لینن جلاوطنی میں جس بھی ملک میں رہ رہا ہوتا، وہاں کی مزودر تحریک کی تنظیم و تعلیم میں حصہ ڈال رہا ہوتا۔جب وہ زیورچ (سوئٹزر لینڈ)میں تھاتو اس کی توجہ کا بڑا مرکز وہاں کی ورکنگ کلاس تحریک تھی۔ وہ بالخصوص وہاں کے سوشلسٹ جوانوں سے جڑا ہوا تھا۔ دلچسپ بات ہے کہ سارے روسی جلاوطن کمیونسٹ بشمول لینن سوئٹزر لینڈ کی انقلابی پارٹی کے ممبر تھے۔ (1)
وہ وہیں زیورچ میں جلاوطنی کاٹ رہا تھا جب اسے 15مارچ کو اپنے ملک روس میں انقلاب کی اطلاع ملی۔زیورچ کے اخبارات میں سینٹ پٹیرسبرگ سے یہ مختصر ٹیلیگرام چھپا: ”روس کے دارالحکومت میں انقلاب پھوٹ پڑا اور عوام فتح مند ہوئے۔زار بادشاہ کے سارے وزیر گرفتار کر لیے گئے۔ پارلیمنٹ کے بارہ ممبروں نے اقتدار سنبھال لیا“(2)۔
مگر،جس وقت لینن نے عبوری حکومت میں شامل لوگوں کی فہرست پڑھی تو طنزیہ انداز میں کہا:”بورژوازی وزارتی عہدوں پہ قبضہ جمانے میں کامیاب ہوگئی“۔ لینن نے اعلان کیاکہ ”اکتوبرسٹوں اور کاڈٹوں کی حکومت، گوچکو فوں اور ملیسی کو فوں کی حکومت عوام کو امن،روٹی یا آزادی نہیں دے سکتی“۔
اس نے اپنی آئندہ سیاست کے لیے حکمتِ عملی بنا لی ۔ وہ تو سوئٹزر لینڈ میں ہر طریقے سے دشمن ملکوں میں پھنسا ہوا تھا۔مگر الیگزنڈرا کو لنتائی ناروے سے پیٹر سبرگ جانے کی منصوبہ بندی کر رہی تھی۔ اُس نے تارکے ذریعے لینن سے ہدایات مانگیں۔ لینن نے جواب دیا ”ہمارا داؤ پیچ یہ ہوگا کہ نئی حکومت پہ کوئی بھروسہ نہیں کرنا،اور اس کی کوئی مدد نہیں کرنی۔ کیر نسکی خصوصی طو رپر بے اعتبارہے۔دوسری پارٹیوں سے کوئی مصالحت نہیں۔۔۔“
لینن نے ایک اور طرز کے سماج کا تصور کیا۔ اس کے تئیں اقتدارجو پہلے زار کے پاس تھا، اب بورژوازی نے، کپٹلسٹوں نے، جاگیرداروں نے لے لیا۔ اب ضرورت تھی کہ سارے ریاستی ڈھانچے کو تباہ کیا جائے۔۔۔بالخصوص پرانی پولیس کو، اس لیے کہ یہ وہ بنیاد تھی جس پہ انقلاب دشمن ہمیشہ واپس اقتدار میں آجاتے ہیں۔
لینن اور دوسرے انقلابی جلاوطنی ختم کر کے فوراً وطن جانا چاہتے تھے۔مگر انگلینڈ اور فرانس اپنے اندر سے انقلابیوں کو روس جانے نہیں دیتے تھے۔ لینن نے کولنتائی کو لکھا:”ہمیں لگتا ہے کہ سفر کے لیے قانونی ذرائع نہیں ہیں اور یہ سب کچھ غیر قانونی طور پر ہی کرناہے۔ جرمنی میں سے بھی روس جایا جاسکتا ہے“۔
بہر حال وہ استقلال کے ساتھ جلد از جلد روس واپس آنے کے ذرائع تلاش کرتا رہا۔ نادیژدا کروپسکایا نے لکھا ہے:”اُس لمحے سے ایلیچ کی نیند حرام ہو گئی جب انقلاب کی خبریں اس کے پاس پہنچیں اور اس کی راتیں انتہائی بعید از قیاس منصوبے بنانے میں گزرنے لگیں“۔لینن نے پہلے سمگلروں کے ذریعے روس جانے کے امکانات تلاش کیے۔ مگر جب اُسے بتایا گیا کہ سمگلر اسے صرف برلن تک پہنچا سکیں گے تو لینن نے یہ منصوبہ ترک کردیا۔(3)
جیسے کہ بتایا گیا کہ وہ طریقے ڈھونڈتا رہا کہ کس طرح جرمنی اور غیر جانبدار سویڈن سے ہو کر روس پہنچے۔ انہی بے خواب راتوں میں سے ایک رات اس نے کروپسکایا سے کہا:”میں ایک گونگے سویڈن والے کے پاسپورٹ پر جاسکوں گا“۔گونگا اس لیے کہ دکھانا نہیں چاہتا کہ میں سویڈش زبان نہیں جانتا۔ کروپسکایا نے اُسے سمجھایا کہ تم سویڈش زبان نہیں جانتے تو سفر بہت خطرناک ہوگا۔ اس لیے کہ ”تصور کرو کہ جب سو جاؤ گے اور تمہارے خواب میں مانشویک آجائیں۔توتم روسی زبان میں رس بھرے جوش سے اونچی اونچی آواز میں چلّانے لگو گے،”کمینو، کمینو“۔۔۔ اور یوں ساری سازش بے نقاب“۔ (4)
روس میں انقلاب آیا تھا اور لینن وہاں نہ تھا۔تصور کیا جاسکتا ہے کہ وہ کس قدر جذباتی ہوگیا ہوگا۔ اُس کے اور اُس کے ساتھیوں کے لیے اس فیصلہ کن گھڑی میں ملک سے دور بیٹھے رہنا نفرت انگیز تھا۔وہ اپنے ملک کے انقلاب کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے۔ اور اُن کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ کسی طرح وطن واپس جائیں۔
اس نے اپنے سارے جلاوطن دوستوں کو خطوط لکھے۔ انہیں روس واپس جانے کی ترغیب دی۔ ٹیلیگرام دے دے کر انہیں بلایا۔ وہ ہرقیمت پہ روس پہنچنا چاہتا تھا۔
19مارچ کو سوئٹزر لینڈ میں روسی سیاسی جلاوطنوں کی میٹنگ ہوئی۔ تاکہ روس واپس جانے کی تراکیب سوچی جائیں۔مارتوف نے ایک منصوبہ پیش کیا:”جرمنوں کو پیش کش کی جائے کہ اگر وہ ہم جلاوطنوں کو جرمنی میں سے گزر کر روس جانے کی اجازت دیں توہم جرمن اور آسٹریائی قیدی رہا کردیں گے“۔لینن نے اس منصوبہ کو بہت پسند کیا۔ (5)
لینن اس منصوبے پر کام کرنے میں جُت گیا۔ انقلابی انقلابی کا بھائی ہوتا ہے۔ چنانچہ سوئٹرز لینڈ کے سوشلسٹ راہنما فرٹز پلیٹن نے جرمن سفیر سے مذاکرات کیے تاکہ لینن جرمنی سے سویڈن، اور وہاں سے فن لینڈاور پٹروگراڈ واپس جاسکے۔ بہت محنت کے بعد وہ سوئٹزر لینڈ میں جرمن سفیر سے معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
جرمنی سے جو معاہدہ طے پاگیا۔ اُس کی رو سے کل بتیس مسافر ہوں گے۔ سب اپنا کرایہ خود دیں گے، جرمنی سے کوئی امداد کی اجازت نہ ہوگی۔ سفر صرف بالشویکوں تک محدود نہ ہوگا(6)
روس کی عبوری حکومت کو اس کی واپسی پر کوئی اعتراض نہ تھا مگر فرانس اور انگلینڈ اس کی مخالف کر رہے تھے۔
تب جانے کی تیاری ہونے لگی۔ایک کام تو اُس نے یہ کیا کہ اس نے ”بہت دور سے خطوط“ کے نام سے روس کے فروری انقلاب کا تجزیہ کرنا شروع کیا۔ وہ ان خطوط میں روس کے اندر ورکنگ کلاس اور اُس کی پارٹی کے کام واضح کر رہا تھا۔اس نے ان خطوط میں پارٹی کی نئی پالیسی کے بنیادی اصول وضع کیے، اور ایک فتح مند سوشلسٹ انقلاب کے لیے جدوجہد کرنے کا فریضہ آگے بڑھایا۔
اس سلسلے میں 7مارچ کو اس نے بہت ”دور سے خطوط“ کے پانچ خطوط میں سے پہلا خط لکھا۔ اس میں اس نے اپنا موقف ایک بار پھر دوہرایا کہ یورپی ”سامراجی جنگ“ طبقات کے درمیان ایک براعظمی جنگ کی طرف لے جائے گی۔اُس کا کہنا تھا کہ مزدوروں نے امن لانے کے مفاد میں بادشاہ کاتخت الٹ دیا۔ اس نے کہاکہ عبوری حکومت بادشاہت کے ساتھ ایک ڈیل کی تلاش میں تھی۔اس خط میں اُس نے ”زرعی مزدوروں کے لیے سوویتوں“ کے قیام کی زبردست تجویز دی۔ مگر لینن کی سب سے نمایاں درخواست بالشویکوں کے لیے تھی کہ وہ انقلاب کے پہلے مرحلے سے دوسرے مرحلے کی طرف بڑھیں۔
اگلے دن یعنی 8مارچ کو ”بہت دور سے خط“ کا دوسرا خط لکھتے ہوئے اس نے ”سارے ریاستی فنکشنز کو ملٹری فنکشنز سے ملانے اور سماجی پیداوار اور پیداوار کی تقسیم کو کنٹرول کرنے کے ساتھ مزدوروں کی ایک ملیشیا قائم کرنے کا مطالبہ کیا۔
11 مارچ کو لکھے گئے ”بہت دور سے خط“ کے تیسرے خط میں لینن نے لکھا کہ روس کا انقلاب سوشلزم نافذ نہیں کرے گا نہ ہی پرولتاریہ کی ڈکٹیٹر شپ کا افتتاح کرے گا۔ اس کے برعکس پسماندہ روس میں یہ پرولتاریہ اور غریب کسانوں کا انقلابی جمہوری ڈکٹیٹر شپ قائم کرے گا“۔
مگر، اگلے دن چوتھے خط میں اس نے ملیشیا کہنا بند کردیا اور اس کے بجائے اُس نے کہا ”آل رشیا سوویت“ اقتدار سنبھالے گا۔
اُس نے پانچواں خط بھی لکھا مگر 26مارچ کو اُسے مکمل نہ کر سکا۔ اس میں اس نے کہا کہ یہ سارے بالآخر سوشلزم تک پہنچنے کے محض ”عبوری اقدام“ ہوں گے۔
عجیب بات ہے کہ آخری چاروں خط لینن کے انتقال کے بعد تک نہیں چھپے۔
”بہت دور سے خطوط“ کے علاوہ اس نے ایک زبردست تحریر لکھی:”موجودہ انقلاب میں پرولتاریہ کے فرائض“۔ اس تحریر کو ”اپریل تھیسز“ کے نام سے زبردست شہرت ملی۔
ان سب تحریروں میں اس کا بنیادی موقف اس عالمی جنگ کے بارے میں تھا۔ اس نے بار بار دو ہرایا کہ یہ جنگ سامراجی جنگ ہے۔ یہ جنگ قومی دفاع کی جنگ نہیں ہے۔ وہ کیرنسکی کی حکومت کو برطانوی اور فرنچ سامراجیوں کی ایجنٹ کہہ رہا تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ اس سامراجی جنگ میں روس کے تازہ ملینوں مزدوروں اور کسانوں کا ذبیحہ ہو۔
اُدھر روس کے محنت کش بھی بڑی بے صبری سے اپنے لیڈر کی واپسی کے منتظر تھے۔ لیکن عارضی حکومت اس میں ہر طرح سے روڑے اٹکا رہی تھی۔ اس نے دوسرے ملکوں میں اپنے نمائندوں کو ”سیاہ فہرستیں“ بھیج دیں جن میں لینن اور دوسرے بالشویکوں کے نام تھے۔وہ ولا دیمیر ایلیچ اور ان کے ساتھیوں کو وطن واپس آنے میں بساط بھر رکاوٹیں ڈالتے رہے۔
یہ تو معلوم بات ہے کہ لینن کی باتیں بین الاقوامی بورژوازی کو پسند نہ تھیں۔ جرمن بورژوا پروفیسر یہ اعلان کرتے ہوئے پوری کتابیں لکھتے تھے کہ ایک خبطی پیدا ہوا ہے جو ایک پاگل پروپیگنڈہ والے ڈوکٹرائن کی تبلیغ کر رہاہے۔مگر لینن استقامت اور خاموشی سے اپنی محنت جاری رکھے ہوئے تھا اور اب بات اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ جرمن بورژوازی کو پورے روس کے لاکھوں مزدوروں اور کسانوں کی نمائندگی کرنے والے کی حیثیت سے لینن کے ساتھ ایک معاہدہ پر دستخط کرنے پڑے۔
لیکن ایک طرف اگر لینن کے جرمنی سے معاہدے کی مخالفت کرنے والے موجود تھے تو بین الاقوامی انقلابی تحریک میں اس کی حمایت بھی کافی تھی۔ ایک قرار داد یہ تھی۔ ”ہم زیردستخطی فرنچ، سوٹس، پولش اور جرمن انٹرنیشنلسٹ یہ سمجھتے ہیں کہ روس پہنچنے کے اس موقعے سے فائدہ اٹھانا نہ صرف روسی کامریڈ زکا حق ہے بلکہ فرض بھی ہے“۔ اس اعلان نامے پر ان مذکورہ ممالک کے اہم ترین انقلابیوں نے دستخط کیے۔ (7)
وطن واپسی کے موقع پر اس نے ”سوئس مزدوروں کے نام الوداعی خط“ لکھا: ”یہ ہماری بے صبری نہ تھی اور نہ ہی خواہش۔ مگر سامراجی جنگ کے پیداکردہ معروضی حالات نے ساری انسانیت کو ایک بند گلی میں لا کھڑا کردیا ہے۔ اس جنگ نے انسانیت کو اس معمے میں ڈال دیا کہ یا تو وہ مزید ملینوں زندگیوں کا قلع قمع کرنے اور یورپی سولائزیشن کے مکمل خاتمے کی اجازت دے، یا اقتدار انقلابی پرولتاریہ کے حوالے کرے اور ”سارے“ مہذب ملکوں میں سوشلسٹ انقلاب حاصل کرے“۔
معاہدے کے مطابق جرمن حکام نے اپنے ملک میں سے ایسی ٹرین پر انہیں گزرنے کی اجازت دے دی جس میں کوئی کسٹم چیکنگ نہ ہوگی اور نہ ہی مسافروں کے نام پوچھے جائیں گے۔
خطرات میں زندگی گزارنے والالینن اپنی زندگی کا ایک اور بڑا خطرہ مول لے رہا تھا۔ یہ ایک ایسے جواری کی چال تھی جو بے شمار خطرات کے ساتھ ایک کھیل کھیلے۔ طفلی انقلابیوں کے ہاں دشمن جرمنی سے مدد حاصل کرنا تو بڑی ”غداری“تھی۔ لینن نے انقلاب ہی کی خاطر اپنی ساکھ داؤ پر لگادی۔ اب وہ مکمل طور پر لیفٹ اور رائٹ دونوں کے بہت ہلکے اورمنہ پھٹ فتووں کے حوالے تھا۔
صرف یہ نہیں بلکہ یہ اس لحاظ سے تو مزید بڑا جوا تھا کہ خود کو وہ مکمل طو رپر اپنے اعلانیہ دشمن قیصرؔویلہلم کے ہاتھ میں دے رہا تھا۔وہ بھی ایک ایسے وقت جب روسی انقلاب نے ابھی ابھی جرمنی کے قیصرؔکے روسی حقیقی کزن زار ؔبادشاہ کا تختہ الٹا تھا۔ اسے قتل کرنا جرمنوں کے لیے کتنا آسان ہوگیا تھا!!۔
اور اگر وہ غداری کے الزامات اور جرمنی کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچ بھی جاتاتب بھی زندگی بھر کے لیے بھی وہ جرمنی کا ایجنٹ تو ضرور کہلاتا۔
لیکن وہ بہادر تو لینن تھا۔ اس نے تو زندگی بھر انقلاب کو فوکس کیے رکھا۔ پی آر اس کے لیے ٹکے کی اہمیت بھی نہ رکھتی تھی۔ خطرات سے کھیلنے والے اسی لینن نے تو کہا تھا:”۔۔۔ سیاسی طور پر ایک باشعور پبلک شخص کا فریضہ ہے کہ۔۔ وہ بہاؤ کے ساتھ بے بسی سے خود کو بہنے کی اجازت نہ دے۔۔۔“۔
لینن کا ذہن بہت واضح تھا۔ واضح منصوبہ تھا اس کے پاس:’فروری کا انقلاب محض پہلا مرحلہ ہے۔ اس موقعے کا یکتا تاریخی حال یہ ہے کہ یہ موقع انقلاب کے پہلے مرحلے سے دوسرے مرحلے کی طرف عبور کا ہے،اور یہ موقع بادشاہت کے خلاف ابھار سے بورژوازی کے خلاف ابھار کا موقع ہے“۔
اُس نے روس جانے والے بالشویکوں سے کہا: ”ہمارا ٹکٹکس نئی حکومت کی کوئی مدد کرنا نہیں ہے۔ اُن پہ بالخصوص مشکوک کیرنسکی پہ کوئی اعتبار نہیں کرنا ہے۔ ہم واحد گارنٹی کے بطور پرولتاریہ کو مسلح کریں گے۔ ہم پٹروگراڈسٹی کونسل کے فوری الیکشنوں کا کہیں گے، ہم دوسری پارٹیوں سے کوئی دوستی نہیں کریں گے۔ (8)
یوں جنگ کے چوتھے برس یہ شخص پرسکون عزم کے ساتھ زیورچ چھوڑ کر گھر کی طرف روانہ ہوا۔
چند دنوں بعد آسٹریا کے بادشاہ کارل نے قیصر کو خط لکھ کر خبردار کیا: ”ہم ایک نئے دشمن کے خلاف لڑ رہے ہیں جو کہ دوستانہ سے زیادہ خطرناک ہے۔۔۔۔ بین الاقوامی انقلاب۔۔۔ میں آپ کی منت کرتا ہوں کہ معاملے کے اِس غارت گر پہلو کو صرف ِ نظرنہ کریں۔۔“(9)
اب زار بادشاہ تو موجود نہ تھا۔ یہ وقت تو تاریخ کے بے کراں بحران کا وقت تھا۔ یہی تو موقع تھا۔یہ انقلابی قوتوں کی طاقت کے صحیح تخمینے کا وقت تھا، وقت کے صحیح تعین کا وقت تھا۔
کروپسکایا کو گھر بار سمیٹنے کے لیے محض دو گھنٹے ملے۔ اس کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ شمشان سے ماں کی راکھ حاصل کرے جس کو کہ روس میں دفن کرنے کا اُس نے ماں سے وعدہ کیا تھا۔ مگر ایسا نہ ہوسکا۔(10)۔ اتنا کم وقت تھا کہ حتی کہ لینن ”دور دراز سے خطوط“ والے پانچویں خط کو بھی مکمل نہ کرسکا۔
چنانچہ 9اپریل کو کروپسکایا اور لینن کے ساتھ 32لوگ زیورچ سٹیشن پر اپنے خصوصی ریلوے ڈبے میں سوار ہوئے۔ ایک ایسا شخص بھی ٹرین پر چڑھ گیا جو تھا تو اُن کی پارٹی میں،مگر لینن کو اس پر روسی جاسوس ہونے کا شک پڑا۔ لینن نے اپنی باقاعدہ جسمانی ورزش کو استعمال کیا اور اسے جسمانی طور پر ٹرین سے باہر نکال دیا (11)۔
سٹیشن پر انہیں الوداع کہنے والوں میں لونا چرسکی بھی تھا۔ اس نے لکھا کہ لینن رخصت ہوتے ہوئے مسکرا رہا تھا۔ وہ بہت مطمئن تھا۔ اور کہہ رہا تھا: ”آخر کار،آخر کار وہی چیز پہنچ گئی جس کی خاطر میں پیدا ہوا تھا، جس کے لیے میں نے تیاری کی، جس کے لیے میں نے ساری پارٹی کو تیار کیا، اُس کے بغیر ہماری پوری زندگی محض تیاری والی اور نامکمل رہ جاتی“۔ (12)۔
اس سفر نے چار دن تک جاری رہنا تھا اس لیے کہ ٹرین رات کو نہیں چلتی تھی۔
یہ لوگ برلن سے گزر ے اور 12اپریل کو سویڈن داخل ہوئے۔وہاں سٹاک ہوم کے میئر اور دوسرے سوشلسٹوں نے استقبال کیا۔ ٹرین اسی شام وہاں سے نکلی۔”جب شیڈی مین کی پارٹی کے ایک ممتاز ممبر نے ہمیں خوش آمدید کہنے کو ہمارے ڈبے میں داخل ہونا چاہا تو اس کو لینن نے کہا کہ ہمیں غداروں سے بات کرنے کی کوئی خواہش نہیں ہے“۔ (13)
ٹرین نے فن لینڈ کی طرف سویڈن کو عبور کیا۔ تب لینن نے پیٹرسبرگ میں اپنی بہن کو ٹیلیگرام بھیجا ”آمد منڈے، رات گیارہ بجے۔ پراودا کو مطلع کردو“۔ وہ اب ایک عام مہاجر کی حیثیت سے واپس نہیں آرہا تھا بلکہ ایک فوری لیڈر کے بطور۔
وہ سویڈن اور فن لینڈ کے سرحدی قصبے ”ہرا پانڈا“پہنچے۔ انہوں نے اپنا سامان اتارا۔ آگے فن لینڈ کا سرحدی قصبہ ٹورنیو تھا۔ وہاں روسی سپاہیوں کی طرف سے معمول کی تلاشی لینے کے بعد انہیں جانے دیا گیا۔ تب وہ ہلسنکی جانے کے لیے ایک اور ٹرین پہ سوار ہوئے۔ یہیں ٹارنیو میں لینن نے ”پراودا“ اخبار کے حالیہ شمارے لیے۔ اسے بہت غصہ آیا کہ کامینیف اور سٹالن کی قیادت میں بالشویک سنٹرل کمیٹی نے روس کی عبوری حکومت کی مشروط حمایت کرنے کا فیصلہ کیا۔
ہیلسنکی سے وہ پٹروگراڈ کو روانہ ہوئے۔ جب و ہ پٹروگراڈ سے بیس میل شمال میں سرحدی قصبہ بیلو سٹروف پہنچے تو وہاں استقبال کے لیے پارٹی تیار کھڑی تھی۔وہاں لینن کی بہن ماریا تھی،سٹالن اور کامنیف تھے، اور دیگر راہنما تھے۔لینن نے چھوٹتے ہی کامینیف سے کہا”تم لوگ پروادا میں کیا لکھتے رہے ہو؟۔ ہم نے اس کی کچھ کاپیاں دیکھیں اور تم لوگوں کو بہت برا بھلا کہا“۔
لینن اترا تو اسے کندھوں پر بٹھایا گیا۔
جب ٹرین دوبارہ پیٹرسبرگ کی طرف روانہ ہوئی تو لینن اُس خدشے میں تھا کہ آیا وہاں اسے گرفتار تو نہیں کیا جائے گا۔
اور بالآخر کروپسکایا اور لینن دیگر جلاوطنوں سمیت 16اپریل کو رات کے گیارہ بج کر دس منٹ پر پٹروگراڈ کے فن لینڈ نامی سٹیشن پر پہنچے۔ یہ ایسٹر کا دن، اور لینن کا 47واں برتھ ڈے تھا (14)۔ اور اُس کے پاس انقلابی ماضی کے تیس سال کا کریڈٹ تھا۔
وہاں سٹیشن پر ہزاروں مزدوروں،فوجیوں اور ملاحوں پہ مشتمل ایک ناقابلِ تصور پُر شور ہجوم نے اُن کا استقبال کیا۔انہوں نے اپنے لیڈر کو کندھوں پر اٹھا لیا۔استقبالیہ کمیٹی آگے آگے تھی۔کروپسکایا کا استقبال الیگزنڈر ا کو لنتائی نے سرخ گلابوں کے ایک گلدستے سے کیا (15)۔
تقریباً دس سال کی جلا وطنی کے بعد ولا دیمیر ایلیچ پیٹرو گراڈ واپس آیا تھا۔ انقلابی روس نے بڑی خوشی اور محبت سے اپنے عظیم لیڈر کا خیر مقدم کیا۔بینڈ ”مارسیلیز“بجا رہا تھا۔ بینڈ والوں کوزار بادشاہی سے ابھی ابھی نجات ملی تھی اور وہ ”انٹر نیشنل“ گانا ابھی تک نہیں جانتے تھے۔ ہزاروں مزدور مرد اور عورتیں لال جھنڈے لے کر فن لینڈسکی سٹیشن پہنچ گئے تھے۔ سپاہیوں اور ملاحوں کے انقلابی دستوں نے لینن کو گارڈ آف آنر پیش کیا