مستیں تئوکلی

مستیں توکلی شاہ محمد مری کی ایک ایسی کتاب جو محبت کی لازوال داستان کو اپنے اندر سموئے ہوے ہے ۔ تہذییب اور ادب و ثقافت ہر زندہ قوم کے پاس موجود ہوتا ہے اور یہ کتاب بلوچ ادب، ثقافت، معاشرے، رسم و رواج کی منہ بولتی داستان ہے۔ کسی بھی لفظ کی روح کو سمجھنے کے لیے اور اس کے درست معنی کو زندہ رکھنے کے لیے اس کی درست ادائیگی  بہت ضروری ہے ۔ شاہ محمد مری نے فنیٹیکس پر توجہ دیتے ہوے درست ادائیگی کا طریقہ سکھانے کی کوشش کی ہے۔

یہ ایک ایسی محبت کی کہانی ہے جس کو بلوچستان کے ایک دیوانے نے آپنے اشعار اور اپنی دیوانگی سے امر کر دیا۔ایک ایسی محبت جس نے دیوانے کو فقیر بنا دیا۔
محبت جب پاک اور سچی ہو تو اس کے سامنے ہر چیز بے معنی ہو جاتی ہے۔ محبت سے ہی انقلاب جنم لیتے ہیں جو دنیا کو بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ یہ انقلان رسترانی کے علاقے میں سمو کے شبنمی چہرے کو دیکھ کر جنم لیتا ہے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے بلوچستان کا چپہ چپہ اس انقلابی دیوانے کی صداؤں سے گونجنے لگتا ہے۔ یہ محبت توکلی کو امر کر کے مست توکلی بنا دیتی ہے۔ وہ بس مائی سمو کے بارے میں ہی سوچتا رہتا ہے۔ مست کی حالت مست کے الفاظ میں ایسی ہو جاتی ہے کہ وہ کہتا ہے۔
’ایک طرف سے میں آ رہا ہوں اور دوسری طرف سے گدا Gudda۔۔۔۔ہم دونوں کی ذہنی حالت کچھ اچھی نہیں ہے‘
اور مست کی یہ حالت صرف سمو کے انتظار اور اس کی آرزو میں ہی تو ہوئی ہے۔ مجنوں گورکھپوری نے بھی کیا حوب کہا ہے۔
اک تیری آرزو تو ہے اے دوست
ورنہ فرزانہ ہوں نہ سودائی
محبت کے ہجر نے توکلی پر بہت ستم ڈھائے اور اس دیوانے کو کندن بنا دیا۔ کیوں کہ یہ مست کی محبت تھی پاک محبت تھی۔ آج کے دور کی مادی محبت تو نہیں تھی جو کہ صرف جنس کے خریداروں کا کاروبار ہے۔ مست نے محبت سے پیچھا چھڑانے کے لیے لاکھوں جتن کیے، پر یہ تو محبت تھی انعام تھا کیسے اس سے انکار کر سکتا تھا۔محبت نے توکلی کو وطن کا کونا کونا گھومنے پر مجبور کیا اُس کو ہر خوبصورت نظارے میں سمو ہی نظر آتی۔ محبت نے مست کو باغی بنا ڈالا اور اُس سماج میں جہاں عورت کا نام تک لینا معیوب تھا ۔ جہاں آج بھی غریت کے نام پر قتل ہوتے ہیں، مست نے اُس کے مشکل حالات کی منظر نگاری کی کھلے عام محبت کا اظہار کیا ایسے اظہار کیا کہ اکیسویں صدی بھی شرما جائے۔
محبت ہی ہے جو معاشرے میں امن کو پروان چڑھاتی ہے۔امن کی بات کرنا تو بہادری ہے اور یہ محبت ہی ہے جس نے مست کو بہادر بنا دیا۔ مست نے اُسی امن کے لیے قبائلی نظام میں رہتے ہوئے جنگ کی مخالفت کی۔ اُس جنگ کی جو قبائلی نظام کا لازمی حصہ تھی ۔ آج پھر کسی مست کی ضرورت ہے کے وہ آئے اور میرے وطن میں جاری خون کے بازار کو بند کرنے کی بات کرے۔ مستیں توکلی کا کہنا تھا۔
’اچھی نہیں ہیں جنگ کی واہیات باتیں‘
یہ محبت ہی تھی جس کی آس میں مست نے کسی فقیر کے آستانے کو نہ چھوڑا۔ وہ سخی سرور بھی گیا، نانا صاحب بھی گیا، اور سید جلال الدین کے حضور بھی حاظری دی۔ جہاں سے بھی اس کو فیض حاصل ہوا اُس نے حاصل کیا۔ بلوچستان کی دھرتی پر انقلاب برپا کرنے والا مست اور اُس کی سمو دنیا کے لیے ابدی نیند سو گئے ہیں۔ مگر جسم کی قید سے آزادی حاصل کرنے کے بعد آج رسترانی میں مست کی روح سمو کے ساتھ ہو گی۔ کیوں کہ یہ رشتہ تو روحوں کا تھا۔مست کی محبت آج بھی زندہ ہے، امر ہے اور ہمیشہ رہے گی۔۔
محبت نام ہے سمو کے شبنمی چہرے کے ہاتھوں زیر ہونے کا
محبت نام ہے سمو کے ہجر میں توکلی کے جلتے رہنے کا
محبت وہ ہے جو دیوانے کو فقیری پر لگاتی ہے
محبت وہ ہے جومست کو انساں بناتی ہے
محبت وہ ہے جو انساں کو جنگوں سے چھڑاتی ہے
میرے اللہ میرے وطن میں کچھ اور مست پیدا کر
جو محبت کی حسیں وادی کے ہاتھوں ز یر ہو کر
امن کا کچھ گیت گائیں راگ پھیلا دئیں
کہ اب اس وطن کی فضاؤں سے
بارود و خون کی بو کو حتم ہونا ہے
کہ اب امن،امن، امن اور بس امن ہونا ہے

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*