پندرہویں صدی سے لے کر اٹھارویں صدی تک بلوچ سماج کا بڑا حصہ ایک ایسی تبدیلی سے گزرا جس میں کہ زرعی زمین کا بڑا حصہ اب مشترکہ قبائلی ملکیت نہ رہا۔ اب زمین شخصی ملکیت میں ڈھلنے گئی تھی۔ عام قبیلے کے افراد میں بھی۔ مگر زیادہ تر زور آور، چست اور چالاک لوگوں کی ملکیت میں۔ یہ لوگ زیادہ تر قبیلوں کے حاکم ہوا کرتے تھے۔ قبیلوں کے یہ حاکم استادی اور مکر سے اب قبیلے کی حاکمی کے ساتھ ساتھ زمین زیادہ سے زیادہ سمیٹتے ہوئے فیوڈل لارڈز میں بھی ڈھلنے لگے تھے۔
بلوچ قبیلوں کی جانب سے زمین پر آباد ہو جانے کا یہ عمل سولہویں صدی کے آخر تک مکمل ہوا اور زرعی معیشت کی بالادستی متشکل ہونے لگی۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خانہ بدوشی یا سرقبیلوی نظام مشینی انداز میں یکدم یا مکمل طور پر ختم ہوا۔ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ زمین پر آباد ہونے والوں میں بھی اور مالداری میں مشغول بلوچوں میں بھی، بہت عرصہ تک (اور کچھ حالتوں میں آج تک) خانہ بدوشی جاری تھی۔
قلات میں تیرہویں صدی کے وسط تک مغلوں کے نائب ڈھیلی ڈھالی حکومت چلاتے رہے۔ مگر سچی بات یہ ہے کہ عام قبائل کسی مُغل شُغل کو نہیں جانتے تھے ۔ وہ اپنے اپنے علاقوں میں آزادانہ زندگی گزار رہے تھے۔ 1666ء میں میرواڑی قبیلے کے فیوڈل ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور مغل نائبوں کے گیریزن تباہ کر کے قلات پر قابض ہو گئے۔ اس قبیلے کے میر احمد نے اقتدار سنبھال لیا اور یہاں احمد زئیوں کی حکومت قائم کی۔
بلوچستان میں خان کا خطاب دراصل منگولوں سے آیا۔ منگول کے حاکم قاآن (کاغان، خاکان) یا خان کہلاتے تھے۔ بعد میں جب منگول بادشاہی بڑھ گئی تو صوبوں کے حاکم خود کو ال خان (نائب خان )کہلانے لگے۔
بلوچستان میں خانیٹ( خانی) کے عہد میں (1666-1840ء) کلات رفتہ رفتہ ایک مؤثر اور آزاد، سلطنت میں ڈھل گیا۔ اس عبور میں ایک ایسی مقامی ارسٹوکریسی شا مل تھی جس کی معاشی بنیاد تو بڑھتی ہوئی زراعت تھی مگر جس کے نمایاں ہونے کے ذرائع قبائلی طور پر منظم کردہ خانہ بدوش مویشی بانی پر مبنی تھے۔ اس دور میں خان اور سرداروں کے درمیان رشتہ بہت ہی ڈھیلا ڈھالا اور کمزور تھا۔
قلات کے خان میر احمد (1666-1695ء) کے زمانے میں زراعت کے فروغ کو خصوصی دلچسپی میسر ہوئی۔ کاریزات کو ترقی ملی۔ موضع کوہنگ قلات میں کاریز کھدوائے گئے۔ جن میں کاریز ملاورد، کاریز یوسف اور کاریز عثمان مشہور تھے۔ خضدار کی ندی سے کئی نالے نکال کر پانی کو بنجر زمینوں تک پہنچایا گیا۔
اسی زمانے میں عدالتی اخراجات کے نام پر ’’مالی‘‘ نام کا ایک ٹیکس جاری کیا گیا۔ جس کے تحت ہر شادی شدہ شخص نے پانچ روپے سالانہ یا اس کے برابر اناج یا مال مویشی کی صورت میں اپنے قبیلے کے سردار کے پاس جمع کروانا تھا۔
اسی خان کے دورِ حکومت میں خشکابہ زمین کے مالکانہ حقوق پر مالکان اور کاشتکاروں کے درمیان ایک جھگڑا اٹھ کھڑا ہوا۔ جھگڑا یہ تھا کہ اراضی کی آمدن سے مالک کو کتنا حصہ ملے اور کسان کو کتنا۔ چنانچہ خشکابہ بندات کی آبادکاری کے چھ حصے مقرر کر دیے گیے: ایک حصہ پانی کا مقرر ہوا، ایک حصہ زمین کی دیکھ بھال کا، ایک حصہ تخم کا، ایک حصہ ہل کا، ایک نگرانی کا اور ایک حصہ حقِِ مالکانہ۔ چوں کہ بندات کی کاشت کاری میں پانی دینا، بندوں کی دیکھ بحال، تخم ریزی، ہل چلانا اور فصل کی نگرانی والے سارے پانچوں کام کسان کے تھے، اس لیے پانچ حصے اُس کے ہو گئے اور مالک مفت میں ایک حصہ لیتا تھا جسے انھوں نے حق مالکانہ قرار دیا تھا۔ اسی چھٹے حصے کو بدنامِ زمانہ ’’شَشک‘‘ کہتے ہیں۔ (بلو چی میں شش‘ چھ کو کہتے ہیں)۔
1667ء میں گورنر قندہار، آغا جعفر مغل کو شکست دی گئی اور مستنگ، کوئٹہ اور پشین کو مغلوں سے چھین کر کلات میں شامل کر لیا گیا۔ یعنی اب کلات کی ریاست‘ پشین، کوئٹہ، مستنگ، خاران، کچھی کے شمالی علاقوں، نوشکی اور جھالاوان پر مشتمل تھی۔ اُدھر جنوب مشرق میں سبی و کچھی کے پٹے دار حاکم جیئند خان باروزئی (لقب نواب بختیار خان) پہ حملے کیے گئے۔ یہ تقریباً 18لڑائیاں ہوئیں۔ یہ لڑائیاں 1669ء میں شروع ہوئیں اور 1687ء تک جاری رہیں۔ بالآخر 29 مارچ 1687ء میں قلات میں صلح ہوئی، جس میں یہ بات شامل تھی کہ موسمِ سرما میں بلوچستان کے پہاڑی علاقوں سے آئے ہوئے لوگوں کو سیوی اور کچھی کے میدانی علاقوں میں مال چرائی کی اجازت ہو گی۔ باروزئی‘ خانِ قلات کا وفادار اور خیر خواہ ہو گا۔ بیرونی حملہ آور کی صورت میں خان کی مدد کرے گا۔
میر احمد 29 سال خان رہا اور 1695ء میں قلات میں وفات پائی۔ میر احمد خان کے بیٹے محراب خان نے دو سال تک خانی کی اور 1697ء میں کلہوڑوں کے ساتھ لڑتا ہوا ’’کرخ ‘‘ کے مقام پر قتل ہو گیا۔ اس کے بعد اُس کے بھتیجے سمندر خان کو خان بنایا گیا۔ اُس کی حکومت 1714ء تک رہی۔
سخی سمندر خان اٹھارہ سال حکومت کرنے کے بعد 1714ء میں قلات میں وفات پا گیا۔ عبداللہ (1714-1734ء ) خان بنا۔ وہ قوی الجثہ، بہادر اور خوب صورت جوان تھا۔ انگریز اُسے ’’عبداللہ دی کَن کرر‘‘ کہتے تھے جب کہ میدانی لوگ اُسے ’’پہاڑی عقاب‘‘ اور شاعر لوگ اپنے اس شاعر کو’’ قہارؔ ‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔
میر گل خان نے لکھا کہ تین خان (عبداللہ خان، محبت خان اور نصیر خان اول) بلوچی زبان کے مشہور شاعر رہے۔ خان عبداللہ قہار کے یہ اشعار تو ہر عام و خاص کو زبانی یاد ہیں:
کوہنگ و اے کوھیں کلات
کسے پث ئے میراث نہ یاں
ما گوں سغاراں گپتغاں
ترجمہ:
کوہنگ اور یہ قلعہ نما پہاڑ
کسی کے باپ کی ملکیت نہیں ہیں
ہم نے انھیں تلواروں کے زور سے حاصل کیا
عبداللہ، نور محمد کلہوڑا کا ہم عصر تھا۔ کلہوڑا کچھی پہ قابض تھے۔ عبداللہ قہار کی قیادت میں بلوچ فوج نے کچھی پر حملہ کر دیا ۔کلہوڑوں کا نائب مراد ؔگنجاہ کچھی کا حاکم تھا۔ بلوچوں کا باہم فیصلہ یہ تھا کہ جہلاوان کے لوگوں اور التازئیوں کو درۂ مولا کے ذریعے گنداواہ پر حملہ کرنا تھا۔ جب کہ میر عبداللہ خود بولان کے ذریعے کچھی کے میدانوں میں اترا۔ وہاں ڈھاڈر فتح کیا گیا۔ تب قہار سنی کے قریب ’’جندری ہر‘‘ نامی مقام کی طرف بڑھا۔ مگر، جہلاوان کی فوج کے آن ملنے سے قبل ہی گنداواہ کا نائب اس کے مقابلے میں آیا جس کے پاس سندھ اور کچھی کی موجود ساری فوج تھی۔ جندری ہر میں زبردست لڑائی ہوئی اور عبداللہ قہار مارا گیا۔ یہ-31-1730ء کا واقعہ ہے ۔
اُس وقت تک, یعنی اٹھارویں صدی تک بلوچ سرقبیلوی نظام کی چوکھاٹ میں ایک طبقاتی فیوڈل معاشرہ وجود میں آ گیا۔ اب ہزاروں لوگ دیہی مزدور بن گئے تاکہ زائد پیداوار کر سکیں۔ سرداری اب موروثی بن چکی تھی۔ ایک قبائلی گھرانہ پورے قبیلے کے لیے ہمیشہ سربراہ مہیا کرتے رہنے کا گھرانہ بن گیا۔ اُس طائفے کا ایک شخص تو سردار ہوتا ہی تھا مگر اُس کے عزیز و اقارب اور طائفے کے دیگر ممبر بھی حکمران ہوتے تھے۔ وہ سردار کے لیے ٹیکس، عطیات اور ریونیو اکٹھا کرتے تھے۔ اس طرح انتظامی بالائی ڈھانچہ کی اجارہ داری بن گئی۔ اسی انتظامی بالائی ڈھانچہ نے قبائلی طرزِ پیداوار سے فیوڈل نظام پیداوار کی طرف عبور کی نگرانی کی۔ گو کہ عبور کی یہ رفتار بہت سست تھی۔
عبداللہ خان کا بڑا بیٹا محبت خان (1737ء تا 1749ء) کلات کا خان بن بیٹھا۔ اٹھارویں صدی کے پہلے حصے میں نادر شاہ اور پھر احمد شاہ نے بلوچستان پر (اور، یا بلوچستان میں سے ہو کر) کئی مہمات سر کیں، جن کے نتیجے میں دُور دُور تک ان کی سلطنت قائم ہوئی۔
8 مارچ 1740ء میں نادر شاہ افشار لاڑکانہ پہنچا تو بی بی مریم نے اُس کی خدمت میں عرض کیا کہ میاں نور محمد خان کلہوڑا نے اس کے خاوند امیر عبداللہ کو ناجائز قتل کیا، اس کا خون بہا دلایا جائے۔ چنانچہ، نادر شاہ نے کچھی اور سیوی کا علاقہ عبداللہ خان کے خون بہا میں محبت خان کو دے دیا۔ اس طرح کچھی اور سیوی کا سیاسی تعلق اور انتظامی بندوبست واپس بلوچستان کو منتقل ہو گیا۔ چوں کہ عبداللہ قہار کے ساتھ سراوان دستہ کے کئی ایک سردار اور اُن کے قبائل کے لوگ 11فروری 1731ء کی جنگ بمقام چندری ہڑ میں کام آئے تھے، لہٰذا ان سب کا خون بہا دینا لازمی تھا۔
اس لیے محبت خان نے کچھی کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا:
1۔ ایک حصہ عبداللہ قہار کے خون بہا میں عبداللہ خان کی ملکیت قرار دیا۔
2۔ دوسرا حصہ اُن قبائل کے لیے مخصوص کر دیا گیا جنھوں نے اگرچہ اس لڑائی میں عبداللہ قہار خان کے ساتھ شرکت نہیں کی تھی مگر ان کی گزشتہ خدمات زبردست تھیں۔ یہ حصہ بھی خان کے قبضہ میں رہا جسے خان اپنی صوابدید کے مطابق دوسرے سرداروں اور ان کے قبائل یا خاص افراد کو وقتاً فوقتاً ان کی اہم جنگی خدمات کے صلے میں انعام کے بطور دیتا رہا۔
3۔ تیسرے حصہ کو بطریقِ ذیل قبائلِ سراوان میں تقسیم کیا گیا۔ اس لیے کہ عبداللہ قہار کے ساتھ اس آخری جنگ میں صرف سراوان کے قبائل تھے۔ جہلاوانی لشکر آخری دم تک کچھی نہیں پہنچ سکا تھا۔ اس لیے قبائلِ جہلاوان کو کوئی زمین بعوضِ خون بہا نہیں دی گئی۔
سراوان قبائل میں کچھی کا علاقہ اس طرح تقسیم کیا گیا:
1۔ قبیلہ رئیسانڑیں کے خون بہا میں موضع مٹھڑی
2۔ شاہوانڑیں کے خون بہا میں موضع حاجی
3۔ قبیلہ لہڑی کے خون بہا میں موضع ہانبی
4۔ قبیلہ بنگلزئی کے خون بہا میں موضع چندڑ
5۔ قبیلہ رودینی کے خون بہا میں موضع تاج
6۔ قبیلہ محمد حسنی کے خون بہا میں کوگڑو
7۔ محمد شہی کے خون بہا میں موضع زرداد
پانچ ہزار میل کے اس نئے علاقے نے کلات میں گویا ایک معاشی انقلاب برپا کر دیا۔ یہاں سے زرعی اجناس کی صورت میں کلات کو زبردست آمدن حاصل ہوتی رہی اور خانی بہت مضبوط ہوتی گئی۔ اس کے علاوہ زراعت میں ایک اہم نوع در آئی۔ کچھی میں دریاؤں پر بند باندھ لیے جاتے تھے اور اُس سے کاشت کی زمینوں کو سیراب کیا جانے لگا۔ یہ نیا طریقہ تھا۔ خود قلات میں سیلابی نالوں کے علاوہ ’’کاریز‘‘ آبپاشی کے بڑے ذرائع تھے۔
کچھی میں سیلابی پانی سے آب پاشی ہوتی تھی۔ دریا کے کناروں پر آباد ہر گاؤں نے مٹی کا ایک بند باندھ رکھا تھا تاکہ سیلابی پانی کو روکا جائے۔ جب ان کی زمینیں سیراب ہوتی تھیں تو وہ یہ بند توڑ دیتے تھے تاکہ نچلے گاؤں کے زمینداروں کا بند بھر جائے اور وہ بھی نالے نکال کر اپنی زمینوں کو سراب کر سکیں۔ یہ زبردست محنت کا کام تھا۔ 100جوڑے بیل پورا مہینہ کام کرتے تھے۔ اس سالانہ عمل کی نگرانی گاؤں کے بڑے افسر کرتے تھے جن کے پاس بڑی بڑی زمینیں تھیں۔ یہ افسر موروثی ہوا کرتے تھے۔
کچھی میں کئی فصلیں کاشت ہوتی تھیں۔ سیلابی زمینوں پر تو کپاس، دالیں اور تیل کا بیج کاشت ہوتے تھے۔ جب کہ نیل، گندم، جوار، کپاس اور میوہ و سبزیاں محدود مستقل پانی والے علاقوں میں ہوتی تھیں۔ تقسیم کار اور تقسیمِ پیداوار بہت پیچیدہ اور متنوع ہوا کرتا تھا۔ خرچے کی بابت عموماً کسان بیج بھی دیتا تھا، ایک بیل کا جوڑا بھی اور جانوروں کی غذا بھی۔ فصل کی پیداوار تین حصوں میں تقسیم ہوتی تھی۔ یعنی، حکمران طبقات، زمین کے مالک اور کسان میں۔ حکمران طبقات میں خان فیملی یعنی احمد زئی، قبائلی سردار اور قبیلے کے ذیلی فرقوں کے بڑے آتے تھے۔
چھوٹے قطعات پر زمین کا مالک خود ہی کاشت کیا کرتا مگر بڑی بڑی زمینوں والے لوگ بزگر رکھا کرتے تھے۔ ارباب اور رئیسوں کے علاقے میں کاشت کار ’’جٹ‘‘ ہوتے تھے۔
بہت سی صورتوں میں ملکیت کے حقوق بلوچوں کو منتقل ہوئے یا انھوں نے قوت سے حاصل کیے۔ لہٰذا ڈومبکی اور مغیری بالترتیب لہڑی اور بھاگ کے قریب جلال خان کے علاقے کے مالک بنے۔ کہیری، چھتر پلیجی کی ملکیت کا دعویٰ کرنے لگے اور مگسی سردار اپنے قبائلی علاقے کا واحد دعوے دار بنا۔
رفتہ رفتہ زراعت میں ایک اور صورت بھی پیدا ہو گئی۔ جب مالک نے دیکھا کہ اس کے پاس خود کاشت کرنے سے زیادہ زمین آ گئی ہے اور بڑے بڑے بند باندھنا اُس کے بس سے باہر تھا، تب یوں ہونے لگا کہ مالکوں نے زمین کاشت کاروں کو دی جنھیں آبادکار، راہک، یا لٹ بند کسان کہتے تھے۔ ان کے ساتھ معاہدہ اُس وقت تک رہتا جب تک وہ بند یا گنڈھا سلامت رہتا۔ اس کے ٹوٹنے پر معاہدہ بھی ختم ہو جاتا تھا۔
اس محنت طلب نظامِ آبپاشی نے ہر گاؤں کو ایک اجتماعی پیداواری یونٹ بنا دیا تھا۔ اس کی بنیاد پر اناج کی تقسیم (بٹائی) ہوتی تھی۔ جہاں بڑے بڑے حصے تو حاکم لوگوں اور مالکوں کے ہوتے تھے مگر آبپاشی کے خرچ کا حصہ، ریونیو حکام کا حصہ، اور گاؤں کے سپیشلسٹوں کا حصہ بھی الگ کیا جاتا تھا۔ حاکم لوگ فصل میں سے اپنا حصہ پہلے لیتے تھے۔ اس طرح انتظامیہ اور آبپاشی کا خرچہ گاؤں والوں کو برداشت کرنا پڑتا تھا۔
یوں کچھی نے بلوچ ریاست کو قبائلی کی بہ نسبت ایک فیوڈل سلطنت کی طرف دھکیلنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔
(شاہ محمد مری کی کتاب ’’پیپلز ہسٹری آف بلوچستان‘‘ کی جلد دوم ’’بلوچ ریاست کی تشکیل‘‘ کے آخری باب سے اقتباس)