تنہا

وشدل نے کالونی کے کتے کو گولی مار دی۔

جس نے بھی یہ بات سنی، انگشت بدنداں ہوا۔ کسی کو یقین نہیں آتا تھا کہ وشدل جیسا دھیمے مزاج کا خوش اخلاق بندہ ایسی قبیح حرکت کر سکتا ہے۔ جس نے کبھی چڑیا نہیں ماری، وہ ایک بے زبان جانور پہ بھلا گولی کیسے چلا سکتاہے؟ بات یقین کرنے جیسی تھی بھی نہیں۔

وشدل اسمِ بامسمی تھا۔ نیک اور اچھے دل کا مالک۔ نہایت خوش اخلاق اور دھیمے مزاج کا انسان۔ سیکریٹریٹ میں اسٹینوگرافر لگا ہوا تھا۔ شادی کو تین برس ہونے کو آئے تھے۔ اولاد اب تک نصیب نہیں ہوئی تھی۔ گھر میں اس وجہ سے جھگڑا رہتاتھا۔ ماں باپ نے تعویز دھاگے بھی کروا لیے۔ بیوی اسے دن رات نامردی کے طعنے دیتی رہتی۔ یہ بات اندر ہی اندر اسے گھلا رہی تھی۔ اسے لگتا تھا کہ واقعی وہ ایک نااہل مرد ہے۔ حالاں کہ وہ شکل و صورت میں اچھا خاصا وجیہہ نوجوان تھا۔بیوی اس کی چچا کی بیٹی تھی۔ بچپن سے وہ ساتھ کھیل کود کر بڑے ہوئے تھے۔ مگر نجانے کیوں نازگل اسے پسند نہیں کرتی تھی۔ والدین کی پسند پر وہ اس کے ساتھ جڑتو گئی مگر ان کا تعلق مثالی نہ بن سکا۔ نازگل کی طعنہ بازی اسے سخت گراں گزرتی۔ مگر وشدل اپنے دھیمے مزاج کے باعث کبھی اس کے ساتھ الجھا نہیں۔ لڑکپن سے اس کی عادت تھی کہ زیادہ غصہ آتا یا جھنجھلاہٹ ہوتی تو وہ خاموشی اختیار کر لیتا اور گھر سے نکل کر قریبی پہاڑی پہ نکل جاتا۔ لمبی واک کرتا، سوچتا رہتا، خودکلامی کرتا اور دیر گئے واپس آکر سو جاتا۔

ایک وسیع کنبے کے عمومی مسائل اس گھر کا بھی حصہ تھے۔ تین بھائیوں میں وہ منجھلا تھا۔اس لیے بھی اسے زیادہ لاڈ پیار نہیں مل سکا تھا۔بڑابھائی مزدوری کرتا تھا۔ چھوٹا بھائی ابھی یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا۔ تینوں بہنیں بیاہی جا چکی تھیں۔ اس کی بھابھی بھی تنک مزاج خاتون تھی، اس لیے بھابھی اور بیوی کی چخ چخ بھی معمول بن گئی تھی۔ اماں ابا بیچ میں بولتے تو دونوں خواتین انھیں بھی ٹوک دیتیں۔ وشدل دفتر سے تھکاہارا گھر پہنچتا تو ہر دوسرے دن ناز گل اس کی بھابھی یا ماں کی شکایت لیے کھڑی ہوتی۔ وہ درگزر کرنے کی کوشش کرتا۔ بیوی اپنا غصہ رات کو بستر پہ اسے نامردی کے طعنوں سے اتارتی۔ رفتہ رفتہ اس صورت حال نے اسے بیوی سے متنفر کر دیا اور ان کے ازدواجی تعلقات معمول پہ نہ رہے۔ وہ ان طعنوں سے بچنے کو ہفتوں بیوی کے پاس نہ پھٹکتا۔ بیوی بھی یوں منہ پھیر کر سو جاتی گویا اسے نہ اس کی ضرورت ہو نہ پرواہ۔

وشدل کا حلقہ احباب بھی محدود تھا۔ بچپن کے دوست احباب اکثر روزگار کے معاملات میں تتربتر ہوچکے تھے۔کالونی میں اس کا قریب ترین دوست بالاچ تھا جسے کچھ مہینے پہلے وردی پوش اٹھا کر لے گئے تھے۔ رات کے وقت اس کے گھر چھاپہ پڑا۔ گھر والوں کو بتایاگیا کہ اسے تفتیش کے لیے لے جا رہے ہیں، وہ جلد واپس آ جائے گا۔ مگر پانچ چھ مہینے گزر گئے، بالاچ واپس نہ آیا، نہ اس کا کوئی پتہ چلا۔اس کے گھر میں اور کوئی مرد تھا نہیں، بہنوں نے پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے لگے ہوئے کیمپ میں بیٹھنا شروع کر دیا۔ وشدل پہلے تو دوچار دن ان کے پاس جاتا رہا، مگر وہاں سے واپسی پر اس کی طبیعت میں مزید اضمحلال پیدا ہو جاتا۔اس لیے اس نے وہاں جانا بھی ترک کردیا۔

بالاچ ہی واحد آدمی تھا، جس کے ساتھ اس کی بات چیت ہوتی۔وہ اکثرشام کے وقت قریبی پہاڑی کی طرف نکل جاتے اور اس دوران گپ شپ کرتے رہتے۔ شہر کے خراب ہوتے حالات، بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ پہ بات ہوتی، امن و امان پہ افسوس کا اظہار ہوتا، سیاست کی باتیں ہوتیں، کالونی کے قصے ہوتے۔وہ حالات پہ کڑھتا تو بالاچ ہنس کر اس سے کہتا کہ طاقت کے کھیل میں یہ سب معمول کا حصہ ہے، میرے تمہارے کڑھنے سے اس معمول پہ کوئی فرق نہیں پڑنے والا، اس لیے اس پہ کڑھنا چھوڑ دو۔ کبھی کبھار وہ صرف خاموشی سے واک کرتے رہتے۔ بالاچ سگریٹ پھونکتا رہتا۔ اور اسی طرح خاموشی سے و ہ واپس آ جاتے۔ بالاچ کی گمشدگی کے بعد اس کا یہ معمول بھی ختم ہو کر رہ گیا تھا۔

اس کی نوکری کو کچھ ہی سال ہوئے تھے، اپنے دھیمے مزاج اور خاموش طبیعت کے باعث دفتر میں بھی وہ زیادہ دوست نہیں بنا پایا تھا۔ سیکریٹریٹ کا ماحول جس تیزمزاجی، چالاکی اور ہشیاری کا تقاضا کرتا تھا، وہ اس سے یکسر محروم تھا۔ نتیجتاً محکمے میں بھی وہ غبی اور گنوک مشہور ہو گیا تھا۔ دفتر میں ہونے والے ہنسی مذاق کا نشانہ اکثر وہی ہوتا۔ جس میں مذاق سے زیادہ استہزااور تحقیرآمیز جملے بازی ہوتی تھی۔ بظاہر تو وہ اس سارے ہنسی مذاق کو ہنس کر ٹال دیتا تھا مگر اندر ہی اندر اس کا اعتماد مجروح ہو چکا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ کسی کولیگ سے کوئی  بات کرتے ہوئے، حتیٰ کہ کسی کام کے سلسلے میں جاتے ہوئے بھی ہچکچاہٹ کا شکار ہوتا۔ اسے لگتا کہ اس کے بات کرنے کا بھی مذاق اڑایا جائے گا۔ اس ماحول سے گھبرا کر وہ دن بہ دن اپنے خول میں سکڑتا چلا گیا۔

گھر میں توجہ نہ ملنے اور سکول کے سخت ماحول کے باعث وشدل کو لڑکپن میں ہی خودکلامی کی عادت ہو گئی تھی۔ شاید اسی سبب وہ خاموش طبع بھی ہو گیا۔ اس کی دوسروں سے بات چیت کم ہی ہوتی، مگر خود سے وہ ہمہ وقت ہم کلام رہتا۔ ڈھیروں باتیں کرتا رہتا۔ شام دفتر سے واپسی کے بعد اکثر قریبی پہاڑی کی طرف نکل جاتا۔ لمبی واک اور ہاکنگ کے دوران خودسے باتیں کرتا رہتا۔وقت گزرنے کا احساس بھی نہ ہوتا اور اس سے اسے ایک قلبی سکون سے ملتا۔

بالاچ کے جانے کے بعد اس کی خودکلامی مزید بڑھ گئی تھی۔ پچھلے کچھ ہفتوں سے اس کی طبیعت میں ایک اضطرارسا پیداہو گیا تھا۔گھریلو ناچاکی بھی معمول سے کچھ بڑھ گئی تھی۔ ایک روز وہ دفتر سے گھر پہنچا، ابھی کپڑے تبدیل کیے ہی تھے کہ بیوی نے کمرے میں آ کر شورمچانا شروع کر دیا۔

”مجھے اس گھرمیں اور نہیں رہنا۔“

”خیرتوہے؟ پھرکیاہوا؟“

”ہونا کیا ہے، وہی روز کا کام ہے۔ تمہاری بھابھی کو لگتا ہے ہم ان کے گھر میں رہ رہے ہیں اس لیے گھر پر بس ان کا ہی حق ہے۔ تمہارے ماں باپ بھی ہمیشہ اس کی طرف داری کرتے ہیں۔ میں جیسے کہیں باہر سے آئی ہوئی ہوں، کوئی بیگانی ہوں۔“یہ کہتے ہوئے نازگل نے لہجہ گلوگیر کر لیا۔

”تم ایسا کیوں سوچتی ہو۔ تمہارا اپنا گھر ہے۔ سب تمہارے اپنے ہیں۔ میں رات کے کھانے پہ بات کرتا ہوں۔“

”تم سے کچھ نہیں ہونے والا۔“نازگل نے پلو سے آنکھیں ملتے ہوئے کہا۔”تم ویسے ہی ان کے سامنے بچھے ہوئے رہتے ہو۔میں ان کے بچوں سے ذرا بات کر لوں تو وہ بھی ان سے گوارا نہیں ہوتا۔ اپنے بچے ہوتے تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔“نازگل یہ کہہ کراسی طرح پلو سے آنکھیں ملتی کمرے سے نکل گئی۔

وشدل کے لیے یہ طعنہ نیا نہیں تھا۔ مگر اس دن اس کی طبیعت جو پہلے ہی اضمحلال کا شکار تھی، مزید اداسی میں گھر گئی۔ اس نے جوتے پہنے اور حسبِ معمول قریبی پہاڑی کی طرف نکل گیا۔ راستے میں اس نے خود کلامی شروع کر دی۔

”کیا میں واقعی ایک نااہل مرد ہوں؟آخر میں اپنی بیوی کو کیسے خوش رکھوں؟ بیوی کے لیے کیا میں اپنے ماں باپ کو خفا کر لوں؟“

”نہیں یار ایسا نہیں ہے۔ ان کا تو روز کا معمول ہے۔ آج جھگڑیں گے کل پھر ساتھ ہی کھانا کھائیں گے۔میں نے آج تک کسی سے کوئی شکایت نہیں کی۔سب کی ضرورتیں پوری کرتا ہوں۔ خود کے لیے کچھ نہیں کرتا۔“

”آخر میں انھیں کیسے یقین دلاؤں کہ میں ان سب کے لیے فکرمند ہوتا ہوں۔ بیوی، ماں باپ، بھائی، بھابھی سب مجھے عزیز ہیں، میں کسی ایک کے لیے دوسرے کو خفا نہیں کرسکتا۔ میں سب کو خوش دیکھناچاہتاہوں۔“

”ہاں مگر ایک انسان آخر سب کو کیسے خوش رکھ سکتا ہے اور سب کی خوشی کے لیے آخر کتنا کچھ کر سکتا ہے؟جتنا کچھ میں کر سکتا ہوں، وہ کر رہا ہوں، اس سے زیادہ بھلا اور کیا کر سکتا ہوں!“

”بالاچ بھی جانے کہاں ہو گا؟ کس حال میں ہو گا؟ وہ ہوتا تو کچھ اس سے دل کا حال کہتا۔ وہ بھی تو شادی کرنے والا تھا۔میں اسے شادی سے منع کرتا……“

وہ خودکلامی کرتا ہوا اسی طرح پہاڑی کا چکر لگا کر واپس آ گیا۔ اندر کا اضطراب مگر کم نہ ہو سکا۔

رات کے کھانے پر اس نے بات کرنے کی کوشش کی تو ماں اور بھائی نے الٹا اسے رن مریدی کے طعنے دینا شرع کر دیے۔ نازگل کھانا بیچ میں چھوڑ کر اٹھ گئی۔اس نے بھی جلدی کھانے سے ہاتھ اٹھا لیا۔

رات کو اس نے بستر پہ بیوی کو منانے کی کوشش کی۔ انھیں ہم بستر ہوئے بھی کئی ہفتے ہو چکے تھے۔ اس نے بیوی کو پیار سے پچکارا تو وہ بھی پگھلنا شروع ہو گئی۔ دونوں طرف سے باہمی رضامندی کے اعتراف نے جلد دونوں کو یکجان ہونے پہ مائل کر دیا۔دونوں بے لباس ہونے لگے مگر وشدل کا ذہنی خلفشار اسے یکسو نہیں ہونے دے رہا تھا۔ بے لباس ہوتے ہوئے بھی اندر ہی اندر اس کی خودکلامی جاری تھی۔ وہ سوچ رہا تھا، یہ وہی عورت ہے جو شام مجھ سے بات کرنا پسند نہیں کر رہی تھی اور اب میرے ساتھ ہم جان ہونے کو تیار ہے۔ کیا واقعی ہم ایک دوسرے سے ہم جان ہو سکتے ہیں؟ کیا ہم واقعی اس عمل کے نتیجے میں نارمل بچوں کو جنم دے سکتے ہیں؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی انسان ناپسندیدگی کے باوجودبستر پہ بے لباس ہو جائے اور وہ سب انجام دے، جس کے لیے اس کا جسم مائل ہو نہ ذہن……جسم سے یاد آیا، بالاچ کے جسم پر اس وقت کیا بیت رہی ہو گی؟ کیا وہ اسے مارتے ہوں گے؟ وہ کتنا بھوکا پیاسا ہو گا؟ وہ تو اتنے مضبوط جسم کا مالک بھی نہیں ……پریس کلب کے سامنے احتجاج کرتی بچیاں کیا اب بھی وہاں بیٹھی ہوئی ہوں گی؟!“

بیوی بے لباس ہو کر اسے چومے جا رہی تھی اور وشدل کے ذہنی انتشار اور خودکلامی کے باعث اس کا جسم کسی اور فعل کے لیے تیار ہی نہیں ہو پا رہا تھا۔ کچھ لمحوں کی کشاکش کے بعد بیوی اس سے یکدم الگ ہو گئی۔

”تم ایسے وقت میں کہاں کھو جاتے ہو؟یہ نامردی آخر میں کب تک برداشت کروں؟ آخر تم اپنا علاج کیوں نہیں کرواتے؟“

بیوی کے تند اور غضب ناک لہجے نے اس کی سوچوں کا تسلسل توڑ دیا۔ اس کی پیشانی پہ پسینے کے قطرے نمودار ہوئے اور وہ یک دم پشیمانی میں ڈوب گیا۔

اس کے پاس کہنے کوکچھ نہ تھا۔ اس کی سردمہری پہ اسے کوستے ہوئے نازگل نے کپڑے پہنے اور غصے سے کروٹ بدل کر سو گئی۔

***

صبح دفتر میں بھی وہ گم صم سا رہا۔ کوئی کام ڈھنگ سے نہیں ہو پا یا۔ نتیجتاً کولیگز کی ہنسی مذاق اور استہزا کا شکار رہا۔ فائلوں کے نوٹس بھی ٹھیک سے ٹائپ نہیں ہو پائے۔

اگلے روز دفتر پہنچا تو عملے کی سٹی گم تھی۔ سینئر کلرک نے اسے پریشانی اور غصے میں بتایا کہ ایس او صاحب شدید غصے میں ہیں اور اسے بلایا ہے۔اسے اندازہ ہو گیا کہ کوئی بڑا بلنڈر ہوا ہے۔ عموماً صاحب معمولی باتوں کے لیے چھوٹے عملے کو طلب نہیں کرتے۔ اس خیال سے اس کے پسینے چھوٹنے لگے۔

سیکشن آفیسر صاحب کے دفتر آتے ہی اس کا بلاوا آ گیا۔ اس پہ لرزہ سا طاری ہونے لگا۔وہ ڈرتا جھجکتا کمرے میں داخل ہوا۔

صاحب کے سامنے کچھ فائلیں کھلی ہوئی تھیں۔ اس نے سلام کیا۔ صاحب نے چشمہ نیچے کرتے ہوئے خشگمیں نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا۔

”وشدل تم ہی ہو؟“

”جی سر“۔ وہ منمنایا۔

”یہ نوٹ تم نے ٹائپ کیے ہیں؟“انھوں نے فائلیں آگے پٹختے ہوئے تند لہجے میں پوچھا۔

وشدل نے آگے بڑھ کر فائلیں دیکھیں اور اسی گھگھیائے ہوئے لہجے میں اعتراف کیا،”جی سر۔“

”تم پاگل ہو؟کیا چرس پی کر ٹائپ کرتے ہو؟ ایک لفظ تک ٹھیک سے ٹائپ نہیں ہوا۔ یہ اگر فائل اگر اسی طرح سیکریٹری صاحب کے ٹیبل تک جاتی تو تمھیں اندازہ ہے کہ ہم سب کی وہ بے عزتی ہوتی کہ سارا ڈپارٹمنٹ تماشا دیکھتا۔کس گدھے نے تمھیں کام پہ رکھا ہے؟ تمہاری مزیدیہاں ضرورت نہیں۔ کل سے تم فارغ ہو۔“

”مگر سر……“اس نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر صاحب نے ”گیٹ آؤٹ“ کہہ کر سارے راستے مسدود کر دیے۔

وہ منہ لٹکائے واپس آیا تو عملے کو اس کی درگت کا اندازہ ہو گیا۔ کچھ ہی دیر میں سینئر کلرک نے اعلان کر دیا کہ اسے کسی دوسرے محکمے میں بھجوانے کا حکم جاری ہو گیا ہے۔ عملے میں کھلبلی مچ گئی۔ سب پاس آ کر اس سے ہمدردی جتانے لگے۔ سب جانتے تھے کہ اصل قصور تو سینئرکلرک کا ہے، وہی فائل دیکھ کر آگے بڑھاتا ہے، وہ چاہتا توغلطیاں ٹھیک کروا کے فائلیں آگے بھجواتا۔ مگر کلرک نے سارا ملبہ وشدل پہ ڈال دیا تھا۔ کلرک کو خود بھی اس بات کا احساس تھا۔ عملے میں دبی دبی زبان سے یہ شکایت سن کراس نے اعلان کیا کہ وہ صاحب سے جا کر بات کرے گا اور وشدل کو معافی دلوانے اور تبادلہ رکوانے کی کوشش کرے گا۔

کلرک کی کاوش کامیاب ہوئی۔ البتہ وشدل کو اس کے لیے معذرت نامہ لکھ کر دینا پڑا۔جس میں اسے یہ اعتراف کرنا پڑا کہ وہ ذہنی طور پرٹھیک نہیں اس لیے دفتری امور میں اس سے غفلت ہوئی ہے، جس پہ وہ معذرت خواہ ہے اور آئندہ ایسی غلطی نہیں دہرائے گا۔ یہ معذرت نامہ بھی سینئر کلرک نے خود لکھا اور اس سے دستخط کروا کے صاحب کے سامنے پیش کیا۔ معافی تلافی ہوئی۔ صاحب نے ڈانٹ ڈپٹ کر آئندہ ایسا نہ ہونے کی شرط پر اس کاتبادلہ روکنے کی حامی بھر لی۔

یوں معاملہ فوری طور پر رفع دفع تو ہو گیامگر وشدل کے اندر کا اضطراب اب انتشار کی صورت اختیار کر گیا۔

اس نے دفتر سے نکلتے ہوئے سینئر اور جونیئرکلرک کی کھسرپھسر میں یہ فقرہ سن لیا کہ ’اس کے گھریلو معاملات ٹھیک نہیں، بے چارہ سائیکو ہو گیا ہے۔‘

یہ فقرہ اس کے اندر کہیں کھب گیا۔

دفتر سے نکل کر گھر جانے کو اس کا جی نہیں چاہا۔ وہ کالونی کے قریب واقع ہوٹل چلا آیا۔ بیرے سے ایک کپ چائے لانے کو کہا۔ رات کا واقعہ اور پھر صبح ہونے والی تذلیل نے اسے مضمحل کر دیا تھا۔ اس کی خودکلامی عود آئی تھی۔ جس میں سوال ہی سوال تھے۔

”کیا میں واقعی سائیکو ہوں؟ یعنی پاگل ہوں؟ مریض ہوں؟ مجھے کوئی خلل ہو گیا ہے؟ کیا میں کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں رہا؟ کیا میں واقعی نالائق ہوں؟ نااہل ہوں؟ نامرد ہوں؟“

اس نے سوالات سے پیچھا چھڑانے کو سر پہ رکھا ہاتھ جھٹکا تو سامنے چائے لانے والے بیرے کے ہاتھ پہ جا پڑا اور چائے کا کپ دھڑام سے نیچے آ رہا۔ چائے کچھ اس کے کپڑوں پہ گری، کچھ بیرے کے کپڑوں پہ۔

”کیا ہو گیا ہے بھائی؟ پاگل ہو گئے ہو کیا؟“ بیرے نے اسے غصیلی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے جھڑکا اور کپڑے جھاڑنے لگا۔

”پاگل؟ ……ہاں شاید میں پاگل ہو گیا ہوں، سائیکو ہو گیا ہوں۔“ اس نے خودکلامی کی اور ہونکوں کی طرح منہ اٹھائے کالونی کی طرف نکل گیا۔ بیرا اس کے پیچھے ’اوے پاگل‘ کی آوازیں کستا رہا۔

”میں پاگل ہوں ……میں سائیکو ہو ں ……ذہنی مریض ہوں ……بیوی کو بھی میں مریض ہی لگتاہوں ……گھر والوں کو احمق دکھائی دیتا ہوں ……صاحب بھی گدھا سمجھتے ہیں …… دفتر والوں کو بھی سائیکو دکھائی دیتا ہوں ……ہوٹل کا بیرا بھی پاگل سمجھتا ہے ……کیا میں واقعی پاگل ہوں؟“

وشدل مسلسل خودکلامی کرتا ہوا کالونی کے گیٹ پر پہنچا توبے خیالی میں دروازے کے ساتھ پڑے کسی پتھر سے اس کا پاؤں ٹکرایا۔ اس نے لڑکھڑا کر گیٹ کو تھاما تواس کی چرچراہٹ سے دیوار کے ساتھ بیٹھا کتا بھوں بھوں کرتا اٹھ بیٹھا۔ یہ آوارہ کتا ایک عرصے سے کالونی کے گیٹ کے ساتھ واقع کچرہ دان کے ساتھ پڑا رہتا تھا۔ تھا تو آوارہ کتا مگر کالونی والوں کو کچھ نہ کہتا، باہر کے آدمی یا گداگروں کو دیکھ کر بھونکنے لگتا۔ اس لیے کالونی کے رہائشی بھی اسے مفت کا چوکیدار سمجھ کر کھانے پینے کے اشیا اس کے لیے کچرے دان میں پھینک دیتے۔ یہ کتا اب ایک عرصے سے کالونی کا باسی ہی ہو گیا تھا۔

شام کے ملگجے اندھیرے میں کتے کو بھوں بھوں کرتے دیکھ کروشدل کے کمزور اعصاب پہ خوف طاری ہوا کہ کہیں کتا اسے کاٹنے کو تو نہیں اٹھا۔ یہ سوچ کر اس نے وہ پتھر اٹھا لیا، جس سے اسے ٹھوکر لگی تھی اور کتے کی جانب لہرانے لگا۔ کتے نے بلاوجہ پتھر کا وار دیکھ کر تیز تیز بھونکنا شروع کر دیا۔ یک دم وشدل کو یوں لگا جیسے کتا اس کا مذاق اڑا رہا ہو۔ اس کے بھونکنے کی آواز اسے ’پاگل پاگل، سائیکو سائیکو‘کی صدا معلوم ہونے لگی۔ ”میں اس قدر سائیکو ہوں کہ ایک کتا بھی مجھ پر بھونک سکتا ہے!“ اس خیال نے اسے برافروختہ کر دیا، اور اس نے ہاتھ میں پکڑا پتھر زور سے کتے کی جانب اچھال دیا۔ اس کا نشانہ تو چوک گیا مگر کتا اب باؤلا ہو گیا اور اس پہ زور زور سے بھونکنے لگا۔ جیسے کہ ابھی اسے کاٹ لے گا۔

وشدل کا گھر کالونی کے مرکزی گیٹ سے فرلانگ بھر کے فاصلے پر ہی تھا۔ وہ کتے سے فاصلہ رکھتے ہوئے گھر کی جانب تیز تیز قدم اٹھانے لگا۔ کتا بھی بھونکتا ہوا اس کے پیچھے پیچھے چلتا رہا۔ وہ ’ہش ہش‘ کرتا ہوا ہوا میں یوں ہاتھ لہراتا جیسے اس پہ پتھر پھینک رہا ہو، اور کتا بھی ذرا آگے آکر یوں اس پہ بھونکتا جیسے ابھی اسے کاٹ لے گا۔ اسی کشمکش میں وہ گھر کے دروازے پر پہنچ گیا۔ گھر کا دروازہ کھلا پا کر اس نے سکھ کی سانس لی، تیزی سے اندر داخل ہوا اور دروازہ پٹخ کر بندکر دیا۔ کتا دروازے سے کچھ ہی فاصلے پر رک گیا تھا مگر اس کے بھونکنے کی آواز مزید تیز ہو گئی تھی۔

وشدل سیدھا اپنے کمرے میں چلا آیا۔ اس کی سانس پھولی ہوئی تھی۔ پسینے سے شرابور ہو چکا تھا۔ گھر میں سناٹا تھا۔اہلِ خانہ شاید کہیں آس پڑوس میں گئے ہوئے تھے۔ اس نے ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر سانس درست کرنے کی کوشش کی۔ باہر مگر کتے کے بھونکنے کی آواز تیز ہوتی چلی گئی۔

آئینے میں اسے اپنے عقب میں کتے کا عکس نظر آنے لگا۔”بھوؤں بھوؤں ……سائیکو سائیکو……بھوؤں بھوؤں ……پاگل پاگل……“ اسے لگا کہ کتابھونک نہیں رہاجیسے اس کا منہ چڑا رہا ہے۔

یک دم اسے جانے کیا سوجھی، وہ بڑے بھائی کے کمرے میں چلا آیا۔ اسے پتہ تھا کہ بھائی گھر میں حفاظت کے پیش نظر پسٹل رکھتا ہے۔ اس نے سیدھا الماری کھولی اور کپڑوں کو ٹٹولنے لگا۔ الماری کے نچلے دراز میں اسے پستول مل گیا۔ اس نے کھول کر دیکھا، پستول بھرا ہوا تھا۔ کپکپاتے ہاتھوں سے اس نے پستول تھاما،اس پہ گرفت مضبوط کی۔ تیزی سے باہر نکلا۔

کتا ہلکی آواز میں بھونکتا ہواواپس کالونی کے کچرہ دان کی طرف رواں تھا۔ وشدل نے اس کے قریب پہنچ کر پسٹل سیدھا کیا اور یک دم فائر کر دیا۔ گولی کتے کی پشت میں لگی اوروہ شدت سے بھونکا۔”بھوؤں بھوؤں ……“ وشدل کے کانوں میں ایک ہی آواز گونجی:”سائیکو سائیکو……“ اس کی آنکھوں میں سایہ سا لہرایا اور اس نے ساری گولیاں کتے کے جسم میں اتار دیں۔ کتا ایک لمحے کو تڑپا اور وہیں ڈھیر ہو گیا۔

گولیوں کی آواز سن کر اہلِ محلہ جمع ہونے لگے۔ وشدل پستول ہاتھ میں لیے وہیں سڑک کے کنارے بیٹھ گیا۔

دیکھتے دیکھتے ہی بات کالونی کے گھر گھر تک جا پہنچی۔ جس نے سنا انگشت بدنداں رہ گیا کہ وشدل نے کالونی کے کتے کو گولی مار دی!!۔

واقعے کو کئی روز گزر گئے۔ کالونی میں چہ مگوئیوں ہوتی رہیں۔ مگر کسی کو سمجھ نہ آئی کہ آخر وشدل جیسے دھیمے مزاج اور خاموش طبع انسان نے ایک بے گناہ جانور کی جان کیوں لی!!

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*