بجھ گئے فانوس جب، میں نے دیا روشن کیا
اور وہ بھی بر سرِ بامِ ہوا روشن کیا
اے دکھوں کی رات! پھر نازل ہو احساسات پر
تو نے میری ذات کو بے انتہا روشن کیا
چاند تاروں سے کہاں ممکن کہ اندر بھی ہو نور
میں نے اشکوں ہی سے اکثر رتجگا روشن کیا
تیرگی ہی تیرگی تھی، منزلوں کے اردگرد
کچھ امیدوں نے بہ مشکل راستہ، روشن کیا
میں بھکاری کم ہوں لیکن چاہنے والا بہت
اُس پہ یہ نکتہ تو میں نے بارہا روشن کیا
مجھ کو مجھ سے گم کیا، پہچان کی خواہش سمیت
اپنا چہرہ، آئِنہ در آئِنہ، روشن کیا
جو تخلّص میں نے پایا ہے لغاتِ غیب سے
اُس نے گوہرؔ مجھ کو ہر ہر مرتبہ روشن کیا