑنے سے 21فروری کو انتقال کر گیا۔ وہ بہت مطالعہ کرنے والا پروفیسر تھا۔کتاب دوستی کے قافلے کا محنتی ورکر!۔ وہ انتہائی عالم شخص تھا۔جدت سے گندھے تصورات سے بھرا ہوا،بے شمار لوگ اس سے ایم فل اور پی ایچ ڈی کر چکے تھے۔وہ اپنے سٹوڈنٹس کی بہت مدد کرتا تھا۔روشن فکر اور علم دوست انسان ۔ قاضی عابد پروگریسو ادیبوں میں شمار ہوتا تھا۔ وہ بہادر انسان تھا۔ اپنے خیالات کا برملا اظہار کرتا تھا۔ اختلاف چھپاتا نہ تھا، اتفاق نیچی آواز سے کرتا نہیں تھا۔
پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن کے پلیٹ فارم سے ہم ملتان میں اور وہ کوئٹہ میں ایک دوسرے کی میزبانی کر چکے تھے۔
قاضی ماہنامہ سنگت کے فروغ میں ہمارا ہاتھ بٹاتا تھا۔ اُس نے سنگت اکیڈمی کی تقریباً ساری مطبوعات پڑھ رکھی تھیں۔
انسان دوست قافلے کا ایک توانا شخص کھو گیا۔
تعزیت تمہارے خاندان اور ساتھیوں سے۔
پیار اور احترام تیری روح کے لیے!!۔