جب ”آواز “پر چھاپہ پڑا
فہمیدہ ریاض سے میراپہلا تعلق تو وہ ہے جو ہر نسل کا اپنے پیش روئوں کے ساتھ ہو تا ہے اورمیری یہ بھی خوش قسمتی تھی کہ میں نے اس کے ساتھ اس کے رسالہ” آواز” میں کچھ عرصہ اس کی معاونت کی۔ یوں اسے بہت قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔ یہ ضیاءا لحق کے مارشل لا کا وہی پر آشوب دورتھا جب رسالہ” آواز” پر مقدمات قائم کئے گئے جس کے نتیجے میں فہمیدہ ریاض کو جلا وطن ہونا پڑا۔
وہ میرا طالبعلمی کا زمانہ تھااور یہ میری پارٹ ٹائم جاب تھی ۔شایدتنخواہ تین سو روپئے ماہانہ طے ہوئی تھی۔آواز کے دفتر میںہفتے میں دو دن جاتی تھی لیکن ان دو دنوں کا مجھے بے چینی سے انتظار رہتا تھا۔ کارسازسے طارق روڈ کو مڑتے ہوئے غالباً دوسرا بس اسٹاپ رحمانیہ مسجد کا پڑتا تھا۔ بھری دوپہر میں طارق روڈ کے رحمانیہ مسجد والے بس اسٹاپ پر اتر کر پیدل اس کے گھر تک جاتے ہوئے میں پسینے میں شرابور ہوجاتی تھی۔مجھے اونچی ایڑی کی چپل کی عادت تھی۔شروع شروع میں تو حسب عادت پینسل ہیل پہن کر ہی وہاں تک جاتی تھی۔لیکن بس اسٹاپ سے فہمیدہ ریاض کا گھر جو ان دنوں "رسالہ آواز "کا عارضی دفتر بھی تھاسیدھی سڑک پرکافی اندر تھا۔ آخر انگلش بوٹ ہاﺅس کی نازک سینڈل کب تک ساتھ دیتی۔پھر اسی کونے پر بیٹھے ہوئے موچی نے مشکل آسان کردی۔دوسرے تیسرے وہ چار آٹھ آنے میں ایک دو ہتھوڑیا مار کر نئی کیلیں جمادیتا اور پرانی مضبوط کردیتا۔آخر ایک دن مجھے عقل آگئی اور پھر میں نے بس اسٹاپ سے اس کے گھر تک کا راستہ اپنی سینڈل ہاتھ میں لے کر طے کرنا شروع کردیاکہ آخرپاﺅں تو اپنے تھے۔
میں دوپہر کی تیز دھوپ میںکوٹھی کی گول گول سیڑھیاں طے کرکے بالکنی سے ہوتی ہوئی ڈرائنگ روم میں داخل ہوتی تو فہمیدہ کے بیٹے کبیر کی آیا بی بی جان اپنے کام میں مصروف نظر آتی اور اس کے دونوں بیٹے چادر کی دوسری طرف کونے میں کھیل رہے ہوتے۔وہ کبھی کبیر کو چٹائی پر لٹاکر اس کے بدن پر سرسوں کے تیل کی مالش کررہی ہوتی تو کبھی اس کے لئے افغانی حلوہ بنا رہی ہوتی جو بنتا تو کبیر کے لئے ہی تھا مگر اس میں سب کا حصہ ہوتا تھا۔وہ حلوہ ذائقے میں اتنا مختلف تھا کہ میں نے نہ صرف یہ کہ اس کی ترکیب لکھی بلکہ اس کے ساتھ اس چھوٹے سے باورچی خانے میں بیٹھ کر حلوہ بنانا بھی سیکھا۔
یہ پرانے طرز کی ایک چھوٹی سی کوٹھی کا غالباً آدھا پورشن تھا جس کی بالائی منزل کے اس حصے میں دو کمرے اور ایک بڑا ساہال وے یا ڈرائنگ روم تھا ۔ اس ڈرائنگ روم سے ملحق پہلا کمرہ آواز کا دفتر اور لائبریری تھی۔اور دوسرا کمرہ فہمیدہ کا بیڈ روم تھا۔آواز کے دفتر کا کل اثاثہ ایک رائیٹنگ ٹیبل ، دوکرسیاں اورغالباً ایک پرانا سا مونڈھا تھا۔دیوار میں نصب وہ خوبصورت الماریاں جو اس کوٹھی میں نوادرات کی نمائش کے لئے بنائی گئی ہونگی ا ن الماریوں میں اب صر ف کتابیں تھیں ۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان دنوںفہمیدہ کے ڈرائنگ روم میںفرنیچر قسم کی کوئی شے نہیں تھی۔بلکہ وہ حصہ بی بی جان کی ملکیت تھا۔جہاںاس نے بہت ہی بے تکے پن سے ایک پلنگ پوش پردے کے طور پر لٹکا رکھا تھا۔دوسرے الفاظ میں اس نے ڈرائنگ روم میں جھگی ڈال رکھی تھی جہاں ایک کونے میں اس کے لحاف گدے،دوسری طرف اس کا لوہے کا ٹرنک اور زمین پر چٹائی یادری بچھی رہتی تھی۔وہ حصہ بلا شرکتِ غیرے اس کے تقریباً آٹھ اور دس برس کے دونوں لڑکوں سمیت اس کی ملکیت تھااور اس ننھی سی ملکیت کا شہزادہ گول مٹول ، کھلکھلاتا ہوا کبیر۔
آواز کا دفتر یعنی وہ کمرہ جو میرے استعمال میں تھااس کا دروازہ ” بی بی جان کی جھگی "یعنی ڈرائنگ روم میں کھلتا تھا۔میں کام کرتے کرتے نظر اٹھاتی تو وہ سامنے مسکراتی نظر آتی ۔اب سوچتی ہوں شہر کراچی کی پرانی بستیاں بھی عجیب تھیں اور ان عجیب بستیوں میں عجیب ترین تھا یہ گھر۔اس پر آسائش بستی کی تہذیبی فضا سے بالکل الگ ایک جزیرہ ،فہمیدہ ریاض کا گھرجس کے ڈرائنگ روم میں ایک بیوہ عورت نے اپنے دو کم سن بچوں کے ساتھ پناہ لے رکھی تھی اور تیسرا وہ لاڈلا تھاکبیر جو اس کے رزق کا وسیلہ تھا۔ آواز کے دفتر کے ان چند اراکین کے علاوہ جن کا میں نے اوپر ذکر کیا وہاں میں نے کبھی کسی اور کو آتے جاتے نہیں دیکھا یا یوں کہا جا سکتا ہے کہ جن معاونین کا نام رسالے میں درج ہوتا تھا ان سے میری ملاقات اس دفتر میںکبھی نہیں ہوئی۔(یہ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ آواز کا اصل دفتر صدر میں کہیں تھا)۔
بی بی جان کی کہانی بھی عجیب تھی۔ اس کا شوہر کسی محاذ پر کام آیاتھا۔اس کے سسرال والے قبیلے کے دستور کے مطابق اس کے بیٹوںکو اپنی سرپرستی میں لے کر( یا دوسرے معنی میںان کو چھین کر) بی بی جان کو کسی اور کے ہاتھ فروخت کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے لیکن وہ بچ نکلی۔ اور اب اپنے بچوں کے ساتھ یہاں کبیر کی خدمت کے صلے میں سر اٹھا کر جی رہی تھی۔وہ سرخ سفید ،مضبوط ہاتھ پاﺅں کی خوبصورت اور سخت کوش پٹھان عورت تھی۔
اس گھر کے عین سامنے والا گھر فہمیدہ کی والدہ کایا ان کی چھوٹی بہن نجمہ کا تھا۔جہاں اس کی والدہ بھی رہتی تھیں۔مجھے کبھی قلم یا کاغذکی ضرورت ہوتی تواکثر بھاگتی ہوئی نجمہ کے گھر چلی جاتی، سامنے اس کی امی بیٹھی ہوئی ہوتیں۔ میں نے پہلی بار انہیں دیکھا تو کچھ دیر مبہوت کھڑی رہ گئی۔یا اللہ کیا حسینوں کا خاندان ہے۔پھر نجمہ برآمد ہوئیں،ایک ہی گھر میں اتنا سارا حسن ۔ میں بھول گئی کہ کیا لینے آئی تھی۔ !
میں ہفتے میںدو مرتبہ” آواز "کے دفتر جاتی تھی۔ کبھی جب پرچہ پریس میں جانا ہوتا تو اور بھی وقت دینا پڑتا لیکن معمول یہی تھا کہ کالج سے نکل کرکارساز کے لئے بس پکڑتی اور پھر طارق روڈ کے لئے ۔ایک دن جب میں گلی میں داخل ہوئی تو دیکھا کہ ویرتا اور کبیر دو نوںبچے گھر کے سامنے ننگے پاﺅں کھڑے ہیں۔کبیر کے ہاتھ میں بی بی جان کا پانی کا کٹورہ تھا۔اور ویرتا کے ہاتھ میں ایک تھیلا سا۔کبیر اس وقت دو ڈھائی برس کا تھا اور ویرتا چار ایک برس کی رہی ہوگی۔میں قریب آئی کہ یہ سڑک پر کیا کررہے ہیں تو کبیر نے کٹورا آگے بڑھایا اور کہا "دے دے”۔ا سے اتنا ہی بولنا آتا تھا۔میں نے لپک کر اسے گود میں اٹھالیا تو دروازے سے مجھے بی بی جان کا سرخ چہرہ نظر آیا۔وہ ہانپتی ہوئی باہر آئی اور چیل کی طرح جھپٹا مارکر کبیر کومیری گود سے اڑالے گئی۔
وہ سیڑھیا ں چڑھتی جاتی تھی اور کبیر کو بھینچ بھینچ کر چومتی جاتی تھی ۔ اس دن اس نے بچے کو چوم چوم کر ہلکان کردیا۔ وہ پشتو زبان میںوالہانہ انداز سے کوئی گیت گاتی جاتی تھی اور میری ہنسی نہیں رک رہی تھی۔بعد میں اس نے بتایا کہ یہ ویرتا کی شرارت لگتی ہے باجی کیونکہ میں ابھی ا ن دونوں کوخالہ نجمہ کے یہاں سے لے کر آرہی تھی توگلی میں ایک فقیر کٹورا بجا رہا تھا ۔یہ سن کر مجھے اور بھی ہنسی آئی ۔میں نے ویرتا کو گود میں اٹھالیا۔ننھی بھولی بھالی ویرتا ہمیں ہنستا دیکھ کر حیران تھی۔
بے جا آرائش سے پاک وہ گھراپنی تمام تر سادگی اور بے سر و سامانی کے باوجودزندگی سے لبریز تھا۔ فہمیدہ کی بڑی بیٹی سارہ سامنے والی کوٹھی میںاپنی نانی اور خالہ کے پاس رہتی تھی۔لیکن دوپہر کو کبیر اور ویرتاکے ساتھ اکثر کھیلنے آجاتی ۔کبیرکبھی دھمال ڈالتا تو ہوا میں جیسے قہقہے بکھر جاتے۔وہ مجھ سے کچھ کچھ مانوس ہو چلا تھا تو کبھی کبھی میری میز کے قریب آتا اور مجھے شرارت بھری نظروں سے دیکھتا ۔ اس کی بھنوران سی کالی آنکھیں باتیں کرتی تھیں۔میں اسے زور سے بھینچ کر بے تحاشا چومتی تو وہ آزاد ہونے کی کوشش کرتے ہوئے بیک وقت ہنستا بھی اور روتا بھی جاتا۔ایسے میںبی بی جان کے پاس جب وہ جاتاتو وہ جلدی سے اس کے ماتھے پر بڑا سا کاجل ٹیکہ لگا دیتی تھی۔ وہ ٹھیک ڈرتی تھی ۔میں نے بھی اتنا حسین بچہ اپنی زندگی میں نہیں دیکھاتھا۔کاش وہ اتنا حسین نہ ہوتا یا بی بی جان نے اسے ایسا کاجل ٹیکہ لگادیاہوتا جسے کوئی ظالم لہر نہ دھو سکتی۔
فہمیدہ نے رسالے کا کام پہلے ہی دن سے بانٹ لیا تھا۔اس نے بتادیا تھا کہ دیکھو بی بی مجھے اور ظفر کو تو اشتہار حاصل کرنے کے لئے نکلنا پڑتا ہے۔اب مضامین کی چھانٹی اور ڈاک وغیرہ دیکھنا اور پروف ریڈنگ یہ سب تمہارے ذمے ہے۔گویا دفتر میں بیٹھ کر کرنے کا کام تمہارا اور باہر کاکام میرا۔تو اکثر ایسا ہوتا کہ وہ اپنی خاص ادا سے "آواز "کے دفتر یعنی میرے دروازے میں جھانکتی ،ہلو کرتی اور تھوڑی سی باتیں کرتی۔کام کے بارے میں پوچھتی اور پھر باہر نکل جاتی۔اس کے چہرے پر ہمیشہ ایک مانوس سی مسکراہٹ رہتی جس سے اس کے اندر کا حال بالکل ظاہر نہ ہوتا تھا۔مجھے معلوم نہیں تھا کہ اس کے حالات کتنے بگڑ چکے ہیں۔
کچھ دوست اور ہمدرد مجھے یہ باور کرانے کی کوشش کرتے تھے کہ” فہمیدہ ریاض کے بارے میں لوگ اچھی رائے نہیں رکھتے۔ وہ انقلاب وغیرہ کی باتیں کرتی ہے ۔ کسی دن دھر لی جائے گی ۔ اور اس کے ساتھ تم بھی مفت میں پھنسوگی ۔” میں یہ سوچ کر ان کی بات ہنسی میں اڑا دیتی تھی کہ افسر ان اعلی ان دنوں ضیا ءالحق کے عتاب سے خا صے سہمے ہوئے ہیں۔اور مجھے بھی ڈرانے کی کوشش کررہے تھے۔جب کہ مجھے کسی بات سے ڈرہی نہیں لگتا تھا۔ہاں کوئی فکر تھی توبس یہ کہ مجھے دو مہینے سے تنخواہ نہیں ملی تھی۔یہ وہ زمانہ تھا جب مجھے انقلاب اور فیشن دونوں کا جوش تھا۔آواز کے دفتر سے نکل کرلگے ہاتھوں "نہ سہی وصل تو حسرت ہی سہی "کے مصداق انگلش بوٹ ہاﺅس کا چکر بھی کبھی کبھار لگا ہی لیا کرتی تھی۔ جو شاید اسی گلی کے کونے پر تھا۔
ایک دن فہمیدہ آپا اپنے کمرے سے نکلی۔ میرے پاس آئی اور باتیں کرنے لگی۔
"پرچہ نکلنا دن بدن مشکل ہورہا ہے عشرت جانی۔۔بہت سے مسائل ہیں ۔اشتہار ملنا بند ہوگئے ہیں۔مضامین اور کہانیاں بھی نہیں مل رہی ہیں۔”
میں نے کہا کیوں فہمیدہ باجی۔؟
بولی”تمہیں شاید پتہ نہیں میں آج کل بہت کرائسس میں ہوں ۔”
یہ سن کر ایک لمحے کو میں گم سم کھڑی رہ گئی۔سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں ذہن نے کہااس کا مطلب یہ ہے کہ اس مہینے کی تنخواہ بھی گئی۔اور اس کے ساتھ ہی آواز کے دفتر پر قربان ہوجانے والی کم بخت سینڈل یاد آگئی ۔۔اس لمحے فہمیدہ ریاض کی آنکھوں میں عجیب حیرانی تھی۔!
” ارے لڑکی میں نے کہا کہ میں کرائسس میں ہوں اور تم خاموش کھڑی میرا منہ دیکھ رہی ہو۔۔لو اب مسکرا بھی رہی ہو ۔”!
میں سٹپٹا گئی۔۔وہ ہکا بکا میری صورت دیکھ رہی تھی۔پھر اپنی سچی اور میٹھی مسکراہٹ کے ساتھ تھوڑی سی ناراضگی سے بولی!
” عشرت جانی ، جب کوئی کہتا ہے کہ میں کرائسس میں ہوں تو اس طرح تھوڑی کرتے ہیں۔ارے بھئی کچھ اظہار ہمدردی کرتے ہیں۔کچھ پوچھتے ہیں ۔۔!”اس نے ہاتھ جھٹک کراپنے مخصوص غنائی انداز میںبس اتنا ہی کہا اور چلتی بنی۔
اس بات کو لگ بھگ پینتیس چھتس برس ہوگئے ہونگے لیکن وہ سب لمحے میری آنکھوں میں جیسے ٹہرے ہوئے ہیں۔ میں غور کرتی ہوں اور یاد کرنے کی کوشش کرتی ہوں کہ کوئی چھوٹے سے چھوٹا واقعہ یا بات یاد آجائے جب مجھے اس کی طرف سے کوئی شکایت یا ملال ہوا ہو۔ لیکن اس کی شفاف شخصیت آئینے کی طرح مجسم ہوکر آکھڑی ہوتی ہے ایک ایسا آئینہ جس میں کبھی کوئی بال نہیں آیا۔میں نے اس کی پیشانی پر کبھی شکن نہیں دیکھی۔اس کے لہجے میں کبھی تلخی نہیں آئی ۔اس کی بڑائی یہ ہے کہ وہ جتنی سچی، بیباک اور بہادر اپنی تحریروں میں ہے اتنی ہی اپنی روز مرہ زندگی میں بھی۔
اس چھوٹے سے گھر میں جہاں بظاہر بے سر و سامانی کا ڈیرہ تھا۔وہ گھر کیسے بے پایاں حسن سے مالا مال تھا۔ اپنے عہد کی سب سے بہادر اور عظیم عورت کی آواز ، جس کے دکھ سکھ ، جس کے آنسو تاریخ لکھ رہے تھے ۔
ان دنوں میں عمر کی اس منزل میں تھی کہ تجربوں کی دھوپ نے ابھی کندن نہیں بنایا تھا۔اصل زندگی تو اپنا گھر کرنے کے بعد ہی شروع ہوتی ہے۔سو میں ان دکھوں سے ناواقف تھی جو ایک گھر دار عورت کا حصہ ہوتا ہے۔ اور یہاں تو بات اس سے بھی بہت آگے کی تھی۔ ایک ایسی عورت کا المیہ جو وقت سے آگے نکل گئی تھی۔فہمیدہ ریاض جس نے اپنے عہد سے بہت آگے کی شاعری کی ۔فہمیدہ ریاض کے گھر کے راستے میں میری ایڑیاں زخمی ضرور ہوئی تھیں لیکن وہ ایک فیشن زدہ لڑکی کے مسائل تھے۔بہت آگے چل کر پتہ چلا کہ فہمیدہ ریاض کے گھر کے راستے میں جو کانٹے بچھے تھے ان کا ادراک تو میرے کمتر شعور کی حد میں ہی نہیں تھا۔
کئی نادان دوستوں کی تنبیہہ کے باوجود میں اس دن تک وہاں جاتی رہی جب تک کہ وہاں تالا پڑانہ دیکھ لیا۔بعد میں تصدیق ہوگئی کہ ” رسالہ آواز "کے دفتر پر چھاپہ پڑا تھا۔وہ لوگ سب کچھ اٹھا کر لے گئے۔اچھا ہوا میں وہ رجسٹر اٹھا لائی تھی جس میں میں نے اپنے نوٹس لکھ رکھے تھے۔ یہاں بھی میری ذاتی خود غرضی عود کر آئی ۔اس رجسٹر میں پابلو نیروداکی نظم کے ایک حصے کے لفظی ترجمے کا رف ڈرافٹ بھی تھا۔مجھے اپنے اس دفتر کے اجڑنے کا افسوس ہوا۔ میں نے دل میں عہد کیا کہ جوں ہی دفتر دوبارہ کھلے گا میں رضاکارانہ طور پر وہاں کام کروں گی۔لیکن جب یہ پتہ چلا کہ فہمیدہ جلا وطن ہوگئی ہیں۔تو دل پر ایک چوٹ سی لگی ۔
شروع دنوں کی بات ہے ایک بار ہوا یہ کہ رسالہ پریس میں جانے کے لئے تیار تھا۔مگر ترجمے کا خانہ خالی تھا۔ جن صاحب نے ترجمے کا وعدہ کیا تھا مسودہ وقت پر نہیں پہنچا سکے یا سیاسی حالات کے تحت دامن بچارہے تھے۔فہمیدہ نے مجھ سے کہا عشرت جانی یہ لو پابلو نیرودا کی نظم” "The Hights of Machu Pichu کا ایک حصہ جلدی سے ترجمہ کردو۔وقت بالکل نہیں ہے۔میں نے کہا فہمیدہ باجی میری انگریزی اس قابل نہیں ہے۔ آپ مجھے کیا سمجھ رہی ہیں ۔وہ بولیں دیکھو مری بات سنو ترجمہ تو تمہیں ہی کرنا ہے ۔ کوشش کروگی تو کام کرنا آئے گا ناں۔۔میں نے کہا میرا مطلب ہے کہ نثر کا ترجمہ ہو تو اور بات ہے یہ نظم ہے اور وہ بھی پابلو نیرودا کی۔کچھ خدا کا خوف کریں فہمیدہ باجی ۔!اچھا ایسا کیجئے کہ نظم مجھے دیجئے میں گھر پر اطمنان سے کرلوں گی۔
وہ اپنے مخصوص انداز میں ٹھٹھہ مار کر ہنسی ۔بولی نہیں پرچہ تو پریس میں جانے والاہے۔ اور یہاں میں تمہاری مدد کرسکتی ہوں گھر پر کیسے کروگی ۔؟ میں نے بے دلی سے نظم پڑھی اور قطعی طور پر اعلان کردیا کہ میرے لئے اتنی جلدی ممکن نہیںہے۔ وہ میرا جواب سن کراپنے مخصوص غنائی انداز میں گویا ہوئی ۔”دیکھو میری جان مجھے اور بھی بہت سے کام ہیں،یہ ترجمہ تو تمہیں ہی کرنا ہوگا۔ اور ایسا ہے کہ جب تک تم ترجمہ نہیں کرتیں اس کمرے میں بند رہو۔۔یہ کہہ کر جھپ سے انہو ںنے کمرے کا دروازہ بندکیا اور باہر سے کنڈی لگادی۔باہر بی بی جان اور بچے ہنس رہے تھے اور میں۔۔میں تھک کر کرسی پر بیٹھ گئی ۔اب کیا کیا جائے۔تھوڑی دیر باہر خاموشی رہی پھر آواز آئی” عشرت جانی کوئی مدد چاہیے۔”تب مجھے اس کی آواز زہر لگ رہی تھی ۔میں نے سوچ کر جواب دیا، جی ڈکشنری چاہئے۔ امید تھی کہ اس بہانے دروازہ توکھلے گا۔ (شاید قید سے زیادہ قید ہونے کا احساس جان لیوا ہوتا ہے)تو میری یہ ترکیب بھی کارگر ثابت نہیں ہوئی۔
اس سفاک اور سنگ دل خاتون نے ڈکشنری دروازے کے نیچے سے سرکا دی جہاںدروازے کے نچلے حصے اور ماربل کے ننگے فرش کے درمیان ایک قالین بھرفاصلہ تھا۔ میں نے خود سے کہا،رسالہ آواز کی نائب مدیرہ عشرت آفرین صاحبہ آپ کوجان لینا چاہئے کہ آپ ایک ایسی خاتون کی ماتحتی میں کام کررہی ہیں جس کی زبان سے نکلا ہو اہر حرف ،حرف آخر ہوتا ہے ۔ اپنے ارادوں میں اٹل، کام کی دھنی اور قلم کی مزدور خاتون نہ دیکھی ہو تو آج دیکھ لیجئے۔!
میں نے سن رکھا تھا کہ دنیا کی کئی عظیم کتابیں قید خانوں میںہی لکھی گئی ہیں۔اس خیال سے دل کو تشفی ہوئی۔ڈر تھا تو یہ کہ اگر ترجمہ نہ کرسکی تو کتنی شرمندگی ہوگی۔فہمیدہ باجی سمجھیں گی بالکل جاہل ہے یہ۔!اب سوچتی ہوں تو ہنسی آتی ہے ۔میں تو آج بھی ویسی ہی کوری کی کوری ہوں ،نری جاہل ۔ تب کیسی ننھی سی انا تھی جس کے لئے میں اتنا دفاع کررہی تھی۔کاش "آواز” نکلتا رہتا۔کاش میں اس کی ملازمت میں زندگی گزار دیتی۔تو شاید اردو ادب کا دامن ایسے کتنے اور تراجم سے مالا مال ہوتا جو فہمیدہ ریاض کے ساتھ ایک شام کی مزدوری کا صلہ تھا۔وہ تراجم جو آج بھی میرا افتخار ہیں۔
ماہنامہ سنگت کوئٹہ۔ دسمبر 2021