آغوش

 

عاشر صدیقی خوبرو مہذب ،وقار اور عمدہ گفتگو کا ماہر تھا۔ گریجوئیشن کے بعد وہ دبئی چلا گیا۔ اور ایک سپر سٹور پر مینجر کی حیثیت سے کام کرنے لگا۔ اس کی شخصیت اور گفتگو سے خواتین خاص طور پر متاثر ہو کر غیر ضروری شاپنگ بھی کر لیتی تھیں۔ انڈین،بنگلہ دیشی اور پاکستانی خواتین کا تو وہ مرکزِ نگاہ تھا۔ اس کی مسکراہٹ اور نگاہوں کی معنی خیز چمک کاروباری دنیا میں منافع بخش تھی۔ جب وہ کہتا۔ مس۔ میں کہہ رہا ہوں نہ کہ یہ لباس بنا ہی آپ کے لئے ہے۔ اور یہ جیولری تو بہت جچے گی آپ پر۔۔۔۔ تو خواتین بجٹ بھول کر لاکھوں کی خریداری کر لیتیں۔مارکیٹنگ کے ہر گُر سے وہ آشنا تھا۔ ادھیڑ عمر عورتوں کو لبھانا تو وہ خوب چانتا تھا۔

مارکیٹنگ کا یہ بے تاج بادشاہ کچھ دن کے لئے پاکستان آیا۔ تو بڑی بہن نے شادی کا مشورہ دیا۔ درجن بھر افیئرز کے باوجود کہیں بھی کوئی سنجیدہ معاملہ نہ تھا۔ بہن نے ارب پتی اور والدین کی اکلوتی بیٹی کرن منور سے ملاقات کروائی۔ والدین کی وفات کے بعد وہ کاروبار خود سنبھالتی تھی۔ کرن میں نسوانی کشش نہ تھی۔ مگر وہ تعلیم یافتہ بھی تھی اور زہین بھی۔خوبصورتی کی کمی دولت نے پوری کر دی تھی۔ سادہ سی ایک تقریب میں وہ رشتہ ازدواج میں بندھ گئے۔ ولیمے کی تقریب میں کرن کاروباری معاملات طے کرتی رہی۔ عاشر اس صورتحال میں اپنے مستقبل کی منصوبہ سازی کرتا رہا۔

کرن کاروبار کو آگے بڑھاتے ہوئے عاشر کو کہیں رکھ کر بھول گئی۔ عاشر کی متحرک شخصیت اس جمود سے بیزارہوتی جا رہی تھی۔ آنکھ کھلتی تو کرن آفس جا چکی ہوتی۔ رات گئے آتی تو ڈنر کے بعد نڈھال ہو کر سو جاتی۔گویا عاشر بیڈ روم میں دھرا ہوا کوئی شو پیس تھا۔ جسے نظریہ ضرورت کے تحت لایا گیا تھا تاکہ خالی جگہ پرہو سکے۔۔ عاشر نے کاروبار میں ہاتھ بٹانا جاہا۔ مگر کرن کو مداخلت پسند نہ تھی۔چمچماتی گاڑیاں،سہولیات کی فراوانی اور نوکروں کی فوج سے عاشر تنگ آ چکا تھا۔ زندگی کی یکسانیت سے گھبرا کر عاشر کرن کی سٹڈی میں چلا گیا۔ دنیا کا بہترین ادب وہاں موجود تھا۔ مگر عاشر کی توجہ کا مرکز وہ کانچ کی نازک گڑیا تھی۔جو کمر کے گرد دوپٹہ باندھے صفائی میں مصروف تھی۔ اس کے کم سن بدن کی رعنائی نے عاشر کو سٹول ہلانے پر مجبور کر دیا۔ ایک ہلکی سی چیخ اوروہ عاشر کی دسترس میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جلد ہی دونوں ایک دوسرے سے گھل مل گئے۔ نوری سنورنے اور نکھرنے لگی۔ ملازم اس رنگین سلسلے پر دبی دبی باتیں کرنے لگے۔ مگر کرن بے خبر رہی۔ جلد ہی یہ بے خبری ایک دھچکے کی نذرہوئی۔ کیونکہ محبت ثمر بار ہوگئی تھی۔ عاشر پر سکون تھا۔ مگر نوری ایک منجمد آنسو بن گئی تھی۔۔۔۔۔ رات گئے فیصلہ سنا دیا گیا۔ عاشر دستخط کر کے آزادہوا۔ زاد راہ لے کر پرانے ٹھکانے کی جانب پرواز کر گیا۔ نوری بدترین ذہنی اور جسمانی تشدد کے بعد کرنٹ لگنے سے چھٹکارہ حاصل کر گئی۔ اور اس بے آسرا بچی کو کوکھ میں پلنے والی زندگی سمیت دو گز زمین نے اپنی مہربان آغوش میں لے لیا۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*