اے خالقِ اکبر مجھے توفیق عطا کر
غفلت سے بلوچوں کو ذرا پر میں جگا دوں
کھو بیھٹے ہیں مردانِ سلف کے وہ روایات
پر قصے ماضی کہ انہیں یاد دلا دوں
پر چاکر و بیبکر کے نیزوں کی انی سے
اغیار کے سینوں میں کئی چھید بنا دوں
گم کردہ راہ ہیں نہ کوئی ساتھ ہے رہبر
میں مشعل راہ بن کے انہیں راہ دکھا دوں
سرداروں کی ہستی نے بلوچوں کو مٹایا!
سرداروں کے میں سر کو سرِ دار چڑھا دوں
یہ مجمع جوانوں کا ہے ناچیز و لیکن
تیرا ہو کرم میں انہیں کسریٰ سے لڑھا دوں
کہتے ہیں نصیر خوف سے خاموش ہوا ہے
گفتار کی طاقت دے انہیں حال سنا دوں
10۔نومبر۔ 1936