لڑکے نے تصویروں کا البم اس کے ہاتھ میں دیا ”تاتہ کے بیٹے کی شادی کی تصویریں ہیں“۔
”میری تصویریں آئی ہیں کہ نہیں؟“۔
”ہاں ۔ تمہاری بہت اچھی تصویریں آئی ہیں۔ تمہاری اکیلی والی تصویر بہت اچھی آئی“۔لڑکا گھر سے نکلا، اور وہ آہستہ سے خوشی خوشی اپنا پسندیدہ گانا گاتے ہوئے تصویریں دیکھنے لگی۔
میں بڑے پتوں والی انجیر کا وہ درخت ہوں
جو بلند چٹانوں پہ اگا
میرا سر کوئی ہوا نہ ہلا سکی
میرا تنا کوئی بارش نہ بھگو سکی
اسی دوران اس کی انگلیوں میں سخت درد شروع ہوا۔ اس نے فوٹوﺅں کا البم نیچے رکھا اور اپنی انگلیاں دبانے لگی۔ کھڑی ہوگئی، گلاس اٹھایا اور کولر سے اس میں پانی ڈالا اور پھر پرس کے نیچے والا زپ کھولا ،ڈسپرین کے دودانے نکالے اور پانی میں ڈال دیے ۔ وہ کل ہی اپنی انگلیوں کے علاج کے لیے ہسپتال گئی تھی۔ ڈاکٹر نے اُسے بتایا کہ جس وقت تمہارے ہاتھوں کا درد شدید ہوجائے تو دو گولی ڈسپرین پانی میں ڈال کر پی لو۔ اس درد کا کوئی اور علاج موجود نہیں ہے ۔ اس لیے کہ بزرگ سنی میں بہت سے لوگوں کے رگ وبند کمزور پڑ کر درد کرنے لگ جاتے ہیں۔
اس نے پانی کا گلاس ایک ہی سانس میں پی لیا او رپھر اپنی انگلیاں دبانے لگ گئی۔ اس نے اپنے دل میں کہا ۔ میں کون سی اتنی جلد بوڑھی ہوگئی کہ میرے رگ و بند جواب دے گئے ۔ ڈاکٹر ویسے ہی جھک مار تا ہے ۔ میرے ہاتھوں کو ضرور کسی کی نظر لگ گئی۔ ہر ایک یہ کہتا تھا کہ نازرک کی دس انگلیاں نہیں ، دس چراغ ہیں۔ وہ اپنے ہاتھ دیکھنے لگی۔ اس کی لمبی اور پتلی انگلیاں جیسے ریگستان میں چُوچکا نامی سفید ونازک پودے ہوں ۔ درد کی تکلیف سے جوڑوں پہ گٹھلیاں پڑ رہی تھیں ۔ ہاتھوں کی پشت کی رگیں ایک نقشے میں دریاﺅں کو دکھانے والے نشانوں کی طرح سبز اورا بھری ہوئی تھیں۔ جیسے کھال سے باہر آکر سطح پر رکھی ہوئی ہوں۔
کونسا کام تھا جو اُس کے ہاتھوں نے نہیں کیا تھا ۔ کشیدہ کاری کی قسم موسم کہتا ہے میں، درتو کہتی ہے میں ، تناب اور بقالی، پُڑی وار، جالار، کپک ونال ، تامیتگ ئے نال، چندن ہار ے موسم، الغرض کشیدہ کاری کی کوئی قسم ایسی نہیں جو اُس کے ہاتھوں نے نہ کی ہو ۔وہ اس طرح کی غالی باغی کرتی تھی کہ لوگ دیکھ کر دنگ رہ جاتے۔ اس کے اپنے برونک (وہ جگہ جہاں بستر ایک دوسرے کے اوپر ترتیب سے سجا کر تہہ کیے ہوتے ہیں )کے آگے کشیدہ کی ہوں ریشمی چادر اس کے اپنے ہاتھ کی بنی ہوئی تھی ۔ ہر کوئی حیران ہوجاتا کہ اِن نارک ہاتھوں کے ساتھ وہ دری پر کس طرح خوبصورت کشیدہ کرتی۔ بستی میں کشیدہ کاری کرنے والی لڑکیاں بہت ساری تھیں، مگر اُس کی طرح کوئی بھی اتنے باریک کام سے ایسے چھوٹے چھوٹے پھول لگا پاتی کہ پشم سفید بادل کی طرح اٹھ آتی اور اس قدر باریک زیبائش والی پوش دستیاب ہوجاتی جیسے پشم نہ ہو ابر یشم ہو۔ اسی طرح وہ مہینے میں ایک دو مشک اور مشکیزے ضرور تیار کرتی۔
جب زمستان شروع ہوجاتا تو وہ موسمِ بہار کے دودھ کے لیے لسی بنانے کا مشکیزہ تیار کرنے لگتی۔ اِس کی ماں کبھی کبھی ناراض ہوجاتی ”اے بیٹی تمہیں اپنے جسم کا ہوش ہے کہ نہیں ۔ بہت ساری کشیدہ کاری نے تمہاری آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے ڈال دیے ہیں۔دوسری لڑکیوں کو دیکھو سارا دن اپنے نہانے دھونے اور بناﺅ سنگھار میں لگی ہوئی ہیں۔ ایک تم ہو کہ نہ تمہیںاپنے بدن کی پرواہ ، نہ اپنی صورت کی ۔اُس کی سہلیاں اُس کا مذاق اڑاتیں اور کہتیں ”خدا کے قربان جائیے ۔ وہ چیز اُسے بخشتا ہے جو اس کی قدر نہیں جانتی۔ اگر یہ سارے کام ہم کرتے تو ہم ٹکر کی طرح کالی ہوجاتیں، مگر تمہارا چہرہ دودھ کی طرح اجلا ہے“ ۔ وہ ہنستی اور کہتی : میں اپنی ماں کی لوریاں پوری کرتی ہوں کہ:
نازجان کو لڑکیاں مانگتی ہیں
کشیدہ کاری کرنے کے لیے
علم، پڑھائی اور ملّائی کے واسطے
دری اور قالین بافی کے لیے
سچکان نامی چٹائی بُننے کے لیے
سہیلیاں کھیل کود کے لیے
”صرف تمہاری ماں نے تمہیں پیار سے نہیں پالا پوسا، ہمیں بھی ہماری ماﺅں نے اسی طرح پیار سے بڑا کیا ہے “۔
” تو تمہارے ہاتھ کس نے روکے ؟“ اس نے جواب دیا۔ وہ صرف اپنے لیے نہیں بلکہ سارے دوست وقریب ، پڑوسیوں اور دور والوں کے کام کرتی تھی۔
مثل ہے : ”بے شک سوئر شکل ہو مگر بخت کا ٹکڑا ہو“ ۔ یہ ضرب المثل اُس پہ صادق آئی تھی۔ وہ کمسنی میں اپنے کزن بنگل کے نام کردی گئی تھی۔ اور بنگل کی ایک اکلوتی بہن تھی ۔ اُس کے ساتھ اُس کے بھائی کی شادی ہوگئی۔ اُس وقت بنگل کراچی میں پڑھ رہا تھا اور کہتا تھا کہ جب تک تعلیم مکمل نہ کر لوں ، مجھ سے شادی کی بات بھی نہ کرو۔ اس کے بھائی کے گھر دو بچے پیدا ہوئے ۔ تب بہن ، ماں اور باپ نے بڑی مشکل سے بنگل کو شادی پہ راضی کر لیا۔
شادی کی رات کو پھوپھی نے دلہا دلہن کے ہاتھ ملائے اور ان کی نئی زندگی کی خوشی، اتفاق اور آسودگی کے لیے نیک دعا کی اور باہر نکلی ۔ بنگل اٹھا، دروازہ بند کرلیا۔ پھر اس نے ایک سفید چادر اٹھائی اور نفل پڑھ کر آیا۔ اور نازرک کے قریب بیٹھ گیا۔ ”دیکھو نازرک ! میں جھوٹ بولنے والا شخص نہیں ہوں اور نہ مجھے جھوٹ بولنے والے اچھے لگتے ہیں۔ تم بیوی کی حیثیت میں بچپن ہی سے مجھے اچھی نہیں لگی ہو۔ پھر اب زمانہ آگے گیا، اب تعلیم کا زمانہ ہے ، لائقی اور قابلیت کا زمانہ ہے ۔ میں پڑھ لکھ گیا، بہت تعلیم حاصل کی ۔ کل بڑاافسر بنوں گا۔ یہ ٹھیک ہے کہ تم نے بھی پڑھا۔ مگر قرآن شریف، پنج کتاب وگلستان پڑھے ہوئے لوگوں کو آج کل کوئی تعلیم یافتہ نہیں سمجھتا اور نہ ہی کپڑے اور لحاف وپلنگ پوش سینے کی مہارت کو میری ” سوسائٹی “ میں کوئی قابلیت مانتا ہے ۔ شکل و صورت کو بھی کوئی دھوتا پیتا نہیں ہے ۔ پشت درپشت ایک ہی خاندان میں شادی بیا ہ کرتے رہنے سے بچوں کے اندر ذہنی پسماندگی پیدا ہوتی ہے اور بچے احمق اور پاگل ہوتے ہیں۔ اسی لیے میں نے کراچی میں اپنی ایک کلاس فیلو ہندوستانی مہاجر لڑکی سے شادی کرلی۔ ماں باپ کو میں نے نہیں بتایا۔ مگر جلد ہی انہیں بتا دوں گا ۔ مجھے امید ہے کہ تم اس بارے میںاُن سے کچھ نہ کہوگی۔اور مجھ سے کوئی بڑی امید نہ رکھوگی۔ اس لیے کہ تم میری ضرورت نہیں ہو، میری ماں باپ کی ضرورت ہو ۔ اُن کے کہنے پر میں نے تم سے شادی کی ۔اور دوسرا اپنی بہن کے لیے کہ تم اُس کا وٹہ سٹہ ہو، اور مجھے اپنی بہن سے بہت پیار ہے !!۔
اُس کے منہ کا تالو اس قدر کڑوا ہوا جیسے اس نے پہاڑی تلخ بوٹی مار موتک کی پھکی بغیر پانی کے نگل لی ہو۔اس نے اپنے سرخ اور سوکھے ہونٹوں کو دانتوں سے دبایا اور آنکھوں سے گلگل آنسو بہنے لگے۔
ماں باپ اور خاندان کو بنگل کی شادی کی خبر ہوگئی۔ مگر وہ کیا کرتے۔ شادی کر لی کوئی گناہ تو نہیں کیا۔ بنگل کی مرضی ہوتی تو کب کا ختم کر چکا ہوتا مگر نہ تو اس کے باپ اور بھائیوں نے یہ بدنامی کی اور نہ اس کے اپنے دل میں ایسا آیا۔
نازرک نے کہا ”لڑکی دسترخوان نہیں کہ ہر روز ہرکسی کے آگے بچھ جائے ۔ مجھے تجھ بنگل کا نام اور چچا کی دوستی اور محبت کافی ہے ۔ قسمتوں کا فیصلہ آسمانوں میں ہوتا ہے ۔ جیسی میری قسمت!“ ۔
دن اور ماہ سالوں میں بدلتے رہے ۔ یہ جس پہ گزرے اسی کو پتہ ہے ۔ مہربان چچا کو آج چار سال ہوگئے کہ انتقال کر گیا۔ چچی بنگل کے پاس ہے ۔ کیوں کہ میاں بیوی دونوں بڑے افسر ہیں، اِس شہر اور اُس شہر دورے کرتے رہتے ہیں۔ گھر اور بچوں کو سنبھالنے کے لیے تو کوئی چاہیے ۔ آج ایماندار نوکر کہاں ملتے ہیں۔ پہلے والد کا خیال تھا اب وہ کس کے لیے ماں کو یہاں چھوڑتا؟۔ ایک دنیا کی ضرورت ، جیسے کہ ضرب المثل ہے کہ ” بوڑھی دو کام کے لیے اچھی ہوتی ہے ، سالن پکانا اور گھر کی دیکھ بحال“ ۔اپنے بیٹے کے سالن پکانے کی بات تو نہیں ، البتہ، اپنے بیٹے کے گھر کی دیکھ بحال اور بچوں کو سنبھالنے میں تو اس کے دل کی ٹھنڈک تھی۔
ابھی وہ تنہا چچا کے گھر کی مالکن تھی۔ کوئی زبردستی اسے نکال نہیں سکتا ۔خواہ کھائے اپنے باپ اور بھائیوں کا ، یا اپنے ہاتھ کی محنت کا۔ جو کپڑے بیس سال قبل پندرہ روپے کا سیتے تھے وہ آج تین چار ہزار ہے ۔
اس نے دوبارہ اپنی انگلیاں دیکھیں۔ اس کی رِنگ فنگر کی فیروزہ والی انگوٹھی گویا اُس کی جان تھی ۔ یہ کیسے ؟۔ اس نے اپنا سر ہلایا ،جیسے ان خیالات کو دور کرنا چاہتی ہو اور پھر دوبارہ تصویریں دیکھنے لگی ۔ اپنی تنہا کچھی تصویر کو دیکھتے ہوئے وہ ایک فکر میں ڈوب گئی۔ اٹھ کھڑی ہوئی اور دیوار پہ لگی کیل پہ ٹنگی چابیاں اتارلیں۔ اور بڑی صندوق کو کھولا۔ وہ ایک ایک کر کے کپڑے باہر نکالنے لگی، ایک ،دو ، تین، چار، پانچ، چھ۔۔۔ بیس تک گن پائی۔ انہیں پہننے کا وقت کب آئے گا؟ ۔ میں اب ان کا کیا کروں؟۔ میرے کس کام کے ؟۔ سب کو چار پائی پر پھینک دیا ۔ صندوق کی تہہ سے ایک پرانی البم نکالی۔ پھر انگلیوں پر شمار کرنے لگی۔۔۔ تیس ۔ اس البم کو تیس سال ہوگئے ۔۔۔ ارے ۔۔۔ ماہ و سال کیسے گزرتے ہیں!!!۔
پرانے زمانے کے کیمروں سے لی گئی چھوٹی چھوٹی تصویریں اُسے نظر نہیں آئیں۔ اسے اندازے سے پتہ چلا کہ یہ کون اور وہ کون ہے ۔ اُن کی شکلیں پہچانی نہیں جاتیں۔ کاش یہ والے کیمرے اُس زمانے میں ہوتے ۔ لیکن اُن میں سے اس کی ایک تصویر تھی جسے اس نے اپنی سہیلی کے ساتھ چھپ کر جناح روڈ کے ایک فوٹوگرافر سے کھچوایا تھا۔ اُس نے وہ تصویر اُس البم سے نکالی اور نئی والی تصویر کے ساتھ رکھ کر سوچنے لگی کہ دونوں میں سے میں کون سی ہوں؟!! ۔
یہ جو قلات کے تازہ پکے ہوئے سیب جیسی ہے یا یہ جس کا چہرہ چوسے ہوئے آم جیسا ہے ۔ اِن کی ہر چیز میں فرق تھا۔ آنکھ ، منہ، ناک، دانت،میں اپنے آپ کو خود کو نہیں پہچانتی۔ وہ اپنے آپ پر ہنسنے لگی، اس قدر ہنسی کہ اس کے آنسو نکل آئے۔ اسی میں فوٹو اس کے ہاتھ سے گر جاتے ہیں۔ اس کی ہنسی ختم ہوئی اور اس نے اپنی انگلیوں کو دبانا شروع کردیا۔