سنسکرت زبان کا ایک قدیم ادیب اپنی ایک نظم میں بتاتا ہے کہ خدا نے عورت کو کس طرح بنایا۔ اس کے خیالات میں اپنی زبان میں یوں بیان کرسکتی ہوں:

جس وقت خدا نے ایک عورت بنانے کا حکم دیا تو معلوم ہوا کہ سارا مصالہ مرد کے بنانے میں ختم ہوگیا اور کوئی ٹھوس چیز نہ بچی۔ پھر خدا نے عورت کو نرم اور نازک چیزوں سے بنانا شروع کیا۔ پہلے چاند کی گولائی، عشق پیچہ کی پیچا کی، بہار میں اگی ہوئی گھاس کا ہوا میں لہرانا، اور پودوں کی نازکی، اور گلوں کا رنگ،اٹھائے اور عورت کو بنانا شروع کیا۔ پھر اس میں چشمِ آہو، گلاب کی پنکھڑیوں کی تازگی، سورج کی شادمانی، بادلوں کی آہ و زاری اور ہوا کی بے ثباتی بھی شامل کردی اور اس کے بعد خرگوش کا خوف، طاؤس کا غرور، الماس کی خوبصورتی،شہد کی مٹھاس، چیتے کی بے رحمی،آسمان کی گرمی،اور برف کی سردی ملادی۔ پھر بلبلوں کی میٹھی آواز، کوئل کا میٹھا نغمہ،اور چکور کی وفا اٹھائی۔ سب کو ایک دوسرے میں مکس کیا اور ایک عورت بنالی۔ اور پھر عورت لا کر مرد کو دے دی۔

ہفتہ بعد مرد اپنے خالق کے پاس آیا اور کہا ”اے خدا، دنیا کو بنانے والے بڑے بادشاہ۔ تم نے یہ چیز مجھے دے دی۔ اس نے میری زندگی اجیرن کر کے رکھ دی۔ ہروقت مجھ سے جھگڑتی ہے۔ ایسا دن نہیں ہوتا جب یہ مجھ سے لڑتی نہ ہو۔ ہر وقت مجھے پیٹنے کے لیے کھڑی ہوتی ہے۔ تنہا نہیں ہوتی۔ ہروقت میں اُس کی پاسبانی کرتا ہوں۔ کبھی دیکھو ہنستی ہے، کبھی بیٹھ کے رو رہی ہوتی ہے۔ سارا دن بیکار بیٹھتی ہے۔ اس لیے یہ میں آپ کو دیتا ہوں۔ میرے اچھے آقا اپنی امانت واپس لو“۔

خدا نے جب مرد کی آہ وزاری سنی تو کہا ٹھیک ہے۔اسے یہاں چھوڑ کر جاؤ۔ مرد عورت کو چھوڑ کر چلا گیا۔

مگر ایک ہفتہ بھی نہ گزرا کہ مرد بھاگا بھاگا پھر خدا کی طرف آیا اور کہا ”اے خدا“اب بے عورت کے زندگی بے فائدہ ہے۔ مجھے تنہائی اچھی نہیں لگتی۔ بہت غمگین اور ملول رہتا ہوں۔ ہر وقت تمہاری دی ہوئی چیز میری آنکھوں کے سامنے آتی ہے۔ اس کا رقص اور ناز اور گھومنا اور کھیلنا۔ مجھ سے ڈرنا اور پھر ڈر کے مارے میری بانہوں میں چُھپنا۔ اس کا ناراض ہونا اور میرا اُسے منانا، میری بات ماننا اور میری بات نہ ماننا اور ضد کرنا اور قسم قسم کی باتیں میرے دل کے لیے میٹھے گیت ہیں۔ اس کی محبت مرے دل کی تمنا اور مراد ہے۔ اس کے بنا میرا دل ویران ہے۔ اپنی بنائی ہوئی  چیز دوبارہ مجھے دیدے“۔ خدا مرد کی یہ دعا اور فریاد سن کر خوش ہوا اور عورت پھر اسے دے دی کہ لے جاؤ۔

مرد تیسرے دن پھر خدا کے سامنے حاضر ہوا اور عرض کیا کہ”اے خدا کچھ معلوم نہیں کہ کیا بات ہے، جتنا میں نے غور کیا کچھ نہ سمجھا۔ اب میں اس نتیجے پر پہنچ گیا ہوں کہ میں عورت کے ساتھ گزارا نہیں کرسکتا“۔ اُس کے سنتے ہی خدا کی آواز ساری کائنات میں گونجی کہ اس کا انتظام اب تم خود کرو۔ اس لیے کہ عورت کے بغیر تم صبر نہیں کرسکتے۔ یہ کہہ کر اس نے منہ دوسری طرز پھیر لیا اور دنیا کے دوسرے امور بنانے اور سنوارنے میں لگ گیا۔ مرد نے اپنا سر جھکا لیا۔ دل میں کہا کہ پتہ  نہیں کیا کروں۔ عورت مل گئی لیکن نہ تو عورت کے ساتھ صبر کرتا ہوں اور نہ عورت کے بغیر صبر کرسکتا ہوں۔

اس کے لیے بلوچی میں ایک ضرب المثل ہے ”نئے گوں تو باں، نئے بے تو باں“۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے