سیانے کہتے ہیں اور سچ ہی کہتے ہیں کہ ظلم اور استحصال پر مبنی بورژوا ڈیموکریسی میں بالادست طبقے سے عوام کا اعتبار اٹھ جاتا ہے. سیاست اور معیشت پر مسلط استحصالی اور سامراجی عناصر کو عوامی رنگ میں بدلنے کے باغیانہ جذبات ابھر آنے لگتے ہیں. غیرمنظم لوگ بےانصافی، تنگدستی اور پسماندگی کی وجہ سے پرولتارين پلٹ فارم پر منظم ہونے کیلئے نئی صف بندی کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں. اسطرح اہل زر اور زور کے مسلسل استحصال، جبر اور بےانصافی کی وجہ سے سیاسی یکجہتی اور فعالیت کی نئی راہیں متعین ہونے لگتی ہیں. پھر بالادست طبقہ محکوم اور محروم افراد کے درمیان ایک دوسرے پر اعتبار ختم کرنے کیلئے مختلف حربے و ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں. اپنے بغل بچوں کو سرخ جھنڈہ تھما کر سرخ جھنڈے کی مخالفت سکھائی جاتی ہے. عوام کو اپنی غربت اور محرومی پر شکر اور صبر کرنے کیلئے مذہبی تڑکا بھی لگایا جاتا ہے. تاریخ گواہ ہے کہ ایسے مواقعوں پر محراب اور منبر مفاد خلق کی پاسداری کو یقینی بنانے کیلئے دوسری طرف منہ موڑ لیتے ہیں. فیض احمد فیض نے بجا فرمایا ہے کہ
اک طرز تغافل ہے، سو وہ ان کو مبارک
اک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے
آج ہمارے معاشرے میں مندرجہ ذیل الفاظ یعنی صنف مظلوم کے سروں سے سرکتی ہوئی آنچلوں، خود غرضی پر مبنی رشتوں، الفاظ کی شاعرانہ رنگینیوں، روشن مستقبل کی زبانی تسلیوں، جھوٹے وعدوں، بلند بانگ دعووں، بدلتی ٹوپیوں، مصنوعی چہروں، لباسی مسکراہٹوں، فریبی نگاہوں، نمائشی افتتاحوں، ٹوٹتی اُمیدوں، بہروپیا حکمرانوں، مذہبی دغابازوں اور فیس بکی شعبدہ بازوں جیسے الفاظ محض الفاظ نہیں ہیں بلکہ یہ محاوروں کی طرح سماجی رویوں کی نشاندہی کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں. آج شدید غربت، بیروزگاری اور مہنگائی کی وجہ نوجوانوں کی اکثریت ذہنی کوفت میں مبتلا ہے. خرافات وتوہمات پر مبنی رسم رواج سے نوجوان نسل بڑی تیزی سے بدظن ہورہے ہیں. سردست بار بار بیوقوف بنانے والا جادو بےاثر ہونے لگا ہے. مغل دربار کے راجہ بیربل کے لطیفوں اور شیخ سعدی کی تصوراتی حکایتوں سے مزید ورغلانے کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ استحصالی اور سامراجی عناصر کے خلاف ان میں باغیانہ جذبات اُبھر رہے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا انقلاب برپا ہونے کے بعد اب نوجوان جھوٹی تسلیوں، بلند بانگ دعووں اور نمائشی اقدامات سے مطمئن نہیں ہوتے. جب تک تمام معاشی و معاشرتی سرگرمیوں میں نوجوانوں کی شرکت و شمولیت کو حکومتی سطح پر پالیسی سازی کا لازمی حصہ نہیں بنایا جاتا اور بےروزگار نوجوانوں کیلئے وفاقی و صوبائی بجٹ میں رقم مختص نہیں کی جاتی تو اس وقت تک کسی قسم کے تعمیری نتائج برآمد نہیں ہونگے۔
زیارکش طبقہ کو بیگانگی کے خاتمہ کیلئے اپنی چھینی ہوئی تمام اشیاء پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنا ہوگا تاکہ انکے اداس چہروں پر حقیقی مسکراہٹ لانے، انفرادیت کی جگہ اجتماعیت، استحصال کی جگہ امداد باہمی، مسابقت کی جگہ باہمی تعاون اور مشینی انسان کی بجائے تخلیقی انسان بننے کیلئے راہ ہموار ہوسکے ۔ واضح رہے کہ یہ شاعروں اور ادیبوں کے زبانی پندونصیحت سے ممکن نہیں ہے۔ اسلیے مفکر اعظم کارل مارکس نے دنیا کے محنت کشوں غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کیلئے متحد ہونے کا آفاقی نعرہ سربلند کیا۔ ذہن نشین رہے کہ معاشرے کی عظیم اکثریت کو درپیش تمام مسائل ومشکلات اور اپنے قومی مزل و منزل کو صرف پولیٹکل اکانومی کے تناظر میں جانچنا ہوگا بصورت دیگر انقلاب فرانس اور بالشویک انقلاب کا دیا ہوا سبق دوامدار انداز میں دوہرایا بھی جا سکتا ہے۔