ماہنامہ سنگت کا ایڈیٹوریل

ایک گیا ، دوسرا آیا

بلوچستان کے کسی فرد کے لیے وفاقی سطح پر پارلیمانی حکومت کے ”بس اور بے بسی “کا حالیہ سارا منظر نامہ حیران کن نہیں ہے ۔ اس لیے کہ جو کچھ وہاں، یا ملک کے کسی دوسرے صوبے میں ہورہا ہوتا ہے ، اُس کی ریہرسل پہلے سے بلوچستان میں ہوگئی ہوتی ہے ۔ اِس صوبے میں اتنے فارمولے ایجاد واستعمال ہوتے رہے ہیں کہ سمندری طوفانوں کی طرح اُن کے نام رکھے جاتے ہوں گے: نیلوفر ،لیلیٰ، ، لارا، الینا، کیترینا، سیلیا، ایمیلی۔۔۔۔ انہی فارمولوں یا نسخہ جات میں سے کسی کو اٹھا کر ضرورت کے کسی بھی صوبے یا وفاق میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ شرطیہ کامیابی ۔
دو تبدیلیاں آئی ہیں۔ ایک صوبہ بلوچستان میں اور دوسری وفاق میں۔
بلوچستان میںحالیہ ”تبدیلی “ کو دیکھیے: باپ پارٹی کا سربراہ جام کمال ، اُس کا باپ جام یوسف ، اور اُس کا باپ جام قاد ر تینوں یہاں کے وزیراعلیٰ رہے ۔ حکمرانی کا تین نسلی تجربہ ۔ تینوں نسلوں کے تینوں حکمرانوں کے پاس کوئی سیاسی پارٹی موجود نہ رہی ۔ نہ ہی وہ خود کبھی سیاسی کارکن رہے ہیں۔ اُن تینوں نے نہ کوئی قرار داد لکھی، نہ دیواروں پہ کوئی پوسٹر لگائے اور نہ خود سے کوئی جلسہِ عام منعقد کیا۔ اس کے برعکس وہ ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے قائم کرد ہ کسی” سیاسی“ پارٹی کے سربراہ بنادیے گئے ۔ اور وزارت اعلیٰ انہیں عطا کی گئی۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جام کمال کے تعلقات بھی وہی ” ییس سر، ییس سر“ والے تھے ۔ ویسے بھی ”نوسر“ کہنے کی قوت تو 63ممبروں میںسے کسی کے پاس بھی نہیں۔محض ”مگر سر“ کہنے کے لیے بھی کور بہادری چاہیے ۔
بہر حال،بظاہر ہر طرح سے جام کمال کے بھاگ سلامت تھے۔ شمال جنوب ،مغرب مشرق ہر سمت شانتی تھی۔ استحکام تھا۔ مگر کاسمیٹک ”سیاسی استحکام“ کو ”اصلی سیاسی بحران“ میں بدلنے کی چابی تو اُسی بیوٹی شن کے پاس ہے جس نے اِس سارے سیاسی نظم و نسق کے خدوخال تشکیل دیے تھے۔ ۔ اور اُس بحران کے لیے ضروری نہیں کہ بچہ جمہورا نے کوئی غلطی کی ہو، یا کوئی حکم عدولی کی ہو۔
کس گلیڈئیٹر کو گھر واصل کرنا ہے اور کس کو برجاہ رکھنا ہے ، فیصلہ ارینا کے منتظم کے پاس ہوتا ہے ۔ یہاںحکمرانی کے عرصے کی طوالت تعمیر کے وقت ہی ڈال دی جاتی ہے ۔ فرانس کے بنے شیشے کے گلاس کی طرح ایکسپائری ڈیٹ گلاس کے شیشے کے اندر ہی موجود ہوتی ہے ۔ کس گلاس کو کب چور چور ہونا ہے ، وہ اس کے مینوفیکچرنگ کے دن ہی طے ہوتے ہیں ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ٹوٹتے وقت گلاس خواہ ہاتھ میں ہو یا میز پر رکھا ہوا ہو، بس ٹوٹ جاتا ہے ۔
یہاں دومنٹ میں دیکھو تو حسب نسب دیکھے بغیر آدمی سردار، نواب، اور نواب زادہ، بن جاتا ہے ۔ وہ القاب میسر نہ ہوں تو ”میر صاحب “ ، ملک صاحب تو ہیں ہی۔ وزیری مشیری اِن اصلی یا نقلی میر صاحبوں میں ہی رہتی ہے ۔ مقررہ وقت تک کے لیے وزیری گزیری مشیری ایسے کروفر کے ساتھ چلتی ہے جس طرح لاغرو نا تواں بوڑھے کے جسم پہ مائع شدہ ، کڑ کڑ کرتا لباس ہو۔ ہُوٹر ، گاڑیوں کا قافلہ ،مہمانِ خصوصی ، پرچم کشائی۔ ۔۔۔۔اور یہ روبورٹ سارے فیڈ شدہ امور سرانجام دیتا ہے ۔ فیڈشدہ امور کی لسٹ میں البتہ عوام، اور سیاست شامل ہی نہیں ہوتے۔
اور جب ہٹانے یا ہٹ جانے کا وقت قریب آتا جاتا ہے تو اچانک چارج کرنے والا کیبل خراب ہونا شروع ہوجاتا ہے ۔ کمال مہارت کے ساتھ جام چھوٹ جاتا ہے ۔ حاکم اعلیٰ کے اپنے ساتھی اور اس کی حزبِ اختلاف دونوں ہی ایک ہی فیکٹری کے بنے ہوتے ہیں۔ تب ڈیزائن کے تحت اُس کی صفوں میں سے ایک ستارہ ٹوٹ جاتا ہے ۔ریوڑ کی وہ بھیڑ کھال بدل کر اچانک بھیڑیا بن جاتی ہے ۔ پھر دو ، پھر تین ۔۔ اور پھر پورا ریوڑ بغیر کسی وجہ کے بھڑوں کا چھتہ بن جاتا ہے ۔ الگ الگ دِکھتے رہنے کا رول آناً فاناً ختم ، اور محمود و ایاز یک جان یکم قالب۔ اقتدار و اختلاف کے بیچ والی دیوار اٹھ گئی۔ من و تُو باہم ،باہم ہوگئے۔ عام خبریں ڈرامائی ہوئیں ، اور ڈرامائی خبریں بریکنگ نیوز بنیں۔ سادہ لوگوں کے بلڈپریشر اِس پرائی شطرنجی بساط میں صبح وشام کی املا کردہ خبروں کے ساتھ ساتھ زیروبم ہوتے رہے ۔
بالآخر فائنل سیٹی بجی ، پردہ گرا۔ دوبارہ اٹھا تو ہم ایک نئے وزیر اعلیٰ کے ”مالک “بن چکے تھے۔
وفاق میں بھی حکومت سازی کی کیتلی بوائلنگ پوائنٹ کی طرف رواں دواں ہے ۔ مگر وہ تو گذشتہ تین سالوں سے ایسا ہے ۔ اونٹ کا لٹکتا ہوا نچلا ہونٹ ہے گرتا ہی نہیں ۔بس اصلیت بتانے کے لیے کبھی کبھی گو شمالی کی جاتی ہے ۔مُہرے بے چارے ویسے ہی ہاتھ پاﺅں مارنے میں لگے ہوئے ہیں۔ بلا ضرورت اپنی موجودگی جتانے کے لیے زور سے گلا صاف کرتے یا کھانستے رہتے ہیں۔ اُستاد کے پاس قدوسوں کی کمی ہے ، نہ قدوسیوں کی ۔ نہ صادق کم ہیں، نہ پرویزوں ، پرویزیوںکا کال پڑ گیاہے ۔
مخصوص فیکٹری میں حکومت اور حکمران سازی کا عمل ایک جاری پراسیس کے بطور جاری رہتا ہے ۔ کئی عاقل وبالغ دماغ اور اُن کے مددگار کمپیوٹر زمسلسل اس کام میں جُتے رہتے ہیں۔ کھچڑی دکھائی کہیں دیتی ہے مگر تیار کہیں اور ہورہی ہوتی ہے ۔آڈیووڈیو بنتے ہیں، گوٹیاں یہاں وہاں بدلتی رہتی ہیں۔ نئے نئے ہیرو بنتے رہتے ہیں اور پرانے ہیروﺅں کی ڈینٹنگ پینٹنگ کا عمل جاری رہتا ہے۔
پاور لینے دینے کے اس سارے عمل میں عوامی ہیروﺅں کا خوب استعمال ہوتا ہے ۔سیاسی بازار گروں کی طرف سے ہیرو پہلے ہی سے کماڈٹی بنادیے گئے ہیں ۔اُن سب کو کسی نہ کسی پارٹی یا گروہ نے اپنا شناختی نشان بنایا ہوتا ہے۔ اُن کی مجاوری ، اورہول سیل ایجنسی اُن کے پاس ہے ۔ یہ سیاسی گروہ اُن کی تعلیمات کی بات کبھی بھی نہیں کریں گے۔ بس اُن کی تصویریں چاہیے ہوتی ہیں۔ یہی تصویر اُن گروپوں کی اندرونی سیاست ، لین دین ، داﺅ پیچ اور کج رویوں پہ پردہ ڈالنے کا کام دیتی ہے۔ کاروبار جاری و ساری۔
جاننے والے جانتے ہیں کہ کس علاقے میں سامراج دشمن ہیرو موجود نہیں ہے ۔ اس لیے وہاں پہ عقیدے کی بزرگ ہستیوں کا نام استعمال ہوتا ہے ۔ پنجاب میں شروع دن سے عقیدے اور دین کے نام پہ سارا سیاسی کام ہوتا ہے ۔ عمران خان ہمارے دین کی مقدس ترین ہستی کا نام لے کر حکومت چلاتا رہا۔ اسے شاید یہ پتہ نہ تھا کہ دین کو سیاست کے لیے استعمال کرنے کا بھی ایک طریقہ ہوتا ہے ۔ وہ یہ کہ مارکیٹ فورسز میں جو پارٹی ساﺅنڈ ہوگی وہی اس کماڈٹی کی مالک بن جائے گی۔ اس لیے جب وقت قریب آیا تو وہی پاک نام کسی اور نے زور زور سے ، اور دُھرا دھرا کر لینا شروع کردیا۔ اِن بلند اور مسلسل آوازوں میں عمران کی آواز دب کر رہ گئی۔ چنانچہ اُسے مات ہوگئی۔معاہدہ کرنا پڑا ۔ عمران سے پہلے ،نوازشریف کو بھی اسی بلند آہنگی سے نکالا گیا تھا، بھٹو کو نوستاروں نے اسی آلے سے پھانسی لٹکایا تھا۔
ریاست پگھل رہی ہے۔فرد، پریس، پارلیمنٹ اور عدلیہ کو آزادی میسر نہیں۔ معاشی طور پر دیوالیہ ، امن کے حوالے سے مکمل انار کی ، حکمرانی فاشزم کی ، اسمبلیاں گُنگوں یا گالی برداروں کی ، انصاف املا لکھنے والوں کے حوالے ۔
مگر اصل معاملہ تو عوام کا ہے ، انہیں سوائے دھکوں اور ذلت کے کچھ میسر نہیں ۔۔۔ عدل ، تحفظ، عزت، روٹی کچھ بھی حاصل نہیں ۔ایسے میں تخلیقی صلاحیتیں برباد ہوجاتی ہیں، بیگانگی بیزاری اور لاتعلقی پیدا ہوتی ہے ۔ اگر وہ سیاست میں حصہ دار نہیں ہے تو پھر وہ سماجی اور معاشی معاملات میں بھی حصہ دار نہیں رہتا۔ عوام کو عملی طور پر زندگی کے عمل سے علیحدہ کیا جاچکا ہے ۔اُس کے لیے ، جانے والا ہر بادشاہ بیل ہے اور آنے والا گدھا۔
ایسی بدترین صورت حال میں باشعور اور مہذب لوگ خاموش نہیں بیٹھ سکتے۔ یہ درست ہے کہ ایسی ساری محنت بہت برسوں تک بغیر نوٹس کے رہے گی ۔ مگر اچھا انسان تو وہ ہے جو مشکل وقت میں کھڑا رہے ۔ اس لیے ہر باشعور شہری جمہوری اداروں کی حفاظت کا ذمہ دار ہے ۔ آزاد الیکشن کی نگرانی میں منعقدہ الیکشنوں کے نتیجے میں وجود میں آنے والے پارلیمنٹ کی بالادستی یقینی بنانی ہے ۔ جمہوریت اور جمہوری پراسیس میں ہر طرح کی مداخلت کی مخالفت فرض ِ اولین ہے ۔ لمبا کام ہے ، پیچیدہ کام ہے ۔ مین سٹریم کے خلاف تیرنے والا کام ۔ مگر یہ کام کرنا ہے، کرتے رہنا ہے ۔
مگر یاد رکھیے کی موجودہ بورژوا سیاسی پارٹیاں سٹیٹس کو کی سب سے بڑی نگہبان ہیں۔ یہ عوام کے برخلاف اور غیر جمہوری قوتوں کی ساجھے دار ہیں۔اے لوگو! اُن کو ایکسپوز کرتے رہنامارشل لا ءکی حمایت بالکل بھی نہیں ہے ۔

غیر جمہوری فاشسٹ عمران سرکار کی مخالفت ”برحق “
مگر
موجودہ سیاسی پارٹیوں کو متبادل سمجھنا ”ناحق“۔

ان باتوں کے علاوہ جو فریضہ درپیش ہے وہ تو ورکنگ کلاس کے نظریے سے عوام کو طبقاتی شعور دینا ہے ۔ ورکنگ کلاس اور محکوم قوموں کی سیاسی پارٹی بنانا ہے ۔ یاد رکھیے سیاست ہی تبدیلی کا آلہ ہے ۔ اور سیاسی پارٹی وہ ادارہ ہوتی ہے جس کے ذریعے غریب عوام بالآخر تبدیلی لاتے ہیں۔ حکمران طبقہ عوام کو سیاست کرنے اور سیاسی پارٹی بنانے نہیں دیتا۔ وہ کبھی بنیاد پرستی اور فاشزم و شاونزم کے ذریعے یا کبھی سیدھا سیدھا مارشل لا لگا کر سیاسی عمل کو روک دیتا ہے ۔ وہ مزدور اور طلبا یونینوں کو کچل دینے کی ہروقت کوششیں کرتا رہتا ہے ۔ حکمران طبقہ سیاست کے خلاف چکنے فقرے گھڑ کر پھینکتا رہتا ہے ۔ سیاست کو منافقت قرار دینے پہ لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کرتا ہے ۔ اور مظلوموں محکوموں کی پارٹی کے خلاف زہر بھرا پروپیگنڈہ کرتا ہے ۔
ہمیں اس سب کا مقابلہ کرنا ہے ۔ ہمیں ہم خیالوں سے مل کر عوامی سیاسی پارٹی بنانی ہے ۔اختلافات کم کرنے کی نیت سے روشن فکر لوگوں سے بہت بحث و تمحیص کرنی ہے ۔ اتحاد برائے اتحاد کی بیماری میں مبتلا ہوئے بغیر جینوئن گروہوں سے متحدہ محاذ کے ذریعے قربت کی کوششیں کرنی ہیں۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*