ڈاکٹر خدائیداد صاحبیؔ

 

ڈاکٹر خدائیداد اپریل1920 کو عنایت اللہ کاریز گلستان میں پیدا ہوا۔ ڈاکٹر خدائیداد کا تعلق ڈیرہ اسماعیل کے پشتون قبیلے گنڈہ پور سے تھا ۔ ڈاکٹر صاحب کے دادا مذہبی اور درویشی کی تعلیم کے حصول کے لیے کبھی غزنی، کبھی کہاں کبھی کہاں وہ آخرکار قندھار جاکر اپنی زندگی بسر کرنے لگے۔ ڈاکٹر صاحب کے والد ، صاحب داد اچھے بڑے عالم تھے ۔ انہیں تصوف کے بارے میں بھی اچھی خاص معلومات تھی ۔ اس زمانے میں گلستان کے خوانین کا اکثر قندھار آنا جانا تھا ۔ ان خوانین کو صاحب داد بہت اچھے لگے اس لیے وہ اس کی محفل میں ضرور جاتے ۔ اور یہ دوستی بڑھتے بڑھتے اس حد تک پہنچی کہ صاحب داد قندھار کو خیر باد کہہ کر گلستان منتقل ہوگئے۔ ڈاکٹر خدائیداد صاحبی اپنے والد کے نام ’’ صاحب‘‘ کو اپنے نام کے ساتھ جوڑ کر خدائیداد صاحبی کے نام سے مشہور ہوگئے۔
ڈاکٹر خدائیداد نے ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم ’’ صاحب داد‘‘سے حاصل کی ۔ والدہ نے آپ کو قرآن پڑھایا اور دوسری ابتدائی تعلیم دلوائی اس کے بڑے بھائی نے آپ کو حافظ، رومی اور سعدی پڑھایا آپ کو تصوف کا علم دیا اور انسان دوستی سکھائی۔ اسی اچھے بھائی ہی کی بدولت آپ میٹرک تک پہنچ گئے۔
ڈاکٹر خدائیداد نے سکول کی تعلیم پشین میں حاصل کی ۔ خدائیداد نے سنڈیمن ہائی سکول میں سکالر شپ والی تعلیم حاصل کی۔ جو زلزلے کی وجہ سے کوئٹہ سے پشین منتقل ہوا تھا۔ آپ نے میٹرک1940 میں سنڈیمن ہائی سکول سے پاس کیا۔ اسی سکول میں سائیں کمال شیرانی اور عبداللہ جمالدینی ان کے جونیئر سکول فیلو تھے ۔
ڈاکٹر خدائیداد کا قد اونچا رنگ سانولی، ناک نقشہ دِلکش آواز نرم، گفتگو دھیمی دھیمی ، خاموش طبع بلکہ پراسرار شخصیت تھے۔ کلین شیو کرتے تھے ۔ کھانے میں زیادہ گوشت پسند کرتے تھے ۔ چائے اور سگریٹ بھی بڑے شوق سے پیتے تھے ۔ آپ انگلش فلمیں خاص طور پر سائنس فکشن بڑے شوق سے دیکھتے تھے ۔ آپ مطالعہ بہت زیادہ کرتے تھے مطالعہ میں آپ کو ٹالسٹائی، گورکی، جارج برناڈشا، عصمت چغتائی، سعادت حسن منٹو ، کرشن چندر اور اردو کے شاعروں میں فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، ساحر لدھیانوی پسند تھے۔
ڈاکٹر خدائیداد بہت محبت اور پیار کرنے والے انسان تھے ۔ وہ اپنے عزیز و اقارب کے علاوہ دوست و احباب ، امراء و غربا سب کے ساتھ فراخ دلی سے پیش آتے اور محبت کرتے تھے آپ کا حلقہ احباب سارے برصغیرمیں پھیلا ہوا تھا ۔ آپ کے حلقہ احباب میں سائیں کمال خان شیرانی، عبداللہ جمالدینی، ڈاکٹر شاہ محمد مری، سوبھوگیان چندانی، امام علی نازش، منھاج برنا، شیام کمار، جعفر خان اچکزئی، فضل احمد غازی، سلطان قیصرانی، پروفیسر برکت، عبدالکریم بریالی، امیر الدین، حاجی شمیم اور بہت سے اشخاص کے ساتھ آپ کے اچھے تعلقات تھے۔
آپ کو پشتو اردو، انگریزی، فارسی، بلوچی، براہوی، سندھی، پنجابی، ہندی ، روسی کے زبانوں کو پڑھنے ، لکھنے اور بولنے پر عبور حاصل تھا ۔ ہرزبان کے ادب اور شاعری سے واقفیت رکھتے تھے ۔ڈاکٹر خدائیداد ایک انسان دوست شخص تھے، غریبوں اور مظلوموں کے مدد گار تھے۔ آپ کے رکھ رکھاؤ اور رویہ میں کوئی دوغلہ پن نہیں تھا اور نہ گفتگو میں کوئی بڑا پن تھا۔
میٹرک کرکے ڈاکٹر خدائیداد فوج میں بھرتی ہوگئے۔ یہ دوسری عالمی جنگ کا زمانہ تھا ۔ فوجی ملازمت کے زمانے میں انہوں نے برصغیر پورے کا پورا دیکھ لیا۔ ہندوستان ، برما ، ایران مختلف انسانوں سے زبانوں، مذاہب ، نسلوں اور تہذیبوں سے بھرپور شناسائی پیدا کی۔ کئی ہنر سیکھے کئی خیالات سے واسطہ پڑا ۔ فوج کے بعد وہ محکمہ ٹیلی گراف 1946 میں بطور اکاؤنٹنٹ بھرتی ہوئے۔
چونکہ ڈاکٹر خدائیداد کا رجحان اور شوق شروع سے ادب و فن کی طرف تھا۔اس لیے انہوں نوکری چھوڑدی۔ ملازمت چھوڑدینے کے بعد ڈاکٹر خدائیداد، سائیں کمال خان شیرانی اور عبداللہ جان جمالدینی اور ان کے دوست کوئٹہ میں جمع ہوئے۔ انہوں نے مارچ1950میں کوئٹہ میں ایک مکان دس روپے ماہانہ کرائے پر لے لیا۔ بلوچی سٹریٹ پر واقع اس مکا ن نے ’’لٹ خانہ‘‘ کا نام حاصل کیا جس کا مطلب ہے ’’ فارغ لوگوں کی جگہ‘‘۔ لٹ خانہ آگے جاکر بلوچستان میں آرٹ اور علم و ادب کا سکول بنا رہا۔ اور اس تحریک کا مرکز جس کا نا م لٹ خانہ تحریک پڑا۔ یہ بلوچستان میں ترقی پسندی اور روشن خیالی کی تحریک تھی۔ لٹ خانہ نامی اس مکان میں سماجی، معاشی، سیاسی اورنظریاتی مسائل پر بحث مباحثے ہوتے تھے ۔ لٹ خانہ میں پہلی مرتبہ ڈاکٹر خدائیدا د کی کاوشوں سے پشتو ادیبوں کی ایک نشست ہوئی۔ اور طے ہوا کہ ’’ پشتوٹولی‘‘ کے نام سے ادیبوں کو منظم کیا جائے۔ آپ تنظیم کے جنرل سیکرٹری بنا دیے گئے۔
ڈاکٹر خدائیداد نے 1954 میں کمال خان شیرانی کی مدد سے کوئٹہ کاپہلا معیاری ادبی رسالہ ’’ پشتو‘ ‘ کے نام سے نکالا۔ خدائیداد خود اس کے ایڈیٹر بنے ۔ آپ نے انتہائی لگن، محنت اور خلوص سے یہ کام شروع کیا۔ ماہنامہ پشتو کو بلوچستان میں اور بالخصوص پشتوادبی دنیا میں بہت پذیرائی حاصل ہوئی ۔ اس کے لکھنے والے سامراج دشمن اور سرمایہ داری نظام کے مخالف تھے ۔ یہ رسالہ کافی عرصہ تک مالی مشکلات کے باوجود ادب، زبان اور ثقافت کی خدمت انجام دیتا رہا۔ آپ نے عبدالصمد خان اچکزئی کے ساتھ مل کر ایک اور پشتو رسالہ ’’ ورورپشتون‘‘ کے نام سے نکالا جو عوام میں بہت مقبول ہوگیا تھا ۔ڈاکٹر خدائیداد ریڈیوپاکستان کوئٹہ میں سکرپٹ رائٹر تھے ۔ آپ کافی عرصے تک ریڈیو پہ دیہاتوں اور کسانوں کے لیے ایک پروگرام لکھتے رہے ۔ 1970 میں آپ پشتواکیڈمی کوئٹہ کے پہلے صدر چنے گئے تھے اور 1992 میں پشتو اکیڈمی نے ان کی تالیف ’’ سوچہ پشتو‘‘ کے نام سے کتاب چھاپی۔ جو قواعد اور زبان سے متعلق مباحث پر مشتمل ہے ۔ آپ نے مشہور انگریزی تصانیف جیسے’’ Eight great tradedies‘‘ اور ’’ رومیو اینڈ جولیٹ‘‘ کو پشتو میں بہت خوبصورتی سے ترجمہ کیا۔ اس کے علاوہ آپ نے ’’ تل خان دامانو‘‘ نامی ایک پشتو ڈرامہ بھی لکھا تھا۔ اور اس ڈرامے میں خود ڈاکٹر خدائیداد نے ایکٹنگ بھی کی تھی۔ آپ نے ’’ پٹھان کون ہیں‘‘؟ کے عنوان سے مضمون بھی لکھا تھا۔ جو بہت مدلل ، متوازن اور سبق آموز مضمون تھا ۔افغان انقلابی لٹریچر کو اردو انگریزی میں ترجمہ بھی کیا ۔ آپ آخر تک انجمن ترقی پسند مصنفین کے سربراہ رہے۔ انجمن کی ادبی تنقیدی نشستوں میں صدارت انہی کاحق رہا۔ لوگوں کی شاعری اور نثر کی اصطلاح کرتے رہے۔ ڈاکٹر خدائیداد 1997 میں ڈاکٹر شاہ محمد مری کے نکالے گئے ’’ سنگت‘‘ نامی رسالے میں انجم قزلباش کے ساتھ ایڈیٹری کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔آپ سیاست میں بھی سرگرم رہے۔ وہ شروع میں نیشنل عوامی پارٹی ( نیپ) میں تھے۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد نیپ کی بجائے پاکستان سوشلسٹ پارٹی بن گئی۔تو آپ اسی پارٹی میں شامل ہوگئے۔آپ اپنی زندگی کے آخری دوتین برسوں میں بہت کمزور ہوگئے تھے آپ کو پھیپھڑوں کی بیماری لاحق تھی جسے کارپل مونیل کہتے ہیں۔
ڈاکٹرخدائیدادصاحبی آخر کار دماغ کی رگ پھٹ جانے کے سبب21نومبر2003 کو اس دارفانی سے رحلت فرما گئے۔ ڈاکٹر خدائیدادصاحبی ؔ رشتے کے حوالے سے راقم الحروف کے داد ا کے بھائی تھے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*