تغیّر

 

اک تغیّر ہر اک شے کو ہے لازمی
زندگی چاک پر گھومتی گھومتی
خاک ِ آدم بنی
خاک اُڑتی رہی

چاک چَلتا رہا اور دل بن گیا
دھڑکنیں بن گئیں
دھڑکنوں میں عجب سلسلہ چل پڑا
دل پہ رازِ محبّت کی بپتی کُھلی
اور زباں بن گئی
یعنی اظہار کے راستے کُھل گئے
راستہ جو بنا تو ہوا چَل پڑی

دُھول اُڑتی رہی
دھول نے رقص کرتا بگولا چُھوا اور میں بن گیا
حسرتیں بن گئیں
حسرتوں سے یہ تیرہ شبی بن گئی
پھر دیا بن گیا اور دئیے سے دُھواں
رقص چلتا رہا اور تُو بن گئی

پھر یہ آنکھیں بنیں
محویت سے بھری
منظروں میں گھری
آئینہ بن گیا صیقلی چل پڑی ساتھ حیرت بنی
حیرتوں نے تیری جسم کو چُھو لیا
پیچ کھاتی ہوئی خواہشوں کا دھواں آنکھ میں بھر گیا
آرزو بن گئی
ایک انگور کی بیل پر بیخودی دھم سے نیچے گِری اور صراحی بنی
میکدہ بن گیا
ہاؤ ہُو مچ گئی
مے لہو بن گئی
زندگی اُس کی تخصیص پر چل پڑی
اور سبو بن گئی

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*