مری صاحب،آداب
یہ ایک نظم جو فہمیدہ باجی کے انتقال پر لکھی تھی۔ اس کے پیچھے کہانی یہ ہے کہ دو ہزار سترہ میں بس نے اپنی فیس۔ بک پوسٹ میں لکھا کہ میں بہت بیمار ہوں بہت دْکھی ہوں۔دوستوں کو چاہئے کہ فورا پھول بھیجیں وغیرہ وغیرہ۔
میں حسب عادت سوشل میڈیا سے غائب بھی رہتی ہوں اور اس وقت کراچی میں ہی تھی تو نٹ ورک کا الگ مسئلہ تھا۔مئی کا مہینہ تھا۔
اس وقت میرے میاں کا میسیج آیا کہ فورا پھول لے کر وہاں پہنچو اور پھول میری طرف سے دینا۔ میں بھاگی ہوئی گئی۔ پھول لئے اور پہنچی تب میں نے ان کی جو حالت دیکھی میں ڈر گئی۔ وہ بیٹھنے کے قابل بھی نہیں تھیں۔ مجھے ہاتھ تھام کر پہلو میں لٹا لیا۔ پھول پاکر باغ باغ ہوگئیں۔ جلدی سے ایک بڑا پیالہ منگایا۔ پانی بھرا گیا۔ اور گلاب اس میں ڈالنے کی کوشش کی گئی تو وہ اس طرح ڈنڈی میں پروئے گئے تھے کہ پنکھڑی پنکھڑی بکھر تی جاتی تھی۔ اب اس نے اپنی طاقت مجتمع کی۔ اپنی بہن نجمہ سے کہا دیکھو نجمہ جیسے میں کہتی ہوں ویسے انہیں پانی میں ڈالو۔ مجھ سے کہا اچھی بچی تم دیکھتی رہو۔ میں اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی اس کی آنکھوں کے سیاہ حلقوں میں جو غیر معمولی جگمگاہٹ تھی وہ شاید انسان کو بڑا خزانہ ملنے پر ہوتی ہو۔ایک تحیر تھا جو آنکھوں سے ابلا پڑتا تھا۔ پھر وہ اس کٹورے کو اپنے سینے کے پاس سرکا کر مراقبہ کے عالم میں لیٹ گئیں۔ میں نے کہا ”فہمیدہ باجی ایک تصویر بنانا چاہتی ہوں۔ پرویز نے کہا ہے مجھے ثبوت چاہئے“۔ دھیمی آواز میں بولیں اٹھ نہیں سکتی عشرت جانی۔ ایسا کرو میرے ساتھ لیٹ جاؤ اور تصویر نجمہ کھینچ دے گی۔ اس نیم تاریک کمرے میں کٹورا بھرے گلاب اور ان کی آنکھوں کے سیاہ حلقے۔ کیمرے کی آنکھ نے سب کچھ محفوظ کرلیا۔ مجھے وہ بکھری ہوئی پنکھڑیاں آنے والے دنوں کا استعارہ معلوم ہوئیں۔ اس چند منٹ کی ملاقات نے مجھے دہشت زدہ کردیا۔
لیکن میرے اندر ایک خرابی ہے کہ ایسی کسی صورت حال میں بجائے مایوسی کے میرے اندر نئی تدبیروں کی قوت جاگ اٹھتی ہے۔ میں نے وہاں سے نکل کر آصف کو فون کیا۔ ایک دو دوستوں کو اور بتایا اس پوسٹ کی اطلاع سب کو دی۔ ان تین چار دنوں میں آصف سے برابر رابطہ رہا۔ اور وہ پوری سرگرمی سے اس مشن پر لگ گئے جیسے فہمیدہ ان ہی کی ذمہ داری ہیں۔اس کے بعد ہم مستقل رابطے میں رہے۔ ڈیلس میں ان کی لائق فائق بھانجی آمنہ پریانی، کراچی میں ان کی بے مثال بہن نجمہ منظور، دوستوں کا دوست آصف فرخی، اور ہیوسٹن میں مقیم میری بہت عزیز دوست اور سچی مسیحا ڈاکٹر شگفتہ نقوی کی ایک ٹیم سی بن گئی۔ سب نے اپنی اپنی جگہ جیسے حلف اٹھایا تھا کہ ہم گیو اپ نہیں کریں گے۔ رپورٹیں آتی رہیں رپورٹیں جاتی رہیں۔ رپورٹیں ٹھیک نہیں تھیں۔ڈاکٹر شگفتہ نقوی خود کینسر سپیشلسٹ ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ بر وقت علاج انہیں بچا سکتا ہے۔ بات خرچ کی آئی تو شگفتہ اور آمنہ پریانی نے آگے بڑھ کر کہا وہ ہماری ذمہ داری ہے۔ دیکھ بھال اور رہائش کا مسئلہ تھا علاج ہیوسٹن میں ہونا تھا۔ میں نے اس کام کے لئے اپنی خدمات پیش کردیں۔ وہ دو ہزار سولہ میں ہیوسٹن آئی تھیں تو میرے ساتھ تین دن اور تین رات وقت گزارا۔ وہ تنہائی سے اتنا ڈرتی تھیں کہ باتھ روم بھی جاتی تھیں تو باہر مجھے کھڑا رکھتی تھیں۔ مجھے معلوم تھا کہ یہ بہت بڑا چیلنج ہے۔ میرے لئے اس عمر میں لیکن مجھے ایک جنون تھا کہ انہیں بچانا ہے انہوں نے ایک بار حریصانہ نظروں سے ڈالر گنتے ہوئے خوش ہوکر کہا تھا یہ تو بہت پیسے ہیں۔(حالانکہ بہت تھوڑے تھے) میں ان سے روس جاؤں گی مجھے ایک ناول مکمل کرنا ہے۔ناول ذہن میں تیار ہے۔ ایک آخری خواہش ہے زندگی کی۔ یہ ناول۔۔۔۔۔وہ ناول اور اس کے کردار اب منوں مٹی تلے ان کے ساتھ آرام کررہے ہیں۔
ایک پھول کی یاد سے بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ اس کے بعد پھر دو ہزار اٹھارہ میں بھی میں آخری بار کراچی گئی تھی۔ پھول لے کر پھر ان کے پاس پہنچی اب تو ان کی کمزوری میرے ہاتھ آگئی تھی۔ تب مزے سے صوفے پر شاندار تصویر بنوائی۔ نیوز چینل چل رہا تھا نجمہ موجود تھی۔ آنکھوں میں حلقوں کے باوجود تھیچہرے پر رونق تھی۔ آصف کا ذکر بہت پیار سے کیا۔ اس کے اندر ایک جو فطری وفور اور صوفیانہ سر مستّی تھی کافی حد تک واپس آگئی تھی۔کچھ چٹکلے کچھ چھوٹی موٹی غیبتیں،بے روزگاری کا غم اور وہی لافانی مسکراہٹ جو اس کے چہرے پر نور برساتی تھی۔ کتنا اچھا ہے مری صاحب کہ وہ اسی نورانی چہرے کے ساتھ ہمارے حافظے میں موجود رہیں گی۔
پرچے میں میری تحریر کو جگہ دینے کا شکریہ۔ سلامت رہیں
مخلص
عشرت آفریں
پھولوں والی فہمیدہ کے نام
پھول تمہاری کمزوری تھے
میں بھی تمہاری اس کمزوری سے واقف تھی
پھول ملیں تو کتنی خوش ہوجاتی تھیں
بھول گئی تھیں
جیون کانٹو ں کی اک سیج
جس پر تم نے کروٹ کروٹ
درد سہے اور زخم اٹھائے
لیکن اک انجان سفر پر جانے سے پہلے
دیکھو ہم نے تم کو
پھولوں کی چادر سے ڈھانپ دیا ہے
اب مت کہنا!۔
"عشرت جانی میرے لئے
کوئی گلدستہ نہیں لاتا
بہت دکھی ہوں
کوئی پھول نہیں بھجواتا”
***
ماہتاک سنگت کوئٹہ
جناب شاہ محمد مری صاحب
اسلام و علیکم
مناں ویریں ماہتاک سنگت دست کپگا نہ اِنت۔ من لفافہ 750کلدار مان کتگ دیمہ داتگ نوں اے زراں ہم دیریں او ماہتاک سنگت مناں سربوہگانہ اِنت۔منی واسطا سنگت دیم بدئے صاحب جی پچیکہ مناں سنگت وانگ سک دوست بیت۔اے خط ئے تو کایک آزمانک گون اِنت ”نوران“ اشیا ہروڑ چھاپ بہ کن او ہمے تاک او ہمے 750کلدارئے عوضا مناں سنگت تاک بدئے۔ تی باز باز مہربانی۔
تئی کستر
عبدالواحید عاقب۔ تربت