غزل

 

سرِ شامِ شگفتہ خواب جو میں خاک اڑتی ہے
یہ کیا دن ہیں کہ شہرِ آرزو میں خاک اڑتی ہے

بچھڑنے میں ابھی کچھ دن ہیں لیکن وصل بھی کیا ہے
چراغوں اور گلوں کی گفتگو میں خاک اڑتی ہے

ہماری تشنہ کامی تو ستاروں تک چلی آئی
وہی ہے پیاس ہونٹوں پر گلو میں خاک اڑتی ہے

بہت چاہے گئے لوگوں کی خوشبو ہے ہواؤں میں
وہ جن کے بعد دل کے کا خو کو میں خاک اڑتی ہے

خود ان کے گھر اجڑنے پر نہیں اک آنکھ بھی پر نم
جنہیں دکھ، خیمۂ فرشِ عدو میں خاک اڑتی ہے

یہ باغِ زندگی سب کے لیے کب ایک جیسا ہے
کسو میں پھول کھلتے ہیں کسو میں خاک اڑتی ہے

وہی ہیں شہر دروازے وہی ہیں موڑ اور گلیاں
وہ بدلے تو نہیں لیکن سبھو میں خاک اڑتی ہے

 

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*