غزل

 

شوق پھر آسمان بھرتاہے
جب پرندہ اڑان بھرتا ہے

پیار کی رت عجیب ہے جس میں
ایک چہرہ جہان بھرتا ہے

جیسے جی میں بھری خوشی تو نے
کون تیرے سمان بھرتا ہے

دیکھ کر تجھ کو کوئی پژمردہ
چال میں آن بان بھرتا ہے

خوش گمانی ہے خوابِ سادہ کی !
رنگ تو آسمان بھرتا ہے

جنسِ نایاب شہرِ ویراں میں
کون تیری دکان بھرتا ہے

جب اترتا ہے اشک کا دریا
کوئی ہمدرد آن بھرتا ہے

آئینہ دیکھتا ہے مردِ کہن
آہ کوءجوان بھرتا ہے

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*