آس و آف ۔ ایک نفرت والی رسم

زی اَس چیف گاڈ تھا ۔وہ چیف گاڈ انسانوں سے بہت خوف کھاتا تھا۔ دراصل سارے دیوی دیوتا، پنڈت پادری اور پروہت بھکشوانسانوں سے بہت خوف کھاتے ہیں۔ زی اَس نے انسانوں سے آگ چھپا کر رکھی تھی۔ اُس کو خوف یہ تھا کہ اگر انسان آگ کا استعمال سیکھ جائے تو وہ دیوتاﺅں کی برابری کرنے لگے گا۔اور یہ واقعی درست خوف تھا ۔ اس لیے کہ بعد میں ہم نے دیکھا کہ جب انسان نے آگ کو قابو کرلیا تو اُس نے دیوی دیوتاﺅں کے دائرہِ اثر کو بہت تنگ کردیا۔
زی اَس ایک دوسرے دیوتا پرو میتھی اَس پہ اُس وقت غضبناک ہوا جب اس نے یہ آگ چوری کر کے انسانوں کو دے دیا۔ اسی لیے انسانوں کے اِس محسن پرومی تھی اَس کو آگ کا دیوتا،یا روشنی کا دیوتا کہا جاتا ہے ۔
چونکہ یہ دیوتا گیری کی بقا کا مسئلہ تھا ، اور پرومیتھی اَس نے اس دیوتا شاہی کو سنگین خطرے سے دوچار کردیا،اس لیے اِس طبقاتی غدار کو عبرتناک سزا دینی ضروری تھی ۔ چنانچہ زی اس نے اسے کفکاز کے ایک پہاڑ پر زنجیروں سے باندھ دیا ۔ ایک عقاب کی ڈیوٹی لگادی کہ وہ صبح سے شام تک اُسے نوچتا رہے اور اس کا کلیجہ کھاتا رہے۔وہ بھی اس طرح کہ اگلے دن وہ پھر جی اٹھتا اور عقاب پھرسے وہی کام شروع کرتا ۔یہ کام ابد تک جاری رہے گا۔
آگ انسان کے لیے بہت کمال کی چیز ہے ۔ یہ روشنی اور گرمائش کا سورس ہوتی ہے ۔ اسے انسانی شعور ،اور علم ، اور جذبے ،اور ولولے کا مظہر گردانا جاتا ہے ۔ مگر اس کی دشمنی اتنی ہی خطرناک اور مہلک ہوتی ہے ۔ یہ قہر ناک انداز میں بطور سزا، بطور انویسٹی گیشن افسر اور بطورِ جج زیر استعمال رہی ہے۔انسان کی احمقی پر قہقہے لگائیے کہ پرومی تھی اَس آگ کو انسان کا غلام بنا کر دیوتاﺅں کے قہرو غضب کا شکار ہوا تھا ، انسان نے اُسی آگ کو دیوتا بنایا، اُسے پوجا، اور اُس کے نام پر بستیاں اجاڑ دیں۔
حضرت عیسی السلام کی آمد سے سات سو سال قبل کے ایران میں کرد بلوچ آگ کی پوجا کرتے تھے ۔ توران اور مکران کے بلوچ بھی اسی مذہب پر چلتے تھے ۔وہ لوگ دن میں تین بار آگ کی پرستش کرتے تھے۔ ان کی عبادت گاہ آتش کدہ کہلاتی ہے ۔ شہروںاور دیہاتوں میںآتش کدہ ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے دو بڑی عبادت گاہیں کیکان(موجودہ نال) اور خضدار میں قائم کی تھیں۔ چونکہ یہ بڑے آتشکدے کوہِ زوراخ اور کوہ ِحُلوان کی چوٹیوں پر بنائے گئے تھے اس لیے ان کا نام ” آرین زوراخ “اور ”آرین ِحُلوان “تھے۔
اسی طرح نیچارہ اور پندران کے علاقہ میں کئی پہاڑوں،اور قبرستانوں میںزرتشتی آثار موجود ہیں۔ خاران گِدراور ماشکیل میں بھی زرتشتیوں کے آثار اور قبریں موجود ہیں جو کہ اس خطے میں اس مذہب کی موجودگی کا بتاتے ہیں۔ کوئٹہ میں سرینا ہوٹل کی تعمیر کے دوران تہہ خانوں کی کھدائی کے وقت ایسے آثار دریافت ہوئے جن سے زرتشی معتقدات کی نشاندہی ہوتی ہے۔
بلوچ کے ہاں آگ آج بھی بہت مقدس تصور ہوتی ہے ۔ یہاںآگ کی طرف پیر کرنے کو برا سمجھا جاتا ہے، آگ کی طرف تھوکنا بہت بری بات ہوتی ہے، آگ پر سے پھلانگنا بدتمیزی سمجھی جاتی ہے اور آگ کی طرف ہاتھ کے پنجے سے لعنت بھیجنے کی سختی سے حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ہمارا بچہ بھی غیر ارادی طور پر آگ کی تکریم کرتا ہے۔
آگ کے احترام کی یہ خصلت بلوچ میں قرنوں تک جاری رہے گی، اس لیے کہ یہ ہمارے اجداد کا مذہب تھی۔
مگر، اب حالیہ برسوں میں آگ اور پانی کو کچھ بلوچ قبیلوں نے چیف جسٹس بنا ڈالا ہے۔قدیم فیوڈل یورپ میںبھی ،بلوچوں کی طرح ملزم اپنی صفائی آگ اور پانی سے گزر کر کرتا تھا ۔ ہمارے بگٹی قبیلے میںتو ”آس وآف“ کی عدالت باقاعدہ ایک ادارہ بنتا جارہا ہے ۔ قتل سے لے کر معمولی چوری تک کا فیصلہ آگ یا پانی کرتے ہیں۔آگ میں ”نہ “جل کر گزرجانے والا بے گناہ ہے ۔ اسی طرح پانی میں” نہ“ ڈوب کر ملزم بے گناہ بن جاتا ہے۔
اگرآپ شاہنامہ دیکھیں تووہاں آگ میں ڈالنے کا عہد، کیکاﺅس کا بتایا گیا ہے۔ اسی طرح سیتا کو چودہ سال تک راونڑ انے غوا کر کے اپنے پاس رکھا تھا ۔ جب وہ آزاد ہوکراپنے محبوب رام کے پا س واپس آجاتی ہے تواپنی عصمت کی پاکیزگی ثابت کرنے کے لیے ، اُسے آگ پر سے گزر ناپڑا تھا ۔ اسی طرح شاہ لطیف کے ”شاہ جو رسالو “میں پنوں کی محبوبہ سسی کو بھی اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے آگ پر سے چلنا پڑتا ہے ۔شاہ لطیف عمر مارئی کی داستان میں بھی اس”آس“ کا ذکر کرتاہے جہاں اُسے اپنی پاکیزگی اور عصمت ثابت کرنے کے لیے ایک امتحان سے گزرنا پڑا۔ فیوڈل یورپ میں ابلتے ہوئے پانی میں ڈالے ہوئے لوہے کے ایک ٹکڑے کو انگلیوں سے باہر نکالنا پڑتاتھا ۔ یا اپنی زبان پر آگ سے سرخ کی ہوئی سرخ سلاخ رکھنی پڑتی تھی ۔
کولمبو میں تعیناتی کے زمانے میں پبلو نرودا نے یہ عمل اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔نرودا نے اسے اپنے memoriesمیں یوں لکھا: ”1929 کی ایک رات…. میں ہجوم کو اکٹھا ہوتے دیکھتا ہوں ۔ یہ مسلمانوں کی چھٹی کا دن ہے ۔ وہ گلی کے وسط میں جمع ہو گئے ہیں ۔ وہاں ایک گڑھے میں کوئلے دہک رہے ہیں ۔ ذرا نزدیک ہوتا ہوں ۔ راکھ کی پتلی تہہ کے نیچے جلتے انگاروں کی حدت سے میرا چیرہ تمتماتا ہے ۔ اچانک حیران کر دینے والا ایک شخص نمو دار ہوتا ہے ۔ سرخ اور سفید رنگ مَلے ،وہ چار لوگوں کے کندھوں پر سوار سرخ لباس میں ملبوس ہے ۔ اور وہ جیسے عالمِ خمار میں اللہ اللہ چیختا ہوا جلتے ہوئے کوئلوں پر چلنا شروع کر دیتا ہے ۔
” سارا مجمع اس منظر میں گم ہے ۔ جادو گر کوئی نقصان اٹھائے بغیر جلتے کوئلوں پر سے گزر گیا ۔ تب ایک اور آدمی ہجوم کو چیر کر آتا ہے اور اپنے چپل اتار کر اسی طرح ننگے پیروں دہکتے انگاروں پر چلتا ہے ۔ اسی طرح رضا کارانہ طورپر لوگ آگے آتے ہیں اور جلتے انگاروں پر چلتے رہتے ہیں ۔ کچھ آگ کے وسط میں رک کر اللہ اللہ کا ورد کرتے ہیں اور رونگھٹے کھڑے کر دینے کی حد تک چیختے ہوئے اپنی آنکھوں کو آسمان کی طرف کرتے ہیں “۔(6)
بلوچوں کی جانب سے آگ کی چیف جسٹسی یوں شروع ہوتی ہے کہ ملزم کے دونوں پاﺅں اچھی طرح دھو کر صاف کیے جاتے ہیں۔ تاکہ اگر کوئی پرانا زخم یا کوئی اور نشان موجود ہو تو اُسے پہلے سے نوٹ کیا جائے ۔ فائدہ یہ کہ آگ میںاترنے کے بعد یہی نشانات ملزم کو مجرم نہ بنائیں۔
شرقاً غرباً 7ہاتھ لمبا ، دو فٹ چوڑا اور ڈیڑھ فٹ گہرا گڑھا کھودا جاتا ہے ۔ اس کو خشک لکڑیوں سے بھر کر آگ لگادی جاتی ہے اور یوں گڑھے میںسلگتے ، دہکتے انگاروں کی ڈیڑھ فٹ تہہ جم جاتی ہے ۔

جس شخص پر قتل یا چوری وغیرہ کا الزام ہے ، اسے گڑھے کے مشرقی کونے میں کھڑا کردیا جاتا ہے اور ایک تجربہ کار شخص ایک ہاتھ میں قرآن اٹھا تا ہے ، او ردوسرے ہاتھ میں سات سبز پتے ۔ پھر وہ آگ کے گرد سات چکر لگاتا ہے ۔ وہ آگ کو خدا اور قرآن کی قسم دے کر کہتا ہے ۔”فلاں ولد فلاں پر فلاں جرم کا الزام ہے ۔ممکن ہے اس نے اپنی زندگی میں اور بھی برائیاں اور گناہ کیے ہوں ، مگر اِس وقت سابقہ جرائم کا نہیں ،صرف فلاں جرم کی بات ہو رہی ہے ۔ اگر وہ واقعی مجرم ہے تو اے آگ اُسے جلادے ۔ لیکن اگر وہ معصوم ہے تو اُس پر پانی کی طرح ٹھنڈی ہوجا“۔ اِس دوران وہ شخص ہر چکر میں ایک سبز پتہ بھی آگ میں ڈالتا جاتا ہے ۔
پھر دو دنبے ذبح کیے جاتے ہیں اور جونہی اُن کا خون بہنے لگتا ہے ،ملزم آگ میں داخل ہوجاتا ہے۔اگر ملزم جل گیا، یا اس نے اس رسم کو درمیان میں چھوڑ دیا تو وہ مجرم ہے ۔ لیکن اگر وہ پوری مسافت طے کر کے دوسرے سرے تک پہنچ جائے تو اس کے پیر دیکھے جاتے ہیں اور وقفہ وقفہ سے اس کے پیروں کے تلووں پر خون پھینکا جاتا ہے تاکہ اگر اس کے پائوں پر معمولی سا چھالا بھی بنا ہو تو وہ واضح نظر آسکے۔

اگر ملزم کے پاﺅں پر چھالے پڑ چکے ہوں تو وہ مجرم ہوگیا ۔لیکن اگر اس کے پاﺅں پر آگ کا کوئی اثر نہ پایا جائے ، تو اسے بے گناہ قرار دیا جاتا ہے ۔
یہ بہت دلچسپ بات ہے کہ پارس اور سنسکرت رواجوں سے آئی ہوئی یہ منحوس رسم اپنی پیدائش کی جگہو ں میں تومرگئی مگر ہم میں یہ وحشت ابھی تک زندہ ہے ۔
آگ کی طرح ”پانی “ بھی کچھ بلوچ قبائل کا سپریم کورٹ بنا ہوا ہے۔ یہاں ملزم کو اپنی صفائی کے لیے پانی میں جانا ہوتا ہے۔ ایک گہری جھیل میں ایک لمبی سوٹی ڈال دی جاتی ہے۔ ملزم کو اس ڈنڈے کے سہارے جھیل میں اترنا ہوتا ہے۔ اس کو اپنا سر اُس وقت تک پانی کے اندر رکھنا ہوتا ہے جب تک کہ دو منصف ایک مقررہ جگہ تک تیز چل کر واپس جھیل کے کنارے تک آجائیں۔ اگر ملزم کا دم ،تیز چلنے والوں کی واپسی سے قبل گُھٹ جائے اور وہ سانس لینے کے لیے اپنا سر باہر نکال لے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ پانی نے اُسے مجرم قرار دے کر اپنے اندر رہنے نہیں دیا۔
شروع میں تو صرف ایک سردار نے اپنے قبیلے میں آس آف رائج کیا تھا ۔مگر اب باقی قبائل میں بھی یہ مرض تشویشناک رفتار سے پھیلتا جارہا ہے۔ یہ خطرناک بیماری ہے ۔ یہ انسان کی توہین ہے ۔بشر کی تذلیل ہے ۔
یہ غیر انسانی رسم اس لیے بھی زندہ ہے کہ متبادل نظام بہت خرابیوںوالا ہے ۔ ریاست، قانون، پولیس، اورعدالت سب کچھ کا بھٹہ بیٹھ چکا ہے۔ یہاں انصاف بہت طویل ، بہت مہنگا اور غیر منصفانہ ہے ۔ اس سبب سے بھی لوگ ریاست پہ بھروسہ نہیں کرتے۔ اکثر جگہوں پہ تو ریاست کی یہ فرسودہ صورت بھی سرے سے ناموجود ہے ۔اگر بہتر اور تیز انصاف کا متبادل موجود ہو تو آس آف کا منحوس رواج خود بخود مرجائے ۔مگر ایسا تو فیودل ازم میں ممکن نہیں ہوتا ۔صرف کپٹلزم میں ریاست خود کو نسبتاً ایک روشن فکر عدالتی نظام کے ساتھ پیش کرتی ہے ۔ دلیل ، منطق اور سائنسی طرز ،فرسودگی کی ہر شکل کو مٹا دیتی ہے ۔
”آس و آف “ کی بدصورت رسم سے فیوڈل اور سردار کی اتھارٹی بڑھ جاتی ہے ۔ تواہم پرستی کو تقویت ملتی ہے ۔ فطرت کے مظاہر کی پُوجا کی ترغیب ملتی ہے ۔خوف بڑھ جاتا ہے۔ غیر یقینی دل و دماغ میں گَھر کر جاتی ہے ۔ ملا ، پیر ،سردار اور بیوروکریٹ مستحکم ہوتے ہیں ۔ وکیل ، دلیل ، تفتیش اور کامن سنس کی موت ہوجاتی ہے ۔ شعور بڑھنے کی راہ مسدود ہوتی ہے ۔ یہ آگ اور پانی کی جانب سے اپنے اختیارات میںایک ناقابلِ قبول تجاوز ہے جس نے بہر حال ختم ہونا ہے۔ آگ اور پانی کو تو انسان کے قبضے میں ایک انسٹرومنٹ ہونا چاہیے۔ مگر اس رسم سے یہ دونوںانسان کے کنٹرول میں رہنے کے بجائے انسان کو کنٹرول کرنے لگے ہیں ۔
یہ بات تاریخی اہمیت والی ہے کہ آج تک کسی سردار ،وڈیرہ ، پیر، ملّا اور بیوروکریٹ کے خاندان کے کسی بھی فرد کو آس و آف نہیں کیا گیا ۔ یہ ہمیشہ غریب لوگ ہیں جو آگ کا بوجھ اپنے ننگے پیروں تلے ڈھوتے رہتے ہیں۔اور پانی کے شرمناک رول کی بادشاہی بھگت رہے ہیں۔
اس وحشی رسم کی بھر پور مخالفت ہم سب پر فرض ہے ۔وحشت کو قومی افتخار کسی صورت نہیں بنایا جاسکتا ۔ اکیسویں صدی میںانسان کو اس تذلیل سے نجات دلانے کی جدوجہد بہت ضروری ہے ۔اور یہ رسم فیوڈل ازم سے جڑی ہوئی ہے ۔ اس لیے فیوڈلزم کے خلاف بھی جدوجہد تیز ہونی چاہیے ۔ ہمارا منظم مطالبہ ہونا چاہیے کہ ریاست کے عدالتی نظام کو سستا ہونا چاہیے ، اسے تیز رفتار ہونا چاہیے اور اسے ہر کونے میں موجود ہونا چاہیے ۔ مگر ساتھ میں ”آس و آف “ کی قبیح اور غیر انسانی رواج کو ایک جرم قرار دینے اور اس پہ پابندی لگانے کی تحریک بھی لازم ہے ۔
بلوچستان کے اندر آس و آف کے خلاف جدوجہد عمومی ،جمہوری تحریک کا لازمی حصہ ہے۔ اسے ہر سیاسی سماجی اجلاس میں شامل ہونا چاہیے ۔ ہمارے مقالوں ، افسانوں اور شاعری میں اس کی مذمت ہونی چاہیے ۔آس وآف جیسی بہیمانہ رسوم کے خلاف بات کیے بغیر کوئی تحریک جمہوری نہیں کہلائی جاسکتی۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*