چاند گرہن

’جنو‘ کوسیانی ہوئے برسوں بیت گئے تھے، اس کی سہیلیاں، ہم جولیاں پانچ پانچ بچوں کی مائیں بن چکی تھیں پچھلی بار جب ’حکو‘ اس سے ملنے آئی تو اس سے رہا نہ گیا اور اس سے پوچھا،”حکوتم جیسے جیسے عمر میں بڑی ہوتی جارہی ہو تمہارے چہرے پر خون (لالی) جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔ تمہارے پیٹ میں تیسرا بچہ ہے، موئی آخر مجھے بھی تو بتاؤ کہ کون سے کشتے اور معجون اور کھانے شروع کیے ہیں“۔

حکو ہنس پڑی، قہقہہ لگا کر کہنے لگی”میرا معجون تو میرا شوہر ہے!“ پھر اس کی چٹکی لے کر آہستہ سے کہا”کم بخت، اپنی ماں سے کہوتمہاری شادی کردے پھر دیکھنا کہ تم ’جنو‘ سے کیا بن جاتی ہو۔ ایسا نہ ہو تو میرا نام بدل دینا“۔

”بہن میرے نصیب میں شادی لکھی ہوتی تو پہلے ہی ہوگئی ہوتی۔ ابھی تو بہت سے برس۔۔“ کسی انجانے خوف سے وہ خاموش ہوگئی اور اندر بڑے کمرے کی طرف دیکھا جہاں اس کی ماں چلم پیتے ہوئے اپنی دیورانی سے باتوں میں مشغول تھی۔ کچھ اطمینان ہوا تو ججھکتے ہوئے حکو سے پوچھا، ”بہن آخر شادی میں ایسی کیا بات ہے کہ جو بھی لڑکی بیاہی جاتی ہے اس کے انگ انگ میں نہ جانے کون سی مستی پیدا ہوجاتی ہے اور اس کا ایک ایک عضو جیسے رقص میں ہوتا ہے اور آنکھوں میں کوئی عجیب سی چمک آجاتی ہے“۔

’’جنو تم نے کبھی چاند گرہن دیکھا ہے۔ پورا چاند گہنا جاتا ہے، عورتوں کی بھی یہی مثال ہے۔ جب تک شادی نہیں ہوتی تب تک گویا چاند گرہن میں ہوتی ہیں، شادی ہوتے ہی وہ سایا وہ گرہن دور ہوجاتا ہے۔ اور زندگی چاندنی بن جاتی ہے“۔

جنونے تصور ہی تصور میں چاند گرہن دیکھا، چاند ہوتے ہوئے بھی اماوس کی رات، روشنی کے وجود کے باوجود اندھیرا، پل بھر کے لیے اس نے چودھویں کے چاند کی اجلی چاندنی کا تصور کیا، ہائے اللہ، کتنا تڑپا دینے والا سماں ہوتا ہے۔ چاروں طرف چاندنی۔ درختوں کے پتوں سے پھسلتی، چھن کر آتی چاندنی جب اس کے آنگن میں اترتی تھی تب اس کا من چاہتا تھا کہ اپنے آپ کو اس کے سپرد کردے اور اپنے انگ انگ کو چاندنی میں نہلا دے۔ اسے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے اس نے گھنگھرو باندھ رکھے تھے۔۔ اور چاند کے گرد رقص کی آرزو اس کے دل میں کہرام مچادیتی تھی۔

حکو نے اسے خیالوں میں غرق دیکھ کر چٹکی لی اور شرارت سے بولی، ”تصور تصور میں زندگی چاندنی نہیں بن سکتی۔۔۔ تصوراتی منظر غائب ہوجائیں تو اور تڑپاتے ہیں“۔

جنوجن خیالات میں محو تھی ان میں چٹکی لگتے ہی اسے یوں محسوس ہوا کہ جیسے کسی نے اس کی چوری پکڑلی ہو، اس کے چہرے پر زردی مائل سرخی پھیل گئی”اچھا، بھلا شادی میں ایسی کیا بات ہے کہ زندگی چاندنی بن جاتی ہے؟“۔

حکو کو اس کے بھولپن اور اپنی جانکاری پر پھر ہنسی آگئی، پہلے تو خیال آیا کہ الف سے ی تک سب باتیں تفصیل سے اسے بتائے مگر پھر سوچا کہ کنواری لڑکیوں سے ایسی باتیں کرنا مناسب نہیں۔ البتہ اشاروں اشاروں میں ڈھکے چھپے انداز میں اپنی سہیلی سے کچھ باتیں کر ہی بیٹھی۔ ایک ہلکی معنیٰ خیز مسکراہٹ سے بولی ”شادی میں کیا ہوتا ہے، وہ تو نہیں بتا سکتی مگر یوں سمجھو کہ جب قسمت سہاگ کی گھڑی دکھاتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی بھڑوں کا پورا چھتہ بدن کو چمٹ گیا ہے۔۔۔ ان کے ڈنک سے ڈرنے کے باوجود جی چاہتا ہے کہ یہ بھڑیں چمٹی ہی رہیں اوران کی ہلکی سی بھوں بھوں کا نوں میں بجتی رہے، ہائے اللہ!“ اسے کوئی ایسا خیال آیا جس نے اس کے چہرے پر ہلکی سی لالی بکھیر دی اور جسم میں ایک نہایت ہی خفیف سی ان جانی لرزش پیدا ہوئی۔ نچلے ہونٹ کو ہلکا سا کاٹتے ہوئے اس نے اس احساس کو پی جانے کی کوشش کی اور پھر جنو کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں پکڑتے ہوئے کہا ”پگلی،شادی کے بعد دنیا ہی اور ہوجاتی ہے، اپنا گھر، اپنی دنیا، اپنی خوشیاں، اپنے دکھ درد،۔۔ سب کے سب جی سے جڑ جاتے ہیں!“ جنو کے ہاتھوں کو دباتے ہوئے پھر بولی“ اور جب چھاتی کے اندر ممتا پلنے لگتی ہے تو جانو عورت ذات اپنے آپ کو آسمان میں اڑتا ہوا محسوس کرتی ہے۔ جب چھوٹا پیٹ میں تھا تو یوں لگتا تھا جیسے زندگی کی تمام خوشیاں میری ڈھیلی ڈھالی قمیص میں سما گئی ہیں۔۔۔ اور لگتا تھا کہ اصلی سہاگن تو اب بنی ہوں“۔

جنو ٹک ٹک اس کے چہرے کو تکتی رہی۔ حکو کی آنکھوں میں دیکھ کر وہ ان احساسات کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگی جو اس کی آنکھوں میں سرخ ڈوروں کے ساتھ مل گئے تھے۔ اس نے ایسے محسوس کیا جیسے وہ ان تمام احساسات کو سمجھ گئی تھی اور اسے یہ آنکھیں بہت پیاری لگیں، جن میں عورت کے تمام احساسات بہت واضح طور پر عیاں ہورہے تھے۔ اس کے دل میں آرزو پیدا ہوئی کہ وہ پل بھر کے لیے ان آنکھوں کے اوپر اپنے ہونٹوں کی تازگی کے پھول نچاور کردے۔۔۔ مگر عین اسی وقت  اس کی ماں کی آواز نے اس کی آرزو کا پودا جڑ سے کاٹ دیا۔۔۔بیٹی جنو، مہر بیٹا ذرا میری لم چلم تازہ کر کے دینا“۔

اسے چلم سے خداواسطے کا بیر تھا۔ جب اس کی ماں چلم لگا کر اپنی دیورانی یا محلے کی کسی بڑھیاسے بیٹھ کر ادھر ادھر کی باتیں کرتی تھی تب چلم کی گڑ گڑ کی آواز اس کے ذہن میں ایک چڑکا سا احساس پیدا کرتی تھی اور جب چلم کو پھر سے تازہ کرنا پڑتا تھا، تو اس کی نلکی اور گیلے کپڑے سے ڈھکے پائیپ کو چھو کر اسے کسی مردہ جسم کو نہلانے کا تصور آتا تھا، چلم کی چُبھتی بُو، سڑے ہوئے انڈوں کی بُو کی طرح اس کے دماغ میں متلی کی سی کیفیت پیدا کر دیتی تھی۔ اور کبھی کبھی وہ سچ مچ الٹی بھی کر دیتی تھی۔ وہ سوچتی تھی، ہائے اللہ، ان عورتوں کو اس گندی سی چیز کو ہونٹوں میں پکڑتے ہوئے آخر کیا مزہ آتا ہے!

چلم کو تازہ کرنے کا خیال آتے ہی اسے غیر محسوس طور پر متلی ہونے لگی، وہ اٹھی چلم لے کر آئی۔ حکو اس کے چہرے کے رنگوں کو دیکھ کر سوچنے لگی: کتنی بدنصیب ہے یہ لڑکی، یہ جوانی، یہ بھولپن، سب ایسے ہی ضائع ہوجائیں گے! وہ ترس اور پیار کے ملے جلے جذبات کے ساتھ اٹھ کر جنو کے پاس آئی، اور محبت سے بولی ”بہن اب چلتی ہوں، بچے بیزار ہوگئے ہوں گے،پھر کل چکر لگاؤں گی۔

جنو نے اسے پیار سے دیکھتے ہوئے آنکھوں آنکھوں میں رخصت کیا اور خود چلم کے پائپ اور نلکی کے اوپر پانی ڈالنے لگی۔ چلم کو اندر کے بڑے کمرے میں لے کر جاتے ہوئے اس نے اپنی ماں کی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ سن لیے۔ یہ الفاظ اس کے کانوں میں رس گھول گئے جیسے یہ الفاظ، سات سروں میں تبدیل ہوگئے ہوں۔ اس کے کانوں میں تتلیوں کی سریلی بھوں بھوں کی آواز بجنے لگی۔ اسے بے اختیار اپنی ماں پر پیار آگیا، اس نے سوچا کاش وہ چلم تازہ کرنے کے لیے پھر باہر جائے اور واپس آنے پر پھر وہی الفاظ سنے، چلم کے گیلے پن سے نفرت بھی کچھ گھڑیوں کے لیے اس کے ذہن سے نکل گئی۔ اور فقط ان کو چھونے کا احساس اس کی انگلیوں میں لرزنے لگا۔

ماں اس کی چاچی سے کہہ رہی تھی ”بہن اپنا فرض جتنی جلد پورا ہو اتنا اچھا، ہم اپنا فرض پورا کر لیں آگے لڑکی کے نصیب!“

چلم رکھتے وقت اس کی ماں نے عجیب پیار اور جدائی کے ملتے جلتے احساس کے ساتھ اسے دیکھا۔ اسے ان آنکھوں سے ماں کا دل باہر آتا دکھائی دیا، وہ جلدی جلدی چلم رکھ کر باہر آئی اور چار پائی پر ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئی۔ اس کے ذہن میں کئی خیالات آرہے تھے جن کی نہ کوئی ابتداء تھی نہ انتہا۔ سب خیال اچانک آئے اور اچانک چلے گئے اور ان خیالات کی آمدو رفت صرف اس کی آنکھوں میں آئے سرخ سرخ ڈوروں کو سرخ تر کرتی گئی۔ نہ جانے کون سے خیال کے آنے سے وہ اٹھ کر باورچی خانے میں آئی اور برتنوں کو الٹ پلٹ کرنے لگی، جست، تانبہ پیتل کی مختلف النواع آوازیں سن کر اس کی تنہائی کا احساس ختم ہوگیا۔ ایک کٹورہ ہاتھ میں لے کر وہ بغیر کسی مقصد کے اس کے چکنے چکنے دھات پر ہاتھ پھیرنے لگی، کسی اور خیال کے آنے سے اس نے کٹورہ رکھ کر اپنے بازو پر ہاتھ پھیرا، اپنے سڈول گول بازو پر ہاتھ پھیرتے ہوئے، اس کا ہاتھ اپنے کندھے تک پہنچ گیا، یہ ہاتھ کہیں رکا نہیں اور نہ جانے کیوں اسے اپنی چھاتی میں ایک لہر سی محسوس ہوئی اور اس نے آنکھیں نیچی کر کے اپنے سینے پر نظر ڈالی تو شرما گئی اور اپنا ہاتھ کندھے سے ہٹالیا۔ اس کے ہونٹوں پر ایک انوکھی مسکراہٹ ناچنے لگی۔

***

نئے گھر میں نئی رات، نئی سیج۔ جنو اپنے دل کی دھک دھک گنتی رہی، ڈھول اور شہنائیوں کی آواز پورا وقت اس کے ذہن میں گونجتی رہی تھی، اس نئے گھر تک پہنچنے کے لیے وہ ایک دنیا پیچھے چھوڑ آئی تھی۔ نئی دنیا کس نوع کی ہوگی اس کے بارے میں اسے کوئی پتہ نہیں تھا۔ شاید وہ سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی۔

تھوڑی دیر پہلے اس کی ساس اس کے دولہا کو اس کے پاس سلا کر گئی تھی۔ جس گھری کے لیے اس کے دل کی دھڑکن تیز ہونی تھی، جس پل کے ساتھ بھڑوں کی بھوں بھوں کی جلترنگ سننے کی آس بندھی تھی، اور چاندنی کا انتظار آنکھوں میں جاگ اٹھا تھا۔ اس گھڑی اپنے دولہا پر نظر پڑتے ہی تمام احساسات گندے پانی کے تالاب کی طرح ساکت ہوگئے تھے۔

اس نے چاند کی تلاش میں کمرے کی کھڑکی سے باہر دیکھا، چاند اپنی تمام سجاوٹوں کے ساتھ براجمان تھا۔ مگر اسے ایسا محسوس ہوا جیسے چاند آہستہ آہستہ گہنا رہا تھا۔ رفتہ رفتہ چاند کو گرہن لگ رہا تھا۔ اور چاند کے ہوئے ہوئے بھی گھور اندھیرے والی اماوس کی رات چھا گئی۔ اس کی آنکھوں میں اندھیرا  چبھنے لگا۔ اس کے جسم پر جیسے تتے چمٹنے لگے، مگر یہ ان بھڑوں سے مختلف تھے جن کا ذکر اس کی سہیلی نے کیا تھا۔ ان کی بھوں بھوں بہت بھیانک تھی، ان کے ڈنگ نہایت زہریلے اور انتہائی تکلیف دہ تھے۔ اس کو اپنا جسم سوجتا محسوس ہوا۔ یہ ڈنگ اس کی روح میں بھی اپنا زہر پھیلانے لگے، اور اس درد کی وجہ سے اس کی روح سے ’ہائے، نکل گئی، سیج پر پڑے سہرے کے پھولوں سے اسے چلم کی نفرت انگیز بو آنے لگی اس میں چلم کی نلکی اور پائپ پر چڑھے گیلے کپڑے کا احساس جاگا اور اس کا دل اوب گیا اور اس کو قے آنے لگی۔

پوری رات ان ڈنگوں اور اماوس رات کی تاریکی میں جاگتے ہوئے، چلم کی چڑ دلانے والی بو اور پائپ اور نلکی کے گندے گیلے کپڑے کے احساس سے قے کی سی کیفیت میں وہ دل کی دھرکنوں کو گنتی رہی۔ صبح کو اس کی ساس انہیں اٹھانے کے لیے آئی، جنو کو جاگتے دیکھا تو کہا ”بیٹا لڑکے کو اٹھا کر منہ ہاتھ تو دھلا دو۔ سورج چڑھ آیا ہے۔“

اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اس کا دس سال کا دولہا، اس کی ساس، اس کی ماں اور حکو سب مل کر اسے منہ چڑا کر قہقہے لگا رہے ہوں۔ اور ان قہقہوں میں بھڑوں کے چھتے تھے اور چلم کی گڑ گڑ!

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*