ایک نظم کی موت

چھوٹی چھوٹی چیزوں سے اک نظم بنانی ہے میں نے

چھوٹی چھوٹی چیزیں جن کے گہرے دکھ ہیں

سگریٹ کی خالی ڈبیا

جس میں پینے والوں کے سب درد بھرے ہیں

کاغذ کا اک ٹکرا جس میں

آوازیں الفاظ حروف

اور تاریخ میں بہنے والا خون جما ہے

اک بچے کے خالی ہاتھ

جس پہ مابعدالطبیعاتی جیون کا اک بوجھ دھرا ہے

ایک کھلونا

جس کا گردن اور اک بازو کٹے ہوئے ہیں

اک مکھی جو

مکڑی کے جالے کا حصہ بنی ہوئی ہے

ماچس کی اک تیلی جس سے

کم از کم اک گھر

اور بہت سے خواب جلائے جاسکتے ہیں

دن کا ٹکڑا

جو خوابوں کا بوجھ اٹھائے

شب کی گود میں اوندھے منہ بیزار پڑا ہے

آدھی رات کا اک حصہ جو

سناٹے اور خوف سے سہما چیخ رہا ہے

ایک پہاڑ

اور صحرا

جن کی رنگت بدل چکی ہے

اور اک نظم

جو ساری چیزوں کے دکھ کو جھیل رہی ہے

اپنے اندر

رنج تاسف نفرت اور غصہ لے کر

جب لوگوں کے پاس یہ نظم احساس دلانے جاتی ہے

تو لوگوں میں رنج تاسف نفرت غصہ کچھ نہیں ہوتا

وہ اس نظم کو سنتے ہیں

خوش ہوتے ہیں

واہ واہ کرتے

تالیاں پیٹتے اس کو

موت کی گھاٹ اتارتے ہیں

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*