قدیم بلوچی ادب میں شاعری کا زیادہ تر مواد حقیقی واقعات پر مبنی ہے۔ قدیم بلوچی شاعری میں ہمیں بزمیہ شاعری بہت کم ملتی ہے۔اگر شاعری کو اچھی طرح دیکھا جائے توقدیم بلوچی شاعری ہمیں واقعاتی شاعری معلوم ہوتی ہے۔ ہر شعر کے پس منظر مں ایک یا ایک سے زائد واقعات ملتے ہیں۔ یہ واقعات رزمیہ اورعشقیہ دونوں موضوعات پر شعر بند کی گئی ہیں ۔
بلوچی ادب میں بعض اس طرح کے بھی واقعات رونما ہوئے ہیں کہ وہ نہ تو ہمیں نثر میں ملتے ہیں اور نہ ہی نظم میں ملتے ہیں۔بعض اوقات ایسے واقعات کا دھندلا سا عکس ملتا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ واقعہ بھی رونما ہوا تھا، جیسا کہ مست توکلی کی شاعری مں اختراور گلڑی اور بالاچ گورگیج کی شاعری میں مہندہ کا ذکر ملتا ہے۔
بلوچی ادب شروع سے لیکر تقریباََ تاحال سینہ در سینہ سفر کرتی چلی آرہی ہے(نصف صدی سے لکھی پڑھی جارہی ہے۔) اس دوران بہت سے واقعات رونما ہوئے جنہیں شعراء نے شعر بند کیا اور داستان گوؤں نے انہیں بہت ہی سلقے) سے قصوں مں ڈھالا۔ بعض واقعات کو داستان گوؤں نے واقعات کے کرداروں کو تو بالکل محیرالعقول بنا کر پشر کا گویا حقیقی قصہ ایک فرضی داستان معلوم ہوتی ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ لوگ ادب جن کے سینے کا مسکن تھا مرتے گئے تو ادب کا بیشتر مواد بھی زینتِ خاک بنتا گیا اسی طرح جو بچھا کھچا مواد تھا وہ نسل در نسل، سینہ بہ سینہ اگلی نسل تک منتقل ہوتا رہا۔
قدیم بلوچی شاعری میں ایک روایت رہی ہے کہ وہ پہلے گزرے ہوئے کرداروں کا ذکر اپنے شعروں مںی کرتے آرہے ہیں، جس سے ہمیں ان کردارو ں کے وجود کا پتہ چلتا ہے۔ جیسا کہ مست توکلی بلوچی شاعری کے آغاز کے بارے مںی کہتے ہیں:
آسے کلان ءَ بالثہ
شہ عیسی ءَ دست تافثہ
جام درک ءَ پھراُفثہ
من دِہ اوار ءَ نِشتغاں
ا س طرح ہمیں ”مہندہ“ کا ذکر بالاچ گورگیج کی شاعری میں ملتا ہے۔ بالاچ چونکہ رزمیہ شاعر بھی ہے اسی لئے اسکی شاعری میں ہر وقت کشت و خون کا ذکر ملتا ہے۔ وہ اپنی شاعری میں دشمنوں کوسزا دینے کے بارے میں کہتا ہے کہ ”میں اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی ایساکرونگا،جس طرح مہندہ نے کیا تھا۔ وہ مہندہ کے سزا دینے کے طریقے کو پسند کرتا ہے اور مہندہ کواپنے لئے ایک ماڈل سمجھتا ہے۔ و ہ کہتا ہے کہ
من گوں بذاں ہنچھو کھناں
دودا ءِ جوریں دژمناں
چھو کہ بانز کووتان ءَ کھناں
گرمیں لِوار گوں چلڑاں
گُرک مزن چھیڑیں جڑاں
بران ءَ گِنداں بھوریناں
چھو کہ مہندہ ءَ کثہ
رن ضئیفیں چھوروءَ
یہ سزا تجویز کرنے کے بعد بالاچ ایک بار پھر اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس طرح تو ناممکن ہے یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا ہے۔
چوش منی دست ءَ نوی
چو کہ مہندہ ءَ کثہ
بالاچ کو ہر دور میں رزمیہ شاعر مانا گیا ہے بلکہ اس دور میں بھی بالاچ کی اہمیت اپنی جگہ برقرار ہے۔ آخر مہندہ مں ایسی کیا بات تھی کہ بالاچ جیسا جنگجو مہندہ سے متاثر نظر آتا ہے۔
کہتے ہیں کہ سیوی ڈاڈھر کے نواح مںی مہندہ کا خاندان رہائش پزیر تھا۔ مہندہ کے باپ سے شادی سے پہلے اس کے ماں کا کسی شخص سے معاشقہ چل رہا تھا۔ اسکے ماں کی شادی اسکے باپ سے ہوئی جسے وہ نہیں چاہتی تھی۔
وقت گزرتا گیا اور مہندہ کی والدہ امید سے ہوگئیں۔ ان دنوں پھر اسکا اپنے عاشق سے رابطہ ہوگیا، اس نے اپنے عاشق سے کہا کہ اگر وہ اسکے شوہر کو قتل کردے تو وہ اس کے ساتھ شادی کریگی ۔
اب ایک دین میاں بیوی بکریاں چرارہے تھے کہ عاشق وہاں آگیا اور اس نے اور اسکی معشوقہ نے مل کر اسکے شوہر کو قتل کردیااور وہیں درخت کے نیچے دفن کردیا۔
شام کو عورت بکریاں گھر لیکر گئی اور بتایا کہ اسکا شوہر پہاڑ کی طرف گیا ہے اور اس نے دیر کردی ہے، تبھی اس نے بکریا ں گھر لائی ہیں۔ اسکے شوہر کو تلاش کیا گیا مگر وہ نہیں ملا، لوگوں نے سوچا ضرور اسے شیر کھایا ہوگا۔
اس کے رسومات ادا کردیئے گئے اور ان دنوں مہندہ بھی پد ا ہوگیا۔ وقت گزرتا گیا اور مہندہ کے ماں کی شادی اس کے عاشق سے ہوگیا۔ اب مہندہ ان کے ساتھ رہنے لگا۔
اب مہندہ آٹھ دس سال کا لڑکا ہوچکا تھا، اسکے دو سوتیلے بھائی بھی تھے مگر اسے یہ پتا نہیں تھا کہ اس کے بھائی اور باپ سوتیلے ہیں۔
اس کا سوتیلا باپ اور ماں بکریاں چرانے چلے جاتے اور شام کو واپس گھر آتے۔ ایک دن مہندہ نے سوچا کیوں نہ آج میں بھی امی ابو کی طرف چکر لگا کر آؤں۔وہ گھر سے نکلا اور چراگاہ کی طرف روانہ ہوا۔چراگاہ جھاڑیوں سے بھرا ہوا تھا۔ وہ جیسے ہی نزدیک جارہا تھا اسے اپنے سوتیلے باپ کے ہنسنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ وہ اپنی بیوی سے مزاق میں مشغول تھا۔ اس بار اس نے صاف صاف سنا، وہ کہہ رہا تھا کہ ”تمہیں یاد ہے ناں!!! یہ وہی درخت ہے جس کے نیچے میں نے اور تم نے مہندہ کے باپ کو قتل کرکے یہیں دفنا دیا تھا۔“ یہ کہہ کر وہ ہنستا تھا اور اسکی بو ی اسے تنبیہ کرتی کہ ”لذاں را دِہ گوش انت۔“ یعنی خاموش رہو جھاڑیاں بھی سنتی ہیں۔
یہ سنتے ہی مہندہ حیرت میں پڑگیا کہ میرا باپ تو یہ ہے پھر یہ کیا کہہ رہا ہے، وہ حیران و پریشان واپس لوٹ گیا، سوچنے لگا کہ اسکا باپ کیا کہہ رہا تھا۔ پھر وہ گاؤں کے ایک بڑھیا کے پاس چلا گیا اور اس سے پوچھا کہ اسکا باپ کون ہے؟
بڑھیا نے بتایا کہ کافی سال پہلے اسکے باپ کو شیر کھاگیا تھاتب اس کے ماں کی شادی دوبارہ کردی گئی۔ اب مہند ہ کو یقین ہوگیا کہ اگر یہ بڑھا سچ کہہ رہی ہے تو میرے ماں اوراس کے شوہر نے مل کر میرے حقیقی باپ کو قتل کیا ہے۔ اس نے مزید معلومات کیا تو سب سے یہی جواب ملا۔ اس نے اپنے دادا اور چاچوں کے گھر کا پتا معلوم کیا تو لوگوں نے سب کچھ اسے بتایا۔
اس نے یہ کسی کو نہیں بتایا کہ ا س کا سوتیلا باپ یہ کہہ رہا تھا۔ آخر اس نے یہ فصلہ کیا کہ وہ اپنے والد کے قتل کا بدلہ لے گا۔اس نے ایک چوہی (تیز دھار ہلکی کلہاڑی اٹھایا)
چوہی ہیڑپھاذیں تھوّر
اور رات کو اپنے ماں اور سوتیلے باپ اور بھائیوں کا سر تن سے جدا کردیا اور اپنے دادا کے گاؤں کی طرف چلا گیا۔ وہاں اپنے دادا کے گھر پہنچا تو اس نے بتایا کہ وہ مہندہ ہے اور اس نے اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لیا ہے۔اس نے اپنے باپ کے حوالے سے تمام ماجرہ اپنے دادا کو بتایا اور یہ بھی بتایا کہ اسے کہاں دفنایا گیا ہے۔
دن ہوا تو اس کے پاؤں کے نشانات ڈھونڈتے ڈھونڈتے لوگ وہاں آئے۔ ان لوگوں نے قتال کا واقعہ سنایا تو اس کے دادا نے کہا کہ یہ کام اس کے پوتے نے اپنے باپ کے قتل کے بدلے میں کیا ہے۔ تمام تر قصہ خود مہندہ نے مقتول سے سنا تھا، اور مہندہ جانتا ہے کہ اسکے باپ کا جسد کہاں دفن ہے، ہم تمام تر ثبوت آپکو دینگے اور قبائل کے دستور کے مطابق تمام تقاضے پورے کرینگے۔
مہندہ سب کو اس درخت کے نزدیک لے گا ، کھدائی کیا گیا تو انسانی ڈھانچہ سمیت جوتے اور دیگر سامان برآمد ہوا، جسے لوگوں نے پہچان لیا کہ واقعی یہ مہندہ کا باپ ہی ہے۔
اس طرح دونوں قبائل متفق ہوگئے کہ مہندہ کے باپ کو قتل کیا گیا اور مہندہ نے اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لیا ہے۔ دونوں قبائل اس واقعے کے بعد پھر شیر و شکر ہوگئے۔
اس کے بعد ہمیں مہندہ کا ذکر کہیں بھی نہیں ملتا ہے۔
بالاچ کے نزدیک مہندہ کے سزا دینے کا طریقہ اہم ہے، کیوں کہ وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح سزا دینے سے پھر کوئی اسی طرح کا جرم کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ہے۔جس طرح میر چاکر نے کہا تھا کہ ”رند مہ گِند، گِند تہ سغرءَ سِند“ یعنی یہ مت دیکھو کہ مجرم رِند(اشرافیہ) ہے، دیکھو تو سر کو تن سے جدا کردو۔
بالاچ کے نزدیک مہندہ اہم ہے، معتبر ہے وہ کہتا ہے کہ میں اپنے دشمنوں کیلئے ایک چھوٹے بے بس لڑکے مہندہ کا دیا ہوا سزا تجویز تو کرسکتا ہوں مگر یہ سزا دینا میرے بس کی بات نہیں۔