اختر چنال

      فطرت کا اہم ترین جزوردھم ہے۔انسانی زندگی میں ردھم نہ ہو تو شدت درد وغم میں اضافہ ہوتا ہے۔ایسی ہی ترتیب کا نام موسیقی ہے۔ یہ وہ شعور ہے جوانسانی محسوسات میں نازک اورملائم جذبات ابھارتاہے۔ اس بات کو ذہن نشین کرکے ذرا پرسکون جنگل میں کوئل  کی کو ک سنی جائے، چاند سے چکور کی گفتگو کو سناجائے فطرت سے محبت کیلئے چند لمحے نکال کر زندگی کی ترتیب بارے سوچا جائے تب لفظ اور سُرکاباہمی رشتہ سمجھ آئے گا۔ جن سماعتوں میں موسیقی گھل مل جائے ان میں خرافات آسانی سے جگہ نہیں بناسکتے۔موسیقی انسانی ذہن میں پیدا ہونے والی بے قراری میں قرارلاتی ہے۔یہ سجنی وسجنوں کی محبت کانام ہے۔ بیابانوں میں چرواہوں کو فطرت سے گفتگو کا سلیقہ بتاتی ہے۔ قبائلی روایات میں جہاں گانے بجانے کا ماحول ہو سمجھا جاتا ہے کہ امن اور بہار کے دن ہیں۔

بلوچستان نہ صرف اپنی معدنی وسائل کی وجہ سے اہمیت کا حامل صوبہ ہے بلکہ اس کے ثقافتی اقدار بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے۔اس وقت موضوع گفتگو ممتاز بلوچ لوک فنکار اختر چنال ہیں جو گزشتہ دنوں کرونا کی وجہ سے سخت علیل ہوئے۔ہم نے پہلی مرتبہ انہیں کریدا ان کی زندگی اور فن کے مختلف گوشوں پر سیر حاصل بات چیت کی۔

سوال:۔ چنال صاحب اپنے خاندان، علاقہ اور ابتدائی زندگی کے بارے میں بتائیں؟

جواب:۔ بھئی میرانام محمد اختر ذات چنال جو کہ زہری قبیلے کی ایک ذیلی شاخ ہے۔دادا کا نام مسافر جبکہ والد کانام جمعہ خان ہے جدی پشتی ہمارا روزگار کا ذریعہ مویشی بانی رہا ہے۔بلوچستان کے مویشی بان ہمیشہ سے پانی کے پیچھے بھاگتے رہے ہیں جہاں پانی میسر نہیں ہوا موسم میں شدت آئی ، پژمردگی شروع ہوئی جس کی وجہ سے ہمیشہ خانہ بندوشی اختیار کرتے رہے۔ ہمارے خاندان نے بھی طویل خانہ بندوشی کے بعدآخر کار قلات شہر میں سکونت اختیار کرلی یہاں شاہی زئی پینٹ ہمارا آخری پڑاؤ ثابت ہوا۔

خاندانی طور پر میرے والد پہلی شخصیت تھے جنہوں نے سرکاری ملازمت کی۔وہ بطورسپاہی  محکمہ جیل خانہ جات میں بھرتی ہوئے جس کے بعدان کا تبادلہ صوبے کے مختلف شہروں میں ہوتا رہا۔کبھی کوئٹہ تو کبھی مچ جیل تو کبھی خضدار اور مستونگ۔شاید میں اپنے خاندان کا پہلا بچہ تھا جسے والد کے دوستوں کی پرزور اصرار پر سکول میں داخل کروایا گیا۔مسلسل والد صاحب کے تبادلوں کی وجہ سے میری تعلیم پربھی اثر پڑتا رہا۔مستونگ میں والد کو سرکاری کوارٹرنہ ملنے کی وجہ سے انہیں انکے ایک دوست نے اپنے گھرمیں رہنے کی جگہ دی جن کا نام ماما چاندی تھا۔دونوں میاں بیوی سریلے تھے انکا دوست حاجی خان جو رباب بجاتا تھا کچھ دنوں مہمان رہا چونکہ اس زمانے میں قلات اور مستونگ میں لوگوں کے تفریح کا واحد ذریعہ موسیقی کی نجی محفلیں ہوا کرتی تھیں۔استاد حاجی خان رات میں کسی محفل میں شرکت کرنے جاتے تو مجھے ساتھ لے کر جاتے تھے کیونکہ انہیں رات میں کم دکھائی دیتا تھا رہنمائی کے غرض سے مجھے اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت انہوں نے خصوصی طورپر میرے والد سے حاصل کررکھی تھی۔ہر محفل میں وہ مجھے اپنی ٹیم کا حصہ بنا کر رکھتے تھے میرا کام تھا انکے گائے ہوئے اشعار کو دہرانا اور تالی بجا کر سنگتی کرنا۔یوں موسیقی میں میری دلچسپی بڑھی اور میں بھی تھوڑا بہت گنگنانے لگا۔کچھ دنوں کے بعد یہ 1966 کازمانہ تھا۔ ٹاؤن کمیٹی مستونگ کی جانب سے ایک خاص موسیقی کے پروگرام کا اہتمام کیاگیا۔بلوچی کے نامور گلوکار استاد فیض محمد بلوچ اوربہت سے دیگر فنکار کوئٹہ ودیگر علاقوں سے اس میں شرکت کیلئے آئے تھے۔ٹاؤن کمیٹی کے چیئرمین نے محفل کے آغاز میں اسٹیج پر اعلان کیا کہ اس محفل کی ابتداء مستونگ ہی کے کسی فنکار سے ہوگی۔ لہٰذا مستونگ کا اگر کوئی فنکار موجود ہے تو وہ سٹیج پر تشریف لائے۔خوش قسمتی سے اس روز وہاں کے جانے مانے فنکاروں میں سے کوئی بھی موجود نہیں تھا۔ قرعہ میرے نام نکل آیا۔دوستوں نے زبردستی مجھے سٹیج پر چڑھنے کیلئے دھکا دیا۔میں نے سٹیج پر ایک قوالی پیش کی جس پر مجھے داد بھی ملی اور چیئرمین کی جانب سے ایک روپیہ انعام بھی ملا جیسے اسی روز ہی فیصلہ ہوا تھا کہ میں آنے والے وقتوں میں سٹیج پر چمکتا رہونگا۔یہاں میرے استاد نبی بخش تھے جنہوں نے بنیادی باتیں سکھائیں اور میری حوصلہ افزائی کی۔

سوال:۔ سنجیدگی اور باقاعدگی سے گانے کا آغاز کب اور کیسے ہوا؟

جواب:۔ میں  نے تھوڑے سے پیسے جمع کئے بارہ روپے میں ایک باجاخریدا۔کوئٹہ میں کلی عالم خان میں ایک محفل میں شریک تھا ایک نوجوان نے میرا باجا دیکھ کر مذاق اڑایا میرے برا منانے پر انہوں نے بتایا کہ میں ابھی ایک باجالاتا ہوں فرق صاف ظاہر ہوگا تھوڑی دیر میں وہ باجالے کرآیا ارے جونہی باجا کھلا پوری فضاء ہی معطر ہوگئی ایسی خوشبو واہ بھائی واہ پتہ چلا تقسیم ہند کے وقت پرنس روڈ کوئٹہ میں ایک سکھ کا باجا بنانے کا کارخانہ ہوا کرتاتھا۔جب وہ چھوڑ کر جانے لگے تو اس نوجوان کے والد کواس نے کارخانہ حوالے کیا۔ اْسکے باقی باجے تھے بک گئے یہ ایک باجا وہ نوجوان اپنے لئے گھر لے کرآیا۔برسوں سے پڑا تھا جسے اس روز میرے بجانے کیلئے لایا گیا ان نوجوان سے بمشکل ایک سو بیس روپے میں سودا ہوا لیکن پیسے میرے پاس تھے نہیں۔یوں سمجھ لیں بکنگ ہوگئی۔ نوجوان سے میں نے کہامجھے وقت دو جیسے ہی 120روپے جمع ہوں میں آکر باجا لے جاؤں گا بس اب باجا خریدنے کی مستی چڑھی ہوتی تھی۔آخر طے ہوا والد صاحب کی رضامندی سے میں کچھ دن کہیں کام کروں گا سکول سے چھٹی ہوگی کوئٹہ جیل ہی میں تعمیراتی کام ہورہا تھا اْسکے ٹھیکیدار اس وقت کی مشہور شخصیت میر اللہ لانگو تھے ان سے کام کی اجازت دینے کی استدعا کی میری کم عمری کو دیکھ کر وہ مسلسل انکار کررہے تھے آزمائش کے طورپر انہوں تغاری اٹھانے کیلئے کہا مجھے یوں لگا موسیقی کی دیوی نے میرے بازوؤں کو فولادی بنادیا ہے۔میں کام میں جت گیا تین روپے دیہاڑی تھی ایک مہینہ کام کیا کچھ دن اوور ٹائم بھی کیا بمشکل سوروپے بن گئے۔اب ہاتھوں میں چھالے بھی پڑچکے تھے مزید کام کرنے کی سکت بھی نہیں تھی میں اپنے سالے کے پاس گیا اور انہیں روداد سنائی باقی کے بیس روپے اس نے پورے کئے۔جناب پھر کیاتھا میں تھا اور باجاتھا باجے نے مجھے جیسے قسم دی ہومجھے چھوڑنا مت اور میں نے باجے کو۔۔۔۔۔

سوال:۔ ویسے تو آپ کے استاد صادق علی خان ہیں اس تک کیسے پہنچے؟

جواب:۔میں نے بھی کچھ عرصے پویس میں ملازمت کی ریزروپویس میں۔ ایک مرتبہ سبی جانا ہوا وہاں دونوجوان گلوکار آئے تھے استاد اکبر علی اور اختر علی۔ معلوم ہوا کہ دونوں استاد صادق علی خان کے فرزند ہیں۔ میں نے دل ہی میں ٹھان لی میں صادق علی خان کی شاگردی میں جاؤں گا۔ اسی دوران قلات میں فائن آرٹس کی مشہور شخصیت اکبر جان جوکہ میرے دوست تھے ریڈیو پاکستان کوئٹہ میں سکرپٹ کے شعبہ سے وابستہ تھے انہوں نے مجھے ریڈیو کے براہوئی زبان کے پروگراموں میں شرکت کیلئے آمادہ کیا 1973 میں آڈیشن میں پاس ہوا اس طرح ریڈیو گلوکار بن گیا جہاں اے کیٹگری تک پہنچا۔ لاہورپروگرام ہوا کرتے تھے ایک روز پروگرام شروع ہونے سے ایک گھنٹہ قبل بوتھ میں داخل ہوا وہاں ایک شخص پہلے سے لیٹا ہوا تھا میں نے ریہرسل کیلئے باجا کھولا مجھے اندازہ نہیں ہوا کہ وہ شخص کھنکیوں سے باجا کھولنے اوراس پر انتھرا شروع کرنے تک میر ا جائزہ لے رہے ہیں۔ وہ فوراً اٹھے اور تلخ لہجے میں مجھے روکا کہا بھائی پہلے موسیقی کے ادب و آداب سیکھو۔موسیقی کے آلات سے پیار کرنے کاراستہ اپناؤ تم نے جس طرح سے باجا زمین پرپٹخاہے کھولا ہے اور بے ترتیب انگلیاں رکھی ہیں مجھے زہر لگے ہو(حالانکہ وہ مجھے اسوقت زہر لگے تھے)۔ یہ ہر آدمی کے بس کاکام نہیں میں نے پوچھا تو کیا کروں اس نے کہا جاؤ استاد صادق علی سے سیکھو۔میں نے ان کا نام پوچھا تو انہوں نے اپنا نام طالب حسین بتایا۔بعد میں پتہ چلا کے وہ خودبھی ہارمونیم پلیئر ہیں۔ماسٹر طالب حسین یہ باتیں کئی دنوں تک ذہن میں کچکوکے لگاتے رہے۔ایک دن استاد صادق ملے۔میں نے ان سے درخواست کی وہ تو جیسے جلے بھنے بیٹھے ہیں کہنے لگے جاؤ اپنا راستہ ماپو یہ کوئی بچوں کا کھیل نہیں کئی بدتمیز آئے میرا وقت برباد کیا نہ استادوں کا احترام، نہ سیکھنے کا جذبہ بھئی۔مجھے نام کے شاگرد نہیں چاہئیں میں اپنا سامنہ لے کرروانہ ہوا۔ایک آدھ ذرائع اوربھی استعمال کئے مگر کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔کوئٹہ کے جمعیت رائے روڈ جو کہ اب میر خلیل الرحمن روڈ کہلاتا ہے وہاں استاد عبدالحق جوکہ موسیقی کے آلات خاص طورپر باجے مرمت کرتا تھاوہاں گلوکاروں کا آنا جانا رہتا تھا میرے بھی دوست ومربی تھے میں نے ان سے دل کاحال بیان کیا انہوں نے استاد صادق علی سے بات کی۔لیکن وہ نہیں مانے۔ انکے اور صادق علی خان کے درمیان بے تکلفی تھی ایک روز انتہائی جارحانہ انداز میں انہوں نے صادق علی خان کو کہا تو وہ مان گئے۔

استادوں کا ایک طریقہ ہوتا ہے جسے لوگ غلط رنگ دیتے وہ انسیت پیدا کرنے اور آنے جانے کیلئے کچھ شرائط باندھتے ہیں۔ میرے لئے جو شرائط طے ہوئے ا ن میں ایک جوڑا کپڑا، جوتے، 70روپے نذرانہ ایک کلو مٹھائی اور پانچ چائنک چائے ایک وقت پھر ایسا آیا استاد کو کہنا پڑا اختر تم انسان نہیں جن ہو۔ تم تو ایسے چمٹ گئے ہوکہ میں تمہارا ہوکر رہ گیا ہوں اور پھر رکشہ پکڑکر مجھے ڈاکخانہ لے کرگئے وہاں سے پارسل چھڑایا واپس آئے اب استاد جہاں جاتے رکشہ کا کرایہ خود دیتے اس پارسل میں ایک کتاب تھی معارف انضمات جو موسیقی کے حوالے سے ایک بنیادی کتاب ہے۔وہ مجھے پڑھاتے رہے ایک روز اپنے بیٹے کو کہا اخترعلی دیکھومیرا یہ ہونہار شاگر دکیا سے کیا بن گیا ہے جس کی اردو بولنے پر آپ لوگ مذاق اڑاتے تھے استاد نے صرف میری اردو درست کی مجھے فارسی پڑھائی سنگیت کی زبان برج بھاشا پڑھائی بس یوں سمجھو مجھے بلبل بغداد بنایا۔ اب میں انکے گھر کا ایک فرد بن گیا تھا استاد صادق علی خان موسیقی کے تلونڈی گھرانے سے تھے جنہوں نے الاپ ایجاد کی۔ خود کمائی طبلہ بجاتے تھے ان کاتعلق نانکانہ سے تھا جبکہ کوئٹہ کے پرانے باسی تھے۔

سوال:۔استاد جی شہرت کب اور کیسے شروع ہوئی؟

جواب:۔ پی ٹی وی کوئٹہ سے ایک نیٹ ورک کے پروگرام میں شرکت کی جس میں پاکستان کے چیدہ چیدہ گلوکار موجودتھے۔ اس پروگرام کے چرچے ہوئے دوچار روز کے بعد پی ٹی وی کوئٹہ کے ارباب اختیار نے بتایا کہ کراچی آرٹس کونسل میں دوچار دنوں میں ایک قومی تہوار کے سلسلے میں موسیقی میلہ ہونے جارہا ہے آپ بھی اس میں شرکت کریں گے۔ کراچی میں منعقدہ پروگرام میں ایک بڑا مجمع تھا اللہ تعالیٰ نے عزت رکھ لی میرے گانوں پر لوگ جھومتے رہے آخر کار وہاں موجود سیکرٹری کلچر حمید اخوندسے رہانہ گیا۔سٹیج پرآئے مجھے گلے لگایا اور پروگرام میں موجود اس وقت کے پی این سی اے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر امر جلیل سے مخاطب ہوئے امر جلیل آپکے امریکہ کے گروپ میں اختر چنال شامل ہے۔امر جلیل نے کہاکیوں نہیں وہ تو سرفہرست ہیں اس طرح 1991 میں پہلی مرتبہ ملک سے باہر کسی بہت بڑے مجمع میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ مزے کی بات یہ کہ امریکہ کے دورے کیلئے میں نے اپنے دوفنکار بھائیوں خیر جان اورتاجل کی سفارش کی۔اندازہ نہیں تھاکہ لاکھوں کا مجمع ہوگا ان کے جوش وخروش کے ساتھ لے کر چلنا ہوگا یاانہیں اپنے ساتھ چلنے کی ترغیب دینی ہوگی۔پنجاب، سندھ اور سرحد کے گلوکار سازندے بیرونی ماحول سے واقفیت رکھتے تھے جب ہماری باری آئی آرگنائزر پریشان ہوگئے لیکن میری فن موسیقی کی تربیت کام آئی میں نے آرگنائزرز کو تسلی دی اور اسٹیج پر آیا میری نظر سٹیج پر موجود اس بڑے آرکسٹرا پر تھی جس نے میرا کام آسان کرنا تھا میں نے ان سے مدد مانگی۔موسیقی کی زبان میں انہیں صرف اتنا بتایا کہ بھائی ڈرم میں تیرے کالے بھوپالی اور کی بورڈ میں بلوچی داد را چاہیے۔ بس پھر کیا تھا مجمع میری جان ہی نہیں چھوڑ رہا تھا۔آرگنائزر پس پردہ سے مزید جوش سے آگے بڑھنے کا پیغام دے رہے تھے تھکاوٹ محسوس کرنے کے باوجود ملک اور صوبے کی لاج رکھنی تھی۔ اس روز یوں سمجھ لو میں نے جان کی بازی لگالی۔اس کنسٹرٹ نے بعد میں پھر دنیا کے 25سے زائد ممالک میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کی راہ ہموار کی۔

سوال:۔ آپ فرانس خصوصی طورپر گئے تھے وہ واقعہ کیا تھا؟

جواب:۔ کراچی میں تخریب کاری کے نتیجے میں فائیوسٹار ہوٹل میں موجود کچھ فرانسیسی دھماکے کی زدمیں آئے۔میں گزری کے علاقے میں موجود تھا رات کو پولیس سمیت کچھ لوگ آئے دھماکے کاپتہ چل چکاتھا۔ گھر پر پولیس کی آمد اور دروازہ کھولنے پہ پہلا ہی سوال یہ اختر چنال کا گھر ہے؟۔ پولیس کا یہ کہنا تھا کہ میری جان نکل گئی۔ جرات کرکے میں نے بتایا جی میں ہی اختر چنال ہوں پیچھے سے ایک مرداورایک خاتون سامنے نکل آئے۔ خاتون رورہی تھی اس مردنے بتایاکہ اختر بھائی آپ کی ضرورت پڑی ہے۔اس لڑکی کا دوست اس دھماکے میں مرچکا ہے۔یہ لڑکی ہلکان ہوئے جارہی ہے فیصلہ ہوا ہے کہ فوری طورپرانکے ساتھ آپ نے بھی فرانس جانا ہے۔وہاں کے عوام تک پاکستان کی ہمدردی اور دوستی کا پیغام پہنچانا۔وہ امن کے پیغام کو موسیقی میں اچھی طرح سمجھتے ہیں۔فوری بندوبست ہوا۔میں ایک ماہ کیلئے فرانس کے مختلف شہروں میں امن کا پیغام پہنچاتا رہا۔فرانسیسی زبان کے گلوکار اور موسیقاروں نے بھرپور انداز میں میرا ساتھ دیا۔ ایک روز ایک فرانسیسی ملا اس نے کہاکہ کمال ہے کہ میں فرانسیسی ہوتے ہوئے پورا فرانس نہیں دیکھ سکا ہوں اور آپ نے سارا فرانس دیکھ لیا۔انہوں نے ایک ماہ کے بعد مجھے واپس جانے کچھ روز کیلئے سستانے آرام کرنے کے بعد دوبارہ بلالیا۔

سوال:۔یہ دانہ پہ دانہ کی کہانی کیا ہے؟

جواب:۔قلات میں ایک درزی کی دکان پر بیٹھاتھا اس نے ٹیپ ریکارڈر پر کسی شخص کے کنستر پر گاتے ہوئے دانہ پہ دانہ سنایا جومزاحیہ اشعار پرمبنی تھا۔ مجھے یہ لائن اچھی لگی میں نے اسے باربار سنا۔اس کے بعد میں نے ازخود اْسے سنجیدہ شاعری میں بدلا جوکہ میری شناخت بن گئی۔ اسے بعض دیگر گلوکاروں نے بھی گایا مگر چونکہ وہ زبان سے نابلدتھے بس یوں سمجھ لیں کہ ا نہوں نے طرز کواپنا یا زبان کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔

سوال:۔اس ملک میں کسی پسماندہ صوبے سے کسی بھی نامور شخصیت کا ابھرنا اتنا آسان نہیں یقیناً آپ کو بھی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ہوگا؟

جواب:۔زہیرجان آپ تو بخوبی جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں مسابقت نہیں ہوتی،لیگ پولنگ ہوتی ہے۔ اگر مسابقت ہوتی تو ہمارے تمام شعبے زوال کاشکار نہیں ہوتے۔اس قدر لیگ پولنگ کے باوجود کچھ لوگ کام کررہے ہیں یا کچھ لوگ ان شعبوں سے وابستہ افراد کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں ان کی جرات کو سلام ہے۔جناب شروع شروع میں تو میں جہاں گیا پروپیگنڈہ ہوا کہ جو شخص بلوچی، براہوئی، زبانوں کی نمائندگی کررہاہے اس کا تعلق اس صوبے سے نہیں وہ نان لوکل ہے۔لیکن جیسے جیسے میں آگے بڑھتا گیا نیت صاف مرادحاصل پر میرا یقین پختہ ہوتا گیا۔

سوال:۔سناہے آپ کی اولاد سے بھی کچھ افراد فن موسیقی میں کافی نامور ہوچکے ہیں؟

جواب:۔میرا نواسہ قادر بخش اچھا گاتا ہے ہارمونیم بھی پلے کرتاہے۔میرابیٹا عبدالقیوم جو اچھا فنکار ہے پچھلے پندرہ سالوں سے بیمار پڑاہے۔

سوال:۔استاد کتنی زبانیں بولتے اورسمجھتے ہیں؟

جواب:۔جہاں تک زبانوں کی بات ہے بلوچی اوربراہوئی مادری زبانیں ہیں اْردو، فارسی، پشتو، برج، بھاشا، سرائیکی اورسندھی گانے کی حد تک۔بول چال میں پشتو اورفارسی بھی بول لیتاہوں۔انگریزی اتنی نہیں یوں سمجھ لیں گونگا بہرہ نہیں ہوں کام چلالیتاہوں۔

سوال:۔امیتابھ بچن سے ملاقات کیسے ہوئی؟

جواب:۔فلم میرزا کے گانوں کی ریکارڈنگ کیلئے انڈیا گیا تھا جہاں گلزار صاحب، شنکر میادیو ان کی ٹیم کے ساتھ گانوں اور ڈائیلاگز پر گفتگو ہورہی تھی …… باتوں باتوں میں امیتابھ سے ملاقات کی بات ہوئی پتہ چلا وہ شارجہ کرکٹ میچ دیکھنے گئے ہیں۔ اسی دوران میادیو کی ان سے فون پر بات چیت ہوئی حال احوال میں میادیو نے بتایا کہ اس وقت پاکستان سے دو گلوکار اخترچنال اور سائیں ظہور آئے ہیں ایک پروجیکٹ پر کام ہورہا ہے امیتابھ نے کہا میں شام کوآرہاہوں ان سے دس منٹ کا وقت دیا ملاقات ہوگی۔وہ شام کی فلائٹ سے پہنچے ہم چائے پران سے ملاقات کرنے پہنچے۔ انہوں نے گرم جوشی سے ہاتھ ملایا تعارف کے دوران میں نے بتایا کہ میں کالی کے دیس سے آیا ہوں انہوں نے فوراً کہا اچھا کلکتہ سے آئے ہیں میں نے کہا نہیں جناب کالی کے قلات سے آیا ہوں۔انہوں نے بھئی کالی تو ایک ہے پھریہ کلکتہ کے علاوہ قلات والی کہاں سے آئی۔ میں نے تاریخ بلوچستان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ کالی ماتا قلات سے آئی ہے۔ایک دن کا واقعہ ہے کہ ماتا کالی کے فلگ پرپرگٹ ہوگئی پجاری کی نظر پڑی۔ پجاری سے کہا مجھے کلکتہ لے چلو پجاری نے حیرت کااظہار کیا اس کی حیرت میں ناممکن شامل تھا ماتا اس کے کاندھوں پربیٹھی پجاری نے آنکھیں کھولی تو وہ کلکتہ میں تھے۔ تاریخ میں لکھاہے کالی قلات میں  میادیو مستونگ بڈھا جوگی شال میں پانی نات پلون (بڈھا جوگی بتاتے ہیں کوئٹہ کے آرڈیننس ڈپو کے آس پاس ہے) اسی طرح ڈراہوڈین بولنے والوں پر بات ہوئی جس میں براہوئی زبان پربھی بات چلی یہ دس منٹ کی ملاقات گھنٹوں میں تبدیل ہوگئی۔میادیو نے کہا یار بڑے دلچسپ آدمی ہو امتیابھ جیسے شخص کا اتنا قیمتی وقت کتنی آسانی سے لے لیا میں نے کہا جناب کم قیمتی ہم بھی نہیں ……..

سوال:۔دلیپ کمار سے بھی ملاقات ہوئی؟

جواب:۔ایک مرتبہ تو 1988 میں فاطمید کے پروگرام آئے تھے اس پروگرام میں معین اختر کے طفیل شریک ہوا دوسری مرتبہ 1998 میں پرائیڈآف پرفارمنس ملنے کے موقع پر ملاقات ہوئی۔دلیپ کمار کو بھی وہاں تمغہ دیا گیا ایوارڈ لینے کے اس پروگرام میں میرے علاوہ ملکہ ترنم نورجہاں، سلامت علی خان، اختر علی خان، بڑے فتح علی خان، سلطان راہی و دیگر شامل تھے۔

سوال:۔لگتاہے پاکستان میں فن کا شعبہ زوال پذیر ہے؟

جواب:۔صرف فن زوال پذیر ہے؟۔کھیلوں کاشعبہ دیکھیں تعلیم کا شعبہ ہی دیکھ لیں۔ جہاں جہاں نظردوڑائیں آپ کو محب وطن چیختے چلاتے نظرآئیں گے شاید بعض اداروں نے اپنا کام چھوڑ دیا ہے یا پھر گندی سیاست کی نذرہورہے ہیں یا پھر سب سے بڑی وجہ یہ ہوسکتی ہے اکثر اداروں میں غیر متعلقہ افراد کا عمل دخل زیادہ ہوگیا ہے۔ان شعبوں کے ارباب اختیار کو غیر سنجیدہ اور نافہمیدہ افراد کانوٹس لیناچاہئے بھئی کھلاڑی، فنکار اور ہنر مند ہی ملک کااثاثہ ہوتے ہیں۔یہی اصل سفیر کہلاتے ہیں اگر ملک کی دوبارہ نیک نامی میں اضافہ کرنا ہے ان شعبوں کو ترقی دینا ہوگی جن کے طفیل امن کا راستہ کھلتا ہے اب تو دنیا میں یہ بڑی صنعتکاری کادرجہ حاصل کرچکے ہیں۔کسی حد تک میڈیا نے بھی ان شعبوں کو نظرانداز کردیاہے کب تک چھوٹی سکرین پرعوام کو ذہنی کوفت میں مبتلا رکھنے کا کام ہوتا رہے گا عوام کو مثبت تفریح چاہئے۔شعرو ادب کے ذریعے ایک مرتبہ پھر قوم کی تربیت ناگزیر ہے۔

سوال:۔آپ کن بڑی شخصیات سے متاثر ہیں؟

جواب:۔شعرو ادب میں علامہ اقبال، ساغر صدیقی، عطاشاد۔ سماجی شخصیات میں عبدالستار ایدھی  فنکاروں میں الن فقیر، ریشماں، زرسانگہ، روشن آرا بیگم۔اورایک بات بتاؤں اداکاری کے حوالے سے میرا سب سے بڑا آئیڈیل ضیا محی الدین رہا جن کو سن کرمجھے بولنے کا طریقہ آیا ہے لفظوں کوجاندار بنانے کا سلیقہ آیا ………میں نے ان کی دیکھا دیکھی تحت اللفظ میں بڑا کام کیا۔قرآن شریف کی 20 سورتوں کا ترجمہ کیا اپنی آواز میں ریکارڈ کرچکاہوں۔خوانین قلات پرکام کررہاہے ایک ناول نما ”زوبہ“ کے نام سے لکھ چکاہوں جس کواپنی آواز میں پیش کررہاہوں۔ دلی کا یادگار مشاعرہ بھی تحت اللفظ میں ریکارڈ ہوچکاہے۔

سوال:۔سنا ہے کرونا نے فنکاروں کو مفلسی کے در پر لاکھڑا کردیاہے؟

جواب:۔ایسا ویسا؟۔ ویسے تو کرونا نے پوری دنیا کو متاثر کیا ہے ہمارا ملک بھی خاص متاثرہوچکاہے۔لیکن بلوچستان میں چونکہ فن کی ترسیل کے ذرائع پہلے سے محدود تھے کرونا تو اس کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے جارہا ہے۔بلوچستان میں ٹی وی ریڈیو فن کے حوالے سے واحد سہارا ہیں۔یہ دونوں تو کرونا سے پہلے ہی اپنی افادیت کھوبیٹھے ہیں۔نہ جانے ان دو اداروں پرکیوں جمود طار ی ہے یہاں سے پروگرام نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سٹیج تو بہت پہلے دہشت گردیوں کی وجہ سے بند پڑے ہیں۔ اس وقت کام نہ ہونے کی وجہ سے فنکار محکمہ ثقافت کی طرف دیکھ رہے ہیں جو بیمار یا بے روزگار فنکاروں کی معمولی سی مالی معاونت کررہاہے جو کہ ناکافی ہے۔حکومت کو اس جانب خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے کرونا کیلئے مختص فنڈ میں سے فنکاروں کے حصے کی رقم تقسیم کرنے کا کام فوری شروع کیا جانا چاہئے۔ماہانہ وظیفہ دینے کی نئی روایت اچھی اور قابل ستائش بات ہے۔مگر اس سے زیادہ ا ہم بات یہ ہے کہ فنکاروں سے کام لینے کیلئے ریڈیو اور ٹی وی کو فعا ل کیا جائے۔ سرکاری سطح پر ہونے والی تقریبات میں بلوچستان کے فنکاروں کی زیادہ سے زیادہ شرکت کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ بعض پروگراموں میں انہیں شریک تو کیاجاتاہے مگر دیگر صوبوں سے آنے والے فنکاروں کے مقابلے میں ان کا معاوضہ انتہائی قلیل ہوتا ہے جو کہ مناسب بات نہیں۔فن و موسیقی کو باقاعدہ تعلیم کا حصہ بنانا ناگزیر ہے تاکہ بلوچستان میں بھی اس شعبہ صنعت کی شکل اختیار کرسکے۔ علم و آگہی کے تمام شعبے انسانی فلاح کیلئے ہوتے ہیں جہاں منفی رویے پروان چڑھیں بجائے ان شعبوں کو مکمل الزام دینے کے ان میں شامل منفی رویوں کی ا صلاح کی جائے۔ملک میں سنجیدہ ہنرمندوں کی ان کی اپنے شعبوں میں زیادہ سے زیادہ حوصلہ افزائی کی جائے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*