عورتوں کے حقوق

 

مارکس اور اینگلز سوشلسٹ مفکر تھے اور لینن بیسویں صدی کے آغاز میں پہلی سوشلسٹ ریاست کا معمار بنا ۔ اس کا موقف تھا کہ سماج کی نئے سرے سے تعمیر کے لئے لازمی ھے کہ عورتیں مختلف شعبوں میں بھرپور طور پر کام کر رہی ہوں ۔ اپنی تحریروں کے مجموعے کی 28 ویں جلد میں لینن نے لکھا :
سوشلسٹ انقلاب کا برپا ہونا ممکن ہی نہیں ھے اگر اس میں کام کرنے والی عورتوں کی بھاری تعداد حصہ نہ لے رہی ہو ۔ آزادی کی تمام تحریکوں کا تجربہ یہ ظاہر کرتا ھے کہ کسی انقلاب کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہوتا ھے کہ عورتوں نے اس میں کتنی بڑی تعداد میں حصہ لیا ۔
اس کا کہنا تھا کہ کسی بھی سماج میں عورتوں کو مکمل آزادی اور مردوں کی ہم سری صرف اس وقت حاصل ہو سکتی ھے جب وہ قومی معشیت میں اپنا حصہ ڈالیں اور کسی شعبے کی ماہر یا عام محنت کش کے طور پر پیداواری عمل میں شامل ہوں ۔ لینن ہو یا مارکس اور اینگلز ہوں ، ان تمام سوشلسٹ فلسفیوں نے جب بھی عورت اور مرد کے درمیان مساوات کی بات کی تو عورت کے اس بنیادی کردار کو کبھی فراموش نہیں کیا جو وہ سماج میں ماں کے طور پر ادا کرتی ھے اس طرف اشارہ کرتے ہوئے لینن نے کہا :
سوشلسٹ جب مساوات کی بات کرتے ہیں تو ان کی مراد ہمیشہ سماجی مساوات اور سماجی مرتبے میں ہم سری سے ہوتی ھے ۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ھے کہ افراد کے درمیان جسمانی یا ذہنی برابری یا ہم سری کی بات کی جا رہی ھے ۔
لینن کا خیال تھا کہ خاندان میں عورت کا مرتبہ اور وقار بلند کرنے کے لئے یہ ضروری ھے کہ روزمرہ زندگی میں اسے مرد جتنی سیاسی ، معاشی اور سماجی برابری حاصل ھو ۔ جائیداد ، بچوں کے معاملات اور ازدواجی زندگی کے بارے میں منصفانہ قوانین ہی گھر اور خاندان میں اس کی مدد کو آ سکتے ہیں ۔
میں اب اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کروں گی کہ سوشلسٹ فلسفیوں نے عورتوں کے لئے مساوی حقوق کی جس بلند و آہنگ میں بات کی اس کے اثرات ان سماجوں پر کس حد تک مرتب ہوئے جہاں بیسویں صدی میں مارکسی سوشلسٹ انقلاب برپا ہوا ۔
انقلاب سے پہلے سوشلسٹ بلاک کے ملکوں کی عورت بدترین ذہنی ، سیاسی ، جنسی اور معاشی غلامی میں جکڑی ہوئی تھی لیکن انقلاب کے بعد اسی عورت کی زندگی میں ہمیں زمین وآسمان کا فرق نظر آتا ھے اور وہ نسبت کہیں زیادہ آزاد انسان کے روپ میں سامنے آتی ھے ۔
اگر ہم سابق سوویت یونین کے اعداد و شمار کو نظر میں رکھیں تو معلوم ہوتا ھے کہ 1945ء کے بعد سے سوویت یونین کی لیبر فورس کا نصف حصہ عورتوں پر مشتمل رہا ھے۔ ان خاتون کارکنوں کے لئے ریاست کی جانب سے شیر خوار اور کم عمر بچوں کی دیکھ بھال کا بہترین نظام قائم ہوا ۔
محنت کش عورتوں کے لئے مساوی کام کی مساوی تنخواہ کا اصول رائج ہوا جس پر بیشتر شعبوں میں عمل بھی ہوا ۔ بعض شعبے ایسے یقیناً تھے جہاں سوویت یونین کی عورتوں کو مساوی تنخواہ نہ ملنے یا جس میں ان کی شمولیت کے بارے میں حوصلہ افزا رویہ نہ ہونے کی شکایت رہی ۔ اس کے باوجود کسی بھی پیشے کو اختیار کرنے کے سلسلے میں عورت پر کسی قسم کی سرکاری پابندی نہیں تھی ۔ طلاق حاصل کرنا اور اسقاط حمل عورت کا حق قرار پائے ۔ تعلیم کے بغیر کوئی بھی عورت یا مرد نہ اپنی زندگی سنوار سکتا ھے اور نہ اپنے سماج کی ، چنانچہ سوویت یونین میں عورتوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی گئی ۔ 70 کی دہائی میں وہاں 53 فیصد عورتیں اعلیٰ تعلیمی اداروں سے وابستہ تھیں ، 63 فیصد سکینڈری اسکولوں اور خصوصی تعلیم کے اداروں میں پڑھ رہی تھیں جب کہ عام اسکولوں میں 98 فیصد سوویت لڑکیاں تعلیم حاصل کر رہی تھیں ۔
روسی ماہر معاشیات اور استاد الیگزینڈر برمین کی ایک رپورٹ کے مطابق سوویت یونین کی تحلیل سے چند برس پہلے کارخانوں اور دفتروں کے 11کروڑ سے زائد کارکنوں میں 51 فیصد خواتین اور سارے اساتذہ میں 74 فیصد کے تناسب سےخواتین کا حصہ تھا ۔

0Shares
[sharethis-inline-buttons]

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*