ایک کاغذ

 

وہ ایک کاغذ ہی تو تھا کہ جس پر

حقوق ِملکیت بدل گئے تھے

وہ ایک کاغذ ہی تو تھا

جس نے وراثت کی سند عطا کی تھی

وہ ایک کاغذ ہی تو تھا

جس نے تعارف ہی تبدیل کر دیا تھا

اور تبدیلی ِنام سے تبدیلی پہچان تک

وہ خود کہیں نہیں رہی تھی

نام بدلا، پہچان بدلی، حقوق ملکیت بدلے

مگر وہ خود کو بدل نہ پائی

اور اس ایک کاغذ نے ہی

اسے کہیں کا نہیں چھوڑا تھا

ایسا کاغذ جو صرف ملکیت تھا

تقدس نہیں

ایسا کاغذ جو صرف تبدیلی تھا

تحفظ نہیں

ایسا کاغذ جو تہمت بنا

زندگی نہیں

ایسا کاغذ جو غلامی تھا

اس سے آزادی کا دن

میں ہر سال 8مارچ

کو مناتی ہوں

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*